یہ جو انتیریت، عبدودیت اور مرحبیت نعرہ زن ہیں، اس کے مقابل نعرہ حیدری لگا۔ جنہوں نے اس ملک کی دولت ، زمین اور وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے اور زیادہ سے زیادہ پر قبضہ کے خواہاں ہیں۔ ان کے پنجہ ہوس سے یہ ہتھیار چھین لو ۔دین پاک کی طرف آ جاؤ، پلیدیت کو جلا دو، مردہ تمنا کو جلا دو۔ عوام سے نفرت کرنے والے ، انہی لوگوں کو ان کے خدا وندِ افرنگ نے حریت پسندوں کے خون کے عوض یہ جاگیریں دی ہیں۔
ان حریت پسندوں کا خون ان کے ہاتھوں پر ہے۔ اور آج یہ تیری امنگوں کا خون بہا رہے ہیں۔تاکہ ہمیشہ کے لئے تجھے غلام بنائے رکھیں۔ اب یہ اس ملک کے خدا بنے بیٹھے ہیں۔
جس نے تیرے ارادے پر قبضہ کیا ہواہے، جس نے تجھے غلامی ، محکومی اور محتاجی میں ڈالا ہوا ہے ، وہ جانتے ہو کیا ہیں ؟ سرمایہ داری، جاگیر داری ، وڈیرہ شاہی ، ان کی غلامی سے نکل اور حق کی پناہ میں آ جا۔
(جاری ہے)
یہ تجھے آزاد کرتی ہے ، شیطانیت سے ، مادیت سے ، ہوسناکی سے۔
دھوکا باز شیطان کے چیلوں، ہوس پر ستوں نے تیری فکر اور وطن پر شب خون مارا ہواہے۔ اپنے اندر زندگی کی قوت کو پہچان وعقل کے ڈر اور خوف سے نکل کر عزم اور یقین لے ۔ دل کی طرف آ جا ۔ جہدِ مسلسل اور عمل ِپیہم کی طرف آ۔ اپنے دل سے قوت حاصل کر ، عقل کو شیطان کے پنجہ خونیں، شک اور ڈر سے پاک کر اور اپنے سامنے سے اس منظر کو ہٹا دے، اپنے ارادہ کو آ زاد کر لے۔
تم کتنے کروڑ ہو اور یہ چند لوگ ، جنہوں نے تیری فکر اور وطن پر قبضہ کر رکھاہے۔“
میں نے اسے پیغام دے دیا۔ میں کہہ چکا تو وہ بولا
” میں نے سن لیا اور سمجھ لیا۔ میں اسے ہمیشہ یاد رکھوں یہی سبق جب چاہیں سن لیں۔“
” اور پھر چلیں۔“ میں نے کہا اور چل دیا ۔ میں سمجھ رہا تھا کہ میں ایک نئے دور میں داخل ہونے جا رہاہوں۔
ولید نے علامہ اقبال ٹاؤن میں ایک گھر بنایا ہوا تھا۔
ہم وہاں چلے گئے۔ رات تک وہیں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ اس دوران مجھے کوئی فون نہیں ملا ۔ رات پڑتے ہی ہم وہاں سے اٹھ گئے۔ میں نے ولید سے اگلے دن ملنے کا وعدہ کیا تھا۔
میں واپس گھر پہنچا تو فہیم نے مجھے بتایا کہ بانیتا ممبئی پہنچ چکی ہے اور وہ ائیر پورٹ سے نوین کور کے ساتھ اس کے گھر کی طرف جا رہی ہے۔ میں نے ونود رانا کو فون کیا ۔ اس نے بتایا کہ رامیش پانڈے کی سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے ۔
انسداد دہشت گردی کے خصوسی اسکوڈ کو الرٹ کر دیا گیا تھا اور ممبئی میں کسی بھی قسم کی دہشت گردی کو روکنے کے احکامات جاری کر دئیے گئے تھے۔ پولیس کاایک دستہ اس کے گھرکی طرف روانہ کر دیا گیاتھا۔
میں نے جو چیلنج رامیش پانڈے کو دیا تھا، اس میں ابھی آٹھ گھنٹے سے بھی زیاد ہ وقت پڑا تھا۔ لیکن اس دوران مجھے یہ ثابت کرنا تھا کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔
مجھے ایک میل آ نا تھی، اسے پڑھنے کے بعد ہی میں اگلا قدم اٹھا سکتا تھا۔ رات دس بجے کے بعد وہ میل مجھے مل گئی۔
رامیش پانڈے کے راجھستان میںآ بائی گاؤں جگر واس میں ہی اس کی اصل طاقت تھی ۔یہی اس کا حلقہ تھا اور یہیں ان شدت پسندوں کا گڑھ تھا۔ بذات خود وہ ان سے دور رہتا تھا کہ عام عوام کو یہ تاثر دے سکے کہ وہ ان کے خلاف ہے اور سیکولر ہے، لیکن سب سے زیادہ تحفظ انہیں یہی فراہم کرتا تھا۔
وہیں ایک مندر تھا ۔ جس کے ساتھ ایک بڑا سارا دھرم شالہ بنا ہوا تھا۔ اسی میں ان کی ساری پلاننگ ہو تی تھی۔ اس وقت اس دھرم شالہ میں چند لوگوں کی میٹنگ جاری تھی۔ ان پر میری دھمکی کا اثر ہو گیا ہو ا تھا۔ وہ بے بس تھے کیونکہ انہیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ دھمکی آ ئی کس طرف سے ہے ۔ وہ رامیش پانڈے کو گاؤں آنے کا کہہ چکے تھے مگر وہ خود کو ممبئی میں زیادہ محفوظ تصور کر رہا تھا۔
انہوں نے گاؤں سے بندے بھی بھجوا دئیے تھے ۔ وہ اس انتظار میں تھے کہ رامیش پانڈے انہیں مدد کو کہے تو وہ اس کی مدد کر سکیں۔ لیکن خاموشی کے باعث وہ گومگو کی کیفیت میں تھے۔
یہ سب کچھ وہاں پرموجود میری آ نکھیں اور کان دیکھ اور سن رہے تھے۔ یہ سیٹ اپ بنانے میں مجھے بڑی محنت اور صبر کرنا پڑا تھا اور میں نے اپنے طور پر یہ کام کر لیاتھا۔
وہ میرے حکم کا انتظا ر کر رہے تھے کہ میں کب انہیں کہوں اور وہ اپنا کام شروع کر دیں۔ میں اس پر کاری ضرب لگانے کے لئے خود کو تیار کر چکا تھا۔
جگرواس میں میرے بھیجے ہوئے لوگ پہنچ چکے تھے اور ان کا میرے ساتھ مکمل رابطہ تھا۔ وہ سارے کے سارے پولیس یونیفارم میں تھے۔ وہاں کی مقامی پولیس کو جو احکامات ملے تھے، ان کے بارے میں راجھستان کی پولیس کو علم ہی نہیں تھا۔
وہ سب غیر پولیس والوں کی طرف سے اصل نمبروں سے احکامات جاری کئے گئے تھے۔ انہوں نے یہ تصدیق کر لی ہوئی تھی کہ جگرواس چوکی اور اس کے قریبی شہر اندور کی پولیس رامیش پانڈے کے لوگوں کی بے دام غلام تھی۔
میرے لوگ سیدھے اس دھرم شالہ کے مہا پجاری کے پاس پہنچے۔ انہوں نے وہاں پہنچ کر یہی بتایا کہ وہ لوگ رامیش پانڈے کی حفاظت کے لئے بھجوائے گئے ہیں ۔
اس پر دھرم شالہ کے مہاپجاری نے یہ سوال کیا
” رامیش پانڈے کی حفاظت کے لئے یہاں کیوں آ پہنچے ہو؟ وہ تو ممبئی میں بھائی اس وقت“
جس پر میرے لوگوں نے انہیں جواب دیا
” رامیش پانڈے کسی بھی وقت یہاں آ سکتے ہیں۔ ابھی ان کی طرف سے اطلاع آ جائے گی ۔ان کی آ مد یہاں خفیہ رکھی جارہی ہے۔ چاہیں تو تصدیق کر لیں۔“
” آپ لوگ میرے پاس کیوں آ ئے ہو ؟“ مہا پجاری نے پوچھا
” اس لئے کہ ایک آپ ہی ہیں جو ہماری یہاں مدد کر سکتے ہیں۔
تاکہ ہم یہاں بہترین حفاظتی انتظامات کر سکیں۔“ انہوں نے جواب دیا۔
انہوں نے اتنابڑا رسک یونہی نہیں لیا تھا ۔ مجھے یہ اطلاع مل چکی تھی کہ رامیش پانڈے ممبئی چھوڑ کر جگرواس کے لئے نکلنے والا ہے۔ حکومت اور سیکورٹی اداروں نے تو اس وہیں رہنے کا کہا تھا، اور اسے پورا تحفظ دینے کے لئے سیکورٹی بھی لگا دی تھی۔ مگر اس کے اپنے لوگوں، خاص طور پر ہندو راشٹرایہ والوں نے اسے ایک دو دن چھپ جانے کو کہا تھا۔
ان کا خیال یہی تھا کہ اگر اسے استعفی بھی دینا پڑا تو وہ ممبئی میں اس حیثیت سے نہیں رہ پائے گا۔ حکومت اسے اتنا تحفظ نہیں دے سکے گی۔ پھر بھی تو اسے جگرواس آ نا ہی ہے ۔عام عوام سے یہی کہا جانا تھا کہ اس کی طبیعت خراب ہے اور وہ ڈاکٹروں کے مشورے پرآرام کر رہا ہے، لیکن وہ گھر میں ہوگا ہی نہیں۔رات کے آخری پہر یہ فیصلہ ہوا۔ تبھی رامیش پانڈے نے جگرواس جانے کا عندیہ دے دیا۔
مہا پجاری نے اس بات کی تصدیق اپنے لوگوں سے کر لی کہ رامیش پانڈے وہیں آ رہا ہے توا س نے ان لوگوں کو وہاں حفاظتی اقدامات کرنے کی اجازت دے دی۔ وہ تیزی سے اپنا کام کر نے لگے۔
اروند سنگھ نے اس کے خفیہ فون تک رسائی حاصل کر لی ہوئی تھی ۔ جس میں یہ سارا پلان کیاگیا تھا۔مجھے لگا کہ جہاں وہ خود کو زیادہ محفوظ تصور کر رہا ہے ، وہاں ہی اسے شکار کیا جائے۔
اس وقت سورج نکل رہا تھا، جس وقت میں جسپال سے بات کر رہا تھا، ایسے ہی وقت وہ اپنی بلٹ پروف کار میں گھر سے نکل رہاتھا۔ میں نے یہ خبر ونود رانا کو اس حد تک دے دی کہ وہ نکل رہا ہے اور اس نے ممبئی شہر کی سہانی بلڈنگ سے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر اڑنا ہے اور اپنے شہر اندور میں اترنا ہے ۔ وہاں سے خفیہ طور پر اس نے جگر واس پہنچ جانا ہے۔ میں نے اس کے گھر سے لیکر جگر واس تک، سبھی جگہوں پر لوگ بٹھا دئیے، جہاں بھی وہ قابو آ یا، وہیں اس کو پکڑ لیں گے۔
ونود رانا اور بانیتا کور کا آپس میں رابطہ ہوگیا تھا۔ ونود رانا نے جو پلان بنایا تھا، وہ بانیتا کور سمجھ چکی تھی اور اس کے لئے پوری طرح تیار تھی۔
وہ میرے لئے بڑے سنسنی خیز لمحات تھے۔ میرے ساتھ بہت سارے لوگ جڑ گئے ہوئے تھے۔ ہم سبھی رابطے میں تھے۔ ایک جگہ ہونے والی بات دوسری جگہ پر سنی جا سکتی تھی۔دن کی روشنی پوری طرح پھیل گئی تھی ۔
بانیتا کور اور ونود رانا کے ساتھ دوبہترین لوگ تھے جو فائیٹر اورشوٹر بھی تھے، ان میں ایک پائلٹ بھی تھا۔ وہ چاروں اسی بلڈنگ کی چھت پر پہنچ چکے تھے۔ رامیش پانڈے نے چونکہ وہاں سے فرار انتہائی حد تک خفیہ رکھا ہوا تھا، یہاں تک کہ ہائی آفیشل میں چند لوگ ہی جانتے تھے۔ اس لئے ان لوگوں کا چھت تک پہنچ جانا اتنا مشکل ثابت نہیں ہوا۔ جیسے ہی وہ چھت پر پہنچے، وہاں ہیلی کاپٹر تیار تھا۔ انکے چھت پر آتے ہی وہاں کے چیف سیکورٹی گارڈ نے انہیں روکتے ہوئے انتہائی غصے میں پوچھا
” کون ہو تم لوگ، اور یہاں کس لئے آئے ہو؟“