رات کا آخری پہر چل رہا تھا۔جسپال سنگھ جالندھر کے ایک گھر میں موجود تھا۔ یہ اس نے اپنے لوگوں کا ٹھکانہ بنا کر دیا تھا۔ اصل میں جب اس نے اروند کو کینیڈا بھیجا تھا ، اس کے فوری بعد روہی کی طرف سے لوگوں کو ایک مر کز پر جمع کیا جانے لگا تھا۔ ایک مرکز جالندھر میں بن گیا تو دوسرا لاہور میں ۔ وہ ایک لمبی خوشگوار نیند کے بعد فریش ہو کر کمپیوٹر کے سامنے آن بیٹھا تھا۔
اروند آن لائین تھا۔ دوسری طرف جمال موجود تھا۔ اروند انہیں بتانے لگا تھا۔
”دونوں طرف کے سیاسی حلقوں میں جو کھلبلی مچی سو مچی، خفیہ ایجنسیوں پر بھی سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ سیاسی حلقے انہیں ہی مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔“
” وہ جو بھی کہتے رہیں، سب سمجھتے ہیں کہ یہ ردعمل تو ہونا ہی ہے ، تم ذرا کال ملاؤ، میں رامیش پانڈے سے بات کرنا چاہتا ہوں ۔
(جاری ہے)
“ جسپال نے کہا
” ٹھہرو۔! پہلے یہ بتاؤ ، کیابات کرو گے؟“ جمال نے تیزی سے پوچھا
” یہی کہ … وہ … اب ہوشیار ہو جائیں۔“ اس نے کہا تو جمال کے ساتھ اروند بھی ہنس دیا۔ جسپال کو سمجھ آ گئی کہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔
” یار جسپال کیا تمہارا کچھ کہنا بنتا ہے۔“ جمال نے پوچھا۔
” نہیں۔“ اس نے ایک دم سے اعتراف کر لیا لیکن پھر تیزی سے بولا،” یار انہیں پتہ تو چلنا چاہئے کہ وہ ہر وقت ہماری ہٹ لسٹ پر ہیں۔
“
”میں کرتا ہوں بات ۔ تم سنو۔“ جمال نے کہا تو اروند سنگھ کال ملانے لگا۔ کچھ دیر بعد ہی کال مل گئی۔ فون اس کے کسی بندے نے اُٹھایا ۔ کچھ دیر بحث کے بعد اس نے فون رامیش پانڈے کو دے دیا۔
”کون ہو تم ؟“ اس نے بڑے سکون سے پوچھا
” وہی ، جس نے ارجن کھتری کو قتل کیا۔ جس کی لاش ابھی تک تم لوگوں کو نہیں ملی۔“ جمال نے بھی اسی سکون سے کہا تو تیزی سے بولا
” کہاں ہے اس کی لاش؟“
” بتاتا ہوں، لیکن اس سے پہلے تجھے بتانا بہت ضروری ہے۔
“ جمال نے اپنا سکون نہیں ٹوٹنے دیا
” کیا کہنا ہے مجھ سے ؟“ وہ بولا
” یہی کہ اگر تم لوگ ہندو راشٹر ایہ چاہتے ہو نا تو ہم بھی ایک سیکولر بھارت چاہتے ہیں۔ ممبئی حملوں میں تم لوگ بہت بڑی غلطیاں کر گئے ہو ، مگر ہم نہیں کریں گے۔ میں چاہوں تو تیرے وہ سارے شدت پسند ہندو جیلوں ہی میں مار دوں ، کرتے ہو سودا؟“ جمال نے اس بار انتہائی غصے میں کہا
” تمہیں غلط انفارمیسن ملی ہے۔
ہم ایسا نہیں چاہتے ۔ ہم تو حکومت کی …“ اس نے کہنا چاہا تو جمال نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
” جھوٹ مت بولو پانڈے، میں اس وقت سے تمہاری بے غیرتیاں دیکھ رہا ہوں ، جب تم نے مختلف جگہوں سے بندے اٹھا کر ایک جزیرے پر اکھٹے کئے۔ وہ تمہارا پلان یہی تھا کہ ممبئی بم دھماکوں کے بعد انہی لوگوں کو پکڑوا دو اور بات ختم۔ اس کے ساتھ تم نے دیکھا کہ نیوی کو تم کس حد تک دھوکا دے سکتے ہو، تم نے اپنی وزارت کا بھر پور فائدہ اٹھا یا پانڈے۔
لیکن اب نہیں۔“ جمال نے طنزیہ لہجے میں ہتک آ میز انداز میں کہا
” کیا چاہتے ہو اب؟“ اس کے لہجے میں غصہ چھلک پڑا تھا
” یہی کہ اپنی ساری دُکانداری سمیٹ لو۔ وہ بندہ جو تم نے پکڑ لیا ہے ،بلکہ پکڑوا دیا ہے ، اس کے ساتھ جو مرضی سلوک کرو ، لیکن کھیل یہیں بند ہونا چاہئے ۔“ جمال نے تحکمانہ انداز میں کہا
” دیکھو ، تم اپنا کام کرو ، میں اپنا کام کرتا ہوں۔
ایک ارجن کھتری کو مار لینے سے یہ مت سمجھو کہ ہماری اتنی بڑی تحریک ختم ہو جائے گی۔ ایسا نہیں ہوگا۔“
” اور اب تم کچھ کر بھی نہیں سکو گے۔ میں چاہو تو تمہیں آ سانی سے ختم کر سکتا ہوں لیکن میں تمہیں زندہ رکھنا چاہتا ہوں کیونکہ دشمن کو زندہ رکھنا ہی نہ صرف مردانگی ہے بلکہ میں نے ابھی تم سے ادھار بھی چکانا ہے۔“
” کیسا ادھار ، کیسی مردانگی۔
“
” ادھار یہ ہے کہ جگجیت بھر بھرے کے قاتل مجھے دے دو، تو زیادہ بندے نہیں پھڑ کاؤں گا۔ میں اب تمہیں فون نہیں کروں گا۔ میں اس وقت سمجھ جاؤں گا کہ تم میری بات ماننا چاہتے ہو۔جب تم چوبیس گھنٹوں میں اپنی وزارت سے استعفی دے دو گے ، نہ دیا تو میں تمہیں مار دوں گا، یہ چنوتی(چیلنج )ہے تمہیں ۔“
” میں انتظار کروں گا۔“ اس نے کہا
” چلو پھر پہلی لاش کا تحفہ لو ، وہ کھیتل انبالہ روڈ پر کالج سے آگے پڑی ہے اٹھا لو جا کر ۔
صبح ہونے تک مزید لاشیں مل جائیں گی۔“ جمال نے تو دوسری طرف سے چند لمحوں تک کوئی بات نہیں ہوئی ، پھر وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولا
” میں انتظار کروں گا۔“ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ ان کے درمیان چند لمحے خاموشی رہی تبھی جسپال بولا
” نہیں کرنی تھی بات، اب اپنا قول نبھانا پڑے گا۔“
” یہ نبھانا ہی تھا میری جان، تم نے شاید اسے اتنا سنجیدہ نہیں لیا ، مگر اس کی کھوج میں رہا کہ آ خر اس جزیرے میں کیوں لے جایا گیا اور وہ کون تھا۔
میں نے اس سے بدلہ لینا ہے وہ میں لے لوں گا۔ اسے بچنے کا ایک راستہ دیاہے لیکن وہ نہیں مانا، اب بھی اگر وہ سوچ لے ۔ خیر ۔! تم سب سے پہلا یہ کام کرو ، واپس اوگی جاؤ ۔ اور انو جیت کو پنجاب کی سیاست میں داخل کرنے کی بھر پور محنت کرو۔چند دن ہر پریت کے ساتھ گزارو۔میں دیکھ لیتا ہوں سب۔“ جمال نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا
” یہ تم مجھ پر طنز کر رہے ہو؟“ جسپال نے خفگی سے کہا
” نہیں تمہیں بے عزت کر رہا ہوں۔
“جمال نے ہنستے ہوئے کہا تو ارند کے ساتھ کئی لوگوں کا قہقہ لگ گیا جو یہ سب سن رہے تھے۔
” اب تو ہوگیا۔ کیا فائدہ ملا تجھے۔“ جسپال نے ڈھیٹ بنتے ہوئے کہا
” یار سر نہ کھاؤ۔ “ جمال زچ ہوتا ہوا بولا
” اوکے ، جیسا تم کہوگے ویسا ہی ہوگا، ویسے آ ئینہ دیکھتے ہو آ ج کل ، تمہا را چہرہ کسی غریب قسم کی کمپنی کی ادھیڑ عمر ریسپشنسٹ کی طرح لگ رہا ہے تم بھی جاؤ نور نگر اور سوہنی کے ساتھ چند گذارو ، فریش ہو جاؤ گے ۔
“ جسپال نے بھی مذاق کیا ۔ لیکن اس پر جمال نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا
” اور ہاں ، نور نگر سے یاد آیا، تم فوری طور پر مناسکر جاؤ، یا بندہ بھیجو، وہاں سے معلوم کرو کہ رام نام کا کوئی جوگی ہے ؟“
” کیا ہوا؟ “ جسپال نے پوچھا تو جمال نے اسے اختصار سے بتا دیا
” ارے اس سانپ کو وہاں کیوں چھوڑ آئے۔ وہ تو …“ اس نے کہنا چاہا تو جمال بولا
” اس کا زہر میں نے نکال دیا ہے ۔
وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ ویسے میں اس کا پوچھتا ہوں۔ جو تمہیں کہا ہے وہ کرو۔“ جمال نے کہا ۔ان کے درمیان مزید بات چلتی کہ اروند نے کہا
” ابھی رامیش پانڈے نے پرائم منسٹر سیکرٹیریٹ فون کیا ہے ۔ اس کے بعد اس نے ممبئی میں کال ملائی ہے ۔ اس کے بارے کچھ دیر بعد بتاتا ہوں۔“
” وہ جو مرضی کرے ، ہم اپنا کام کریں گے۔“جمال نے کہا اور پھر یونہی ان کے درمیان بحث چھڑ گئی۔
یہاں تک کہ انہیں باتیں کرتے ہوئے سورج نکل آیا ۔
” جمال ،یہاں تو نکل آیا ہے سورج ،تمہاری طرف چند منٹ بعد نکلے گا۔“ جسپال نے کہا
” لیکن تو نے اگلے جو بیس گھنٹوں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں میں رہنا ہے ۔ یہ کنفرم ہو جائے کہ تم اوگی پنڈ ہی میں ہو ۔ کل سارا دن لوگوں میں گزارنا، ہوسکے تو لوگوں کو اکھٹا کرکے کھیل تماشا کر لینا۔“ جمال نے اُسے سمجھایا توجسپال کو سمجھ آ گئی تھی کہ اس نے کیا کرنا ہے ۔
کچھ دیر بعد ان کی باتیں ختم ہو گئیں۔
دو گھنٹے بعد وہ نکلا اور اوگی کی طرف چل پڑا۔ جہاں ہر پریت اس کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ اوگی پہنچا تو ناشتہ میز پر لگا ہوا تھا۔ پھوپھو کلجیت ، انوجیت اور ہر پریت اس کا انتظار کر رہے تھے۔ خوشگوار ماحول میں ناشتہ ختم ہوا ۔ کلجیت کور اوگی میں کسی کے ہاں چلی گئیں اور وہ تینوں اسی موضوع پر بات کرنے لگے کہ آئندہ الیکشن کیسے لڑنا ہے۔ اسی دوران اس نے جوگی ؟؟؟کے بارے میں معلومات کے لئے ایک بندے کو مناسکر بھجوا دیا۔
#…#…#