Episode 34 - Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif
قسط نمبر 34 - قطرہ قطرہ قُلزم - واصف علی واصف
خطرہ
اگر اِینٹوں میں رَبط نہ ہو تو آندھی تو کُجا‘ دِیوار کو اپنے ہی بوجھ سے گِر جانے کا اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اندرُونی کمزوری کو بیرونی خطرات ہمیشہ دَرپیش رہتے ہیں۔ شکستہ جہاز کو کوئی ہوا بھی تورَاس نہیں آتی۔ بیمار وجود کے لیے ہر موسم خطرے کا موسم ہے۔ قُوّتِ مدافعت نہ رہے‘ تو بیماری کا شائبہ بھی زِندگی کے لیے خطرہ ہے۔
جب قوموں کے اندر وَحدت نہ رہے‘ تو اِس اِنتشار کی سزا ایک نا معلوم خطرے کی شکل میں موجود رہتی ہے۔ مایوس اِنسان پر خطرات کی وبا کا عذاب نازل کیا جاتا ہے۔
آج ہمارے گِرد وپیش خطرات ہیں۔ ہمارے یسارویمین میں خطرہ ہے۔ ہمارے دروازے پر خطرہ دَستک دے رہا ہے۔ ہم کرب سے گُزر رہے ہیں۔ مکینوں کو اپنے مکان میں سکون نہیں۔
(جاری ہے)
کہیں نہ کہیں‘کِسی نہ کِسی صُورت میں کوئی نہ کوئی خطرہ موجود ہے۔
آج کی دُنیا کو ترقی کے حوالے سے تین قِسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پسماندہ۔ ترقی یافتہ وہ مُمالک ہیں‘ جو خوف پیدا کرتے ہیں۔ ترقی پذیر وہ مُمالک ہیں‘ جو خوفزدہ رہنے پر مجبور ہیں اور پسماندہ وہ مُمالک ہیں‘ جنہیں خطرے کے اِحساس سے بھی آشنائی نہیں۔ جنہیں زندگی کا اِحساس نہ ہو‘اُنہیں موت کا کیا خوف!
خوف اور خطرہ‘ ترقی پذیر مُمالک کے لیے ہے۔ ہم ترقی پذیر ہیں۔ ہم خوف میں ہیں۔ ہمارے مغرب میں ترقی یافتہ رُوس ہے جو خوف پیدا کرتا ہے۔ مشرق میں ایک ایسا مُلک ہے جو ترقی پذیر ہونے کے باوجود ترقی یافتہ اَنداز رکھتا ہے۔ بھارت خود خوف میں ہے‘ لیکن خوف پیدا کرتا ہے۔
ترقی کا دوسرا نام خوف پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ بھارت کے پاس یہ صلاحیت ہے۔ اُس کی نِگاہ میں آج بھی یہ پاکستان خاربن کر کھٹکتا ہے۔ اِس کی وجوہات کچھ بھی ہوں‘نتیجہ یہ ہے کہ ہم خطرے میں ہیں۔
دوست کمزور ہو جائیں تو دُشمن خود بخود طاقتور ہو جاتا ہے۔ اندرُونی اِنتشار‘ بیرونی یلغار کی راہ ہموار کرتا ہے۔
ہم ایک ایسے خطرے میں ہیں جو محسوس تو ہوتا ہے معلوم نہیں ہوتا کہ یہ خطرہ کس چیز سے ہے۔
کیا ہم پر خدانخواستہ کوئی نئی اُفتاد پڑنے والی ہے؟
کیا ہم اپنے اعمال کی عِبرت کے خوف میں ہیں؟
کیا ہم اپنے راہنماؤں سے مایوس ہو چکے ہیں؟
کیا ہم گردشِ حالات کی زَد میں آچکے ہیں؟
کیا ہم سے زندگی کے عظیم مقاصد چھِن چکے ہیں؟
کیا ہم اعتماد سے محرُوم ہو چکے ہیں؟
کیا ہمیں اپنے آپ پر بھی اعتماد نہیں؟
کیا ہمیں جان کا خطرہ ہے، ایمان کا خطرہ ہے، عِزّت کا خطرہ ہے، مُلکی سلامتی کا خطرہ ہے، مِلّی وَحدت کا خطرہ ہے؟
کیا خطرہ ہمارے اندر ہے یا باہر ہے؟
کیا آسمان گِرنے والا ہے؟
کیا زمین پھٹنے والی ہے؟
کیا اِنسان کے گناہوں کا بوجھ اِتنا بڑھ چکا ہے کہ کِسی عذاب کا نازل ہونا ناگُزیر ہے؟
کیا ہماری تاریخ ختم ہونے والی ہے؟
کیا ہم ایک سطحی اور نقلی زِندگی گُزار رہے ہیں؟
کیا ہمارے اَفکار پریشان ہیں؟
کیا ہمارا کِردار ختم ہو چکا ہے؟
کیا ہم سے حُسنِ عمل چھِن گیا ہے؟
کیا ہم دُعاؤں کا آسرا بھُول چکے ہیں؟ ہم قدم قدم پر خطرے میں ہیں؟
کیا ہمارا عمل ‘بیان اور صرف بیان ہے؟
کیا ہم اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں؟
آخر ہم نے کیا کِیا ہے کہ ہم خطرے میں ہیں؟
یہ سب سوال ہی سوال ہیں اور خطرہ یہ ہے کہ جواب نہیں ہے۔ ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔ ہم پچھلے چالیس سال سے یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم نے یہ مُلک کیوں بنایا۔ ہمیں اِتنی سی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ہم نے یہ مُلک حُکمرانوں کے لیے بنایا ہے۔ یہ اللہ کا شُکر ہے کہ اب حکمران ہم میں سے ہی ہیں۔ مزاج…! حکمرانوں کے مزاج نہیں دیکھا کرتے ‘دیکھنے والی بات صرف یہ ہے کہ محکوم کی حالت کیا ہے۔ محکوم اگر مُسلسل مظلوم اور محروم ہو‘تو حُکمرانوں کے ایمان کا کیا تذکرہ؟ محکوم مظلوم ہو‘تو حُکمرانوں کو کیا کہتے ہیں؟ آج پاکستان میں الحمدُ للہ ہم سب مسلمان ہیں۔ چور کون ہے؟ ڈاکہ کِس نے ڈالا؟ کِس نے کِس کی عِزّت کو تباہ کِیا؟ مسلمانوں کے عظیم مُلک میں کِسی غریب پہ کیا بیتی؟ کون بتائے؟ کیا اللہ صرف طاقتور کا ساتھ دیتا ہے؟ کیا ہم لوگ ایک دوسرے کی پہچان سے محروم ہو گئے ہیں؟ کیا ہم کِسی عاقبت کے قائل نہیں رہے؟
ہم کروڑوں انسان، سارے کے سارے تنہا، افراتفری، ایک دوسرے پر الزام تراشی، ایک دوسرے کے ساتھ نااِنصافی، وعدہ شکنی، مطلب پرستی، ہوس پرستی، زَرپرستی، منصب پرستی اورظاہر پرستی… خطرہ تو ضرور ہو گا۔
مظلوم کی بد دُعا خطرہ پیدا کرتی ہے۔ محروم کی آہ خطرہ پیدا کرتی ہے۔ یتیم کی فریاد پانی میں آگ لگا دیتی ہے۔
جس بستی سے حق والا محروم ہو کر نکلے ‘وہ بستی ویران ہو جاتی ہے!
آج ہمیں سوچنا پڑے گا کہ آخر ہم کِس طرف کو جا رہے ہیں۔ ہم کہاں سے چلے تھے۔ ہمارا حال کیا ہے۔ ہمارے اندیشے اِتنے بے سبب بھی نہیں۔
ہم ایک دفعہ پہلے تقسیم ہو چکے ہیں۔ ہم ایک دفعہ پہلے بھی کَٹ چکے ہیں۔ ہمارے پاس آج بھی حالات اچھے نہیں اور دُشمن پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ ایک دفعہ ہونے والا حادثہ ‘کیا دُوسری دفعہ نہیں ہو سکتا؟
خوف تو ہو گا!
لیکن نہیں۔ بات اِتنی خطرناک بھی نہیں۔ دامنِ اعمال خالی ہو‘تو ہو۔ دامنِ رَحمت تو بھرا ہُوا ہے۔ ہمارا سہارا ہمارے اعمال میں نہیں‘اُس کی رَحمت میں ہے۔ رَحمت کا کام ہی یہ ہے کہ محروم کو حق سے سِوا دیتی ہے۔ وہ دینے والا ہے۔ جب چاہے ‘جسے چاہے، جو چاہے ‘دے دے۔ ہماری بقا صرف ہماری ہی بقا نہیں‘ اُس کے نام کی بھی عظمت ہے۔
جب ہم غلام تھے‘ تو ہم نے ہندوستان میں اپنی آزادی کو حاصل کِیا۔ ایک نیا مُلک بنایا۔ آج تو ہم آزاد ہیں۔ ہم مُلک کا تحفظ کیسے نہیں کریں گے۔
ہم دُشمن سے ڈرنے والے نہیں۔ ہمیں اگر کبھی خوف ہُوا‘ تو صرف دوستوں کا، اپنوں سے ڈر ہے۔ اپنے ‘اپنے ہو جائیں تو بیگانے کا کیا خوف!
اب وہ وَقت آگیا ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اِتحاد پیدا کریں۔ اپنے اعمال اور اپنے مال میں سب کو شریک کریں۔ دُوسروں کی عِزّت کریں تاکہ ہماری عِزّت محفوظ ہو۔ دشمن کوئی حرکت کرنے سے پہلے دس دفعہ سوچے گا۔ ہمیں اپنی حفاظت کے لیے کسی سوچ کی ضرورت نہیں۔ ضرورت صرف وَحدت اور صداقت کی ہے۔ ہمیں بے راہ زندگی کا خوف ہونا چاہیے۔ اُس کی راہ میں مرنا ہمارے لیے خوف کا نہیں‘شوق کا باعث ہے۔ ویسے اُس کی راہ‘ حق اور حققیت کا راستہ ہے… بھائی کے لیے وہ چیز پسند کرنے کا راستہ‘ جو اپنے لیے پسند ہو۔ انصاف قائم ہو جائے‘ خطرہ ٹل جائے گا۔
سینے میں ایمان بیدار ہو جائے‘ خوف نکل جائے گا۔ یقین زندہ ہو جائے‘ موت ختم ہو جائے گی۔ دولت کی محبت کم کر دو‘اندیشے کم ہو جائیں گے۔ سیاست سے جھوٹ نکل جائے ‘دِل سے خوف نکل جائے گا۔
لالچ خوف پیدا کرتی ہے۔ اندرُونی اِنتشار‘ بیرونی سرحدوں پر خطرے کی شکل میں نظر آتا ہے۔ خطرہ بہر حال اندر ہے ‘باہر نہیں!!
Chapters / Baab of Qatra Qatra Qulzam By Wasif Ali Wasif
قسط نمبر 1
قسط نمبر 2
قسط نمبر 3
قسط نمبر 4
قسط نمبر 5
قسط نمبر 6
قسط نمبر 7
قسط نمبر 8
قسط نمبر 9
قسط نمبر 10
قسط نمبر 11
قسط نمبر 12
قسط نمبر 13
قسط نمبر 14
قسط نمبر 15
قسط نمبر 16
قسط نمبر 17
قسط نمبر 18
قسط نمبر 19
قسط نمبر 20
قسط نمبر 21
قسط نمبر 22
قسط نمبر 23
قسط نمبر 24
بندش
Bandish
ایک معمولی لڑکی
Ek Mamuli Larki
خواہشات کی چاہ میں ہم جان کی بازی ہارے
khwahishat ki chah mein hum jaan ki baazi harray
سچ کا سفر
Sach Ka Safar
قلندر ذات
Qalandar Zaat
راز حیات
Raaz e Hayaat
دل سے نکلے ہیں جو لفظ
Dil Se Nikle Hain Jo Lafz
محبتیں اُدھوری سی
Muhabatain Adhooori Si
NovelAfsaneIslamicHistoryTravelogueAutobiographyUrdu LiteratureHumorousPoliticsSportsHealthPersonalitiesColumn And ProseSend Your Books & Requests