Episode 71 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 71 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

شام کا سورج ڈھل گیا تھا ، جب میں اور جنید واپس لاہور پہنچ گئے۔تما م راستے ہم اس کے کئے گئے سروے پر بات کرتے رہے۔ سڑکوں پر رش کی وجہ سے کافی دیر بعدہم گھر پہنچے ، جہاں سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ ہم اندر گئے، ڈرائینگ روم میں کوئی نہیں تھا۔کنٹرول روم میں فقط مہوش بیٹھی ہوئی زویا سے کراچی میں ہونے والے تازہ حالات کے بارے میں باتیں کر رہی تھی۔ اس نے ہمارے آنے پر خوش دلی کا اظہار تو کیا لیکن اس میں گرم جوشی نہیں تھی۔
کچھ تمہیدی اور روایتی باتوں کے بعد میں نے پوچھا
” سب کہاں ہیں؟“
” فہیم ابھی یہاں تھا، ہو سکتا ہے اپنے کمرے میں ہو ۔ باقی سب بھی اپنے اپنے کمرے میں ہوں گے ۔ “ اس نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا
” سب لوگوں نے کھانا کھا لیا؟“ میں نے پوچھا
” ابھی کہاں، ابھی تو دارا ہی واپس نہیں لوٹا، وہ مارکیٹ گیا تھا۔

(جاری ہے)

“ اس نے بتایا

” اوکے ، سب کو یہاں بلاؤ ، میں اوپر کمرے سے ہو کر آ یا ۔
ذرا جلدی ۔“ یہ کہہ کر میں اپنے کمرے میں چلا گیا، مجھے سمجھ نہیںآ رہی تھی کہ وہ ایسے مایوس کیوں ہیں؟ میں نے زیادہ وقت نہیں لیا اور واپس کنٹرول روم میںآ گیا۔ وہاں جنید،اکبر انٹیلی جنٹ، مہوش اور فہیم، بیٹھے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر گپ شپ کے بعد میں نے ان کے مایوسانہ رویے کے بارے میں پوچھا تو اکبر نے بولا
” دراصل وہاں ممبئی میں جسپال کا آپریشن کامیاب نہیں رہا، وہ واپس اُوگی پنڈ چلا گیا ہے۔
اس کے ساتھ بانیتا بھی واپس لوٹ گئی ہے۔ یہ ساری بات نوتن کور نے بتائی ہیں۔ وہ کافی حد تک مایوس تھی، اس ناکامی کے بعد ظاہر ہے اس کا اثر لیا سب نے۔“
” اوہ ، یہ تو اچھانہیں ہوا۔“ میں نے سوچتے ہوئے کہا
” اچھا تو واقعی نہیں ہوا۔“ جنید نے رائے دی
 ” کوئی وجہ بتائی نوتن کورنے۔“ میں نے پوچھا 
” نہیں، کہہ رہی تھی کہ انہیں اچانک وہاں سے نکلنا پڑا ہے ، ظاہر ہے وہ چند لوگ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔
ان یہودیوں کے پیچھے پوری حکومت کی سپورٹ ہے ، فورسز ان کی حفاظت پر لگی ہوئیں ہیں۔ “ مہوش بولی
” ویسے اگر ہم وہاں پر ہوتے تو کچھ نہ کچھ کر آتے۔“ اکبر نے افسوس بھرے لہجے میں کہا جسے میں نے نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا 
” ان کی طرف سے مطلب جسپال یا بانیتا کی طرف سے کوئی فون یا کوئی اطلاع؟“ 
” ابھی تک تو نہیں، ان دونوں میں سے کسی نے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی ہم نے ۔
“ مہوش نے صورت حال بتائی 
” اوکے میں دیکھتا ہوں، پھر ڈنر کے بعد بات کرتے ہیں۔“ میں نے کہا ۔ وہ سب اٹھنے لگے تواسی دوران مہوش کا فون بج اٹھا۔ 
” ٹھہریں، بھارت سے فون ہے۔“ اس نے پرجوش لہجے میں کہا تو سبھی رک گئے۔ مہوش نے کال رسیو کرتے ہوئے اسپیکر آن کر دیا۔ دوسری طرف اروند سنگھ تھا۔
” ہائے مہوش۔! گڈ ایوننگ۔“ اس نے کہا تو مہوش نے جواب دیتے ہوئے پوچھا
” کیا صورت حال ہے ادھر ،سنا ہے…“ 
تبھی اس نے بات کاٹتے ہوئے کہا
” سنی سنائی کو چھوڑو، پہلے مجھے یہ بتاؤ ، جمال واپس آ گیا نور نگر سے؟“ 
” ہاں میں آ گیاہوں اور تمہار ی بات سن رہا ہوں۔
“ میں نے کہا تو وہ پر جوش لہجے میں اس نے وہ بات بتائی کہ جسپال اور بانیتا واپس جالندھر کیوں آ گئے ۔ مختصر انداز میں بتا کر وہ بولا
” ممبئی میں ایک بہت بڑا کام ہونے جا رہاہے ۔ مجھے اس گینگ کا پتہ مل گیاہے جو وہ یہ سب کرنے جا رہے ہیں۔ ہم ا س سے کیا فائدہ لے سکتے ہیں، یہ آپ لوگوں کے سوچنے کا م ہے۔“
” تفصیل کیا ہے؟“ میں نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا تو اس نے وہ تفصیل بتا دی جو اسے معلوم تھی۔
میں نے اسے کچھ دیر بعد فون کرنے کا کہا اور فون بند کرا دیا۔
اروند بہت بڑی کامیابی حاصل کر چکا تھا۔ سبھی نے سن لیا تو میں نے سبھی کے چہروں کو پر جوش دیکھا۔ 
” سب نے سن لیا۔“ میں ان سب کو دیکھتے ہوئے کہا
” مزید کہنے کی ضرورت نہیں،ہم ابھی لگ جاتے ہیں کام پر۔“ فہیم کمپیوٹر کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولا
” اوکے۔ ڈنر پر ملتے ہیں اور پھر کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔
“ میں نے کہا اور اٹھ کر اوپر چلا گیا۔
اروند سنگھ کا ایک دوست جو خود بھی کمپیوٹر سے متعلق تھا اور وہ ہیکنگ میں کافی آ گے جا چکا تھا، اس نے اروند کو نئی تکنیک سے متعار ف کروایا کہ انتہائی راز دارانہ پیغامات کس طرح کوڈ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں اور پھر انہیں ڈی کوڈ کرنے کی تکنیک کیاہے۔ اس کے دوست کو ایک خاص قسم کا سوفٹ وئیر چاہئے تھا، جو اروند بنا سکتا تھا۔
دونوں نے اس پر مل کر کام کیا۔ کچھ ہی دنوں میں انہوں نے وہ چند کمپیوٹر کھنگال لئے جہاں جہاں یہ تکنیک استعمال ہو رہی تھی۔ اروند کا دوست چونکہ چین میں بیٹھا تھا اسے بھارتی معاملات میں کافی دلچسپی تھی۔ اس لئے اس کی خفیہ تنظیموں کی سرگرمی پر نگاہ تھی۔ اسی دوران اِن دونوں کی توجہ ایک ایسی تنظیم کی طرف گئی جو یہودیوں کے بھارت میں دلچسپی کو گہری نظر سے دیکھ رہی تھی۔
ان کے کوڈنگ پیغامات میں یہودیوں کے خلاف کوئی بڑاآپریشن کرنے کی تیاریوں کے بارے میں بات چل رہی تھی۔ وہ لوگ پوری طرح تیار تھے۔ وہ سب بھارتی تھے اور ان کا سربراہ حکومتی پارٹی کا وزیر رامیش پانڈے تھا۔ بظاہر وہ یہودیوں کے قریب اور ان کا دوست تصور کیا جا رہا تھا۔ ان کی پلاننگ میں احتیاط اس قدر تھی کہ ابھی تک ان کے پیغامات میں یہ بات واضح نہیں ہوئی تھی کہ وہ کریں گے کیا؟ وہ یہ سب کیوں کرنے جا رہے تھے ، اس کا بھی علم نہیں ہوسکا۔
 
میں نے اوپر جا کر جسپال سے بات کی ۔ جسپال اس وقت جالندھر شہر کے فارم ہاؤس میںآ چکا تھا ، جو بانیتا کا تھا۔ وہ ابھی تک نہیں پہنچی تھی۔اروند، اور رونیت کے ساتھ گرلین پوری طرح کمپیوٹر کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔میں نے ساری صورت حال بتا کر اسے کہا 
” جسپال ۔! یہ ناکامی نہیں ہے۔ میں دیکھتا ہوں اسے ، تم صرف اتناکرو کہ جتنے لوگ بھی تمہارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، انہیں ایک مرکز پر لاؤ، کسی بھی کچھ کرنے کے لئے تیار کرو۔
دولت کی فکر مت کرو،صبح ہونے سے پہلے میں نوتن کور کو بھجوا دیتا ہوں۔“
” بانیتا آ جاتی ہے تو میں پھر تم سے رابطہ کرتا ہوں۔“ اس نے کہا اور میں نے فون بند کر دیا۔
آ دھی رات سے زیادہ کا وقت گذر گیا۔ کراچی، لاہور اور جالندھر کے ساتھ ممبئی میں لوگ سب رابطے میں تھے ۔ وہ کامیابی جو ہاتھ سے نکل کر ناکامی کا احساس ہاتھوں میں دے گئی تھی، اس کی صورت بدلنے لگی تھی۔
میں مطمئن تھا۔ سلمان ، اروند ، فہیم اور رونیت، سبھی مل کر اس معاملے کو دیکھ رہے تھے۔
اس وقت رات کے دو بجے تھے کہ ایک دم سے فہیم پر جوش انداز میں بے ساختہ بولا
” پکڑ لیا۔“ 
” کیا پکڑ لیا؟“ اروند نے پوچھا
” یہ دیکھ ۔“ اس نے ایک لنک اسے بھیجا اور میری طرف دیکھ کر بولا
” یہ واقعہ ممبئی میں ہوگا۔ اس کی یہ تفصیلات ہیں۔
“یہ کہ اس اس نے اسکرین پر دکھایا تو میرے اندر جوش بھرتا گیا۔ پورا پلان اس پر درج تھا ۔ انہوں نے اسے ڈی کوڈ کر لیا تھا۔ جب وہ پلان سبھی کی نگاہ سے گذر گیا تو میں نے سبھی کا مخاطب ہو کر کہا
” ممکن ہے یہ سب اُلٹ ہو ، یہ بھی کوڈ در کوڈ بات ہو ، ابھی خوش ہو نے کی ضرورت نہیں۔ ابھی سے یہ دیکھیں کہ یہ ماحول ، یہاں دے رہے ہیں ۔ وہی ہے؟ کل شام تک کا وقت ہے ہمارے پاس ۔
تب فیصلہ کریں گے کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔“
” بالکل ، ٹھیک ۔“ اروند نے کہا تو سبھی متفق ہو گئے ۔ میں اوپر چلا گیا۔
وہ ڈی کوڈ پلان یہ تھا کہ ممبئی کے تاج محل ہوٹل میں یہودیوں کے کچھ بڑے اور ان سے متعلق دنیا بھر سے بزنس کمیونٹی کے لوگ وہاں آ رہے تھے۔ وہ لوگ یہ حتمی فیصلہ کرنے جا رہے تھے کہ بھارت میں وہ کیا اور کس حد تک اپنا بزنس دیں گے اور وہاں سے کیا مقاصد حاصل کریں گے ۔
یہ اجلاس انتہائی خفیہ تھا۔ اسے ٹاپ سیکرٹ رکھا گیا تھا۔ وہ لوگ جو یہاں آ رہے تھے۔ انہیں بھی انتہائی خفیہ رکھا جا رہا تھا۔ ان لوگوں کا پلان یہی تھا کہ پہلے وہ خود طے کریں گے ، پھر اس کے بعد وہ اپنا ایک نمائندہ چنیں گے جو بھارتی حکام سے بات چیت کرے گا۔ اور وہ زیادہ سے زیادہ مراعات لے پائیں گے۔
اس وقت دنیا میں عالمی سطع جو بھی مذاکرات، معاملات، سمجھوتے یا پلان ترتیب دئیے جاتے ہیں۔
ان میں فقط ایک رخ ہی کو مد نظر نہیں رکھا جاتا بلکہ ملٹی پر پز ہوتا ہے ، اس ایک ہی پلان سے ممکن حد تک کئی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگرچہ ہر ملک کی اپنی حیثیت ہے ، لیکن دنیا میں لابی سسٹم ہے۔ وہ کسی نظریہ سے بھی متعلق ہو سکتی ہے۔ بظاہر ہمیں چند کمیونٹیز ہی دکھائی پڑتی ہیں، جیسے یورپی یونین، امریکن بزنس لابی، مسلم ممالک، چین روس لابی، لیکن اس سے بھی ماورا، خفیہ تنظیمیں ہیں، جو اپنے مفاد کی خاطر کسی ملک کو جنگ میں جھونک دیں تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ، انہیں اگر اپنا مفاد دکھائی دیتا ہے تووہ اسے جنگ میں جھونک دیں گے ۔
تیل پر قبضہ کرنا ہے اور اس کے لئے کس کس کو لڑانا ہے۔کتنے انسانوں کا خون بہانا ہے ، انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کہاں دولت پھینکنی ہے اور وہاں سے کیااٹھانا ہے ، وہ طے کرتے ہیں، کس جگہ پر کون سی ضرورت پیدا کرنی ہے ، یہی لوگ کراتے ہیں۔ صرف ’فائدہ‘ ان کی نگاہ میں ہوتا ہے ، انسان یا انسانی اخلاقیات ان کی نگاہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ یہ بھی ایسے ہی لوگ تھے۔
وہ بھارت کو فائدہ دینے کے ساتھ ساتھ وہاں سے کیا مقاصد چاہتے تھے اور پاکستان کو کس حد تک نقصان پہنچا سکتے ہیں یہ انکا ایجنڈا تھا۔
 دراصل عالمی سطع پر دہشت گردی کی مبہم اصطلاح کے پردے میں جبر و استبداد کو قانونی جواز دینا شروع کر دیا گیا ہے ۔ جعلی اور مصنوعی دہشت گردی کے واقعات کو بنیاد بنا کر دنیا بھر کے عوام کو خوف کی کیفیات کا شکار کر دیاجائے اور حکمرانوں سے کسی قسم کا کوئی سوال نہ کیا جائے۔
بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار بد سے بد تر کر نے کا جواز یہی ہے۔ موسادکو ایسا موقعہ ملنا چاہئے ۔ بھارت میں ان جیسی رجعت ، فاشسٹ فرقہ پرست نظریات رکھنے والی قوتوں سے ناطہ جوڑنا ان کا فطری عمل تھا۔ اسی لئے وہ فطری طور پر بھارت میں اپنی جگہ بنا کر خود کومضبوط کر رہا تھا۔ 
اس کے بر عکس وہ لوگ بھی اسی دنیا میں موجود ہیں،جو کرتے تو اپنے فائدے ہی کے لئے ہیں، ان کا مفاد ان سے ٹکرا رہا ہوتا ہے ۔
وہ اپنی طاقت کا اظہار کرتے ہیں۔ میرے رَبّ تعالی نے ہرظالم کے لئے کوئی سبق دینے والا پیدا کرنا ہوتا ، تبھی توازن قائم رہتا ہے ۔یہ انسان کا فیصلہ ہے کہ وہ کرنا کیا چاہتا ہے۔ جس نے اپنے آپ کو زندہ آئین و قوانین کے ساتھ جوڑ لیا وہ فلاح پا گیا، جو دنیا کی خواہش رکھتا ہے ، وہ مردہ قرار پایا۔ فلاح وہی قوم پاتی ہے جو اپنے تن مردہ میں نئی جان پیدا کرتی ہے ۔
ورنہ ”ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ ِ مفاجات “۔
 کولابہ کے علاقے میں موجود تاج محل ہوٹل میں اس تنظیم کے چند لوگ پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ وہ باقاعدہ کمرے لے کر عیش کر رہے تھے۔ یہ ہوٹل انڈیا گیٹ کے ساتھ اور ساحل سمند پر واقع ہے ۔کولابہ ہی میں ایک کاروباری عمارت میں ان کا مرکز بن چکا تھا۔ صرف دو دن بعد وہ اس وقت حرکت میں آ نے والے تھے، جب یہودی لابی کے لوگ وہاں پہنچ جاتے۔
میں بہت پر جوش ہو گیا تھا۔اور پوری توجہ اسی طرف لگا دی تھی۔ میں نے اروند اور فہیم کو آن لائن بٹھا کرسمجھا دیا تھا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔ دوپہر کے وقت ہی میں نے نوتن کورسے پوچھا ۔ اسے بھی معلوم نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے ۔ لیکن جو پلان ڈی کوڈ ہوا تھا ، اگر شروعات اس کے مطابق ہوئیں تو آگے کا سارا معاملہ ویسے ہی ہونا تھا۔ 
                                    #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط