Episode 76 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 76 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

 رات کا گہرا اندھیرا ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ اکبر، جنید اور میں لاہور سے شمال کی جانب نکل رہے تھے۔ ہمارے پاس فور وہیل جیپ تھی جس میں ہر طرح کا اسلحہ رکھا ہوا تھا میں نے نکلنے سے پہلے سارے بندو بست کر لئے تھے۔ ہمارا رخ کوٹ بہادر پور کی طر ف تھا۔ راوی پل تک ٹریفک کے رش کی وجہ سے جیپ آ ہستہ رکھنا پڑی، پھر رفتار تیز کر دی۔
 ہمیں چوہدری الطاف گجر کے ڈیرے تک جانا تھا۔
وہ سابق رکن اسمبلی تھا، اور نئے الیکشن میں رکن اسمبلی بن جانے کی سر توڑ کو شش کر رہا تھا۔ اس کے لئے جو بھی ذریعہ ملا اسے استعمال کرنے کی فکر میں تھا۔ وہ جاگیر دار ہونے کے ساتھ ساتھ فیکٹر ی آ نر بھی تھا۔ اس کا بھائی اس کے کاروبار کی دیکھ بھال کرتا تھا ۔ جن دنوں وہ رکن اسمبلی تھا، ان دنوں دولت کمانے اسے بہت ساری آفرز ہوئیں تھیں۔

(جاری ہے)

جن میں ایک آفر اسے بھارت سے بھی تھی۔

یہ آفر لاہور ہی کی ایک قحبہ خانہ چلانے والی عورت میڈیم زرینہ کے توسط سے ہوئی تھی اور بعد میں الطاف گجر کو اسی نے ان لوگوں سے ملوایا تھا ۔ وہ چند لوگ ایک مافیا کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہوں کے جہاں اور دوسرے مقصد تھے ، وہاں حکومتی رسائی رکھنے والے لوگوں کا اپنی ساتھ ملاتے تھے۔ کاروباری وسعت میں مدد اور غیر ملکوں تک رسائی دیتے تھے اور ان سے اپنا مقصد نکالتے تھے۔
بظاہر وہ بھی کاروباری لوگ تھے لیکن دراصل وہ” را“ کے وہ ایجنٹ تھے، جو انتہائی خطرناک تھے اور ہر طرح کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے زمین تیار کرتے تھے ۔ جیسے ہی الطاف گجر ان سے جڑا، اس کا کاروبار وسعت اختیار کر گیا۔ دولت اس پر برسنے لگی اور غیر ملکی دورے بڑھ گئے۔ اگلے الیکشن میں وہ ہار گیا۔ اب آنے والے الیکشن میں وہی لوگ اس کی بھر پور حمایت کر رہے تھے۔
دولت پانی کی طرح بہائی جا رہی تھی۔ اس بار وہ ایسا گھوڑا تیار کر رہے تھے ، جس پر وہ پوری طرح سواری کرکے اپنی منزل حاصل کرنا چاہتے تھے۔ وہ اس چِین میں شامل ہو گیا تھا ، جس کے آخر میں یہودی تھے۔
وہ ایک انتہائی خطر ناک پلان تیار کر چکے تھے۔ انہوں نے رکن اسمبلی بنوانے کے عوض اسے منسٹر بنوانا تھا، اسی وعدے پر وہ اپنے کافی سارے بندے پاکستان میں پھیلا رہے تھے۔
وہ لوگ بھارت سے آتے ، کچھ عرصہ یہاں اس کے پاس رُکتے، دستاویزات بنواتے، لاہور اور اس کے گردو نواح میں پھیل جاتے ۔ وہ جو بھی کرنا چاہتے تھے وہ میرے وطن کے لئے کسی طور بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا تھا۔ الطاف گجر دولت کمانے کے ساتھ طاقت حاصل کر رہا تھا۔ میرے وطن کے لئے زہر رکھنے والا سانپ کسی بھی وقت عفریت بن سکتا تھا۔ میں نے یہی سوچا ، وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
سیدھے اُسے اٹھاتے ہیں، بعد میں دیکھا جائے گا جو ہو گا۔ میں سوچا ، فیصلہ کیا اور چل پڑے ۔ راوی پل سے ہمارا رخ شیخوپورہ کی طرف ہو گیا۔ میرے فون پر راستہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ہمارے درمیان خاموشی تھی۔
 میں نے شام سے پہلے ہی ایک بندہ اس گاؤں میں بھیج دیا تھا۔ ہمارا اور اس کا وہاں پہنچنے کا دورانیہ تین گھنٹے کا تھا۔ وہ بھکاری کے روپ میں کوٹ بہادر کے اس گاؤں میں پھر چکا تھا، جہاں الطاف گجر کی آ بائی حویلی اور گاؤں سے ذرا فاصلے پر اس کا ڈیرہ تھا۔
اس نے فون پر مجھے پوری تفصیل بتا دی تھی کہ وہ علاقہ کیسا ہے اور وہاں کی زمینی صورت حال کیاہے۔ میرا ہمیشہ سے ہی یہ وطیرہ رہا تھا کہ میں پہلے نکلنے کا راستہ تلاش کرتا ہوں۔ وہ میں نے اس سے پوچھ لیا تھا۔ وہ کوئی تر نوالا نہیں تھا کہ جاتے ہی اسے ختم کیا جا سکتا تھا۔ وہاں موجود بندے نے یہ اطلاع دی تھی کہ اس کے ڈیرے پر کئی طرح کے لوگ ہیں ، جو شکل ہی سے بد معاش لگتے ہیں۔
میں کوٹ بہادر کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا۔ میں اس بندے سے رابطہ کیا۔ اور صورت حال کے بارے میں پوچھا
” ابھی تک میں نے الطاف گجر کو نہیں دیکھا اور یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ یہاں ہے کہ نہیں۔ میں نے اب تک ڈیرے پر دو چکر لگا چکا ہوں۔“ اس نے بتایا تو میں نے اروند کو فون کیا۔ 
” اس کے فون کی لوکیشن تو یہی بتا رہی ہے کہ وہ اپنے گاؤں ہی میں ہے۔
وہ وہیں ہو گا۔“ اس نے پورے یقین سے کہا
جیپ اکبر ڈرائیو کر رہا تھا ۔ میں اسے گاؤں کا ایک چکر لگانے کا کہا ۔ ہم مین روڈ سے اتر کر کوٹ بہادر کی طرف چل پڑے ۔ اس گاؤں کی لو کیشن اس طرح تھی کہ اس کے دو طرف راستہ جا تا تھا ، ایک وہ جس پر ہم تھے ، دوسرا گاؤں سے باہر سیدھا نکل جاتا تھا اور تیسرا گاؤں کے درمیان سے ہو کر بائیں جانب نکل جاتا تھا، جو دو سر ے گاؤں سے ہو کر پھر مین روڈ پر جا چڑھتا تھا۔
ہم گاؤں میں چلے گئے ۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ میں نے کیسے بات کرنے ہے ۔ میں اکبر سے کہا کہ وہ سیدھا ڈیرے کی بجائے اس کی حویلی چلے۔
گاؤں میں بجلی کی روشنی تھی ۔ لیکن بہت کم جگمگاہٹ کی وجہ سے ملجگا اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ گاؤں کے درمیان چوک میں ایک بڑا سارا مکان تھا۔ جس کے درمیان ایک دو منزلہ مکان تھا۔ اس کے اطراف میں کافی جگہ ہونے کے باعث ایک طرف ٹریکٹر ، گاڑیاں اور زرعی مشینیں کھڑی تھیں۔
دوسری طرف ایک بڑا سارا ڈیرہ تھا لیکن اب وہ کھلا نہیں ہوا تھا۔ بلا شبہ پرانے وقتوں میں یہی ڈیرہ استعمال ہو تا تھا ۔ 
