Episode 20 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 20 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

ماضی، حال اور مستقبل 
اِنسان عجب مخلو ق ہے۔ خیال کو حقیقت بناتا چلا جاتا ہے اور حقیقت کو خیال۔ بات آسان ہے۔ مستقبل خیال ہے، ماضی خیال ہے اور حال حقیقت ہے۔ اِنسان ‘مستقبل کو حال اور حال کو ماضی بنا دیتا ہے۔ خود بخود ہی سب کچھ ہو جاتا ہے۔ بڑے غور و فکر، بڑی سوچ بچار کے بعد ایک مقصدِ حیات بنایا جاتا ہے اور پھر غور و فکر کے بعد اُس مقصد کی بے مقصدیّت دریافت کر لی جاتی ہے اور یوں زندگی‘ علم وعمل، خیال و حقیقت کے مابین کھیلتی ہوئی گزر جاتی ہے۔
 
یہاں تک تو بات صحیح ہے کہ اِنسان پردے سے باہرہے اور مستقبل ،ماضی‘ دونوں پردے میں ہیں۔ ایک تخیّل کے حجاب میں ہے اور دُوسرا یادوں کے پردے میں۔ یہی پردہ اِنسان کو گوارا نہیں۔ وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اب اور کیا کیا دیکھناباقی ہے ۔

(جاری ہے)

وہ اُس کو بھی دیکھنا چاہتا ہے جسے ایک دفعہ دیکھا جا چکا ہے۔ یہ اِنسان کے بس میں نہیں۔ جو دیکھا گیا ‘سو دیکھا گیا اور جو دیکھا جائے گا‘ سو دیکھا جائے گا۔

جو ہے‘ سو ہے۔ 
یہ کہہ دینا آسان ہے لیکن اِسے سمجھنا مشکل ہے۔ جس کا حال بد حال ہے‘ وہ کسی مستقبل کے خوشحال ہونے کا تصور کیسے کر سکتا ہے؟ 
مستقبل کی خوبی ہی یہ ہے کہ وہ کسی حال کے حوالے سے نہیں آتا۔ وہ اپنا حوالہ خود ہے۔ وہ جیسے چاہے‘آئے۔عاصیوں کے لیے مغفرت لائے، غریبوں کے لیے دولت لائے، عِّزت کو ذِلّت میں بدل دے، یقین کو وسوسہ، وسوسوں کو یقین بنا دے۔
یہ اُس کی مرضی ہے۔ مستقبل کی مرضی‘ بس خدا کی مرضی ہے۔ خدا کی رحمتوں سے مایوس نہ ہونے کا حُکم ہے، بار بارحُکم ہے، یعنی اپنے مستقبل سے مایوس ہونے کی اجازت نہیں۔مُستقبل پر بھروسہ رکھو،مُستقبل پر اُمید رکھو،مُستقبل ‘رحمت کا نام ہے۔ اِنسان کو بات سمجھ نہیں آتی۔ رَحمت ہمیشہ ہونے والی ہوتی ہے۔ جب ہو جائے‘ تو اِنسان اُسے اپنا حق کہہ کر اپنی محنت اور اپنی عقل کا پھل سمجھتا ہے۔
کشتی ہچکولے کھا رہی ہو تو اللہ کو پکارا جاتا ہے۔ جب کشتی کنارے لگ جائے تو اپنی قوّتِ بازو کے قصیدے کہے جاتے ہیں۔ بہت کم اِنسان ایسے ہیں‘ جو اپنے حاصل کو رحمتِ پروردگار کی عطا سمجھتے ہوں۔ بہر حال‘ حال کے بدحال ہونے کے باوجود مستقبل کے خوشحال ہونے کی اُمید ترک نہ کرنی چاہیے۔
ماضی کے اعمال کے حوالے سے بھی اُمید اور مایوسی کا پیدا ہونا لازم ہے۔
جب ماضی کے گُناہ یاد آتے ہیں‘ تو ندامت کے بوجھ سے سر جُھک جاتا ہے۔گُناہ کے لیے ہی تو مغفرت کا لفظ ہے۔ توبہ گُناہ کو ختم کر دیتی ہے۔ توبہ کا مطلب ہی یہ ہے کہ اِنسان اُس راہ سے ہٹ جائے۔ گُناہ ترک کرنے کا اِرادہ توبہ کا حصہ ہے۔ گُناہ نہ کرنے کا فیصلہ‘ توبہ کی عطا ہے۔ توبہ قبول ہوجائے تو گُناہ دوبارہ سَرزد نہیں ہوتا‘ بلکہ یادِ گُناہ بھی نہیں رہتی۔
اِس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ حال کے عمل سے ماضی کا عمل بدل سکتا ہے۔ ماضی کُفر ہو تو حال کلمہ پڑھ کے مومن ہو سکتا ہے۔ حال مومن ہو جائے تو ماضی بھی مومن…!
ایک اِنسان اگر راستہ بھُول جائے، بھٹک جائے، پگڈنڈیوں میں کھو جائے، راہوں کے پیچ و خم میں اُلجھ جائے اور اگر اُسے اچانک منزل کا سراغ مل جائے‘ وہ منزل تک پہنچ جائے، آسودہٴ منزل ہو جائے تو اُس کامیاب اِنسان کا تمام سفر، سفر کی تمام کلفتیں کامیابی کا حِصّہ ہیں۔
کامیاب آدمی کا سارا سفر ہی کامیاب ہے۔ جس کو اللہ معاف کر دے ‘اُس کے گُناہوں کا کیا ذِکر؟ جسے اِسلام کی دولت مل جائے‘ اُس کے پُرانے کُفر کا کیا تذکرہ؟ 
مُستقبل میں جلنے والے چراغ ماضی کے اندھیروں کو بھی دُور کر دیتے ہیں۔ خیال ‘اُمید اور یقین سے واصل ہو جائے تو ہر ماضی خوشگوار ہے، ہر مُستقبل روشن ہے۔ روشنی خیال کی ہے‘ واقعات کی نہیں۔
 
حال کی اصلاح کے لیے‘ خیال کی اصلاح ضروری ہے۔ ہم ماضی اور آئندہ کو صرف حال ہی میں سوچ اور دیکھ سکتے ہیں۔ حال کا آئینہ کبھی عکسِ ماضی دِکھاتا ہے‘ کبھی پرتوِمُستقبل۔ آئینہ کجلا جائے تو ماضی بھی تاریک اورمُستقبل بھی بھیانک۔ حال کے آئینے کی آب‘ خیال سے ہے۔ خیال کی اِصلاح ہو جائے‘ تو ساری زندگی کی اِصلاح ہو جاتی ہے۔ حال، ماضی اور مستقبل صرف پہچان کے حوالے ہیں۔
زِندگی ایک اکائی ہے، وحدت ہے، جامعیت ہے۔ اِس کا فیصلہ آخری لمحے میں ہوتا ہے کہ زندگی کیا تھی …نوازش یا آزمائش، اِنعام یا سزا، کا میاب یا ناکام، بامُراد یا نا مُراد، معصیّت یا مغفرت۔ 
ہمارا فردا، ہمارا ماضی صرف ہمارے حال کی کرشمہ سازی ہے۔ جس کا آج خوبصورت ہے‘ اُس کا ماضی بھی خوب…مُستقبل بھی خوب۔ جس کا آج پراگندہ ہو‘اُس کا گزشتہ بھی پراگندہ، آئندہ بھی پراگندہ۔
حال کی اِصلاح ہونا ضروری ہے۔ 
حال کی اِصلاح کیا ہے؟ ماضی پر صدقِ دِل سے استغفار اورمُستقبل کا خوشگوار اِنتظار… اُمید و تیقّن کے ساتھ‘ اُس کی رحمت کی وُسعتوں کے سامنے ‘اُس کی لا محدود عطا کے سامنے اپنی خطا، اپنی کم مائیگی اور اپنی بے مائیگی کو سَرنِگوں کر دینا، اُس کے اِنصاف سے ڈرنا، اُس کے فضل کا آسرا مانگنا یعنی اپنے اعمال پر بھروسہ کرنے کی بجائے اُس کے فیصلوں پر بھروسہ کرنا۔
تاریک راتوں کو سورج کی تابناکی عطا کرنے والا ‘اِنسان کی زندگی کی تِیرگی اور مایوسی کو اُمید کی روشنی عطا کرتا ہے۔ زمین و آسمان کے لشکروں کا مالک ہمارے لیے بہت کچھ رکھتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ہم اُسے تسلیم کریں۔ 
حال بظاہر ایک لمحہ ہے، ایک نقطہ ہے، لامحدود ماضی اور لا محدود مستقبل کا سنگم … لیکن یہ نقطہ دراصل ایک نکتہ ہے۔ حال پھیل جائے تو صدیوں پر محیط ہو جائے۔
یہ لمحہٴ حال اپنا راز عیاں کرے‘ تو یہی اَزل ہے، یہی اَبد ہے۔ یہی لمحہ ہمارے فِکر و عمل کی آخری حد ہے۔مُستقبل کو ماضی میں بدلنے والا لمحہ اگر چاہے تو ماضی کومُستقبل بنا دے۔ یہ کار ساز لمحہ ہے۔ یہ سراپا راز لمحہ ہے۔ اسِی لمحے میں ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے ‘جب اِنسان ایسی محفل میں پہنچ جاتا ہے جو آج کی محفل نہیں۔ لمحہ پھیل جاتا ہے اور بعید‘ قریب ہو جاتا ہے۔
لمحے کا پھیلاؤ عجب ہے۔ اِنسان کو زمان و مکاں سے نکال کر لا مکاں تک لے جاتا ہے… یہی حال کا مختصر لمحہ…اور پھر اِنسان دیکھتا ہے۔ اگر اِنسان خسرو ہو‘ تو اُسے نظر آتا ہے کہ خدا خود ہی میرِمجلس ہے اور شمعٴ محفل حضورپُر نور ﷺ۔ یہ نظارہ کسی ماضی یا مستقبل کی بات نہیں‘ یہ حال ہے۔ حال کا لمحہ ‘تابناک لمحہ، مختصر لمحہ، خوش نصیب لمحہ! 
حال کے لمحے کو پہچاننے والے دُنیا میں آنے والے زمانوں کو جاننے والے ہوتے ہیں۔
حال آگاہ‘ مُستقبل آگاہ ہو جاتا ہے۔ حال آشنا‘ ماضی آشنا ہے۔ حال کا اِدراک‘ اِدراکِ حقیقت ہے اور اگر حقیقت کا اِدراک میّسر آجائے، تو خیال کا اِدراک مِل جاتا ہے یعنی مُستقبل کا اِدراک آسان ہو جاتا ہے۔ حال سے باخبر ہونے والا یادوں کو پہچانتا ہے یعنی ماضی سے باخبر ہو جاتا ہے۔ حال آشنا کے سامنے ماضی اور مُستقبل کے جلوے موجود رہتے ہیں۔
 
یہ تو صرف حال آشنا کی بات ہے اور جو اِنسان حال پر قُدرت حاصل کر لے‘ اُس نے ماضی اور مُستقبل کو مسخّر کر لیا۔ اُس کا مُستقبل ‘اُس کی اِطاعت میں آئے گا۔ حال پر قدرت حاصل کرنا اِتنا مشکل ہے‘ جتنا زمین و آسمان کے حصار سے نکلنا۔ انسان ہرگز نہیں نکل سکتا‘ مگر جسے اللہ توفیق دے۔ دَراصل اِنسان کی سب قُدرتیں توفیقِ اِلٰہی کی کرشمہ کاریاں ہیں۔
وہ جسے چاہے، جو چاہے، جب چاہے، بنا دے۔ وہ جب چاہے یتیموں کو پیغمبر بنا دے۔ چاہے تو شاہوں کو دَربدر کر دے۔ وہ چاہے تو مکڑی کے کمزور جالے سے قوّی دلیل پیدا کر دے۔ چاہے تو مُقرّب کو معتوب کر دے۔ چاہے تو عاصی کو بخش دے۔ وہ جسے چاہے ‘اُسے کیا سے کیا بنا دے۔ غافل کو راز آشنا کر دے ‘ جاگنے والے کو محروم کر دے اور سونے والے کو سرفراز کر دے۔
یہ سب اُس کے اپنے کام ہیں۔ 
حال اُس کا،مُستقبل اُس کا، ماضی اُس کا، اِنسان اُس کا، اِنسان کا دِل اُس کا اپنا بنایا ہوا۔ جس دل کو چاہے‘ محرمِ راز کر دے۔ وہ سب کچھ کر سکتا ہے اور کرتا ہے…! 
ہم ماضی، حال اور مُستقبل کے زمانوں میں مُقیّد ہیں۔ اُس کے ہاں ایک ہی زمانہ ہے۔ وہ ہمیشہ‘ ایک حال ہے۔ اُس کے جلوے بدلتے ہیں۔ اُس کی ذات نہیں بدلتی۔
اُس نے جس پر فضل کیا‘وہ بھی قائم کر دیا گیا۔ اُس کا حال بھی ماضی اور مُستقبل سے واصل ہو کر ایک زمانہ ہو گیا۔ ہر زمانہ، ہر دور‘ ایک دور، ایک زندگی، ایک اکائی، ایک وَحدت، ایک جامعیّت۔ اِس بات کا کوئی فارمولا نہیں ۔ لمحے میں صدیاں دیکھنے والے ذرّے میں صحرا دیکھتے ہیں، قطرے میں قُلزم دیکھتے ہیں۔ 
اِس میں صرف کسی کے ہو جانے کی بات ہے۔
بس اِتنی سی دیر لگتی ہے جتنی غالب# کو اِس شعر کے کہنے میں:
# دِلِ ہر قطرہ ہے سازِ اناالبحر
ہم اُن کے ہیں‘ ہمارا پوچھناکیا
ایک بار دِل سے تسلیم کر لیا جائے تو حجاب اُٹھ جاتا ہے۔ پردہ اُٹھ جائے تو ماضی،حال اور مُستقبل ایک شے کے نام ہو کے رہ جاتے ہیں‘ اور وہ شے اَمرِ اِلٰہی ہے۔ اَمرِ اِلٰہی کو توفیقِ اِلٰہی سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ 

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif