Episode 22 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 22 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

پرواز ہے دونوں کی اِسی ایک فضا میں 
کر گس وشاہین اپنی بُلند پروازی کے کسی دائرے میں ایک ساتھ ہو گئے۔ وہ پاس پاس، ساتھ ساتھ‘ فضا میں تیرتے چلے جا رہے تھے۔ اُن میں گفتگو کا ہونا فطری اَمر تھا۔ شاہین نے کہا ”بھئی! کیسی ہے یہ فضائے نیلگوں، رِدائے صبح و شام، یہ وُسعت ِنگاہ ،یہ بُلند پروازی اور اِس کے ساتھ یہ بُلند فِکری و بُلند نظری !!“ 
کر گس‘ جو اپنے خیال میں ڈُوبا ہوا نظریہٴ ضرورت کے متعلق سوچ رہا تھا، بولا ”ہاں بھئی! بلندی ہی بُلند ی ہے‘ لیکن بلند ی اور صرف بلند ی ہی تو زِندگی نہیں۔
زِندگی زِندہ رہنے کا عمل بھی تو ہے۔ اِس میں اور بھی ضروریات ہیں۔ وُسعت ِنگاہ اپنی جگہ پر بجا‘ لیکن ضرورت ِوجود سے کیا اِنکار۔ یہ بُلند پروازی مجھے میری ضرورت سے محروم کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

دیکھو بھئی! خالی بُلند ی اور خالی پیٹ ہمیں کیا دے سکتے ہیں؟“

شاہین نے کہا ”دیکھو! وہ دُور اُفق پر جھِلمل جھِلمل کرنے والی شے کیا ہے۔ کتنا خوبصورت ہے یہ منظر، کتنی لطیف ہے یہ فضا۔
آؤ بھئی! ستاروں کی دُنیا میں چکر لگائیں۔ آؤ دیکھیں سورج کہاں سے نکلتا ہے، کہاں ڈوبتا ہے۔ آؤ !راز ہائے سَر بستہ دریافت کریں۔ آؤ معلوم کریں کہ یہ سب کیا ہے، یہ آباد یاں کیا ہیں، کیوں ہیں، کون ہے جو ہر شے کو حرکت عطا کرتا ہے، کس نے سب کو اپنے اپنے محور و مدار میں جکڑ رکھا ہے؟ آؤ تو ذرا دیکھیں! اُس کا اپنا مدار کیا ہے؟ طاقت صرف طاقت ہے‘ تو اُس کی اپنی ضرورت کیا ہے؟ اگر اُس کی بھی اپنی کوئی خواہش ہے تو وہ طاقت کیا ہے اور اگر اُس کی اپنی کوئی ضرورت نہیں‘ تو یہ سب ظہور غیر ضروری ہے۔
آؤ! اِس راز سے پردہ اٹھائیں۔“ 
کر گس نے شاہین کی بات سُنی تو بڑے غور سے‘ لیکن اُس بات کو سمجھنے اور اُس پر غور کرنے کے بجائے اُسے اپنی مُردار ہنسی کے حوالے کر دیا اور کہا ”اِتنی دُور کی باتیں نہ سوچا کرو۔ مجھے بھُوک لگی ہے۔ میں کب سے بھُوکا پیاسا تیرے ساتھ چکر لگا رہا ہوں اور بھُوک سے مجھے خود چکر آرہے ہیں۔ زِندگی کا کوئی راز نہیں۔
یہ صرف زِندگی ہے، اِسے گُزارنا ہے۔ بہر صورت زِندگی صرف آگ ہے اور یہ آگ زِندگی کے ہر حِصّے میں ہے‘ دِل میں، دماغ میں، نفس میں اور سب سے بڑھ کر پیٹ میں۔ پیٹ کی آگ کو بجھانا آسمانوں کی پرواز سے بہتر ہے۔ یہ بُلند پروازیاں مُہمل ہیں‘ اگر پیٹ خالی ہو۔ تم ستاروں اور سورجوں کا کھوج لگاؤ۔ وہ تمہاری منزل ہو گی‘ لیکن میری منزل میری نظر کے سامنے ہے۔
وہ دیکھو ایک مرا ہوا گھوڑا پڑا ہے۔ میری برادری کے لوگ جمع ہو رہے ہیں‘اِس لیے میں بھی نظریہٴ ضرورت کے ماتحت اپنی منزل کی طرف چلا ہوں۔ تجھے اور تیری پرواز کو خداحافظ۔“ 
یہ کہتے ہُوئے کرگس نے ایک سیدھا غوطہ زمین کی طرف لگایا اور آناً فاناً اپنی منزلِ مُردار تک پہنچ گیا‘ اور شاہین بدستور راز ہائے سربستہ کی تلاش میں، بُلند سے بُلند تر کی جستجو میں، وحدت ویکتائیِ خیال کے تصوّر میں، زِندگی اور ماورائے زِندگی کو جاننے کی آرزُو میں سرگرداں ہے۔
وہ عالمِ تحیّرمیں گُم ہے۔اُس کے سامنے صرف فاصلے اور وُسعتیں ہیں‘ لیکن وہ پرواز میں ہے۔ اُس کی منزل… وہ منزلوں سے آزاد ہے۔ منزل‘ قید ہے اور پرواز‘ آزادی ہے۔ 
کرگس اور شاہین اِکٹھے پرواز کریں‘ تب بھی الگ الگ راستوں کے مسافر ہیں۔ اُن کو ساتھ ساتھ بھی دیکھا جائے‘ تو بھی اُنہیں ساتھی نہ سمجھا جائے۔ یہ ہم پرواز تو ہو سکتے ہیں‘ لیکن ہم مَشرب نہیں، ہمراز نہیں۔
ایک کا مقصد مکاں‘ دُوسرے کا مقصد لامکاں۔ ایک محدود‘ دُوسرا لا محدود۔ ایک کا رِزق مُردار‘ دُوسرا دِل کا شہنشاہ۔ ایک موت سے وابستہ ہے‘ دُوسرا آزادی ہی آزادی کے ساتھ۔ 
زندگی کے ہر شعبے میں کرگس اور شاہین ساتھ ساتھ دیکھے جاتے ہیں۔ ہر شعبے میں، ہر طبقے میں، ہر گروہ میں، ہر درجے اور زاویے میں۔ 
فوج میں بھی شاہین ہیں، کرگس ہیں۔
شہباز وہ جرنیل ہے‘ جس کا مُدعا مُلک کے علاوہ کچھ نہ ہو اور گِدھ جرنیل وہ ہے‘ جس کا مُدعا اپنا پیٹ بھرنا… اپنا دوزخ۔ کبھی کبھی اپنا حاصل ‘مُلک کی محرومی بن سکتا ہے۔ صلاح الدین ایوبی ، محمد بن قاسم، خالد بن ولید سب شاہین جرنیل تھے… اور بھی کتنے اسمائے گرامی ہو سکتے ہیں۔ ایسے جرنیل بھی گزرے ہیں‘ جن کا سب سے اچھا کام یہ تھا کہ وہ گُزر گئے۔
اُنہیں زِندگی میں صرف ایک ہی چیز زیب دیتی تھی کہ بس زِندگی کو چھوڑ دینا۔ 
مسلمانوں کے قافلے میں شاہینوں کے بسیروں پر کرگسوں کا قبضہ سا ہو چکا ہے۔ مشائخِ کرام ہی کو لیجیے۔ بس نازک بات کو نہ ہی بیان کیا جائے‘ لیکن یہ بات اِتنی نازک بھی نہیں کہ اقبال# بہت پہلے اِسے کئی بار کہہ چکا ہے کہ خانقاہ میں صُوفی خالی ہے۔ خرقہٴ سالُوس کے اندر مہاجن ہے۔
یہ طریقِ خانقاہی اِصلاح طلب ہے … اور کتنے ایسے اقوال! 
مشائخ‘ پیروکار ہیں اُن صادق مشائخ کے ‘جن کے نام سے نکلتے رہے ہیں لیکن آج اُن سچّے بزرگوں کے آستانوں پر کہیں کہیں جھوٹے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ کوئی اِتنا راز بھی نہیں۔ ہر شیخ اپنے علاوہ سب کو غیر مصدقہ سمجھتا ہے۔ اِسی طرح تمام مشائخ دوسرے تمام مشائخ کی رُو سے غیر مصدقہ ہیں۔
اگر سارے سچّے ہوں، سارے شاہین ہوں‘ تو مُلک میں جوکچھ ہو رہا ہے‘ نہ ہو۔ شہبازِ طریقت وہ شیخ ہے‘ جو کم اَزکم قصرِ سُلطانی کے گُنبد پر نشیمن نہ بنائے۔ حق گو اور قصیدہ گو میں جو فرق ہے‘ اُسے قائم رہنے دیا جائے۔ 
علمائے کرام کا تذکرہ کیا کیجیے۔ اُن کا کام بس اُتنا ہی ہے ‘جتنا یہ کر رہے ہیں۔ بس اُن کا نام رکھنا باقی ہے… علمائے حق یا علمائے سُوء ! 
علمائے حق ‘کلمہٴ حق کہنے کے لیے پیٹ کی ضروریات کو مُقدّم نہیں سمجھتے۔
وظیفہ خوار عالمِ دِین‘ نہ عالم ہے نہ دِین آشنا۔ وہ صرف ایجنٹ ہے اور ایجنٹ عالمِ حق نہیں ہو سکتا۔ بہر حال اِس طبقے میں شاہین بھی موجود ہیں اور کرگس بھی۔ وہ علما‘ جو واقعی علمائے حق ہیں‘ بُلند نگاہ اور بُلند پرواز ہیں۔ وہ ظاہر اور باطن کا فرق نہیں رکھتے۔ وہ مساجد کو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺکی تعریف کے لیے وَقف سمجھتے ہیں۔ اِنسانوں اور حُکمرانوں اور ہر دَور کے حُکمرانوں کی ہر حال میں قصیدہ سرائی ‘عالمِ ِحق کا کام نہیں ہے۔
 
اِسی طرح اساتذہ، ادیب، دانشور، سیاست دان اور بڑے تجّار اور کارخانہ دار‘ سب میں کرگس اور شاہین ہیں۔ ہر سطح پر یہ کھیل ہو رہا ہے‘ بلکہ ہر شخص کے اندر بھی یہ کھیل ہو سکتا ہے۔ 
جب انسان پیٹ اور صرف پیٹ بن جائے‘ تو وہ کرگس صفت ہو جاتا ہے۔ جب اُسے ذوقِ پرواز ملے‘ وہ ایسے رزق کو بھی نگاہ میں نہیں لاتا جس سے اُس کی پرواز میں کوتاہی آئے۔
شاہین صفت اِنسان‘ مردار نہیں کھا سکتا۔ وہ صرف پرواز ہے ‘اور پرواز بھی اُس کے ساتھ ، اُس کی طرف ‘ جس نے قوّتِ پرواز دی۔ جس کی کوئی منزل نہ ہو‘ اُس کی منزل اُس کے ہمراہ ہوتی ہے۔ 
کرگس اور شاہین‘شاہین اور کرگس ‘معاشرے میں باہم موجود رہتے ہیں۔ دونوں کی پرواز اِسی ایک فضا میں ہی رہتی ہے۔ مقصد کا جہان الگ الگ ہے۔ ایک آسمانوں پر جھپٹتا ہے، دُوسرا مردار پر لپکتا ہے۔
اِن کے مزاج الگ، اِن کی داستان الگ۔ شاہین کی بات کرگسوں کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔ شاہین کا خواب ہو‘ تو تعبیر کرگسوں کے بس میں نہیں۔ شاہین کا مُدعا‘ شاہین کو ہی معلوم ہو سکتا ہے۔ پاس رہنے والے‘ دُور کے فاصلوں کے مسافر ہوتے ہیں۔ شاہینوں کے مساکن پر اگر کرگسوں کا بسیرا ہو جائے‘ تو سمجھ لیجیے قیامت کی نشانی ہے۔ اگر بُلند مرتبت‘ بُلند نگاہ نہ ہو‘ تو وہ وقت اچھا نہیں ہوتا۔ شاہین کے خواب کی تعبیر اور تفسیر کے لیے کوئی شاہین ملے ‘تو بات بن جائے ‘ورنہ یہ بات ہجومِ کرگساں کے بس میں نہیں۔ 
ع کرگس کا جہاں اور ہے‘ شاہیں کا جہاں اور

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif