Episode 70 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 70 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

”بابری مسجد کو گرایا گیا، کیوں؟ گجرات کے فسادات ہوئے، کیوں؟ سمجھوتہ ایکسپریس میں بم دھماکا کیا گیا کیوں؟ یہ جواب طلب سوال ہیں نا؟“ یہ کہہ کر وہ چند لمحے بانیتا کی طرف یوں دیکھتا رہا جیسے وہ کچھ اور ہی سوچ رہا ہو، پھر بولا،”یہ سب برہمنی ذہنیت کا شاخسانہ ہے، جن کی وجہ سے اب بھارت کو خطرہ ہے، ان کی جڑیں خفیہ اداروں،خاص طور پر آئی بی میں بہت گہری ہو چکی ہیں۔
مطلب اند رتک، اتنی اندر تک کہ جس کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ ادارے اب کس کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں؟اسی برہمنی ذہنیت نے میڈیا اور خاص طور پر علاقائی میڈیا پر پوری طرح کنٹرول کر لیا ہوا ہے ۔ یہ انسانیت سوز واقعات خود کرتے ہیں، اور پھر الزام مسلمانوں پر لگا دیتے ہیں تاکہ انہیں دہشت گرد قرار دلوایا جا سکے۔

(جاری ہے)

آئی بی ان کی پوری معاون ہے۔


” کون لوگ ہیں یہ؟“ بانیتا نے پوچھا
” یہ تو میں بھی نہیں جانتا، ہو سکتا ہے تم ہو ،میں ہوں یا یہ ونود رانا، کوئی بھی، کہاں تک کون بندہ ہے ، یہ کوئی نہیں جانتا۔ لیکن، “ یہ کہہ کر اس نے لمحہ بھر کو سانس لے کر اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا ،” ایک سوال میں کروں؟“ 
” جی کیوں پوچھیں؟“ جسپال نے کہا
” تم لوگوں کے ذہن میں یہ خیال نہیںآ یا کہ اتنی پولیس فورس ہونے کے باوجود میں نے تم لوگوں سے یہ اتنا سا کام کرنے کو کیوں کہا؟“ اس نے پوچھا
” یہ سوال تو ہے ؟“ اس نے سنجیدگی سے جواب دیا
” میں جانتا ہوں کہ میں اس وقت ہٹ لسٹ پر ہوں اور کسی وقت بھی کوئی گولی مجھے چاٹ جائے گی ، کیونکہ میں ان کے اندر تک اتر گیا ہوں۔
میں نے مالیگاؤں بم دھماکے کے مجرم پکڑ لئے ہیں، سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر، حاضر سروس کرنل پروہت، جو سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کیس کا سرغنہ ہے، رامیش ایادھیا، سوامی دیا نند پانڈے، سمیت گیارہ بندے میں نے پکڑ لئے ہیں اور یہ سارے ابھینو بھارت، جن جاگرتی سمیتی اور دیگر ہندو سخت گیر تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ہندو راشٹریہ یعنی ہندوانہ حکومت چاہتے ہیں۔
ان کے ہاں سیکولر بھارت کا کوئی تصور نہیں۔ میں نے پہلی بار تجربہ کیا کہ فورسز سے ہٹ کر کام کروں تو میں نے کامیابی پا لی۔ ورنہ میں ابھی کوئی پلان کرتا ہوں وہ اُن تک پہنچ جاتا ہے۔ ان کی جڑیں اس قدر مضبوط اور گہری ہیں، اسی سے سمجھ لو ۔“
” یہ تو بہت خطرناک بات ہے؟“ بانیتا نے یوں کہا جیسے کسی کھائی سے بات کر رہی ہو ۔
” بابری مسجد گرانے اور گجرات فسادات کے بعد برہمنی ذہنیت والوں کا مقصد حل نہیں ہو سکا۔
یہ تنظیمیں سنگھ پریوار سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ جو ملک ، حکومت ،عوام اور عالمی سطع پر مسلمانوں اور سکھوں کے بارے گمراہ کرتاہے۔ اخبارات اُٹھا کر دیکھ لیں، کہیں بھی کوئی ایسی واردات ہوتی ہے ،فوراً مسلمانوں کے خلاف سکھوں یا کسی دوسرے کے خلاف رٹا رٹایا بیان میڈیا پر آ جاتا ہے ۔ تفتیش میں وہ سب الٹ ہوتا ہے ۔اصل میں انٹیلی جینس بیورو، پولیس میں مداخلت کرتی ہے۔
ٹرین بم دھماکوں میں جب مجرم گرفتار کرنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا تو ہمارے ایک پولیس انسپکٹر ونود بھٹ نے خودکشی کر لی۔“ اس نے افسوس بھرے لہجے میں کہا توجسپال نے پوچھا
” تو کیا ہم ابھی نہ جائیں، یہیں ممبئی میں رہیں۔“ 
” تمہارا یوں کہنا اچھا لگا، اگر تم دونوں چاہو تو رابطے میں رہنا، مجھے آپ لوگوں کی مدد چاہئے ہوگی۔ ابھی آپ چاہیں تو آج ہی اپنے گھروں کو چلے جائیں۔
“ یہ کہہ کر اس نے اپنے ما تحت کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس نے نوٹوں کی چند گڈیاں اس کی طرف بٹھا دیں۔ اس نے وہ پکڑ کر میز پر رکھتے ہوئے کہا،” یہ ذرا سی بھینٹ ہے ، یہ آپ قبول کر لیں۔ “
” نہیں آفیسر۔! یہ آپ اپنے بچوں کی مٹھائی کے لئے لے جائیں۔ اب ہمیں اجازت۔“ جسپال نے کہا تو وہ چند لمحے سوچتا رہا پھر بولا
” ٹھیک ہے ، میں براہ راست اب تم دونوں سے رابطے میں رہوں گا۔
اگر یہاں رہو تو میرا جتنا علاقہ ہے وہ تم دونوں کا، جو چاہو سو کرو ۔“ جگجیت بھر بھرے نے کہا تو بانیتا ہنستے ہوئے بولی
” نہیں، ہم جرائم پیشہ نہیں ہیں۔“ 
یہ کہہ کر وہ اٹھی تو جسپال بھی اٹھ گیا۔ جگجیت بھر بھرے نے اٹھ کر دونوں سے ہاتھ ملایا۔
” اب کہاں جانے کا ارادہ ہے ؟“ ونود رانا نے پوچھا
” مطلب؟“ جسپال نے چونکتے ہوئے پوچھا
” مطلب یہ ہے کہ اگر تم ابھی امرتسر جانا چاہتے ہو، تو میں تمہیں ائیر پورٹ تک چھوڑ دیتا ہوں۔
ٹکٹ کی بھی کوئی اتنی دیری نہیں ہوگی۔“ وہ اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر بولاتوبانیتا نے ایک دم سے فیصلہ کر تے ہوئے کہا
” ٹھیک ہے ہم ابھی نکلتے ہیں۔“ 
” میں یہاں سے امرتسر تک آپ سے رابطے میں رہوں گا۔“ ونود نے کہا تو ایک بار پھر وہ ایک دوسرے سے مصافحہ کرکے باہر نکل آئے ۔
اس وقت رات کا آ خری پہر چل رہا تھا جب وہ دونوں امرتسر ائیر پورٹ سے باہر آئے تو ان کے انتظار میں سیاہ فریری کھڑی تھی۔
وہ دونوں اس میں بیٹھے تو فریری چل دی ۔ ونود رانا نے اپنا وعدہ پورا کیاتھا۔ کسی نے انہیں ہاتھ تک نہیں لگایا۔ بانیتا نے ٹی ایس، نوتن کور ، اور زور دار سنگھ کو بتا دیا کہ انہوں ہنگامی طور پر یہاں سے نکلنا پڑ رہا ہے۔ وہ بعد میں رابطہ کریں گے۔ جہاز میں سوار ہونے تک انہوں نے امرتسر میں بھی بتا دیا۔ وہ حویلی پہنچے تو جسپال نے کار رُکتے ہی کہا
” دیکھو بانیتا، تم اپنے گھر والوں سے ملو جلو ، لیکن مجھے فی الحال اوگی جانے دو۔
اب ہماری جالندھر ہی میں ملاقات ہو گی۔“
” اندر تو آؤ ، کچھ کھا پی لو ، تھوڑا آرام کر لو؟“ بانیتا نے حیرت سے کہا تو وہ بولا
” نہیں مجھے جانے دو۔“ 
” اوکے، تم جاؤ ۔“ اس نے کہا پھر اپنے ڈرائیور سے اسے لے جانے کو کہا اورخود اتر گئی۔ ڈرائیور نیچے بھی نہ اترا اور وہیں سے اوگی پنڈ کے لئے روانہ ہو گیا۔
 سورج کی روشنی چاروں طرف پھیل چکی تھی۔
جب وہ جالندھر کی فضاؤں میں جا پہنچا۔ وہ اس بار ہر پریت کو سرپرائیز دینا چاہتا تھا۔ کوئی سات آٹھ کے درمیان کا وقت ہوگا ، جب وہ سرخ چھت والی کوٹھی کے گیٹ کے سامنے جا پہنچا۔ بنتا سنگھ نے اسے دیکھا تو فوراً ہی گیٹ کھول دیا اور ڈرائیور اسے پورچ میں لے گیا۔
وہ کار سے اتر کر اندر ڈرائینگ روم میں گیا تو ہر پریت صوفے پر آلتی پالتی مارے گُرمکھی میں شائع ہونے والا پنجابی اخبار پھیلائے بیٹھی تھی۔
سفید قمیص، نیلی شلوار اور دوپٹہ، جو ڈھلک کراس کی گود میں پڑا ہوا تھا۔ بالوں کی لٹ اس کے جھکے چہرے پر جھول رہی تھی ۔ جسپال اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ آہٹ پا کر ہر پریت نے سر اٹھایا تو سامنے جسپال کو دیکھ کر وہ چند لمحوں کے لئے ساکت ہی رہ گئی ، جسپال نے اپنی باہیں پھیلا دیں ۔ وہ تیر کی مانند اس کے سینے سے آ لگی۔ اسے لگا زندگی جیسے رُک گئی ہو، روح تک میں سیرابی اترتی چلی جا رہی ہے۔
وہ الگ ہوئے تو جسپال نے پوچھا
” پھوپھو اور انوجیت کدھر ہیں؟“ 
” وہ گھر پر نہیں ہیں، گرد دوارے گئے ہیں، آتے ہی ہوں گے۔ تم بیٹھو۔“ اس نے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو وہ بیٹھ گیا۔ ہر پریت اندر چلی گئی۔ پھر کچھ دیر بعد ہی لوٹ آئی اور اس کے پہلو میں بیٹھ گئی۔
” سنا، یہاں سب خیر سکھ ہے نا؟“
” سب ٹھیک ہے۔ تو کچھ کھا پی لے، آرام کر لے ، پھر باتیں ہی تو کرنی ہیں۔“ ہر پریت نے کہا
” نہیں ہر پریت ، مجھے آج شام سے پہلے جالندھر جانا ہے ، لیکن تو فکر نہ کر ، اس وقت تک میں تم سے بہت ساری باتیں کر لوں گا۔“ اس نے کہا تو وہ مسکرا دی۔
                                 #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط