Episode 15 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 15 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

سن توژو اور چانکیہ کی جنگی ، سیاسی اور معاشی منصوبوں پر مبنی آرٹ آف وار اور ارتھ شاستر جیسی ضغیم کتابیں بادشاہوں اور علمائے سیاست کے ہاتھوں میں پہنچ چکی تھیں۔ یونانی فلاسفہ میں سقراط نے حق گوئی اور بیباکی کا نظریہ پیش کیا۔ وہ ظاہری و باطنی علوم کا پرچارک تھا۔ وہ کہتا تھا کہ کسی بھی چیز کوقبول کرنے سے پہلے اُس کی جانچ کرو اور پھر علم وعقل کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد اُسے قبول کرلو۔
وہ کہتا تھا کہ کسی کو یہ دعویٰ نہیں کرنا چاہیے کہ وہ بہت کچھ جانتا ہے۔ سقراط کا مشہور قول ہے کہ : One thing only i know that is i know nothingیہی بات لاؤزے نے کہی کہ انسان کو ہمیشہ خالی پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ہمیشہ سیکھتے رہنے کی جستجو میں رہنا چاہیے ۔ سقراط حق پر ستی، حق بینی اور حق کو شی کا مبلغ تھا۔

(جاری ہے)

اس پر الزام تھا کہ وہ اپنے خیالات سے نوجوانوں کو ریاست کے خلاف ورغلا رہا ہے۔

آخر میں جب اگاتھن نے کہاکہ ”سقراط میں آپ کی تردید نہیں کر سکتا “ سقراط نے کہا ایسا مت کہو بلکہ یہ کہو کہ میں حق کی تردید نہیں کر سکتا ۔ سقراط نے حق کی ترجمانی کی سزا پائی اور زہر کا پیالہ پی کر دنیا سے رخصت ہو گیا ۔ 
افلاطون نے انصاف کا نظریہ پیش کیا مگر اُس کا یہ نظریہ اُس کی تعلیمات کے برعکس تھا۔ وہ معاشرے کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہے اور پھر بھی کہتا ہے کہ انصاف سب کے لیے یکساں ہے ۔
وہ اخلاقیات کا درس دیتا ہے مگر ہیلنی دور کے اس نظریے کا مقلد بھی ہے کہ عورت کو محض تین مقاصد کے لیے زندہ رکھا جائے ۔ اوّل عیش و عشر ت کے لیے دوئم تجارت کے لیے اور سوئم افزائش نسل کے لیے ۔ ہیر و ڈوٹس کے مطابق اگا تھائی سنگ اپنی عورتوں کو مشترک جائیداد تصور کرتے تھے۔ اچھی شکل و صورت اور صحت مند عورتوں سے بچے پیدا کرتے تھے اور دیگر کو جنسی خواہشات کی تکمیل ، تجارت ، کھیتی باڑی ، گھروں ، بازاروں اور منڈیوں کی صفائی کے لیے استعمال کرتے تھے۔
جو عورتیں مردوں کیساتھ شب بسری نہ کر تیں انہیں مال مویشیوں کی طرح ایک ہی جگہ رکھا جاتا تھا۔ 
یونائی معاشرتی ماحول میں بیوی اور خاوند کا کوئی جذباتی رشتہ نہ تھا ۔ عورتیں معاشرے کی مشترکہ جائیداد تھیں۔ مرد کی مرضی تھی کہ وہ کونسی عورت کو شب بسری، سفر، شکار اور جنگ کے دوران ساتھ رکھے۔ 
ارسطو نے ملوکیت ، اشرافیہ اور دستوری حکومت کا نظریہ پیش کیا۔
اُس نے سائنس، حیوانات ، ادب او رفلسفہ پر کتابیں لکھیں ۔ اُس نے سیاسات اور اخلاقیات کو الگ الگ پیش کیا اور آٹھ جلدوں میں پرمشتمل کتاب ” سیاسیات “لکھی۔ ارسطو کے نظریے کے مطابق غلام ، مزدور ، عورتیں ، بچے ، بوڑھے اور فاتر العقل افراد ریاست کے شہری نہیں ہو سکتے۔ وہ غلامی کو جائز قرار دیتا ہے اورر یاست کو برتر حیثیت میں پیش کرتا ہے۔
 
ہند میں کو تیلیہ چانکیہ نے ارتھ شاستر لکھی اور مطلق العنان بادشاہ کا تصورپیش کیا۔ بعد کے دور میں میکاولی نے چانکیہ کے خیالات کو اپنی شہزہ آفاق کتاب ” دی پرنس “ میں خاص اہتمام سے پیش کیا اور دور حاضر کے کرپٹ ، بددیانت اور فریب کارسیاستدانوں کے لیے ایسا مواد مہیا کیا جس کی بنیادوں پر عہد حاضر کا جمہوری اور سیاسی نظام استوار ہے۔
 
آپ ﷺ کی آمد سے پہلے بدھ مت ، ہندو مت ، یہودیت ، عیسائیت،مجوسیت اور دیگر مذاہب اپنی افادیت کھو چکے تھے۔ زرتشت کے ماننے والوں کی خاصی تعداد موجو دتھی اوراپنی تبدیل شدہ ہیت میں اس مذہب کے ماننے والے ایران ، جنوبی ہند اور موجودہ افغانستان کے کچھ حصو ں میں آگ اور سورج کی پوجا کرتے تھے۔
چین علم و ادب ، روحانیت اور حکمت کے اعلیٰ مدارج پر تھا۔
تاؤ از م اور کنفیو شزم کی پاکیزہ تعلیمات کا ساری دنیا میں چرچہ تھا۔ چینی مذاہب ، تاریخ ، عقائد اور فکر و فلسفہ کی روشنی ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔ دنیا بھر سے علما ء اور سیاح چین جا کر علم حاصل کرتے اور تاجر اپنے ملکوں اور قوموں کی نمائندگی کرتے۔ پہلے ادوار میں تاجر ، مبلغ ، طالب علم اور سیاح کی حیثیت سفیر جیسی تھی۔ ان لوگوں کے کردار ، لین دین ، علم اور مشائدے سے اُن کے ملکوں اور قوموں کے کردار ، اخلاص، تہذیب وتمدن اور اخلاقی اقدار کا انداہ کیا جاتا ۔
مشہور چینی سیاح فائین ، اوکانگ اور ھیون سانگ جب کشمیر آئے تو کشمیر ی بادشاہوں نے اُن کے علمی مرتبے کے مطابق سرینگر سے باہر آکر اُن کاستقبال کیا اور شاہی آداب پیش کیے ۔ مارکوپو لوکا بھی چینی بادشاہ نے فقید المثال استقبال کیا اور اُسے چین میں روم کے سفیر کی حیثیت سے رکھا ۔ عرب افریقن سیاح ابن بطوطہ کو سلطان ہند نے چیف جسٹس مقرر کیا اور اسے اپنے سفیر کی حیثیت سے چین کے سفر پر روانہ کیا۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja