” جنید ، گجر کو سنبھالو، میں کار والوں کودیکھتا ہوں، اکبر جیپ نہیں روکنی ، ان میں مار دو بے شک ۔“ میں نے کہا اور کھلے ہوئے سن روف میں لانچر لے کر اٹھ گیا۔ میں یونہی ان پر فائر نہیں کرنا چاہتا تھابلکہ یہ تصدیق کرنا چاہتا تھا کہ وہ واقعی ہمارا راستہ روکنے کے لئے آ ئے ہیں یا اس معاملے سے متعلق ہیں ہی نہیں۔ زیادہ وقت نہیں گذرا تھا۔ وہ کاریں کچھ فاصلے پر سڑک کے بالکل درمیان میں رک گئیں۔
انہوں نے راستہ روک لیا تھا۔ اگر ہم سائیڈ سے بھی ہٹ کر جاتے تو رفتار بہر حال کم کرنا پڑتی۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ ہمارا راستہ روکنا چاہتے تھے ۔ میں نے نشانہ لیا اور لانچر داغ دیا۔ اگلی ہی لمحے ایک دھماکا ہوا اور وہ کاریں کئی فٹ اچھلیں۔ اس کے فوراً بعد دو دھماکے ہوئے۔اور وہ کاریں پھٹ گئیں۔
(جاری ہے)
اس وقت تک ہم ان کے قریب پہنچ چکے تھے۔ اکبر کو رفتار بالکل آ ہستہ کرنا پڑی ۔
اس نے سائیڈ سے جیپ نکالی اور پھر اسی طرح آگے تیز رفتاری سے بڑھنے لگا۔
اس وقت ہم مین روڈ پر چڑھ آئے تھے ۔ مجھے پورا یقین تھا کہ مین روڈ پر ہمارے لئے ناکے لگ جائیں گے۔ اسی لئے میں الطاف گجر کا بندو بست وہیں کیا ہوا تھا۔ شیخو پورہ سے پہلے ہی دائیں جانب سڑک کنارے ایک کار خانہ تھا۔ اس کا مالک اگر چہ لاہور میں رہتا تھا ،لیکن ہمارے لئے وہاں آ یاہوا تھا۔
اس نے اپنی رہائش کے لئے وہیں ایک شاندار سیٹ اپ بنایا ہوا تھا ۔ ظاہر ہے یہ ان لوگوں کی عیاشیوں اور خفیہ معاملات کے لئے ہوتے ہیں۔ وہاں ملازمین بھی ان کے اعتماد کے لوگ رکھے ہوئے تھے۔ میرا فون پر رابطہ ہو چکا تھا۔ وہ میرے انتظار میں تھا۔ ہم اس طرف جا پہنے جہاں اس نے الگ کوٹھی بنائی ہوئی تھی۔ وہاں ہر طرف ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ ہم نے الطاف گجر کو نکالا اور اندر لے گئے۔
وہ ابھی تک بے ہوش تھا۔ تہہ خانے میںآ منے سامنے چار کمرے تھے۔ ان کے درمیان ایک راہداری تھی۔ اندر کمروں میں قالین بچھے ہوئے تھے اور دیواروں کے ساتھ گاؤ تکئیے لگے ہوئے تھے۔ ایک کمرے میں اسے لے جا پھینکا ۔ اکبر اور جنید وہیں ٹھہر گئے ۔ میں وہاں سے باہر جاتے ہوئے کہا
” جیسے ہی اسے ہوش آ جائے مجھے بتانا۔“
انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
میں اوپر آ گیا۔ جیپ پورچ سے ہٹا دی گئی تھی۔
میں ڈرائنگ روم میں آن بیٹھا اور فہیم سے رابطہ کیا۔
” وہاں چھ بندے سڑک پر مارے گئے ہیں اور تین گاؤں میں، پولیس کو مصیبت پڑ گئی ہے ۔“ فہیم نے پوری تفصیل بتانے کے بعد کہا
” بات آ ئی جی تک پہنچی ہے کہ نہیں؟“ میں نے پوچھا
” پہنچ گئی ہے ؟“
” اوکے ، میں دوبارہ رابطہ کرتا ہوں۔
“ میں نے کہا اور فون بند کر دیا۔ میرا میزبان میرے سامنے نہیںآ رہا تھا۔ اس کی وجہ مجھے سمجھ آرہی تھی ۔ وہ میرا سامنا کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ میں نے بھی اسے ڈسٹرب نہیں کیا۔ مجھے کچھ دوسرے لوگوں سے بھی رابطہ کرنا تھا، میں نے ان سے بات کی ۔ میں ابھی اسی میں مصروف تھا کہ اکبر نے مجھے کال کی کہ اسے ہوش آ گیاہے۔ میں وہاں سے اٹھا اور تہہ خانے میں چلا گیا۔
الطاف گجر آ نکھیں پھاڑے مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں اس کے سامنے گاؤ تکیے کے سہارے بیٹھا اس کی جانب مسلسل دیکھ رہا تھا۔ تبھی وہ سہمی ہوئی آواز میں بولا
” کون ہو تم؟“
” اپنے گھر میں تو کتا بھی شیر ہو تا ہے ، تم تو کتے سی بھی کم نکلے ہو ، یہاں تمہاری ہوا ہی نکل گئی ہے۔“ میں سرد سے لہجے میں کہا
” میں ، نہیں جانتا کہ تم کون ہو ۔
“ اس نے اسی طرح ڈرے ہوئے انداز میں کہا
” یہی بات تم اپنے گھر میں بھی کر سکتے تھے، تین بندے گھر میں مروا کر، بار بندے سڑک پر مارے گئے، کیا فائدہ ہوا ، تم اب ہماری قید میں ہو۔“
” پندرہ بندے مارے گئے؟“ وہ یوں بولا جیسے ابھی بے ہوش ہو جائے گا۔
” سڑک پر تو وہی مرے ہوں گے نا،جو تیرے ڈیرے کتوں کی طرح پڑے رہتے ہیں اور تیرے گندے عزائم میں تیری مدد کرتے تھے ، مالک کی وفاداری میں آئے اور مارے گئے۔
سچ بتانا، ان میں کتنے بھارتی تھے اور کتنے یہاں کے مقامی ۔“ میں نے پوچھا تو وہ میری جانب یوں دیکھنے لگا جیسے اس میں خون ہی نہ رہاہو۔
” کک… کون ہو تم؟“
” وقت ضائع نہ کرو، اگر زندگی چاہتے ہو تو، جو میں پوچھو بتاتے جانا، ورنہ ، تم موت مانگو گے وہ نہیں ملے گی۔“
” تم خفیہ والے ہو یا …“ اس نے کہنا چاہا تو مجھے ایک دم سے غصہ آ گیا
” میں چاہے تمہارے باپ ہوں۔
میں نے جو پوچھا ہے اس کا جواب دو ۔“
” ہاں ، ان میں چند لوگ ہیں جو بھارتی ہیں۔“
” کتنے لوگ پاکستان میں پھیلا چکے ہو؟“ میں نے پوچھا تو وہ سو چتے ہوئے بولا
” یہی کوئی ، تیس چالیس تو ہوں گے اب تک۔“
” تجھ جیسے بے غیرت کو یہ سمجھانا بہت مشکل ہے کہ یہ اپنی ہی قوم کے خلاف کتنا بڑا جرم ہے ۔ وہ یہاں ہمارے اچھے کے لئے تو نہیںآ ئے ۔
خیر۔! پوری تفصیل چاہئے مجھے ان بندوں کی ، کون کون اس میں ملوث ہے ۔ تعاون کرو گے تو تیری بیوی بچے بچ جائیں گے ،میں تجھے بھی کچھ نہیں کہوں گا۔ لیکن اگر ذرا سی بھی بے غیرتی کی تو اس زمیں سے تیری نسل ختم ہو جائے گی۔“ یہ کہہ کر میں اٹھا اور باہر نکل گیا۔ جنید اور اکبر سمجھ چکے تھے کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ میں اوپر آ یا تو میر ا میزبان مضطرب سا ڈرائینگ روم میں ٹہل رہاتھا۔
مجھے دیکھتے ہی سیدھا ہو گیا۔
” یہ اس وقت تک یہاں رہے گا ، جب تک اس سے پوری معلومات نہیں مل جاتیں۔ زیادہ سے زیادہ آج رات یاکل کا دن۔ آ ؤ مجھے چھوڑدو۔“ میں نے کہا تو وہ ہچکچاتے ہوئے بولا
” اگر آ پ کہیں تو میں اِدھر ہی رہتاہوں۔ کسی وقت بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ میں ڈرائیور کو بھیج دیتا ہوں یا آپ خود میری کار لے جائیں۔“
” چابی کہاں ہے ؟“ میں نے ہاتھ بڑھایا تو اس نے فوراً جیب سے چابی نکالی اور میری طرف بڑھا دی۔
میں چابی لے کر باہر آ گیا۔ پورچ میں اس کی سیوک کھڑی تھی ۔ میں اس میں بیٹھا اور لاہور کی طرف نکل گیا۔
رات کافی ہو گئی تھی۔میں الطاف گجر کو چھوڑ کر واپس آ رہا تھا، اس وقت میں راوی پل سے کافی پیچھے تھا کہ کرنل سرفراز کا فون آ گیا۔ حال احوال کے بعد انہوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ میں ایک بڑی کامیابی کی طرف بڑھ گیا ہوں۔ کافی عرصے سے گینگ مل نہیں رہا تھا۔
” پتہ نہیں کتنے بندے اس نے ملک میں پھیلا دئیے ہیں۔“ میں نے کہا
” وقت لگے گا لیکن وہ مل جائیں گے ، خیر تم روای پل پر پہنچو گے تو اس سے پہلے ہی ایک سرخ ہنڈا ملے گی۔ اس میں ایک لڑکا ہے طارق نذیر، وہ تجھے ملے، باقی ساری بات وہ بتا دے گا۔ غیر معمولی اعتماد کا لڑ کا ہے ۔“
” ٹھیک ہے ۔“ میں نے مختصر جواب دیا
” میں تم سے بعد میں بات کروں گا، ممکن ہوا تو تجھے ملنے آ ؤں گا۔
اپنا بہت خیال رکھنا۔“ یہ کہہ کر انہوں نے فون بند کر دیا۔ ان کا فون بند ہوتے ہی فون پر کال آ گئی ۔
” میں طارق نذیر بات کر رہا ہوں اور آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔“
” میں پانچ منٹ میں پہنچ رہاہوں ۔“ میں کہا اور فون بند کر دیا۔
راوی پل سے پہلے ہی سڑک کنارے سرخ ہنڈا کھڑی تھی ۔ ایک لڑکا اس کا ٹائر بدل رہا تھا ، جبکہ سوٹ میں ملبوس ایک وجہیہ اور لمبے قد کالڑکا پاس کھڑا تھا۔
عام لوگوں یہی دیکھ سکتے تھے کہ کار کا ٹائر بدلا جا رہا ہے ۔وہ نظر انداز کرکے آگے گذر رہے تھے۔ میں اس کے پاس جا کر رک گیا۔لمبے قد والے مجھے دیکھا اور مسکراتے ہوئے بنا کچھ کہے میرے ساتھ پسنجر سیٹ پر آن بیٹھا۔ وہ طارق نذیر تھا۔ پل پار کرنے تک وہ اپنے بارے میں بتا چکا تھا۔
” یہ کافی بڑا اور مضبوط گینگ ہے سر جی، میں پچھلے ماہ سے اس پر کام کر رہاتھا۔
لیکن کوئی ایسا ثبوت نہیں تھا جس کے بل بوتے پر میں کو ئی کاروائی کر سکتا یا آگے بڑھ سکتا۔“ اس نے اعتراف کرتے ہوئے کہا
” ان کی طرف توجہ کیسے گئی؟“ میں نے پوچھا
” یہ اطلاع تو تھی کہ سرحد پار سے لوگ آئے ہیں، ان میں مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی، لیکن وہ کہاں کھپ جاتے ہیں، اس کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ ایک ماہ پہلے سیکٹریٹر ی سطع کے بندے نے ایک نجی محفل میں لطاف گجر سے کافی بڑی رقم کا مطالبہ کیا۔
اس معاملے کو لے کر ان میں کچھ تو تکار بھی ہو گئی۔ محفل میں تو بات آئی گئی ہو گئی لیکن اگلی صبح وہ سیکریٹر ی اپنے ہی گھر میں مردہ پایا گیا۔ اس قتل کی تفتیش میں نہ صرف ناکامی ہوئی بلکہ الطاف گجر کے بارے میں کوئی بارے میں کوئی ثبوت ہاتھ نہیںآ یا۔ سیکریٹر ی کے ایک دوست نے مجھے صرف اتنا بتایا تھا کہ رقم کا مطالبہ کسی لمبے ہی دو نمبر دھندے کی وجہ سے تھا۔
تب سے میں کوشش کر رہا تھا ۔ مگر ہاتھ نہ ڈال سکا۔“
” یہ پتہ چلا تھا کہ بھارت سے آنے والے بندے آگے بھیج رہا تھا؟“ میں نے پوچھا
”یہی تو ان دنوں میں مجھے پتہ چلا تھا۔ قتل والا معاملہ تو پیچھے رہ گیا، میں اس کی چھان بین میں لگ گیا۔“ اس نے تیزی سے کہا
” اب سب کچھ پتہ چل جائے گا۔“ یہ کہہ کر میں اس سمجھانے لگا کہ اب کرنا کیا ہے ۔ وہ سنتا رہا ۔ یہاں تک کہ ہم ایک اوپن ائیر ریستوران کے پاس پہنچ گئے ۔ کھانا کھانے تک میں نے اسے سمجھا دیا ۔ پارکنگ میں اس کی کار آچکی تھی۔ وہ اس طرف بڑھ گیا اور اپنی کار کی طرف۔ ہمارے درمیان اب فون پر ہی رابطہ ہونا تھا۔کھیل اب شروع ہوا تھا۔
#…#…#