Episode 25 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 25 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

ہم کیا ہیں؟ 
میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں‘ وہ شاید نہ کہہ سکوں، اور جو کچھ کہہ رہا ہوں ‘شاید وہ میرا مقصد ہی نہ ہو۔ یہی تو مجبوری ہے اور یہی میرے عہد کی پہچان ہے۔ ہم ایک کرب ناک صورت ِحالات سے گزر رہے ہیں۔ اِنسان اپنے اصل سے کٹ چکے ہیں اور الفاظ اپنے معنی سے ہٹ چکے ہیں ۔ ہم لوگ الگ الگ جماعت ہیں اور یوں وحدت ِقوم ‘جمعیت التفریق بن کر رہ گئی ہے۔
 
ہم مصروف ہیں لیکن ہماری مصروفیت بے معنی ہے۔ ہم دفتروں میں کچھ اور ہیں ‘اور گھروں میں کچھ اور۔ ہم وطن کی تعمیر کی بجائے اپنے مکانوں اور آستانوں کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ ہمارا اصل وطن ہماری خواہشات کا نام ہے۔ ہم اپنی اپنی اَناؤں میں رہ رہے ہیں۔ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، ہمارے علم نے ہمیں دوسروں پر فوقیت جتانا ہی سکھایا ہے‘ دوسروں کے کام آنا نہیں۔

(جاری ہے)

ہم اپنی نگاہ میں خود ہی سب کچھ ہیں۔ ہم کسی پر اعتبار نہیں کرتے۔ ہم خود بھی قابل ِ اعتبار نہیں ہیں۔ 
خواب دیکھنا ہمارا مشغلہ ہے۔ ہم عظیم مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں۔ پہلے بھی ہم ایک خواب کی پروڈکشن ہیں۔ ایسا خواب جو ابھی تک اپنی تعبیر کی تلاش میں ہے۔ مستقبل کا تصور ہمیں حال سے بیگانہ کر دیتا ہے۔ ہم اپنے پیچھے ملّی اَلمیے چھوڑ آئے ہیں لیکن ہم ہر حالت سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔
ہم صرف انسانوں سے سمجھوتہ نہیں کرتے۔ ہم اصول بیان کرنے والی قوم ہیں۔ دوسروں کو اصول کی تعلیم دیتے ہیں، معلم کے لیے عمل ضروری نہیں۔ ہم حقیقت بیان کرتے ہیں اور سننے والے اِسے آگے بیان کرتے ہیں اور اِس طرح بیان جاری رہتا ہے اور عمل کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ 
ہمارا نظام ِفکر امپورٹ ہوتا ہے اور اِس طرح ہماری وابستگی الگ الگ ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگ رُوس نواز ہیں۔
کچھ لوگ امریکہ نواز ہیں۔ کچھ لوگ چِین نواز، ہند نواز اور کچھ لوگ ”حق نواز“۔ ہم پر ثقافتوں اور سیاستوں کی یلغار ہے۔ ہماری پسندیدہ یا ترا‘ ہند یاترا ہے۔ 
ہمارے لیے وی سی آر کی بھر مار ہے۔ خدا کی مار ہے کہ ہر چوتھا آدمی ہیروئن کا شکار ہے۔ بس استغفار ہے۔ ہم خوابوں میں بلند پرواز ہیں۔ یہ الگ بات کہ ہمارے گرد دائرہ تنگ ہوتا جا رہا ہے۔
 
یہ قوم غریب ہے‘ لیکن لوگ امیر ہیں؟ کاریں ہی کاریں، راہ چلنا دشوار ہے۔ مہنگائی حد سے زیادہ اور خریداری بھی حد سے زیادہ ‘ عجب عالم ہے۔ خطرات بیان ہو رہے ہیں لیکن کسی پر کوئی اثر نہیں۔ بیان کرنے والے بھی اپنے عالی شان مکانوں کی تعمیر کرتے جا رہے ہیں۔ جہاں الفاظ اپنے مفاہیم بدل چکے ہوں ‘وہاں اپنے عہد کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔
ہمارا عہد‘ عجب عہد ہے۔ اِس میں کیا نہیں ہو رہا… دَور‘ تضادات کا دَور ہے۔ اِنسان کے باہر تضاد، خود انسان ہی مجموعہٴ اضداد ہے۔ آج کا اِنسان ہمہ وقت مصروف ہے۔ اُس کے پاس فرصت نہیں۔ وہ دوڑتا جا رہا ہے۔ اُس کو کسی نے ایک نا معلوم منزل کی طرف گمنام سفر پر مصروف کر رکھا ہے۔ وہ سب کچھ جاننے کا دعویٰ رکھتا ہے اور دعوے کا مفہوم بھی نہیں سمجھتا کہ یہی اُس کی جہالت کا ثبوت ہے۔
 
ہمارا عہد تعمیر و تخریب کا مظہر ہے۔ نئے ادارے ، نئے مکانات، نئے ماڈل، نئے آستانے اُبھر رہے ہیں اور پُرانے اور مانوس ادارے ختم ہو رہے ہیں۔ پُرانے ملبے ہٹائے جا رہے ہیں اور نئے شاہکار بنائے جا رہے ہیں۔ یہ دَور‘ قدیم تہذیبی اداروں کے خاتمے کا دَور ہے۔کل کااِنسان عقیدتوں کا مظہر تھا لیکن آج اِنسان ہر عقیدت اور ہر عقیدے سے آزاد ہے۔
آج کا عقیدہ ‘بے عقیدہ ہے۔ آج صرف ایک اِنسان کی پرستش کی جاتی ہے، یعنی اپنا آپ… ہم اپنی اَنا کے پُجاری ہیں۔ ہم اپنی انہی خواہشات کے آگے سجدہ ریز ہیں۔ ہم اپنے علاوہ کسی کو اہم نہیں سمجھتے۔ آج کے ماحول میں خود پسندی ہی پسندیدہ عمل ہے۔ اِنسان آئینہ دیکھتا رہتا ہے۔ وہ نہ آئینے میں اُترتا ہے‘ نہ اِس سے باہر نکلتا ہے۔ ہر شے میں ملاوٹ ہے۔
کھانے میں، پینے میں، سوچنے میں، عبادت میں، مذہب میں، مدرسے میں، خانقا ہوں میں، سیاست میں، صحافت میں، دَوا میں، دُعامیں، وفا میں‘ غرضیکہ ہر اَدا میں ملاوٹ ہی ملاوٹ ہے۔ جو ہے‘ وہ نہیں ہے۔ ہم وہ نہیں‘ جو نظر آتے ہیں۔ ہمارا وجود‘ اصل وجود سے مختلف ہے۔ ہمارے افکار خالص نہیں، ہماری سوچ صحت مند نہیں، ہمارے چارہ گر…چارہ گر کا لفظ بے معنی ہے۔
ہمارے قائد آج بھی صرف قائدِاعظم ہی ہیں۔ اگر قائدِاعظم زندہ ہو جائیں تو قائدین کی کثیر تعداد مر جائے۔ ہمارے ہاں کوئی شے بھی تو ایسی نہیں‘ جو بھروسے کے قابل ہو… ہم محسن فراموش قوم ہیں۔ اگر آج اقبال زندہ ہو جائے تو قوم کے حالات دیکھ کر صدمے سے پھر مر جائے۔ یہ قوم عجب قوم ہے۔ اِسے اپنے حال سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ ماضی کے بزرگوں کی یادیں مناتی ہے اورمستقبل کے لیے کوئی کام نہیں کرتی۔
یہ بے حسی کا شکار ہے۔ پاؤں تلے سے زمین نکلا چاہتی ہے، سر پر آسمان گرا چاہتا ہے اور یہ بی بی رانی ٹس سے مس نہیں ہوتی ۔ اِسے جمہوریت کا اِنتظار ہے کہ ہر بلا کو جمہوریت سے ٹالا جائے گا۔ مدّتیں گزرگئیں اور ابھی تک یہ فیصلہ کرنا باقی ہے کہ اِس ملک کا نظامِ حکومت کیا ہو گا!! نظامِ تعلیم کیا ہو گا… نظامِ معیشت کیا ہو گا۔ نظامِ عقیدہ کیا ہو گا۔
اِسلام ہو گا تو کون سا ہو گا۔ فقہ کون سی ہو گی… زبان کیا ہو گی۔ قومی لباس کون لوگ کب پہنا کریں گے۔ صحافت کس نہج پر استوار ہو گی اور سیاست کا دائرہ کیا ہو گا۔ اِس ملک میں مقبول ترین بیانات وہ ہیں جن میں‘ ”گا“،”گے“،”گی “ہو ۔ ہر چیز ہو گی، سب کچھ ہو گا… سب انتظامات کر لیے جائیں گے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ سب کی بگڑی بن جائے گی… سب بادل چھَٹ جائیں گے۔
سب کچھ یہیں رہے گا… افسوس! ہم نہ ہوں گے۔ 
چارہ گروں کے لیے نوید ہے کہ مریض زیادہ دیر اُن پر بوجھ نہیں ڈالے گا۔ چاروں صوبے ‘چاروں عناصر کی طرح ابھی ظہورِ ترتیب میں ہیں۔ منتشر ہونے کا اندیشہ‘ خاکم بدہن بعید اَز قیاس بھی نہیں۔ ابھی جمہوریت نے گل کھِلا نے ہیں ،ابھی اور بھی شگوفے پھوٹیں گے۔ ہم سب کرنیں ہیں ‘جو اَپنے سورج کو مسلسل چاٹ رہی ہیں۔
یہ سورج ابھی اللہ کے فضل سے قائم ہے ‘لیکن ہمارا عمل بد اعمالی کے سِوا کیا ہے۔ ہم نے غور کرنا چھوڑ دیا… ہم مستقل اِنتظار میں ہیں۔ کوئی آئے گا، جگائے گا، ہم سے کام لے گا… ہم عظیم قوم بن جائیں گے… لیکن ابھی نہیں شاید…! 
ابھی اِسلام نے نافذ ہونا ہے ۔ مسلمانوں پر اِسلام نافذ ہونے میں ابھی کچھ دیر ہے ‘یا تو مسلمان وہ نہیں رہے ‘یا اِسلام وہ نہیں جو دِلوں پر پہلے دن سے نافذ ہو جاتا تھا۔
یا اللہ! ہم کہاں سے چلے تھے، کہاں آگئے۔ میرے مولا!… ہمیں جگا… لیکن نہیں… خدا جگائے گا‘ تو جھٹکے سے آنکھ کھُلے گی۔ جس کو اِحساس نہ جگائے اُسے کون جگا سکتا ہے۔ میرے مولا! ہماری بے حسی کو بے حیائی نہ بننے دے۔ میرے آقا! ہم نا اہل ضرور ہیں‘ لیکن تیرے حبیب ﷺ کے نام لیوا ہیں۔ ہم پر رحم فرما… ہمیں ہمارے فرائض سے آشناکر۔ ہمیں ایک قوم بنا ، ہم پر نازل فرما… اپنے کرم، اپنی رحمتیں!
ہم اِحسان فراموش قوم ہیں۔
اپنے اَسلاف کی محنتوں کو برباد کرنے والی قوم… ہم بحث کرنے والی قوم ہیں۔ ہمارے پاس بڑے اخبار ہیں اور وہ خبر کسی اخبار میں نہیں ہوتی‘جس خبر کی ضرورت ہے… جو خبر اہم ترین ہے۔ 
ہم نے اپنے آپ کو دُشمن کی نگاہ سے کبھی نہیں دیکھا۔ اُس کے سامنے ہم سب ہم عقیدہ ہیں۔ دشمن یہ نہیں دیکھتا کہ شیعہ کون ہے‘ سُنّی کون۔ ہم بھول گئے اُس عہد کو جو ہم نے اپنے آپ سے کِیا تھا، قائداعظم سے کیا تھا، اِقبال سے کیا تھا۔
مسلمانانِ ہند سے کیا تھا، مسلمانان ِعالم سے کیا تھا، خدا سے کیا تھا۔ ہم سب کچھ بھول گئے۔ ہم یاداشت کھوبیٹھے ہیں۔ ہماری تاریخ بدل گئی ، جغرافیہ بدل گیا، ہماری شناخت بدل گئی، تشخص مسخ ہو گیا۔ ہم‘ ہم نہ رہے اور پھر طُرفہ عذاب کہ ہم پر اَثر بھی نہ ہوا۔ 
ہمارے مشائخ ‘خدا بھلا کرے اِن بزرگوں کا‘ اَب ویسے نہیں ‘جیسے اِن کے آباء تھے۔
آستانے وہی ہیں مگر بات وہ نہیں۔ طریقت اپنے طریقے بدل گئی۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سب جھوٹے ہیں۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ سب سچّے نہیں ‘ کیوں نہیں؟ جھوٹے کی نشاندہی کون کرے گا؟ جب قُرب ِسلطان مسلک بن جائے تو راہ ِسلوک مسدود ہو جاتی ہے۔ جب اہل باطن‘ اہل ِثروت کا تزکیہ نہ کریں تو اُن کا تقرّب حرام ہے۔ جب فقراء اِسلامی ملک میں بھی اِخفا سے کام لیں تو مصلحت اندیشی ہے اور مصلحت اندیش‘ درویش نہیں ہو سکتا۔
خانقاہ کا اِدارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ کسی کو غم نہیں، کسی کو فکر نہیں۔ میں صرف اُس انسان سے مخاطب ہوں جو اِس وقت باطنی نظام میں فائز ہے۔ وہ قوم میں موجود بے راہ روی کی ذِمہ داری قبول کرتا ہے‘ یا صرف اَپنے مرتبے ہی میں مگن ہے؟ہم اُس سے سوال کرتے ہیں کہ عالی مرتبت! ہم آپ کا انتظار کریں کہ اپنا بیڑہ خود ہی پار کریں۔ خوابیدہ قوت سے بیدار کمزوری بہتر ہے۔
”لاخوف“ کی منزلیں طے کرنے والو! ساری ملّت کو خوف زدہ ہی رکھنا ہے کہ ”لا تقنطو“ کی شرح بھی ہو گی۔ وقت کے غوث، قطب، ابدال، قلندر کیا کر رہے ہیں۔ ہمارے اکابرین ذَرا دھیان کریں۔ اے صاحبانِ بصیرت! ہم لوگ راستہ بھول گئے۔ کہاں ہیں رجال الغیب‘ پکار ہے پکار ہے، فریاد ہے فریادہے … کوئی بے بصر مرید‘ میری اِس بے باکی کو گستاخی نہ سمجھے… یہ ہماری اُن کی بات ہے… راز و نیاز کی رَمزیں ہیں۔
 
…اور ہمارے علما… ”فی سبیل اللہ فساد“… لیکن نہیں۔ سب علما نہیں۔ قابلِ قدر تو قابلِ قدر ہیں۔ علم والے تو علم دے رہے ہیں۔ لاکھوں مساجد کے لاکھوں آئمہ… پانچ وقت تبلیغ کر رہے ہیں اور اِس نا اہل قوم کا ذمہ دار کون ہے؟ اب اُس نا اہل ڈاکٹر کی طرح یہ نہ کہنا کہ ہم نے تو اپنا فرض پورا کیا‘ آگے مریض کا مقدّر… قوموں کے لیے ایسے نہیں ہوتا۔
ذِمہ داری لی جاتی ہے۔ صرف فرض پورا نہیں کیا جاتا۔ اگر خدا نخواستہ قوم کو کوئی حادثہ پیش آیا‘ تو تم بھی نہ رہو گے… نہ اہل‘ نہ نا اہل… سب ہی ایک کشتی میں سوار ہیں۔ زندگی میں آخرت کا عمل سکھانے والو! زندگی کا عمل کب سکھاؤ گے؟ 
ہمارے اور بھی محسن ہیں‘ ہمارے سیاست دان، لیڈر صاحبان۔ قائدین کی بہتات نے قیادت کا فقدان پیدا کر دیا ہے۔
اِتنے لیڈر کہ قوم اکیلی رہ گئی ہے۔ ہر نا عاقبت اندیش کو زعمِ آگہی ہے، ہر چرب زبان‘ سیاست دان ہے۔ ہر آدمی ہر دوسرے آدمی کو ہر وقت کچھ نہ کچھ سمجھا رہا ہے۔ سیاست کے فلسفے بیان ہو رہے ہیں۔ جمہوریت کے فوائدپر لیکچر ہو رہے ہیں۔ 
کالعدم کو سُوئے عدم ہی کیوں نہ رخصت کر دیا جائے؟ آج کی سیاست راستے مانگ رہی ہے۔ بھیک مانگ رہی ہے۔ رحم طلب کیا جا رہا ہے۔
اِلتجا ہمارا پسندیدہ عمل ہے۔ 
علم والے آدھے ملک کو آدھے ملک کے خلاف اُکسارہے ہیں۔ اِسلام دنیا کو نظام دینے کے لیے آیا اور آج ہمیں لا دین اور بے دین نظام کی اَفادیت بتائی جا رہی ہے۔ نئی معیشت‘ نئی سیاست کی اَساس ہے۔ شُکر ہے کہ ابھی سیاسی ڈھانچے بننے باقی ہیں۔ ابھی اتنی جلدی ہی کیا ہے! مارک ٹائم… ہمارا نعرہ ہے۔ اِک عجب عالم ہے، قیامت ہے کہ رات کب کی ختم ہو چکی ہے لیکن سورج ابھی نہیں نکلا… ابھی شاید طویل منصوبہ بندی کا دَور ہے۔
سوال یہ ہے کہ صف بندی کا زمانہ کب آئے گا۔
عزیزانِ محترم! میری مانو‘ تو آپ کسی کو نہ مانو… کسی کی نہ سنو، اپنی مرضی کرتے جاؤ۔ حتیٰ کہ وہ وقت آن پہنچے جب ساری قوم اللہ کی رحمت کو پکارنے پر مجبور ہو جائے اور پھر اَفلاک سے نالوں کا جواب آئے گا۔ دُعا کو تاثیر کا منہ دیکھنا نصیب ہو گا۔ ایمان سینوں میں بیدار ہو گا…اور پھر نکلیں گے ‘غاروں سے طاقتور شیر،اللہ والے، باطن کے شہباز، سلطان الفقراء، شہنشاہِ قلندراں… اور پھر آناً فاناً طوفان کے رُخ موڑ دیئے جائیں گے، ٹوٹے ہوئے شیشے… معاف کرنا ٹوٹے ہوئے دِل جوڑ دیئے جائیں گے۔
حق والوں کو حق مل جائے گا، قوم کے روشن مستقبل کا ستارہ طلوع ہو گا، اندیشے دَم توڑ دیں گے اور اُمید کے مسکن جگمگائیں گے… لیکن… کیا کبھی ایسے ہوا؟ کیا ایسے کبھی ہو گا؟ کیا ایسے ہو سکتا ہے؟ اہل ِ باطن کی خدمت میں سوال ہے…!

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif