Episode 80 - Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 80 - قلندر ذات (تیسراحصہ) - امجد جاوید

 رات کا آخری پہر چل رہا تھا۔جسپال سنگھ جالندھر کے ایک گھر میں موجود تھا۔ یہ اس نے اپنے لوگوں کا ٹھکانہ بنا کر دیا تھا۔ اصل میں جب اس نے اروند کو کینیڈا بھیجا تھا ، اس کے فوری بعد روہی کی طرف سے لوگوں کو ایک مر کز پر جمع کیا جانے لگا تھا۔ ایک مرکز جالندھر میں بن گیا تو دوسرا لاہور میں ۔ وہ ایک لمبی خوشگوار نیند کے بعد فریش ہو کر کمپیوٹر کے سامنے آن بیٹھا تھا۔
اروند آن لائین تھا۔ دوسری طرف جمال موجود تھا۔ اروند انہیں بتانے لگا تھا۔
”دونوں طرف کے سیاسی حلقوں میں جو کھلبلی مچی سو مچی، خفیہ ایجنسیوں پر بھی سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ سیاسی حلقے انہیں ہی مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔“
” وہ جو بھی کہتے رہیں، سب سمجھتے ہیں کہ یہ ردعمل تو ہونا ہی ہے ، تم ذرا کال ملاؤ، میں رامیش پانڈے سے بات کرنا چاہتا ہوں ۔

(جاری ہے)

“ جسپال نے کہا
” ٹھہرو۔! پہلے یہ بتاؤ ، کیابات کرو گے؟“ جمال نے تیزی سے پوچھا
” یہی کہ … وہ … اب ہوشیار ہو جائیں۔“ اس نے کہا تو جمال کے ساتھ اروند بھی ہنس دیا۔ جسپال کو سمجھ آ گئی کہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔ 
” یار جسپال کیا تمہارا کچھ کہنا بنتا ہے۔“ جمال نے پوچھا۔
” نہیں۔“ اس نے ایک دم سے اعتراف کر لیا لیکن پھر تیزی سے بولا،” یار انہیں پتہ تو چلنا چاہئے کہ وہ ہر وقت ہماری ہٹ لسٹ پر ہیں۔
“ 
”میں کرتا ہوں بات ۔ تم سنو۔“ جمال نے کہا تو اروند سنگھ کال ملانے لگا۔ کچھ دیر بعد ہی کال مل گئی۔ فون اس کے کسی بندے نے اُٹھایا ۔ کچھ دیر بحث کے بعد اس نے فون رامیش پانڈے کو دے دیا۔
”کون ہو تم ؟“ اس نے بڑے سکون سے پوچھا
” وہی ، جس نے ارجن کھتری کو قتل کیا۔ جس کی لاش ابھی تک تم لوگوں کو نہیں ملی۔“ جمال نے بھی اسی سکون سے کہا تو تیزی سے بولا
” کہاں ہے اس کی لاش؟“
” بتاتا ہوں، لیکن اس سے پہلے تجھے بتانا بہت ضروری ہے۔
“ جمال نے اپنا سکون نہیں ٹوٹنے دیا
” کیا کہنا ہے مجھ سے ؟“ وہ بولا
” یہی کہ اگر تم لوگ ہندو راشٹر ایہ چاہتے ہو نا تو ہم بھی ایک سیکولر بھارت چاہتے ہیں۔ ممبئی حملوں میں تم لوگ بہت بڑی غلطیاں کر گئے ہو ، مگر ہم نہیں کریں گے۔ میں چاہوں تو تیرے وہ سارے شدت پسند ہندو جیلوں ہی میں مار دوں ، کرتے ہو سودا؟“ جمال نے اس بار انتہائی غصے میں کہا
” تمہیں غلط انفارمیسن ملی ہے۔
ہم ایسا نہیں چاہتے ۔ ہم تو حکومت کی …“ اس نے کہنا چاہا تو جمال نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
” جھوٹ مت بولو پانڈے، میں اس وقت سے تمہاری بے غیرتیاں دیکھ رہا ہوں ، جب تم نے مختلف جگہوں سے بندے اٹھا کر ایک جزیرے پر اکھٹے کئے۔ وہ تمہارا پلان یہی تھا کہ ممبئی بم دھماکوں کے بعد انہی لوگوں کو پکڑوا دو اور بات ختم۔ اس کے ساتھ تم نے دیکھا کہ نیوی کو تم کس حد تک دھوکا دے سکتے ہو، تم نے اپنی وزارت کا بھر پور فائدہ اٹھا یا پانڈے۔
لیکن اب نہیں۔“ جمال نے طنزیہ لہجے میں ہتک آ میز انداز میں کہا
” کیا چاہتے ہو اب؟“ اس کے لہجے میں غصہ چھلک پڑا تھا
” یہی کہ اپنی ساری دُکانداری سمیٹ لو۔ وہ بندہ جو تم نے پکڑ لیا ہے ،بلکہ پکڑوا دیا ہے ، اس کے ساتھ جو مرضی سلوک کرو ، لیکن کھیل یہیں بند ہونا چاہئے ۔“ جمال نے تحکمانہ انداز میں کہا
” دیکھو ، تم اپنا کام کرو ، میں اپنا کام کرتا ہوں۔
ایک ارجن کھتری کو مار لینے سے یہ مت سمجھو کہ ہماری اتنی بڑی تحریک ختم ہو جائے گی۔ ایسا نہیں ہوگا۔“
” اور اب تم کچھ کر بھی نہیں سکو گے۔ میں چاہو تو تمہیں آ سانی سے ختم کر سکتا ہوں لیکن میں تمہیں زندہ رکھنا چاہتا ہوں کیونکہ دشمن کو زندہ رکھنا ہی نہ صرف مردانگی ہے بلکہ میں نے ابھی تم سے ادھار بھی چکانا ہے۔“
” کیسا ادھار ، کیسی مردانگی۔
” ادھار یہ ہے کہ جگجیت بھر بھرے کے قاتل مجھے دے دو، تو زیادہ بندے نہیں پھڑ کاؤں گا۔ میں اب تمہیں فون نہیں کروں گا۔ میں اس وقت سمجھ جاؤں گا کہ تم میری بات ماننا چاہتے ہو۔جب تم چوبیس گھنٹوں میں اپنی وزارت سے استعفی دے دو گے ، نہ دیا تو میں تمہیں مار دوں گا، یہ چنوتی(چیلنج )ہے تمہیں ۔“
” میں انتظار کروں گا۔“ اس نے کہا 
” چلو پھر پہلی لاش کا تحفہ لو ، وہ کھیتل انبالہ روڈ پر کالج سے آگے پڑی ہے اٹھا لو جا کر ۔
صبح ہونے تک مزید لاشیں مل جائیں گی۔“ جمال نے تو دوسری طرف سے چند لمحوں تک کوئی بات نہیں ہوئی ، پھر وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولا
” میں انتظار کروں گا۔“ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ ان کے درمیان چند لمحے خاموشی رہی تبھی جسپال بولا
” نہیں کرنی تھی بات، اب اپنا قول نبھانا پڑے گا۔“
” یہ نبھانا ہی تھا میری جان، تم نے شاید اسے اتنا سنجیدہ نہیں لیا ، مگر اس کی کھوج میں رہا کہ آ خر اس جزیرے میں کیوں لے جایا گیا اور وہ کون تھا۔
میں نے اس سے بدلہ لینا ہے وہ میں لے لوں گا۔ اسے بچنے کا ایک راستہ دیاہے لیکن وہ نہیں مانا، اب بھی اگر وہ سوچ لے ۔ خیر ۔! تم سب سے پہلا یہ کام کرو ، واپس اوگی جاؤ ۔ اور انو جیت کو پنجاب کی سیاست میں داخل کرنے کی بھر پور محنت کرو۔چند دن ہر پریت کے ساتھ گزارو۔میں دیکھ لیتا ہوں سب۔“ جمال نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا
” یہ تم مجھ پر طنز کر رہے ہو؟“ جسپال نے خفگی سے کہا
” نہیں تمہیں بے عزت کر رہا ہوں۔
“جمال نے ہنستے ہوئے کہا تو ارند کے ساتھ کئی لوگوں کا قہقہ لگ گیا جو یہ سب سن رہے تھے۔
” اب تو ہوگیا۔ کیا فائدہ ملا تجھے۔“ جسپال نے ڈھیٹ بنتے ہوئے کہا
” یار سر نہ کھاؤ۔ “ جمال زچ ہوتا ہوا بولا
” اوکے ، جیسا تم کہوگے ویسا ہی ہوگا، ویسے آ ئینہ دیکھتے ہو آ ج کل ، تمہا را چہرہ کسی غریب قسم کی کمپنی کی ادھیڑ عمر ریسپشنسٹ کی طرح لگ رہا ہے تم بھی جاؤ نور نگر اور سوہنی کے ساتھ چند گذارو ، فریش ہو جاؤ گے ۔
“ جسپال نے بھی مذاق کیا ۔ لیکن اس پر جمال نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا 
” اور ہاں ، نور نگر سے یاد آیا، تم فوری طور پر مناسکر جاؤ، یا بندہ بھیجو، وہاں سے معلوم کرو کہ رام نام کا کوئی جوگی ہے ؟“ 
” کیا ہوا؟ “ جسپال نے پوچھا تو جمال نے اسے اختصار سے بتا دیا
” ارے اس سانپ کو وہاں کیوں چھوڑ آئے۔ وہ تو …“ اس نے کہنا چاہا تو جمال بولا
” اس کا زہر میں نے نکال دیا ہے ۔
وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ ویسے میں اس کا پوچھتا ہوں۔ جو تمہیں کہا ہے وہ کرو۔“ جمال نے کہا ۔ان کے درمیان مزید بات چلتی کہ اروند نے کہا
” ابھی رامیش پانڈے نے پرائم منسٹر سیکرٹیریٹ فون کیا ہے ۔ اس کے بعد اس نے ممبئی میں کال ملائی ہے ۔ اس کے بارے کچھ دیر بعد بتاتا ہوں۔“ 
” وہ جو مرضی کرے ، ہم اپنا کام کریں گے۔“جمال نے کہا اور پھر یونہی ان کے درمیان بحث چھڑ گئی۔
یہاں تک کہ انہیں باتیں کرتے ہوئے سورج نکل آیا ۔
” جمال ،یہاں تو نکل آیا ہے سورج ،تمہاری طرف چند منٹ بعد نکلے گا۔“ جسپال نے کہا
” لیکن تو نے اگلے جو بیس گھنٹوں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں میں رہنا ہے ۔ یہ کنفرم ہو جائے کہ تم اوگی پنڈ ہی میں ہو ۔ کل سارا دن لوگوں میں گزارنا، ہوسکے تو لوگوں کو اکھٹا کرکے کھیل تماشا کر لینا۔“ جمال نے اُسے سمجھایا توجسپال کو سمجھ آ گئی تھی کہ اس نے کیا کرنا ہے ۔
کچھ دیر بعد ان کی باتیں ختم ہو گئیں۔
 دو گھنٹے بعد وہ نکلا اور اوگی کی طرف چل پڑا۔ جہاں ہر پریت اس کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ اوگی پہنچا تو ناشتہ میز پر لگا ہوا تھا۔ پھوپھو کلجیت ، انوجیت اور ہر پریت اس کا انتظار کر رہے تھے۔ خوشگوار ماحول میں ناشتہ ختم ہوا ۔ کلجیت کور اوگی میں کسی کے ہاں چلی گئیں اور وہ تینوں اسی موضوع پر بات کرنے لگے کہ آئندہ الیکشن کیسے لڑنا ہے۔ اسی دوران اس نے جوگی ؟؟؟کے بارے میں معلومات کے لئے ایک بندے کو مناسکر بھجوا دیا۔
                                  #…#…#

Chapters / Baab of Qalander Zaat Part 3 By Amjad Javed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

آخری قسط