Episode 5 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 5 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

دو دن کے وقفے کے بعد اسلام شاہ نے نیازیوں پر حملہ کیا تو نیازیوں نے جم کر لڑائی کی مگر تعداد میں اچانک کمی کے باعث جنگ ہا رگئے۔ شکست کے بعد خواص خان جموں کی طرف نکل گیا اور نیازی کو ہستان نمک کی طرف بھاگ گئے۔نیازیوں کا خیال تھا کہ پٹھانوں کے جانی دشمن گکھڑاُن کی حمایت کرینگے اورر وہتاس کے زیر تعمیر قلعے پر قابض ہو کر دریائے گھاگرہ اور درہ خیبر کے درمیانی علاقوں پر مشتمل نیازیوں کی سلطنت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائینگے ۔
نیازی بھول گئے تھے کہ اپنی پانچ سالہ حکمرانی میں سوائے ظلم و جبر کے انہوں نے نہ کوئی اصلاحی یا فلاحی کام کیا اور نہ ہی دین اسلام کی کوئی خدمت کی۔ جن حکمرانوں نے عد ل و انصاف قائم کیا، مدارس اور مساجد تعمیر کروائیں ، علماء کی خدمت کی ، شفاخانے بنوائے اور رعایا پروری کی عوام نے ہمیشہ اُن کے لیے اپنی جانیں نچھاور کیں۔

(جاری ہے)

 

ہیبت خان نیازی نے شیر شاہ کے حکم پر ملتان کی تسخیر کا منصوبہ بنایا تو حضرت بابا فرید گنج شکر  کے خلیفہ حضرت شیخ ابراہیم  نے اُسے لشکر کشی سے منع کیا ۔
شیخ نے ہیبت خان کو خط لکھا اور حاکم ملتان سے صلح رحمی کی درخواست کی ۔ حاکم ملتان فتح خان جٹ بھی خو نریزی کے حق میں نہ تھا وہ بھی شیر شاہ سے امن کا معاہدہ کرنا چاہتا تھا۔ 
ملتان کے گردو نواح میں بلوچ قبائل کثیر تعداد میں آباد تھے اور حاکم ملتان کے اطاعت گزار تھے۔ سید و بلو چ بلوچوں کا متفقہ سردارتھااور فتح خان جٹ کا نائب تھا ۔
ہیبت خان نیازی اور خواص خان کے درمیان بھی چپقلش تھی اور شہزادہ جلال شاہ ( اسلام شاہ) بھی ہیبت خان نیاز ی سے خائف رہتا تھا ۔ ہیبت خان نیازی اور فتح خان جٹ کے درمیان کہروڑ کے مقام پر خونریز معرکہ ہوا او رفتح خان جٹ کو شکست ہوئی۔فتح خان اور سید وبلوچ کہروڑ کے کچے قلعے میں محصور ہوگئے تو ہیبت خان نے شیخ ابراہیم  کو امن کاسفیر بناکر بھیجا اور و عدہ کیا کہ وہ دونوں سے صلح کر لیگا اور کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائے گا ۔
شیخ ابراہیم  کے کہنے پر فتح خان جٹ اورسیدو بلوچ بیس کو س کے فاصلے پرنیازی کیمپ پہنچے تو ہیبت خان نیازی نے دونوں کو گرفتار کر لیا۔سیدو بلوچ رات کی تاریکی میں نیازیوں کا گھیرا توڑ کر بھاگ نکلا مگر فتح خان جٹ کو بیدردی سے قتل کر دیا گیا۔ 
پنجاب کی حاکمیت ملی تونیازیوں نے بلوچوں کا قتل عام کیا اور فتح شیر جٹ کے حمائیتوں کو بھی چن چن کرتہہ تیغ کیا۔
نیازیوں کی حکمرانی اور عوام الناس سے برتاؤ دیکھتے ہوئے گکھڑوں نے اسلام شاہ سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا اورنیازیوں کی کوئی مدد نہ کی۔ راولپنڈی اور جہلم کے درمیانی علاقہ ڈومیلی میں اسلام شاہ اور ہیبت خان نیازی کے درمیان آخری جنگ ہوئی اور مد مقابل لشکر بہادری سے لڑے۔ روایات میں ہے کہ ڈومیلی کے نواح میں پھیلے قبرستان اسی جنگ کے آثار ہیں۔
دریائے جہلم اور ڈومیلی کے درمیانی علاقہ میں اسلام شاہ نے خونر یز جنگ کے بعد ہیبت خان نیازی کو میدان چھوڑنے پر مجبور کر دیا ۔ہیبت خان نیازی مختصر دستہ لیکر دریائے کہان کے کناروں پر پھیلے جنگل میں روپوش ہو گیا ۔ اسلام شاہ نے سارے پنجاب سے نیازیوں کا صفایا کر دیا اور انہیں دریائے سندھ کے مغربی علاقوں کی طرف دھکیل دیا۔ 
ہیبت خان نیازی نے کشمیر کی راہ اختیار کی مگر بد قسمتی سے میرپور اور کوٹلی کے درمیانی علاقہ میں راجپوتوں کے ہتھے چڑھ گیا ۔
انعام کے لالچ میں راجپوتوں کے سردار نے ہیبت خان نیازی کا سرقلم کر وایا اور دلی جاکر اسلام شاہ کو پیش کیا۔ 
بعض مورخین نے لکھا کہ نیازیوں کو حضرت بابا فرید گنج شکر  کے خلیفہ شیخ ابراہیم کی بددعا تھی۔ہیبت خان نے شیخ ابراہیم  کو دھوکہ دیا اور بد عہدی کا مرتکب ہوا۔ فتح خان جٹ کے قتل اور بلوچوں کو برباد کرنے پر شیخ ابراہیم  نے ہیبت خان نیازی کے عبرتناک انجام کی پشین گوئی کی جو سچ ثابت ہوئی۔ 
ایسا ہی انجام خواص خان کا بھی ہوا۔ اسلام شاہ کے حکم پر اسے قلعہ روہتاس میں قتل کیا گیا ۔ خواص خان کا سر قلعہ روہتاس کے باہر اور دھڑ خواص پور ضلع جہلم میں دفن ہے۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja