Episode 28 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 28 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

منفعت
منفعت طلبی یا افادیت پرستی یا سادہ الفاظ میں فائدے کی تمنایا خود غرضی کا سفر بڑا ہی بے رونق اور بے کیف سا سفر ہے۔ اِنسان ہر حال میں اگر یہی سوچتا رہے کہ اُس کا فائدہ کس بات میں ہے‘ تو وہ اِس کائنات سے کٹ کر رہ جائے گا۔ ہر بات تو اِنسان کی منفعت کے لیے نہیں۔ یہ کائنات دُوسروں کی منفعت کی بھی کائنات ہے۔
اپنا فائدہ سوچنے والا اِنسان دُوسروں کو صرف استعمال کرنا چاہتا ہے۔
وہ کسی کو فائدہ پہنچانا نہیں چاہتااور اِس طرح وہ بے فیض ہو کر رہ جاتا ہے۔ اِنسان دُوسروں کے کام نہ آئے‘ تو اُن سے کام لینا ظلم ہے۔ یہ ظلم دنیا میں ہوتا ہی رہتا ہے۔ ہمارے ہاں ہر صاحبِ مقام اور صاحبِ مرتبہ اِنسان اپنے مقام اور اپنے مرتبے کا خراج وصول کرتا ہے … اور کچھ نہیں تو لوگوں سے سلام کی توقع کرتا ہے لیکن خود دُوسروں کو سلام کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔

(جاری ہے)

معاشرے میں عزت کی تمنا خود غرضی کی انتہا ہے ، اِس طرزِ سلوک کو اِستحصال بھی کہتے ہیں۔ آخر دُوسروں میں باعزت ہونے کی تمنّا ہی کیوں ہو۔ لوگوں سے اپنی صداقت اور دیانت کی قیمت کیوں وصول کی جائے۔ لوگوں کو کیوں مجبور کیا جائے کہ وہ آپ کی عزت کریں، آپ کا احترام کریں، آپ کا ذِکر کریں،آپ کی بات کریں۔ لوگ اپنے اپنے کام کیوں نہ کریں۔ 
ایک آدمی محنت کرتا ہے ، نوکر ہو جاتا ہے، افسر بن جاتا ہے ‘اب افسری کر کے ماتحتوں سے خراج وصول کرتا ہے، اُن سے توقع کرتا ہے کہ وہ اُس کی عزت کریں ‘ اُس کو سلام کریں‘ اُس کی غیر سرکاری حیثیت کا بھی احترام کریں جبکہ وہ خود اُن کی زِندگی اور زِندگی کے تقاضوں سے بے خبر اور لا تعلق ہو۔
شاید لوگ مرتبہ اس لیے چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ مرتبے کے آگے سرنگوں ہوں۔ کیا اپنی سربلندی دُوسروں کو سرنگوں کرنے سے حاصل ہوتی ہے؟
شاید اِنسان نے فطرت سے یہ مزاج حاصل کیا ہے۔ ایک وسیع کائنات بنانے والے نے اِنسان کے لیے ایک محدود دُنیا بنائی ہے ‘اور اِس میں اِنسان کو محدود زندگی دے کر محدود اِستعداد عطا فرمائی ہے۔ یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔
اب اِس محدود اِنسان پر لازم ہے کہ لامحدود کائنات بنانے والے کو سجدہ کرے ،اُس کے کسی فعل پر تنقید نہ کرے ،اُس کا گِلہ نہ کرے‘ بس اُس کی تسبیح کرتا جائے۔ اِنسان کی مجبوری یہی ہے کہ وہ اِس کے علاوہ کر بھی کیا سکتا ہے۔ اِنسان کو جکڑ کر رکھ دیا گیاہے ۔ اُس کی تقدیر قوی ہے اور تدبیر کمزور۔ وہ کرے بھی تو کیا کرے۔بے بسی میں سجدے کے علاوہ ہے بھی کیا! 
اِنسان سوچتا ہے۔
اُسے سوچنا نہیں چاہیے‘ لیکن وہ سوچنے پر بھی تو مجبور ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اِتنے بڑے ستارے‘،اتنے بڑے سیّارے، یہ چاند،یہ سورج ‘آخر کس کام کے۔ شبِ فرقت یا تنہائی کی رات میں تارے بڑے کام آتے ہیں۔ اُداس اِنسان ستارے گنتا رہتا ہے اور ستارے گنتی میں نہیں آتے۔ آخر ستاروں کا فائدہ کیا ہے؟ اتنِے بے شمار ستارے‘ بیمار انسان کی راتوں کے ساتھی ‘ اُس کی بیماری دُور نہیں کرتے ۔
غریب کی غریبی دُور نہیں ہوتی۔ وہ ستارے گنتا ہے اور اُس کی اپنی آنکھوں سے تارے گرتے ہیں، بلکہ انگارے گرتے ہیں۔ وہ سوچتا ہے کہ یہ سب کیا ہے؟اتنا بڑا سورج‘ روشنی کا سفیر‘ زندگی کا محرک‘ کتنا منوّر ہے۔ سورج خود روشن ہے لیکن کسی انسان کے‘ مجبور انسان کے‘ غریب انسان کے دیئے کو چُلّو بھر تیل تو نہیں دیتا۔ آخر اس کا کیا فائدہ؟ 
بادل برستے ہیں ، گرجتے ہیں، کڑکتے ہیں۔
دبدبہ ہی تو ہے۔ قطرے قطرے کو ترسنے والے ترستے رہتے ہیں۔ بادلوں کا فائدہ کیا ہے؟ شعرا نے بادلوں سے مضامین لیے ہوں گے اوراگر غور سے دیکھا جائے تو شعرا کا فائدہ کیا ہے؟ شعر موزوں کرنے والے زندگی کو موزوں نہیں کر پاتے۔ شعرِ تر کی صورت دیکھنے والے لُقمہٴ تر کی صورت نہیں دیکھ سکتے۔ آخر اِس کا فائدہ ہی کیا ہے؟
 پہاڑوں کا سلسلہ وسیع و عریض ہے۔
پہاڑ راستوں کی دیوار بنے ہوئے ہیں‘ ورنہ ایک ملک دُوسرے ممالک کے ساتھ ہی ملا ہوتا۔ کتنے فائدے ہیں پہاڑوں کے۔ اِن سے کیا نہیں ملتا۔ اِن پر مفت اُگنے والے درخت ‘ جن سے لکڑی ملتی ہے۔ پھل دار درخت ہیں۔ اِن سے پھل ملتا ہے اور جو بہت ہی بے مقصد پہاڑ ہیں ‘ اُن سے کرش ملتا ہے۔ لیکن کہاں ملتا ہے؟ لکڑی ‘غریب کے خون سے زیادہ مہنگی ہے۔ پھل ‘بیمار کی قوتِ خرید سے باہر ہے اور رہا کرش‘ خرید کے دیکھو۔
اتنی عظیم طاقت ‘ پہاڑ۔ کس کے لیے؟ بنانے والے نے دریا بنائے۔ نہریں اور پانی اور ڈیم حاصل ہوا۔ بجلی بیچی گئی اور ایک عام انسان کو کیا ملا؟ بجلی سے کارخانے چلے ۔ نہروں سے فصل حاصل ہوئی۔ کس کے لیے؟ ملک امیر ہو گئے، انسان غریب رہے۔ تقسیم نامنصفانہ رہی۔ دریا خشک ہو جائیں ‘تو سب برابر ہو جائیں۔ طغیانی آئے‘ تو سب برابر ‘ ورنہ کیا فائدہ؟
صرف یہی نہیں ‘ہر سطح پر،ہر شعبے میں نعمتیں ‘محروم اِنسانوں کے لیے عجب حال پیدا کرتی ہیں‘ یعنی وہی بُرا حال۔
صاحبانِ تصوف ہی کو لیں۔ سُوئے ادب مقصود نہیں۔ عالی مرتبت صاحبانِ کشف و کرامت ‘معتقدین کو کیا دیتے ہیں؟ احساسِ محرومی۔ کسی کے عرفان کا کیا فائدہ؟ کوئی صاحبِ کمال ہو ‘ تو ہوا کرے ۔ ہماری آرزو تو پوری کرے ‘ورنہ کیا فائدہ؟ ہمارے دُکھ کی دوا نہ کرے ‘تو ابنِ مریم ہوا کرے کوئی۔ ہمیں کیا فائدہ؟ کسی کی تعریف سے ہمیں کیا ملے گا؟ بہاروں میں اپنی گائے بھوکی مر جائے تو کیا فائدہ؟
 کسی شعبے کو لیں‘ صاحبِ کمال دوسروں کے دل میں صرف خوف پیدا کرتا ہے۔
وہ تعریف چاہتا ہے‘ خراج لیتا ہے لیکن دیتا کچھ نہیں۔ ڈرامہ لکھنے والوں کو مال ملتا ہے ۔ دیکھنے والوں کو کیا ملتا ہے؟ وقت ضائع ہوتا ہے ‘ بجلی خرچ ہوتی ہے اور ذہن خراب ہوتا ہے۔ بچے ٹی وی دیکھتے ہیں اور امتحان میں بُرا حال ہوتا ہے۔ پھر اس قوم کے نوجوان ایک مسئلہ بن جائیں گے ! اس سے کیا فائدہ؟
تعریف کرنا یا تعریف سننے کی تمنا کرنا دراصل زندگی کے لیے مصیبت ہے۔
جب تک کوئی کسی کو قابلِ ذکر منفعت نہ پہنچائے ‘ اُس کی کیا تعریف۔ اپنے خیال کی ترقی بے معنی ہے ‘ جب تک دوسروں کے حال کی ترقی نہ ہو۔ ضرورت سے محروم انسان اس کائنات اور کائنات کے انوار اور صاحبانِ کمال کے کمالات کو کیا خراج دے گا۔ یہی عجب بات ہے کہ موٴکل کا مقدمہ عدم توجّہی اور عدم پیروی کی وجہ سے خارج ہو جاتا ہے اور وہ بیچارہ اپنے وکیل کی عزت بھی کرتا ہے‘ مال بھی دیتا ہے وکیل کو… اور مجبورو بے بس اپنے حال پر روتا بھی ہے۔
 
اساتذہ کرام کا ذکر نہیں کرنا چاہیے ‘ کیونکہ اساتذہ تو اساتذہ ہیں۔ علم والے ، علم دینے والے ، طالب علموں کی زِندگی بنانے والے۔ اور اگر سچ کہنے پر آ ہی گئے ہیں تو طلبہ کی زندگی سے کھیلنے والے ، علم کو مال میں بدلنے والے ،کلاس کے اوقات میں گھر کے کام کرنے والے اور کلاس ٹائم کے بعد ٹیوشنوں پر زور دینے والے۔ شاہینوں کے نشیمنوں میں کرگسوں کے ہجوم۔
اساتذہ سے کوئی پوچھ سکتا ہے کہ اُن کا کیا فائدہ ہے ؟ طلبہ کو کیا فائدہ ہوا؟ پاس ہونے والے طلبہ کو داخلہ نہ ملا۔ فیل ہونے والوں کا تو حشر ہی نہ پوچھو۔ آخر اِس تعلیم کا کیا فائدہ؟ آخر کیا فائدہ؟ اُمراء کے نالائق بچے‘ امیر ہی رہیں گے۔ صاحبانِ مرتبہ ہی بنیں گے۔ غریبوں کے بچے‘ لائق بچے‘ اپنی غریبی کے آس پاس رینگتے ہوئے نظر آئیں گے․․․ بے فائدہ ! امیر کے بچوں کو پڑھنے کا کیا فائدہ؟ غریب کے بچوں کو بھی پڑھنے کا کیا فائدہ؟ امیر‘ امیر رہے گا ، غریب ‘غریب۔
آخر اِس زندگی کا بھی کیا فائدہ ؟ اِنسان پابندِ زمان و مکان ہی رہے گا، شام کو سوئے گا، رات کو خواب دیکھے گا،دِن گردشوں میں رہے گا۔ خوشی کے چند ایام ، غم کے لامتناہی سلسلے۔ اِنسان کیا کرے ! بنانے والے سے پوچھنا گستاخی ہے ، سُوئے ادب ہے۔ موت ہی جب زندگی کا انجام ہے‘ تو یہ ساری کوشش کیا ہے؟زندہ رہنے کے لیے یا مرنے کے لیے؟
لیکن نہیں‘ ایسا نہیں ۔
اِنسان ہی باعثِ تخلیقِ کائنات ہے۔ وہی وارثِ کائنات ہے۔ اِنسان صرف صحت مند سوچ سے محروم ہو رہا ہے‘ ورنہ یہ سب نظام ایک مربوط اور خوب صورت نظام ہے۔ نظاروں سے لطف حاصل کیا جاتا ہے‘ اُن سے فائدہ نہیں مانگا جاتا۔ سجدوں سے تعلق کا واسطہ ہے ‘ افادیّت کا نہیں۔ روشنی‘ روشنی ہے ،نور ہے ․․․․ سب کے لیے یکساں !
اِنسان اپنے آپ سے بیزار ہے‘ ورنہ ہر جا ‘جہانِ دیگر ہے۔
غور کرنے کا حکم ہے۔ غور کیا جائے۔ سوال کرنے کا حکم نہیں۔ سوال تو ہم سے ہو گا۔ ہر شے سے فائدہ مانگنا ہی زندگی کے لطیف اِحساسات سے محرومی کا باعث ہے۔ امیری غریبی‘ سُکھ دُکھ‘ دُھوپ چھاؤں ․․․․․․․زندگی کے ہی نام ہیں۔
زندگی بدلتی رہتی ہے ۔ ایّام بدلتے رہتے ہیں۔ ضرورت پوری ہو نہ ہو ‘ زندگی کا لطف ختم نہ ہو۔ شعر ‘ شعر ہے ، راحتِ قلب و جاں، دِل کا سرُور ہے۔
شعر سے فائدہ نہیں حاصل کیا جاتا۔ اُس سے لطف حاصل کیا جاتا ہے ۔جگمگاتے ستارے ، جھلملاتے آنسو اچھے لگتے ہیں۔ اُن کا فائدہ؟ پھر وہی بات۔ آخر فائدے کا ہی کیا فائدہ ہے؟ زِندگی سے زِندگی کے علاوہ کیا چاہیے ؟ عبادت سے ماسوائے عبادت نکال دو ‘تو معلوم ہو کہ اصل منفعت کیا ہے۔ زِندگی سے تمنائے منفعت ، اندیشہٴ زیاں نکال کے زِندگی کا لطف لے کر دیکھو۔
کبھی تو دُکاندار بننا چھوڑو۔ ہر کام سے فائدے تلاش کرنا‘ یہ کیا تلاش ہے ۔ اپنے وجود میں نوری وجود تلاش کرو۔ اِس کائنات میں اپنی کائنات دریافت کرو۔ لذّتِ وجود ہی تو زندگی نہیں۔ رُوح کی خوراک کیا ہے؟ اُسے تلاش کرو۔ اپنے باطن کا سفر کرو۔ اپنی گٹھڑی کی گرہ کھولو۔ اپنے دِل کی دُنیا کی سیر کرو۔ گلاب کے رنگ اور اُس کی خوشبو نے بُلبُل کو ترنّم بخشا۔ آپ گلاب سے گل قند بناتے ہو۔ آپ کیا کرتے ہو؟ رنگوں سے بے بہرہ، نغمات سے محروم ،عقل کے اندھے ،خوشیوں سے مال مانگتے ہیں۔ کیا کرتے ہیں؟ بنانے والے نے جو بنایا‘ وہی اصل ہے۔ دینے والے نے جو دیا ‘ وہی اصلی ہے۔ کرنے والے نے جو کیا ‘ وہی حسنِ تخلیق ہے … فائدے کا سفر ‘بے فائدہ ہے!

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif