” ایسے ہی کھڑی رہو گی یا اندر آنے کو بھی کہو گی۔“ جسپال نے مسکراتے ہوئے کہا
” جو دل میں بستے ہوں انہیں کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی، میں تو جی بھرکے تمہیں دیکھ رہی ہوں، ہو سکتا ہے تم یہ کہہ دو کہ میں نے ابھی واپس لوٹ جانا ہے اور میں تمہیں روک بھی نہیں سکتی۔“ ہر پریت نے یوں کھوئے کھوئے انداز میں کہا کہ جسپال کے وہ اندر تک اتر گئی۔
وہ مسکرا دیا اور پھر بولا
” آؤ ، اوپر کمرے میں چل کر باتیں کرتے ہیں۔“
” تم چلو، میں آتی ہوں۔“ اس نے دھیمے سے لہجے میں کہا تو اس نے قدم بڑھا دئیے۔
زیادہ وقت نہیں گزرا تھا ۔ جسپال ایزی ہو کر بیڈ پر آن لیٹا تھا کہ ہر پریت اس کے لئے چائے کے ساتھ لوازمات لے آئی تھی۔ اس نے ٹرے بیڈ پر رکھا اور اس کے سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔
(جاری ہے)
” سوری ہر پریت۔! میں جالندھر میں ہوتے ہوئے بھی تم سے رابطہ نہیں کر سکا۔“ یہ کہہ کر اس نے چائے کا مگ اٹھایا تو وہ حسرت آمیز لہجے میں بولی
” جسّی، کیا تمہیں یہ احساس ہے کہ ایک عرصہ ہوگیا تم نے مجھے پریتو نہیں کہا؟“
اس پر جسپال نے اُسے چونک کر دیکھا، پھر چند لمحے سوچتے رہنے کے بعد بولا
”کاش ہم اپنی محبتوں میں وہ مٹھاس رکھ پاتے، لیکن کیا کریں ہرپریت،اس دنیا میں جینے کا حق صرف طاقت وروں کو ہے ،یا تووہ اپنا غلام بنا لیتے ہیں یا پھرمار دیتے ہیں، تیسری کوئی راہ نہیں ہے جینے کی۔
کاش ہم بھی آزادی سے اپنے رشتوں کو نبھا سکیں۔“ یہ کہتے ہوئے وہ ایک دم سے افسردہ ہو گیا۔
” میرا مقصد تمہیں افسردہ کرنا نہیں جسّی، میں تو یہ کہنا چاہ رہی ہوں کہ میرے لئے تمہارے پاس جتنا بھی وقت ہو ، وہ پوری طرح میرا ہو اور بس ۔“ یہ کہہ کر وہ مسکرا دی، صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ زبردستی کی مسکراہٹ تھی۔
” ہاں یہ تو ہے۔“ جسپال نے بھی افسردہ سی مسکراہٹ سے کہا اور بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا لی۔
ان دونوں میں خاموشی اتر آئی تھی ، جیسے ساری بات سمجھتے بھی ہیں اور سمجھنا بھی نہیں چاہتے۔ کچھ دیر بعد اس نے خوشگواریت سے پوچھا،” اچھا چھوڑ ، بتا یہاں کیسا چل رہا ہے سب؟“
” جیسا تم نے کہا تھا ، ویسا ہی چل رہا ہے۔ پورے علاقے میں جتنے بھی گرو دوارے ہیں ، میں نے سردار ویر سنگھ نے سیوا یاترا مکمل کر لی ہے۔ بہت ساری جگہوں پر مسائل ہیں ۔
لیکن وہ مسئلے ایسے ہیں جن میں لوگوں کی ذاتی انا شامل ہے ، باقی کچھ نہیں۔“ ہر پریت نے بتایا
” اصل چیز لوگوں کی ہمدردی ہے ، کیا ویر سنگھ وہ ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے یا ناکام؟“ جسپال نے پوچھا
” بہت حد تک ، وہ جو آئی بی والے مارے ہیں نا، ان کا بڑا اثر ہے۔“ ہر پریت نے سوچتے ہوئے کہا
” مطلب یہ بھی طاقت ہی کو مانتے ہیں،انسانیت یا دھرم کو نہیں ۔
“ وہ مسکراتے ہوئے بولا، پھر چند لمحے سوچ کر بولا” ہمیں صبح ویر سنگھ جی کے پاس جانا ہے۔“
” ٹھیک ہے ۔“ ہر پریت نے تابعداری سے کہا تو جسپال ہنس دیا ۔ پھر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اسے اپنے قریب کرلیا۔ وہیں بیٹھے، باتیں کرتے انہیں پوری رات گذر گئی ۔ اس کا احساس انہیں اس وقت ہوا جب گرودوارے سے گیانی پورے گاؤں کو اٹھانے کے لئے حکم جاری کرنے لگا۔
انہیں ناشتے پر کافی دیر ہوگئی۔ پھوپھو کلجیت کور اور انوجیت سے باتیں کرتے وقت گذرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ وہاں انہوں نے گھر بار کے علاوہ کوئی دوسری بات نہیں کی ۔ کلجیت کور جب اُٹھ گئی تو اس نے انوجیت سے کہا کہ وہ آج بلبیر سنگھ پینچ کو یہاں گھر میں بلائے ۔دن کافی چڑھ آیا تھا جب ہر پریت اور جسپال دونوں کار میں بیٹھ کر ویر سنگھ کی حویلی چل دئیے۔
ویر سنگھ انہی کے انتظار میں تھا۔ وہ انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ ان کے ملازم آؤ بھگت میں لگ گئے۔ کافی دیر ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد جسپال نے پوچھا
” سردار جی اب کیا سوچا ہے آپ نے الیکشن کے بارے میں۔ یہاں سے کس کو اپنا نمائندہ بنانا ہے۔“
” سیدھی اور سچی بات تو یہ ہے کہ میں اب اس قابل نہیں رہا۔ گرودوارہ سیوا میں کچھ اتنا سکون ملا ہے کہ کچھ دوسرا کرنے کو جی نہیں چاہتا۔
میر ے منہ بولے بیٹے جوگندر سنگھ اور سریندر سنگھ تیار ہو سکتا ہے ۔ لیکن میں یہ فیصلہ تم پر چھوڑتا ہوں تو جسے چاہے اس کام کے لئے چن لے۔“ اس نے واضح لفظوں میں اپنی رائے دے دی
” میں اکیلا یہ فیصلہ نہیں کر سکتا سردار جی ۔جتھے داروں اور گیانیوں کے بغیر یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ میں نہیں چاہتا کہ طاقت کے زور پر اسے منوایا جائے ۔ ہم نے دھر سیوا کرنی ہے اور اس حکومت سے اپنا حق مانگنا نہیں چھیننا ہے۔
جس میں یہ جرات ہے وہ آ گے آ ئے۔“ جسپال نے انتہائی جذباتی لہجے میں کہا
” ہو نا بھی یہی چاہئے ۔ اب تک جو ہمارے نمائندے تھے ، وہ ہمیں ہی بیچتے رہے ۔ حکومت کے مخبر بن کر اپنی قوم کے لوگوں کو مرواتے رہے ، لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔“ ویر سنگھ نے دُکھی لہجے میں جواب دیا
” تو سردار جی ، آ ج شام کو علاقے کے کسی بھی گرو داورے میں سارے گیانیوں کو بلاتے ہیں اور ان سے بات کرتے ہیں۔
“ جسپال نے کہا
” اوہ بھائیا ۔! میں نے بات کر لی ہے ، اور انہوں نے مجھے یہ حق دے دیا ہوا ہے کہ اگر میں چاہوں تو ٹھیک ورنہ جسے میں چاہوں۔ اور میں نے سوچ لیا ہوا ہے۔“ اس نے سکون کہا
” کیا سوچا؟“ اس نے بھی اسی سکون سے پوچھا
” میں تجھے اس مقصد کے لئے چنتا ہوں۔“ یہ کہہ کر ویر سنگھ نے اس کیے چہرے پر دیکھا۔ جسپال مسکرا دیا اور کسی جذبے کے بغیربولا
” نہیں ویر سنگھ جی ، میں نہیں۔
علاقے کا کوئی بھی جوان…“
” یہ چناؤ میں نے تم پر چھوڑا۔“ ویر سنگھ نے اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے کہہ دی تو جسپال نے کہا
” تو ٹھیک ہے ، میں انو جیت سنگھ کا نام دیتا ہوں۔“
” مجھے یہ پوری طرح احساس تھا کہ تم ایسے ہی کرو گے ۔ میں اس نام پر پہلے ہی لوگوں کا اتفاق لے چکا ہوں ۔ الیکشن سے پہلے ہی ہم اُسے یہ ذمہ داری دے دیں گے۔
“ ویر سنگھ نے فیصلہ کن لہجے میں کہا پھر اسی حوالے سے باتیں ہوتی رہیں۔ وہ دوپہر کے بعد وہاں سے واپس لوٹ آئے ۔ وہ گھر نہیں گئے بلکہ اوگی میں پہلے بلبیر سنگھ پینچ کے گھر گئے ، پھر اسے ساتھ لے کر گاؤں کے لوگوں سے ملتے اور ایک حسرت زدہ نگاہ اپنی برباد حویلی پر ڈال کر وہ شام تک واپس گھر آ گئے ۔
گہری شام اُتر آ ئی تھی۔ جسپال کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اڑے اور فضاؤں میں پھیل جائے ۔
وہ اپنی اس کیفیت کو نہیں سمجھ پایا تھا۔ وہ کافی دیر تک اسی طرح اپنے احساس میں کھویا رہا تبھی اس کا من چاہا کہ وہ جمال کو فون کرے ۔ اس نے فون نکال کر نمبر ملائے ۔ چند لمحوں بعد رابطہ ہوگیا۔ تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد جمال نے کہا
” اروند نے مجھے کچھ نام دئیے ہیں۔ یہ وہ شدت پسند ہندو ہیں، جو ہندو ؤں کے علاوہ بھارت میں کسی کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے ہیں اور ملک میں ہندو حکومت چاہتے ہیں۔
یہی وہ لوگ جو ان کی طاقت ہیں۔ ختم کر ناہے انہیں۔ “
” ابھی جانا ہے ؟ “ اس نے پوچھا
” نہیں ابھی کچھ دیر بعد تجھے اروند سنگھ پوری تفصیل بتائے گا۔ پھر شاید تجھے کسی بھی طرف نکلنا پڑے۔“ جمال نے کہا
” ٹھیک ہے میں انتظار کر رہا ہوں۔“ اس نے کہا اور کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد فون بند کر دیا گیا۔
اس وقت ڈنر لے کر چائے پی رہے تھے ، جب اروند سنگھ کا فون آ گیا۔ جسپال نے اس کی کال سنی تو وہ اسے تفصیل بتانے لگا۔اروند نے اسے میل بھی کر دی تھی ۔ جسپال کے بدن میں سنسنی پھیل گئی ۔
#…#…#