” بناؤ، مگر دلیل سے ، غنڈہ گردی اور دہشت گردی سے نہیں۔ سکھوں کو بھی حق دو کہ وہ اپنا خالصتان بنا لیں۔بے گناہ لوگوں کے خون پر حکومت کرنے کا حق تمہیں کس نے دیاہے؟“ میں نے کہا
” ہمارے اپنے فلسفے ہیں۔“ اس نے کہا
” تو پھر اپنے ہی فلسفے کے انوسار، مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔“ میں نے کہا ۔
” میں اگر مر بھی جاؤں تو کوئی بات نہیں ۔
اور بہت سارے لوگ ہیں۔ کس کس کو روکو گے؟“
” جہاں تک ممکن ہوا، میں روکوں گا اور تیرے ساتھ والوں کا حال کیا ہوگا، وہ بھی دیکھ لینا۔ بانیتا ابھی فون بند کردو۔“ میں نے کہا اور خاموش ہو گیا۔بانیتا کور نے فون اٹھا کر اسپیکر بند کیا اور مجھ سے پوچھا
” اب بولو۔“
” پہلے وہ کام کرو جو تم سے کہا گیا ہے ۔“ میں نے کہا۔
(جاری ہے)
اس نے ایک لڑکے کو اشارہ کیا۔
اس نے اپنے بیگ میں سے ایک بم نکالا اور رامیش پانڈے کے جسم سے باندھ دیا۔ جب وہ یہ کام مکمل کر چکا تو بانیتا کور نے مجھے بتایا، تو میں نے کہا،” اور اب اپنے لوگوں کو لے کر باہر آؤ ۔ ایک چھوٹاجہاز تمہیں لینے کے لئے آ رہا ہے۔ “ وہ باہر نکل گئی۔
” لیکن ان لوگوں کو ایسی ہی چھوڑ دینا ہے؟“ اس نے پوچھا
” بالکل نہیں، بس تم دیکھتی جاؤ۔
اس جہاز میں بیٹھ جاؤ۔“ میں نے اسے کہا تو تیزی سے بولی
” ہاں مجھے جہاز نظر آ رہا ہے۔“
” اب اس میں جاؤ ۔“ میں نے کہا
” وہ جب تک آ تا ہے، تم مجھے یہ بتاؤ کہ ونود رانا کا کیا بنا، وہ تو پکڑا جائے گا۔ اس سارے کھیل میں اس کی قربانی کیوں دی گئی؟“ بانیتا کور نے افسوس بھرے لہجے میں کہا
” اسے کچھ نہیں ہوگا ، وہ بالکل محفوظ ہے۔
“ میں نے اسے بتایا تو بانیتا کور کے منہ سے بے ساختہ نکلا
” گڈ۔ مگروہ کیسے…؟“
تبھی میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
” جہاز کتنی دور ہے؟“
’ ’ بس قریب ہے۔ ہم نے لائف جیکٹ پہن لی ہے، اور کشتی سے اس طرف جانے والے ہیں۔“ اس نے میری بات سمجھتے ہوئے اصرار نہ کرتے ہوئے بتایا تو میں نے کہا
”اپنا یہ فون اسٹیمر کے کپتان کو دے دو اور بس جلدی پہنچو، مجھے دوسرے کام بھی کرنے ہیں۔
فوراً۔“
بانیتا کور اوروہ دونوں لڑکے،کشتی میں بیٹھے اور جہاز کی جانب چل دئیے۔ جب تک وہ جہاز میں نہیں پہنچ گئے ، میں ان کے ساتھ رہا۔ میرے ساتھ جڑے ہوئے لوگ سب سن رہے تھے اور اپنی اپنی جگہ وہ کام کر رہے تھے۔جس وقت جہاز کئی ناٹیکل میل دور چلا گیا تو میں نے کپتان سے کہا۔
” دیکھو۔! میں نہیں چاہتا کہ تم اور تمہارے آ دمی ماریں جائیں۔
تمہیں بھی بچنا ہے ، اور اس پائلٹ کو بھی بچانا ہے۔“
” جی میں سمجھ رہا ہوں۔“ اس نے جواب دیا
” اگر ، تم نے ایک ذرا سی بھی غلطی کی تو نہ تم بچ سکو گے اور نہ تمارے لوگ۔ اس لئے جیسا کہا گیاہے ویسا ہی کرنا ہے۔ ساری اطلاع دینے کے بعد یہ اسٹیمر چھوڑ دینا ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔“ میں نے کہا
” میں ایسا ہی کروں گا۔“اس نے کہا
” اب میں تمہیں کال نہیں کروں گا۔
یہ فون بے کار ہے اسے سمندر میں پھینک دو۔“ میں نے کہا
” اوکے۔“ اس نے کہا ، پھر سائیں سائیں کی آواز آئی اور فون ڈیڈ ہو گیا۔
” بندہ سمجھدار لگتا ہے ورنہ یہ فون بہت بڑا رسک تھا، اس سے وہ بہت کچھ سمجھ سکتے تھے اور ہمیں سارا سیٹ اپ بدلنا پڑتا۔“ اروند اچانک بولا
” نہ سمجھتا تو دوسرا آپشن ہے۔ اس میں فون ضائع ہو جاتا اور اسے بھی سزا مل جاتی۔
خیر کون ہے لائین پر؟“ میں نے اروند سے پوچھا
”وہی ہائی آ فیشل، جس نے رامیش پانڈے کو جگر واس جانے کا مشورہ دیا تھا اور وہ انہی میں سے ایک ہے ۔“ اس نے فوراً جواب دیا
” بات کراؤ۔“ میں نے کہا تو چند سیکنڈ کے بعد دوسری طرف وہ ہائی آ فیشل تھا۔ وہ پوچھ رہا تھا
” کون بات کرنا چاہتا ہے اور تم کون ہو۔“
” میں بتاتا ہوں ، سن لو گے تو تمہاری ہوا خارج ہو جائے گی۔
ممکن ہے تمہاری پینٹ بھی گیلی ہو جائے۔“
” کون ہو تم اور کیا بات ہے؟“ اس نے کافی حد تک سنجیدہ لہجے میں یوں پوچھا جیسے اسے حیرت ہو۔
” تم نے تو رامیش پانڈے کو جگرواس بھیجا تھا، لیکن پتہ ہے ، وہ کہاں ہے؟“ میں نے کہا تو وہ ایک دم سے گھبراتے ہوئے بولا
” کک … کک … کیا مطلب؟“
” پتہ کرو اس کا، نہ پتہ چلے تو مجھ سے پوچھ لینا۔
“
”کیا کہہ رہے ہو تم؟“ اس نے حیرت سے کہا
” احمقانہ سوال مت کرو اور پتہ کرو۔ میں لائین پر ہوں۔“ میں نے کہا تو اس نے فون رکھ کر دوسرے فون سے کسی کو کال کر کے پوچھا۔تین چار منٹ بعد اس نے گھبرائے ہوئے انداز میں پوچھا
” کہاں ہے وہ؟“
” وہ اس وقت میرے قبضے میں ہے اور اس کے مرنے میں ابھی ایک گھنٹہ پڑا ہے۔ تلاش کر سکتے ہو تو کر لو۔
ایک گھنٹہ۔“ میں نے کہا اور فون بند کر دیا۔
سب کے ساتھ ہونے کے باوجود میری توجہ تین طرف تھی۔ بانیتا کور کو بحفاظت کسی محفوظ مقام تک لے جانا تھا۔ اس کی ذمہ داری کراچی میں بیٹھے سلمان نے لے لی۔وہ اس کی نگرانی کرنے لگا۔ دوسری طرف جگرواس سے سارے لوگ نکل کر اپنی اپنی محفوظ پناہ گاہوں کی طرف جا رہے تھے۔ انہوں نے اپنی ساری پولیس کی وردیاں اتار کر ایک جگہ رکھ کرآ گ لگا دی تھی۔
لیکن دھرم شالے میں موجود لوگوں کو وہیں تک محدود کرنا تھا کہ وہ اگلے بیس منٹ تک وہیں بیٹھے رہیں۔ یہ فہیم نے اپنے ذمے لے لیا۔ وہ ان سے باتیں کرنے لگا۔ میں اروند سنگھ کے ساتھ لگ گیا۔
اسٹیمر کے کپتان سے ساری بات ہو چکی تھی۔ اگرچہ اسے بھاری رقم دے کر اس کام کے لئے آ مادہ کیا گیا تھا لیکن اسے اپنا آپ بھی بچانا تھا۔ اس لئے اسے ایک کہانی دے دی گئی ہوئی تھی۔
وہ کہانی یہ تھی کہ چند لوگوں نے اس کے پریوار کو اغوا کر لیا ہوا تھا اور گن پوائنٹ پر گہرے پانی کی طرف لے آ ئے تھے۔ پھر سب کچھ وہی تھا جو اس کے سامنے ہوا تھا۔ وہ لوگ کدھر گئے؟ یہ اسے کیسے معلوم ہو سکتا تھا۔ اب جبکہ وہ چلے گئے ہیں تو وہ اطلاع دے رہا ہے۔
اس کپتان نے اپنے لوگوں کو اطلاع دی، جو چند منٹوں میں ہائی آ فیشل تک پہنچ گئی۔
جس وقت وہ اطلاع پا چکا تو میں نے اروند کے ذریعے اسے کال کر دی۔
” مل گیا وہ تمہارا رامیش پانڈے؟اور میں جانتا ہوں کہ اب تم لوگوں کی ہمت نہیں پڑ رہی ہو گی کہ اسے جا کر بچا سکو۔“ میں نے انتہائی طنز سے کہا
” تم ہمیں مس گائیڈ کر رہے ہو۔“ اس نے کہا تو میں طنزیہ لہجے میں بولا
” تم لوگوں میں اتنی صلاحیت ہی نہیں ہے ، اسے بچا پاؤ۔
میں تمہیںآ دھا گھنٹہ دے رہا ہوں نا، اب آدھے گھنٹے بعد ہی فون کروں گا، لیکن اس وقت تمہیں ایک تحفہ دینا چاہتا ہوں۔“میں گھڑی دیکھتے ہوئے کہا، صرف د و منٹ رہتے تھے۔ مجھے اس سے مزید ایک دو باتیں کرنا تھیں۔ اس لئے بولا
” دیکھ،میں تمہارے جس فون پر بات کر رہا ہوں، مجھے پتہ ہے یہ بہت ساری جگہوں پر سنا جا رہا ہے۔ تم کچھ نہ بھی کہنا چاہو، تو بھی میرا پیغام پہنچ گیا ہو گا۔
تمہاری ساری مشینری حرکت میںآ گئی ہوگی۔ میرا فون تلاش کیا جا رہا ہوگا اور رامیش پانڈے کو تلاش کرنے کی تگ و دو شروع ہو گئی ہوگی۔صرف ایک منٹ بچا ہے تمہیں تحفہ دینے کو۔ اس کے بعد تم لوگوں کو میری بات کا یقین آ ئے گا۔ اور افسوس کرو گے کہ پہلے ہی میری بات کیوں نہیں مان لی گئی ۔“
” کیا ہے ایک منٹ کے بعد؟“
” رامیش پانڈے کے گاؤں بارے پتہ کرو۔
“میں نے کہا اور فون بند کردیا۔
میں سامنے اسکرین پر جگر واس گاؤں کے اس دھرم شالہ کا منظر تھا۔ وہاں جانے والے لوگوں نے ایک کیمرہ وہاں لگایا تھا جہاں سے اس دھرم شالہ کی پوری عمارت دکھائی دیتی تھی، جس میں بیٹھ کر یہ منصوبہ سازی ہوتی تھی کہ مسلمانوں کو کتنا اور کس حد نقصان پہنچانا ہے؟ مالی گاؤں بم دھماکہ، سمجھوتہ ایکسپریس جیسے بم دھماکے یہیں بیٹھ کر طے ہوئے تھے۔
یہ اطلاع تھی کہ وہ لوگ ، جو رامیش پانڈے کے منتظر تھے ابھی اندر ہی ہیں۔ جیسے ہی انہیں پتہ چلا کہ وہ اغوا ہو گیا ہے اور اس کا کہیں پتہ نہیں چل رہا۔ وہاں کھلبلی مچ گئی۔ وہ مختلف جگہوں پر فون کرنے لگے۔ وہ سب مہاپجاری سمیت وہیں تھے۔ اسی لمحے ایک زور دار دھماکہ ہوا۔اس کے ساتھ ہی اس عمارت سے دھواں اور شعلے بلند ہوئے۔چند لمحوں کے وقفے کے بعد چند مختلف جگہوں پردھماکے ہوئے ۔
میں وہاں کی آواز نہیں سن پایا تھا۔ لیکن پورا منظر میرے سامنے تھا۔
” بند کردو۔ اور بھول جاؤ کہ یہاں کبھی کچھ ہوا تھا۔“میں نے کہا تو نہ جانے فہیم نے یا کسی نے بھی وہ منظر اسکرین سے ختم کر دیا۔ اس کی جگہ اروند، فہیم اور زویا سامنے آ گئے۔
” کیا رامیش پانڈے زندہ رہے گا؟“ مہوش نے پوچھا تو اروند بولا
” نہیں، انہیں اُس اسٹیمر کا پتہ چل گیا ہے وہ لوگ پوری قوت کے ساتھ اس جانب بڑھ رہے ہیں۔
“
” تو پھر؟“ اس نے پوچھا
” اس اسٹیمر کا بھی یہی حال ہو گا۔“ اروند نے کہا
” دس منٹ رہ گئے ہیں۔“ مہوش بولی
”ہائی آفیشل سے ہاٹ لائین پر جو بات ہو رہی ہے ، میں وہ سنا رہا ہوں۔“ اروند نے کہا اور فون کال سنانے لگا۔ اس میں یہی بتایا جا رہا تھا کہ اسٹیمر کے کپتان سے بات کرکے انہوں نے صورت حال معلوم کی تھی۔ رامیش پانڈے وہیں ہی تھا۔
ہیلی کاپٹر اس اسٹیمر تک پہنچ رہے تھے۔ جبکہ کپتان چیخ رہا تھا کہ رامیش پانڈے کے ساتھ جو بم باندھا گیا ہے ، اس کے پھٹنے میں دس منٹ رہ گئے ہیں۔ انہوں نے کپتان کو اسے کھولنے اور واپس مڑنے کا حکم جاری کر دیا تھا۔ لیکن کپتان نے کہا کہ وہ یہ رسک نہیں لے سکتا۔ اس لئے وہ سب لوگوں کے ساتھ جا رہا ہے۔ اس نے باقی لائف بوٹ لیں، ان میں پائلٹ سمیت اپنے بندے بٹھائے اور سمندر میں اتر گیا۔
وقت گذرتا جا رہا تھا۔ بالکل آ خری منٹ پر وہ سب اسٹیمر سے کافی فاصلے پر پہنچ چکے تھے۔ انہیں پوری امید تھی کہ وہ بچ کر واپس چلے جائیں گے۔ دو ہیلی کاپٹر اسٹیمر کے اوپر آ چکے تھے۔ ان سے سیڑھیاں نیچے اتر آئیں تھیں۔ ایسے میں ایک زبردست بم دھماکہ ہوا۔ جس کا ارتعاش لائف بوٹ تک بھی پہنچا۔جو لوگ عرشے پر اتر چکے تھے۔ ان کا پتہ نہیں چلا۔ اسٹیمر کو آگ لگ گئی۔
رامیش پانڈے کا کہیں پتہ نہ چلا۔ ہاٹ لائین پر یہ سب بتایا جا رہا تھا۔ اور ہم سب سن رہے تھے۔
” اروند کال ملاؤ۔“ میں نے کہا تو چند لمحوں میں کال ملا دی گئی۔ اسی ہائی آفیشل نے کال رسیو کی۔” بس اتنا ہی کہنا ہے ، اب اگر کوئی منصوبہ بناؤ تو یہ سوچ لینا اس کی کتنی قیمت چکانا ہوگی۔میں پھر بات کروں گا۔“
یہ کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔ ہم سب میں خاموشی پھیل چکی تھی۔
#…#…#