گاؤں میں اجنبی گاڑی دیکھ کر بہت سارے لوگ متوجہ ہو گئے تھے۔ جیسے ہی اس کی حویلی کے سا منے جیپ رکی، میں نے الطاف گجر کو فون کیا۔
” ہیلو ، کون بات کر رہاہے ۔“ اس نے کہا
” میں فرحان علی باجوہ بات کر رہا ہوں اور آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔
“ میں نے کافی حد تک رعب سے کہا
” کون فرحان علی ، اپنا تعارف کرائیں۔“ اس نے کہا
” میں آپ کی حویلی کے باہر کھڑا ہوں، آپ سے ملنا چاہتا ہوں، مل کر پورا تعارف کرا دیتا ہوں۔“ میں نے اسی لہجے میں کہا
” باہر کھڑے ہیں، مطلب ، مجھ سے پوچھے بغیر کہ میں گاؤں میں ہوں بھی یا نہیں۔“ اس نے محتاط ہوتے ہوئے کہا
” مجھے معلوم ہے کہ آپ کہاں ہے ، اسی لئے سیدھا ادھر آ گیا، ڈیرے پر نہیں گیا۔
“ میں نے کہا
” تو آ پ چلو ڈیرے پر ، میں وہیں آ تا ہوں۔“ اس نے کہا میں نے قدرے غصے میں کہا
” لیکن میں آ پ سے یہیں بات کرناچا ہتا ہوں، بات کرنی ہے یا میں جاؤں۔“ میں نے رُعب سے کہا
” ٹھیک ہے میں دیکھتا ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ اگلے چند منٹ میں ایک لمبا ٹرنگا شخص اندر سے برآمد ہوا ۔ اس کے ساتھ دو تین اور آ دمی تھے۔
تب تک میں جیپ سے باہر آ چکا تھا۔اس نے میری طرف دیکھا اور مجھ سے ہاتھ ملایا۔ اسی دوران ایک بندہ واپس چلا گیا۔ وہ لمبا شخص مجھے لیتا ہوا اندر کی جانب چل پڑا۔ اس گھر والے ڈیرے کا راستہ اندر سے تھا۔ وہاں صحن میں کافی ساری کر سیاں پڑی ہوئیں تھیں۔ جن پر دو لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں جدید گنیں تھیں۔ ایک طرف بڑی ساری چار پائی تھی۔
” آئیں بیٹھیں، چوہدری صاحب ابھی آتے ہیں ۔ ‘ ‘ اسی لمبے شخص نے کہا ۔میں نے اس کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی بلکہ یوں ہو گیا جیسے کافی مضطرب ہوں ۔ زیادہ وقت نہیں گذرا، ایک لمبے اقد اور فربہ جسم کا ادھیڑ عمر شخص اندرونی کمرے سے برآ مد ہوا ۔ اس نے سفید شلوار قمیص پر نیوی بلیو ویسٹ کوٹ پہنا ہوا تھا ۔ وہ بڑی آ ہستہ سے چلتا ہوا آیا ۔ اس نے یوں میری طرف دیکھا جیسا میں کوئی حقیر کیڑا مکوڑا ہوں اور پھر آ دھا سا ہاتھ ملاتے ہوئے طنزیہ سے بولا
” ہاں جی فرحان علی جی ، کون ہیں آ پ ، کرایں تعارف ۔
“ 
 ” میرا تعارف یہ ہے کہ مجھے اشوک کانت نامی ایک بندے نے آپ کے بارے میں بتایا ہے جو تقریباً چھ ماہ یہاں اس گاؤں میں رہا ، پھر لاہور میں آپ کی فیکٹری میں کام کرتا رہا اور پھر ہمیں مل گیا۔“ میں نے اس سے بھی زیادہ طنزیہ لہجے میں کہا تو وہ میری طرف دیکھنے لگا۔ پھر ایک دم سے مسکراتے ہوئے اپنے لوگون کی طرف دیکھ کر بولا
” ارے ۔
ہمارے اس گاؤں میں کوئی ہندو بھی رہتا رہا ہے ، مجھے پتہ نہیں۔ خیر تم نے مجھے یہی بتانا تھا؟“ اس نے آ خری لفظ بڑی تضحیک سے کہے
” کیاا تناکافی نہیں ہے۔“ میں نے پوچھا
” ہاں تمہاری موت کے لئے اتنا بھی کافی ہو سکتا ہے۔ اب تم بتاؤ کون ہو ؟“ اس نے غصے میں کہا ۔ اسی لمحے اس کے دونوں گارڈ الرٹ ہو گئے ۔ انہوں نے اپنی گنیں سیدھی کر لیں۔
وہ لمبا شخص اپنا پسٹل نکال چکا تھا۔ مجھے پوری طرح احساس تھا کہ باہر سب کچھ دیکھا جا رہا ہے ۔ میں نے گھوم کر پورا ماحول انہیں دکھا دیا ۔ ان کے لئے اتنا ہی کافی تھا۔ میں ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا
” مطلب آپ میرے ساتھ تعاون کرنے کی بجائے مجھے قتل کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔“ میں نے کہا تو وہ ہنستے ہوئے بولا
” جس طرح کا مذاق تم نے کیا ہے ، تمہارے جوتے مارے جانے چاہیں۔
“ اس نے غصے میں کہا ہی تھا کہ ٹھک ٹھک کی ہلکی سی آوازیں ابھریں اور اس کے ارد گرد کھڑے تینوں گارڈ ز کی چیخیں بلند کرتے ہوئے ڈھیر ہوتے چلے گئے ۔ ان کی پوری توجہ میری طرف تھی ۔ ان کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی باہر کی دویوار پر چڑھ کر اتنی تیزی سے اس کے بندے پھڑکا دے گا۔ الطاف گجر نے چھ فٹ سے زیادہ دیوار پر کھڑے جنید کو دیکھا ، جس کے ہاتھ میں سائیلنسر والا آ ٹو میٹک پسٹل تھا جو مسلسل اس کے بندوں کے بدن میں سیسہ اتار رہا تھا۔
اس نے ایک دم اندر جانے کے لئے قدم بڑھائے ہی تھے کہ میں نے آ گے بڑھ کر اسے گردن سے پکڑ لیا۔ پھر پوری قوت سے اس کی آنکھوں کے درمیان پنچ مارا۔ وہ چند لمحوں کے لئے اندھا ہو گیا۔ میں نے اسے گھسیٹا اور باہر کی جانب لے کر بڑھا۔ میں گلی میںآ یا تو دو بندے حویلی میں سے نکلے۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی فائر کرتے ، جنید نے ان پر فائر کر دیا۔ اکبر جیپ کا دروازہ کھول چکا تھا۔
میں نے اسے اندر دکھیلا اور خود بیٹھ گیا۔ وہ تڑپ رہا تھا۔ میں نے اس کے سر پر زور سے ہاتھ مارا وہ بد حواس ہو گیا۔ تب تک جنید آ گیا ۔ اس نے آ تے ہی پسٹل کا دستہ اس کے سر پر مارا ۔ وہ بے ہوش ہو گیا۔ اکبر نے تک تک جیپ بڑھا دی تھی۔ وہ بندہ گاؤں سے نکل کر باہر والے راستے پر تھا۔ وہ مسلسل رابطے میں تھا۔ وہاں ابھی تک کچھ پتہ نہیں تھا۔ اکبر نے جیپ ادھر بڑھا دی۔
راستے میں اسے اٹھایا اور ہم تیزی سے مین روڈ جانب بڑھ گئے۔
” اصل خطرہ اب ہو گا سر جی۔“ اس بندے نے بتایا
” کیسا خطرہ؟“ جنید نے پوچھا
” یہ سارا علاقہ اس کے بندوں سے بھرا پڑا ہے۔ سیل فون سے چند منٹوں میں یہ خبر پورے علاقے میں پھیل جائے گی۔ ہمارا نکلنا …“ وہ کہہ رہا تھا کہ سامنے دائیں طرف سے دو کاریں بھاگتی ہوئیں مین روڈ کی طرف آ رہی تھیں۔ ان سے کچھ فاصلے پر مزید گاڑیاں بھی تھیں۔ ہمارے روڈ تک پہنچنے سے پہلے وہ روڈ تک پہنچ جاتی تو وہ ہمارا راستہ رو ک سکتی تھیں۔

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط