Episode 10 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 10 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

یونانی جغرافیہ دان کلاڈیس ٹالمس نے 139ءء میں دنیا کا جو نقشہ ترتیب دیا اس میں بیان کر دہ علاقوں پر درد حکمرانی کو تسلیم کیا گیا۔ سٹار بو اور پلینی نے بھی ٹالمس کے بیان کو درست قرار دیا۔ پلینی لکھتا ہے کہ سکندر نے ہند کے جن علاقوں پر قبضہ کیا وہاں سات دریا بہتے تھے اور ملک سپت سندھو کہلاتا تھا۔ ملک نو ریاستوں پر مشتمل تھا اور ہر ریاست کا الگ اور خودمختار راجہ تھا۔
راجگان میں باہمی اختلافات موجود تھے اور وہ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف کبھی اتحاد نہ کرتے تھے۔ان آزاد اور خودمختار ریاستوں کے نام کمبوچ، وانوں ،گندھا را، کیلیا، مدرا،یودھیا، کورو،سندھو اور گدروشیا تھے۔ دریاؤں کے حوالے سے دیکھا جائے شمال میں کشمیر کی سرحد سے ملحق کمبوچ کی ریاست تھی جس میں افغانستان اور بدخشاں کے کچھ علاقوں کے علاوہ چترال اور ملحقہ صوبہ پختو نخواہ کے علاقے شامل تھے۔

(جاری ہے)

جنوب مغر ب میں وانوں یا بنوں کی ریاست تھی۔ اس ریاست کا علاقہ دریائے کرم کے جنوب میں واقع تھا۔ گندھا را کا علاقہ دریائے سندھ اور جہلم کے درمیان تھا جس کی اہمیت سب سے زیادہ تھی۔ کیلیا جہلم اور چناب کے درمیان واقعی تھی اور سب سے چھوٹی مگر غذائی پیداوار کے لحاظ سے اہم ریاست تھی۔ مدرا کا علاقہ راوی کے شمال میں واقع تھا جس کی سرحدیں کشمیر سے ملتی تھیں۔
دریائے راوی کے جنوب میں یودھیا کی ریاست تھی جو موجود سائیوال ، اوکاڑہ ، پاکپتن ، کہروڑ اور ملتان تک پھیلی ہوئی تھی۔ کوروکا علاقہ راوی کے شمال مشرق میں تھا جس میں سیالکوٹ ، جموں اور ملحقہ بھارتی پنجاب کے کچھ علاقے شامل تھے۔ ملتان سے بحرہ عرب اور مکران کے ساحل تک سندھو اور دریائے بولان سے مکران تک کا علاقہ گدروشیامیں شامل تھا۔موجودہ دور میں یہ سارا علاقہ پاکستان کی حدود میں شامل ہے جو قدیم دور سے ہی جغرافیائی ، سیاسی ، معاشی اور عسکری لحاظ سے معلوم دنیا کے لیے اہمیت کا حامل تھا۔
 
پانچ سو قبل مسیح میں ایران کے شہنشاہ دارانے گندھا را، گدروشیا اور سندھو کے علاقوں پر قبضہ کیا۔ اُس دور میں یہ علاقہ تین صوبوں پر مشتمل تھا جنہیں شمالی ، مشرقی اور مغربی صوبہ کہا جاتا تھا۔ گدور شیا اور سندھو کے علاقوں میں جاٹ ، گندھا رامیں خٹک ، کاکڑہ، آفریدی اوردیگر قبائل آباد تھے ۔ جنوبی ایشیا ء میں مگدھ ، مالوہ اورچولا کے نام سے الگ ریاستیں تھی جہاں ایرانیوں کا کبھی عمل دخل نہ رہا اور نہ ہی ان ریاستوں کے باشندگان کا دیگر تین صوبوں یا ریاستوں سے کوئی رشتہ استوار تھا۔
بیرونی حملہ آور وں اور مغربی ریاستوں کے راجاؤں نے بھی کبھی جنوبی علاقوں کی طرف مہم جوئی نہ کی۔ 
327ئق م میں سکندر کی وفات کے بعد اُس کی عظیم سلطنت بکھر گئی ۔ سکندر کے جرنیلوں نے ملک کے بعض حصوں پر اپنی حکمرانی قائم کی مگر کامیاب نہ ہوئے۔ سلیو کس نامی جرنیل نے وسطی و مغربی ایشیأ پر اپنی حکمرانی کا اعلان کیا اور بہت سے علاقوں پر پھر سے قابض ہو گیا۔
اسی دور میں پاٹلی پترا ( پٹنہ ) کے شہزادہ چند ر گپت نے یونانیوں پر حملہ کیااور انہیں سلسلہ کو ہ ہندو کش کے دوسری جانب دھکیل دیا۔ 
یہ پہلا موقع ہے کہ موجودہ پاک وہند کے بیشتر علاقوں پر ایک مقامی اور مضبوط حکومت قائم ہوئی جس کا دارالخلافہ پاٹلی پترا ( پٹنہ) میں تھا۔ چندر گپت 294 ق م میں وفات پا گیا جس کے بعد اُسکا بیٹا بندو سارا تخت نشین ہوا ۔
بندو سارا میں ایک بڑی سلطنت چلانے کی اہلیت نہ تھی۔وہ جلد ہی اپنے نامور بیٹے اشوک کے حق میں دستبردار ہو گیا اور برائے نام بادشاہ کا لقب اختیار کیا۔ اشوک نے طویل عرصہ تک سارے ہندوستان پر حکمرانی کی اور پہلی بار ہنڈ کے نام پر ہند کی سلطنت کا قیام عمل میں آیا۔ اشوک کے دورمیں بدھ مت کو عروج حاصل ہوا اور قدیم ترین تہذیب کا گہوارہ اور آزاد مملکت کشمیر بھی اشوک کی سلطنت میں شامل ہو گئی ۔اشوک کے دورمیں ہی ہنڈ کے قصبے کا باسی اور سنسکرت کا عظیم عالم پانینی شہرت کی بلندیوں پر پہنچا مگر تاریخ کے بے رحم قلم نے اسے کوئی اہمیت نہ دی۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja