Episode 30 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 30 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

خاموشی 
خاموش اِنسان ‘خاموش پانی کی طرح گہرے ہوتے ہیں… خاموشی خود ایک راز ہے اور ہر صاحبِ اَسرارخاموش رہنا پسند کرتا ہے۔ خاموشی‘ دانا کا زیور ہے اور احمق کا بھرم … خاموشی میں عافیّت ہے… اگر ہم زبان کی پھیلائی ہوئی مصیبتوں کا جائزہ لیں‘ تو معلوم ہو گا کہ خاموشی میں کتنی راحت ہے۔ زیادہ بولنے والا اِنسان مجبور ہو جاتا ہے کہ سچ اور جھوٹ کو مِلا کر بولے۔
اُس کے پاس اِتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ سوچ سکے کہ کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا۔ 
فطرت کے عظیم شہکار ایک مُستقل اور مُسلسل سکوت میں ہیں۔ پہاڑوں کے عظیم و وسیع سلسلے خاموش ہیں۔ اِس خاموشی میں کتنی داستانیں پنہاں ہیں۔ اِس سکوت میں کتنی ہیبت ہے۔ اِس سنّاٹے میں کتنے راز ہیں۔ پہاڑ اپنے پہلُو میں کتنے گنجینے رکھتے ہیں‘ کوئی کیا جانے، کوئی کیا سمجھے۔

(جاری ہے)

پہاڑوں کے اندر خزانے ہیں، پہاڑوں کے اوپر خزانے ہیں۔ پہاڑوں کے پتھر بھی عجب راز ہیں… سب خاموش، سب ساکت۔ کبھی کبھی اِس مُہیب سنّاٹے میں ہوائیں چیختی ہیں۔ ہوا کی آواز‘ پہاڑوں کی خاموشی کو اور زیادہ واضح کر دیتی ہے۔ 
پہاڑوں سے گِرنے والی آبشاریں اور اُن کی آواز‘ خاموشی کو زیادہ معنی خیز بنا دیتی ہے۔ خاموشی کا اثر اُس وقت گہرا ہو جاتا ہے ‘جب چھوٹی سی آواز گونج پیدا کرے۔
پہاڑوں میں جب آوازیں گونجتی ہیں‘سنّاٹے اور مُہیب ہو جاتے ہیں۔ پہاڑوں کی خاموشی ‘فطرت کی خاموشی ہے۔ اہلِ دِل حضرات پہاڑوں میں اپنا مسکن بناتے ہیں تو اِس میں یہی راز ہے کہ وہ فطرت کے قریب ہونا چاہتے ہیں اور فطرت بالعموم خاموشی اختیار کرتی ہے۔ 
ہماری زِندگی کا بیشتر حِصّہ خاموشی میں گزرتا ہے۔ دِن ہنگاموں اور آوازوں کی نذر ہوتا ہے اور رات خاموشی کی جلوہ گری ہوتی ہے۔
محنت سے تھکے ہوئے اِنسان خاموش ہو جاتے ہیں۔ پرند، چرند، سب خاموش۔ گرمیٴ بازار ختم ہو جاتی ہے اور بند دُکانیں یوں نظرآتی ہیں‘ جیسے بے ربط آوازوں کے لبوں پر تالے پڑے ہوں۔ آواز‘ اِنسان کو دُوسروں سے متعلق کرتی ہے اور خاموشی اِنسان کو اپنے آپ سے متعارف کرتی ہے۔ دُوسروں کو قائل کرنے کی کوششیں‘ آواز کے کرشمے ہیں۔ خود کو مطمئن کرنا ‘خاموشی کا اعجاز ہے۔
زِندگی ایک ایسا راز ہے ‘جو اپنے جاننے والوں کو بھی راز بنا دیتا ہے۔ زِندگی کا دریا ‘خاموشی سے رَواں دَواں ہے۔ اِس میں آوازوں کی موجودگی‘ اِس کی خاموشی کو گہرا کر دیتی ہے۔ زِندگی سراپا اور سَربستہ راز ہے اور راز ہمیشہ خاموش ہوتا ہے۔ اگر خاموش نہ ہو‘ تو راز نہیں رہتا۔ کہتے ہیں ایک شخص زِندگی کے راز کی تلاش میں سَرگرداں تھا۔ اُس نے بہت سے لوگوں سے رازِ ہستی دریافت کیا۔
کسی نے کچھ نہ بتایا۔ وہ بہت گھبرایا ، بہت پریشان ہُوا، چیخا چلایا۔ آخر کار وہ کچھ مایوس سا ہو کر خاموش ہو گیا۔ ایک خاموش رات اُسے اپنے اندر سے آواز آئی ”نادان! لوگوں کے دَروازے کھٹکھٹانے سے رازِ ہستی کیا ملے گا۔ تُو نے اپنے دِل کے دروازے پر بھی دستک دی ہوتی۔“ اُس نے اپنے اندر سے آنے والی آواز کو سُنا، سوچا، غور کِیا۔ اُسے معلوم ہُوا۔
جو معلوم ہُوا…سو ہُوا …اور وہ خاموش ہو گیا۔ 
یہ راز عجب راز ہے… اِنسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے …راز کی تلاش‘ کسی بیرونی سفر کا نام نہیں۔ یہ راز ‘اندر کا سفر ہے۔ اندر کے اِنسان سے راز مِلتا ہے اور خاموشی میں مِلتا ہے اور مِلنے کے بعد خاموش کر دیتا ہے۔ ایسی خاموشی جس پر گویائی نثار ہو… ِانسان کا اصل ساتھی، اصل رہبر‘ اُس کا اپنا ذوق ہے۔
اُس کی اصل منزل‘ اُس کا اپنا آپ ہے۔ اپنے من میں ڈوبنے کی دیر ہے‘ گوہرِ مُرادمِل جاتا ہے۔ آواز حجاب ہے‘ خاموشی کا شفِ راز ہے۔ باطن کا سفر، اندرون بینی کا سفر، من کی دُنیا کا سفر، دِل کی گہرائیوں کا سفر ، رازِ ہستی کا سفر، دِیدہ وَری کا سفر ، چشمِ بینا کا سفر، حق بینی و حق یابی کا سفر‘خاموشی کا سفر ہے۔ 
علم ُالبیان کے خلاف بات نہیں ہو رہی۔
جب راز دریافت کرنا ہو‘ تو خاموشی ضروری ہے۔ اِس کے بعد اُس کا اپنا حکم ہے کہ اِنسان کو بولنے دے یا خاموش کر دے۔ ویسے اِنسان کی عافیت کے لیے خاموشی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ فطرت کے کرشمے خاموشی سے جلوہ آراہیں… سورج ہی کو لیں‘ اُس نے کبھی اپنی روشنی کے ثبوت میں کچھ دلائل نہیں دیے ‘بلکہ آفتاب خود ہی دلیلِ آفتاب ہے۔ وہ خاموشی سے دُنیا کو روشنی دیتا ہے۔
کسی سے شُکریے کے دو لفظ سننے کا بھی اِنتطار نہیں کرتا۔ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ سورج کا مذہب ہی روشنی ہے اور روشنی خاموش رہتی ہے۔ اِحسان ہمیشہ خاموش رہتا ہے۔ جتایا ہوا اِحسان ضائع ہو جاتا ہے۔ چاند خاموش ہے۔ کتنا خوبصورت، کتنا منوّر، کیسا روشن، کیسا راز، کیا کیا کرشمے ہیں۔ خاموشی میں کروڑوں ستارے ہیں، اپنی اپنی منزل پر گامزن ۔ کوئی شور نہیں، کوئی ہنگامہ نہیں، کوئی تقریریں نہیں۔
ستارے بڑے پُراَسرار ہیں، چل رہے ہیں، اپنے اپنے مقرر شُدہ مدار میں رَواں دَواں ‘ خاموشی اور اِطمینان کے ساتھ ۔ فطرت کے مناظر، فطرت کے جلوے، کرشمے ‘فطرت کی زبان خاموشی کی زبان ہے۔ 
اِک تماشا ہے۔ سارا عالم تماشائی ہے۔ آسمان پر کرشمے ہیں۔ زمین پر جلوے ہیں۔ سب خاموش ہیں۔ صحرا کی وُسعتیں…عظیم وُسعتیں… خاموش ہیں۔ کتنا گہرا راز ہے۔
دُور تک پھیلے ہوئے صحرا، پیاسے صحرا، لَب خشک ہیں‘ لیکن لَب بند ہیں… عجب داستانیں ہیں۔ اہلِ دل حضرات‘ صحرا کی یاد اور صحرا کی پیاس کے معنی جانتے ہیں۔ دَشتِ وحشت اور دَشتِ جنوں خاموش ہیں… مکمل سکوت…! سمندر خاموش ہے۔ گہرا ہے، بہت گہرا۔ خاموش ہے ‘بہت خاموش۔ بڑا راز‘ بڑا خاموش۔ سمندر میں طوفان ہیں، لہروں کا اِرتعاش ہے ‘بجا‘ لیکن سمندر خاموش ہے …بہت خاموش۔
 
خالق کی بات ہم اِس لیے نہیں کر سکتے کہ وہ خالق ہے۔۔۔ اُس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ وہ بولتا ہے اپنے محبوبوں سے، اپنے پیغمبروں سے …اور یہ بولنا… عجب ہے۔ دنیُا والوں کے لیے‘ دُنیا کے بنانے والا خاموش ہے اور اِس خاموشی کے باوجود اُس کے تذکرے ہیں، اُس کی باتیں ہیں، اُس کے چرچے ہیں، اُس کی پسنداور ناپسند کے بیانات ہیں۔ وہ خاموش ہے۔
وہ سب سے بڑا جلوہ ہے، سب سے بڑا راز ہے اور سب سے زیادہ خاموش۔ اُس سے بغاوت کرو‘ تو بھی خاموش۔ خاموشی کو پیدا کرنے والا خود خاموش ہے۔ فرشتے خاموش ہیں، جِنّات خاموش ہیں۔ 
لیکن اِنسان بولتا ہے اورمُسلسل بولتا ہے۔ سچ نہ بول سکے تو جھوٹ بولتا ہے۔ ابہام بولتا ہے۔ اپنی ستائش میں بولتا ہے۔ فطرت کے خلاف بولتا ہے۔ خالق کا گِلہ کرتا ہے۔
زِندگی کے کرب کی باتیں کرتا ہے۔ ہنگامے بولتا ہے۔ شاہی فرمان بولتا ہے۔ بغاوتیں بولتا ہے۔ کبھی بندہ ہو کر بولتا ہے، کبھی مولا ہو کر بولتا ہے۔ تنہائیوں میں بولتا ہے۔ کوئی سننے والا نہ ہو‘ تو اپنے آپ سے بولتا ہے۔ خو د سوال کرتا ہے اور خود ہی جواب بولتا ہے۔ خود ہی ثواب بولتا ہے اور خود ہی عذاب بولتا ہے۔ کبھی ماضی بولتا ہے ‘کبھی مُستقبل۔
اِنسان دانائی بولتا ہے، حماقت بولتا ہے۔ خاموش نہیں ہوتا‘اِس لیے کہ خاموشی میں اُسے اپنے رُوبرُو ہونا پڑتا ہے اور وہ اپنے رُوبرُو نہیں ہوتا۔ وہ جانتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا‘ لیکن یہ بات وہ کس طرح تسلیم کرے۔ وہ کیسے کہہ دے کہ وہ بیوقوف ہے۔ وہ ناآشنا ہے۔ وہ کچھ نہیں ہے۔ اُس کی ہستی ‘ کیا ہستی ہے۔ اُس کی بات‘ کیا بات ہے۔ وہ اپنی لا علمی کا علم رکھتا ہے اور پھر بھی خاموش نہیں ہوتا۔
وہ اپنی جہالت سے آگاہ ہے اور پھر بھی خاموش نہیں ہوتا۔ اُسے خبر ہے کہ قبل اَز پیدائش‘ خاموشی کے زمانے ہیں اور مابعد‘ خاموشی ہے۔ اِس زندگی میں بھی خاموشی ہے۔ وہ سب سمجھتا ہے لیکن خاموش ہونا ‘اُس کے بس میں نہیں۔ اُسے غم ملے‘ تو زمانے کو سُناتا ہے۔ اُسے خاموشی ملے‘ تو دُنیا کو بتاتا ہے۔ اُسے بولنے اور صرف بولنے کا شوق ہے اور اُس کے لیے خاموشی اور صرف خاموشی ضروری ہے۔
اِنسان کو بولنے کا اِس قدر شوق ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر آدمی دُوسرے آدمی سے ہر وقت کچھ نہ کچھ کہہ رہا ہوتا ہے۔ الفاظ کے وسیع پھیلاؤ میں معانی مفقود ہوں‘ تو بھی اِنسان بولے جاتا ہے اور بولتے بولتے وہ دِن قریب آجاتا ہے‘ جب اِنسان کو محسوس ہوتا ہے کہ اُس نے صرف جھوٹ بولا۔ اُس نے بے معنی الفاظ بولے۔ اُس نے بے وجہ آواز استعمال کی۔ اُس نے اپنے اصل ساتھی سے کوئی بات نہ کی، کوئی بات نہ پوچھی… یہ ساتھ اُس کا باطن ہے… خاموش ساتھی ‘خاموشی سے مِلتا ہے۔ کاش! ہم کبھی خاموشی کے ساتھ اپنے رُوبرُو ہوتے۔ 

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif