Episode 33 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif

قسط نمبر 33 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف

جمہوریّت 
جمہوریّت ایک ایسا نظامِ سیاست ہے‘ جس کی تعریف بس سے باہر ہے۔ دُنیا والوں کے ہاں اِس کی تعریف یہ ہے کہ عوام کی لائی ہوئی، عوام کی حکومت، عوام کی خاطر۔ اگر دِینی معاشرے میں طرزِ حکومت کی تعریف مقصود ہو تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دِینی حکومت دراصل اللہ کی حاکمیت ہے، اللہ کے بندوں پر ، اللہ کی خاطر۔ دونوں میں فرق صاف ظاہر ہے۔
جمہوریت اپنے تمام تر فوائد کے باوجود کبھی دِینی حکومت نہیں ہو سکتی۔ لہذا دِینی معاشرے میں جمہوری طرزِ حکومت کا قیام صرف نا ممکن ہی نہیں‘ نامناسب اور نارَوا ہے۔ 
اوّل تو اللہ کا ہونا ہی اِنسانوں کے ووٹوں سے نہیں۔ اللہ‘ خود جمہوریّت کے مزاج سے بہت بُلند ہے۔ لوگ مانیں یا نہ مانیں‘ وہ اللہ ہے۔ اللہ کے پیدا کیے ہوئے اِنسان‘ اللہ کو نہیں مانتے۔

(جاری ہے)

اُس کی حاکمیّت کو اور اُس کے اِقتدار ِاعلیٰ کو فرق نہیں پڑتا۔ زمین و آسمان کے لشکر اگر باغی بھی ہو جائیں‘ تو بھی اللہ مالک رہتا ہے، خالق رہتا ہے، مالک ُالملک رہتا ہے۔ فانی مخلوق کو باقی رہنے والی ذاتِ مُطلق کے وجود اور اُس کی حکومت کے بارے میں ووٹ دینے کا حق ہی کیا ہے؟
کسی اِنسان کی مرضی ہو یا نہ ہو‘اللہ، اللہ ہی ہے …حیّ وقیّوم ، قائم و دائم، اعلیٰ وارفع، قیّم، قدیم۔
اللہ کا مزاج جمہوریّت سے بے نیاز ہے۔ وہ کِسی اکثریت کے سامنے جواب دَہ نہیں۔ جبھی تو وہ اللہ ہے۔ اللہ تو اللہ ہے ہی سہی ‘اللہ کے پیغمبر بھی اِنسانوں کے ووٹ اور کثرتِ رائے سے نہیں بنتے۔ جس طرح اللہ‘ اللہ ہے‘ اُسی طرح پیغمبر بھی پیغمبر ہی ہے۔ کثرتِ رائے کا کسی نبی کی نبوّت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 
یہ تو پیغمبروں کی بات ہے۔ اب ذرا غور کریں۔
پیغمبرِ آخر الزمّاں ﷺ کے بارے میں…آپ ﷺاِمامُ الانبیا ہیں اور آپ ﷺ کا مرتبہ نبیوں کے ووٹ کا محتاج نہیں۔ آپ ﷺ جو کچھ بھی ہیں‘اِنسانوں کی رائے سے نہیں‘ اپنے خدا داد مرتبے سے ہیں۔ 
اگر کوئی شخص آپ ﷺجیسی صفات بھی رکھتا ہو اور اُس کے ماننے والوں کی کثیر تعداد بھی ہو‘تو بھی اُس کا مرتبہ آپ ﷺکے مرتبے کے برابر نہیں ہو سکتا۔ زیادہ سے زیادہ وہ آپ ﷺکا اُمّتی ہونے کا شرف حاصل کر سکتا ہے۔
پیغمبر ‘اِنسانوں کی رائے یا اپنی صفات کے بل بوتے پر پیغمبر نہیں۔ وہ اللہ کے فیصلے سے پیغمبر ہیں، اللہ کے دِیے ہُوئے مرتبے سے‘ اِنسانوں کی رائے یا فرشتوں کی کثرتِ رائے سے نہیں۔ ذات ِمُطلق کی مرضی ٴ مُطلق سے آپ ﷺ پیغمبر ہیں۔ آپ ﷺکا مقام اِنسانوں کا دِیا ہُوا نہیں‘ اللہ کی عطا سے ہے۔ پیغمبر کے پیغمبر ہونے میں جمہوریّت کا قطعاً کوئی دخل نہیں۔
 آئیے اِسلام کی طرف …مسلمانوں کی رائے سے دِینِ اِسلام ‘اِسلام نہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ اِسلام اِسلام ہے۔ یہ دِین کثرتِ رائے کے احترام سے دِین نہیں بنا۔ یہ اللہ کے حُکم سے ہے،اللہ کی مرضی سے، اللہ کی عطا سے، اللہ کے فیصلے سے۔ جمہوریت کا اِس میں دُور تک دخل نہیں۔ اگر دُنیا کی کثیر آبادی غیر مسلم ہوُ تو اِس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اِسلام خدانخواستہ غلط دِین ہے۔
اِسلام سچّا دِین ہے۔ اِسلام کے ماننے والے اقلیّت میں ہوں‘تب بھی یہ سچّاہے۔ اِس کے ماننے والے ختم بھی ہو جائیں‘ تو بھی دِین‘ سچا دِین ہے۔ جمہوریّت ‘دِین کے معاملے میں دخل نہیں دے سکتی۔ 
اِسلام سے پہلے جتنے دِین تھے‘ اُنہیں جمہوری رائے عامہ کے حوالے کر کے ختم کر دیا گیا۔ اُنہیں کثرت ِرائے اور مطلب پرست حُکمرانوں نے ہی ختم کِیا۔
اِسلام نہ کسی بادشاہ کے فیصلے سے بدل سکتا ہے، نہ عوام کی کثرت ِرائے سے۔ اِسلام میں کسی مارٹن لوتھرکی گنجائش ہی نہیں ۔ اِس دِین کو دِینِ اِلٰہی بنانے کا مشورہ دینے والے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غرق کر دیئے گئے۔ اِس دِین میں نہ کوئی ترمیم ہو سکتی ہے ‘نہ تخفیف ۔یہ ہے ‘ویسے کا ویسا‘جیسے تھا۔ کثرت ِرائے کو احکامِ دِین کے تابع رہنا پڑے گا۔
جمہوریّت اور ”دِینیّت“ ہم سفر نہیں۔ اگر عوام کی کثیر تعداد صداقت سے عاری ہو ‘ تو دِینی نظامِ صداقت کے لیے ووٹ کون دے گا؟ جھوٹے معاشرے میں سچّا اِنسان کِس سے ووٹ مانگے گا؟ 
روٹی، کپڑے اور مکان کے نام پر جو جمہوریّت قائم ہوئی تھی‘ اُس کا عمل اور اُس کا حشر ہم دیکھ چکے ہیں۔ اِسلام کے نام پر جمہوریّت کا قیام ‘دراصل اِسلام اور جمہوریّت دونوں سے مذاق ہے۔
اِسلام‘ اِسلام ہے اور جمہوریّت ‘ جمہوریّت ۔اِسلام صداقت پر مبنی ہے اور صداقت‘ اکثریت میں نہیں۔ جمہوریّت ‘ اکثریت کی حکومت ہے اور اکثریت ‘دِین سے بیزار ہے۔ 
غور طلب بات ہے کہ جمہوریّت کے ذریعے دِینی معاشرہ کیسے قائم ہو گا؟ دِینی حکومت کیونکر قائم ہو گی؟ اگر اکثریت غلط فیصلہ کرے‘ تو انجام ‘ دِین کے حق میں کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر یزید اوراُس کے ساتھی اکثریت میں ہوں‘ تو بھی صداقت امامِ عالی مقام کے عمل میں ہے۔
یہی بات تو یزید کے ما ننے والوں کو سمجھ میں نہیں آئی کہ حُسین تنہا ہے اور سچّاہے۔ یزیدی اکثریت میں ہیں اور جھوٹے ہیں‘ اُن کی حکومت ہے اور وہ جھوٹے ہیں۔ 
صداقت اور اِمامَت کے کربلا سے گُزرنے کی وجہ ہی یہی ہے کہ اکثریّت والے کثرتِ رائے کی وجہ سے بھُول گئے کہ اِسلام کثرتِ رائے کی بات نہیں‘ اِطاعت و محبتِ مصطفےٰ ﷺ کی بات ہے۔
اللہ سے محبت‘ حضور ﷺکی اِطاعت میں ہے اور حضور ﷺکی محبت ‘ اللہ کی اِطاعت میں ہے۔ اگر ووٹ کو ضرورت بنا دیا گیا‘ تو سچ اور جھوٹ کی تقسیم ختم سی ہو جائے گی۔ ایک قادیانی کا ووٹ‘ ایک مفتی ٴدِین کے ووٹ کے برابر ہو جائے گا۔ غضب ہو جائے گا۔ جھوٹا ووٹ ‘سچے ووٹ کے برابر…! 
آج تک اِسلام کے نافذ نہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ لوگوں سے رائے مانگی جاتی رہی۔
ورنہ مسلمانوں پر اِسلام کے نافذ نہ ہونے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ اللہ کے بندوں پر اور اللہ کے ماننے والوں پر‘ اللہ کے دِین کو نافذ نہ کرنے کی وجہ؟ کہیں نہ کہیں‘ کچھ نہ کچھ غلطی ضرور موجود ہے۔ کیا جمہوریّت اِس غلطی کو دریافت کر کے اِسے دُور کرے گی؟ قطعاً نہیں۔ جمہوریّت اپنا نفاذ کرے گی‘ دِین کا نہیں اور نتیجہ کیا ہو گا! اِس کا سمجھنا مشکل نہیں۔
 
جمہوریّت کا سفر‘ جلسوں کا سفر ہے، جلوسوں کا سفر ہے، تقریروں کا سفر ہے، جھوٹ سچ ملا کر بولنے کا سفر ہے، حکومتِ سابقہ کی مخالفت کا سفر ہے، گٹھ جوڑ اور توڑ پھوڑ کا سفر ہے۔ جس طرح امن‘ دو جنگوں کے دَرمیانی وقفے کا نام ہے ‘اُسی طرح کہیں جمہوریّت ‘مارشل لا اور مارشل لا کے درمیانی عرصے کا نا م نہ ہو۔ جمہوریّت ‘جوہر شناس نہیں۔ جمہوریّت ‘صرف مقدار کی قائل ہے، معیار کی نہیں۔
 
جمہوریّت سُقراط کو زہر پِلاتی ہے۔ منصور کو سُولی پر چڑھاتی ہے۔ عیسیٰ  کا احترام نہیں کرتی۔ جمہوریّت کے ذریعے کوئی مُفکّر، اِمام، دانشور، عالمِ دِین، وَلی یا مردِحق آگاہ برسرِ اِقتدار نہیں آسکتا اور جو لوگ جمہوریّت کے مہنگے راستوں سے اِیوانِ اِقتدار میں آتے ہیں ‘اُن کو دِینی حکومت کے قیام سے کیا غرض! جب تک عوام میں حق پسند، حق طلب اور حق آگاہ لوگوں کی کثرت نہ ہو‘ جمہوریّت ایک خطرناک کھیل ہے!! 

Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif