Episode 8 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 8 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

فراق و وِ صال 
جب تک اِنسان چاندنی میں تھا‘اُسے چاند تک پہنچنے کی تمنّا تھی … چاندنی میں لُطف تھا‘ لیکن چاند پاس نہیں تھا…چاندنی پاس تھی اور چاند کے لیے طبیعت اُدا س تھی … اِنسان چاند پر جا پہنچا…وہاں چاند تھا‘ لیکن افسوس کہ وہاں چاندنی نہ تھی …! چاندنی ہو تو چاند نہیں ملتا، چاند مِلے تو چاندنی نہیں ملتی… عجب بات ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے دَم سے ہیں …ایک دوسرے کی پہچان ہیں …لیکن ایک دوسرے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الگ …! 
چاند محبوب ہو تو چاندنی اُس کی یاد ہے … محبوب پاس ہو ‘ تو یاد پاس نہیں ہوتی …یاد پاس ہو‘تو محبوب پاس نہیں ہوتا … ایک کاتقرّب دوسرے سے بُعد ہے …ایک سے وصال‘ دوسرے سے فراق کا ذریعہ ہے۔
محبوب سے وِصال ہو‘ تو یاد سے فراق ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

یاد سے وِصال ہو‘ تو محبوب سے فراق ہو جاتا ہے، گویا کہ ہر فراق میں وِصال پوشیدہ ہے اور ہر وِصال میں فراق شامل ہے …اگر عشق کو تمنّائے حبیب ﷺ کا نام دیں‘ توا ِس میں فراق کا ہونا لازمی ہے۔ تمنّا کی ہستی مشاہدے تک ہے۔ دِیدار سے تمنّا کا آغاز ہوتا ہے اور تمنّادِیدار کی یاد میں پلتی ہے …جو ایک بار دیکھا‘اُسے دوبارہ دیکھنے کی آرزو عشق ہے… عشق ہمیشہ فراق سے گُزرے گا … عشق‘ ہجر کے آتش کدوں میں جوان رہتا ہے …اور وِصال کے برف خانوں میں منجمد ہو جاتا ہے۔

 
بات کہنے کی نہیں … بس صرف غور کرنے کی بات ہے۔ فرشتے ہمہ وقت تقرّب میں ہیں… وِصال میں ہیں … وہ عشق سے محروم ہیں …وہ صرف فرشتے ہیں۔ اِنسان … فراق میں ہے… عشق میں ہے …اِنسان کے پاس یاد ہے … اور یہی فرق ہے دُنیا اور آخرت کا … یہاں اللہ کی یاد ہے …اور وہاں دِیدار ہو گا …اِنسان کو اَشرف بنایا گیا … اِس کا شرف یہی ہے کہ اِس کے پاس فراق ہے …اِس کے پاس عشق ہے …اِس کے پاس یاد ہے …تمنّائے وِصال ہے …!
اور فرشتے …اطاعت میں ہیں …عشق میں نہیں… عشق سوز ہے، عشق ساز ہے، عشق خاموشی ہے، عشق آواز ہے …عشق میں حُسن کا سب سے بڑا راز ہے یعنی فراق ہی تو وِصال کا حاصل ہے۔
 
دُنیا کے عظیم شاہکار فراق کے کرشمے ہیں…رومیو جیولیٹ، ہیر رانجھا، سسّی پُنوں، سوہنی مہینوال …اور اِس طرح کے اور کئی دلنواز، دل سوز اور دِلگُداز واقعات دریائے فراق کی جواں موجیں ہیں…!
محبوب کا سب سے قیمتی تحفہ اپنے محب کے لیے فراق کا تحفہ ہے …فراق کے زمانے شخصیت ساز زمانے ہوتے ہیں۔ اُنہی دِنوں میں اِنسان کے اندر کا اِنسان بیدار ہوتا ہے …خوابیدہ اور خُفتہ صلاحیتیں دریافت ہوتی ہیں۔
اِنسان کا اپنا باطن اُس پر آشکار ہوتا ہے۔ محبوب کی یاد اُسے جگاتی ہے اور جاگنے والا اِنسان فراق کی راتوں سے اور بھی بہت کچھ حاصل کرتا ہے … ہجر کی رات، غم کی رات‘ عرفان ِذات کی رات ہوتی ہے …اِنسان کے آنسو اُس کے لیے ایک عظیم مقدّر لکھتے ہیں…کسی کی یاد میں جاگنے والا کبھی بدقسمت نہیں ہو سکتا ۔کسی کے دَرد میں رونے والا …دُنیا کے ہزار ہا غم سے آزاد ہو جاتا ہے۔
محبت کا سجدہ ‘اِنسان کو ہزار سجدوں سے نجات دیتا ہے۔ فراق والے نالہٴ نیم شب سے آشنا کرائے جاتے ہیں… وہ زمانے کا مقدّر بھی سنوار سکتے ہیں… ایسے لوگوں میں مقدّر ساز اِنسان بھی پیدا ہوئے۔ 
فراق‘ آگہی کا چراغ ہے… یہ جنون کا روشن ستارا ہے۔ ذرّے میں آفتاب کے جلووں کی دریافت ہے…جُزو میں کُل کا اِدراک ہے… قطرے میں قُلزم کی پہنائی کا عرفان ہے۔
وصال صرف ذات تک ہے …جبکہ فراق ساری کائنات تک… عالمِ شش جہات تک… افہامِ ممکنات ونا ممکنات تک …رَمُوزِ حیات و ممات تک …! 
فراق کو ہی ہُد ہُد ِ فرخندہ فال کہا گیا ہے …اُسے ہی طوطیٴ شکر مقال کہتے ہیں… فراق ہی ظاہری اور باطنی بیماریوں کا افلاطون ہے اور جالینوس ہے… اُس کے سامنے فاصلے… فاصلے نہیں…زمانے‘ زمانے نہیں۔ زمین و آسمان کی وُسعتیں صاحبانِ عشق ہی طے کرتے ہیں۔
 
محبوب کا فراق مجاز کو حقیقت بنا دیتا ہے …ماسِوا کو ماوَرا سے کیا نسبت ہے …کوئی صاحبِ عشق بتائے تو بتائے۔ عشق ‘صفات کو ذات کا حوالہ دیتا ہے… عشق جانتا ہے کہ جلوہ ٴذات کہاں ہے اور ذات کہاں… قطرہ‘ دریا سے واصل ہو کر اپنی ہستی کھو دیتا ہے اور دریا کا درد‘ قطرے کو سوزِ جاوِداں دے کر اُسے کبھی شبنم، کبھی موتی، کبھی آنسو بناتا رہتا ہے۔
 
اِس کائنات کی تمام روشنی‘ صرف روشن ذات کی یاد ہے… اُس کا عشق ہے۔ اِنسان کی ہستی کے تمام بلند تقاضے فراق کی دریافت ہیں۔ موسیقی، شعر، فنِ تعمیر و تصویر، تخلیقِ ادب‘ فراق کی لہروں میں پلتے ہیں۔ تمام تخلیقی اَدب اور اَدبی تخلیقات‘ عشق کی دین ہیں۔ حُسن خود اپنے طالب میں درد کے چراغ جلاتا ہے اور پھر اِنہی چراغوں میں خونِ دِل جلتا ہے اور کوئی فراق زدہ اِنسان اِنہی چراغوں سے اپنے زمانے میں چراغاں کر جاتا ہے۔
 
سوچنے وا لی بات ہے کہ چاند سے کیا چیز نکلی کہ دُنیا میں چاندنی بن کر بکھر گئی ۔وہ کیا راز ہے کہ دیار ِیار سے نکلنے والا بے قرار عاشق زمانے بھر کا قرار بن گیا …! وِصال جمود ہے اور فراق متحرک ہے… وِصال موت ہے، فراق زندگی ہے … زندگی کی نیرنگی اور رنگینی ہے۔ فراق محرومی نہیں…یہ تو محبوب سے حاصل ہونے والا انتہائی قیمتی خزانہ ہے …یہ امانت ہے ‘جو صرف اُسی کو دی جاتی ہے جو اہل ہو… پہاڑ، زمین اور آسمان جس امانت سے لرز جائیں… اِنکار کرجائیں… وہ امانت‘ اِنسان کے دِل کے لیے اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت ہے… عشق …یہ دولت ‘علم اور دانائی سے نہیں ملتی… مگس کو پروانے کا دِل نہیں مل سکتا‘یہ خدا کی دین ہے… کہ وہی حُسن ہے اور عشق کی سب کار فرمائی اُسی کے فراق کی عطا ہے۔
 
قصہ کوتاہ …سب محبوب کے اپنے جلوے ہیں… محبوب نظروں میں رہے‘ تو وِصال کے موسم ہیں، بہاروں کے دِن ہیں… اگر محبوب دِل میں آبسے‘ تو فراق کے موسم ہیں… انوکھی بہاروں کے دِن ہیں… فراق کی بہار میں موتی بنتے ہیں… پھُول کھِلتے ہیں، یعنی کئی قسم کے گُل کھِلتے ہیں… آسمانِ فکرسے تارے گِرتے ہیں…آنکھوں سے اَنگارے ٹپکتے ہیں۔ یہ دُنیا فراق کی وادی ہے…یہ دیس تو بس پردیس ہے… تمنّاؤں کا جہان ہے… یادوں کے کعبے میں عقیدت کے سجدے ہیں اور پھر اُس کے بعد… جلوہ ٴذات کے بعد صرف ذات ہی ذات ہے… نہ چُوں نہ چراں… نہ آنکھ جھپکنے کا موقع، نہ دِل دھڑکنے کی اجازت… محویتِ جمال، بارگاہِ حُسن میں سَنّاٹا… نہ دشواریٴ راہ کا گِلہ … نہ دیرینہ جدائیوں کا شِکوہ… نہ ہونے کی خبر، نہ ہونے کا علم … وِصال صرف محویت ہے …فراق مستی ہے …سَرمستی ہے ۔
یاد کے عظیم صحرا میں صرف اَشکوں کا دریا ہے‘ جس سے متلاشی سَرمدی مے کے جام پیتے ہیں اور روز مرتے ہیں،روز جیتے ہیں… بات تعلق کی ہے…قریب اور دُور کی نہیں!

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif