Episode 16 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 16 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

حضور اکرم ﷺ کی پیدائش تک پیغمبری ادوار کے علاوہ بادشاہی نظام اور تہذیبوں کے عروج وزوال کامشاہدہ ہو چکا تھا۔ انسان ظاہری اور باطنی علوم سے بہرہ ور ہو کر ایک بار تنزلی کی جانب گامزن تھا ۔مادی علوم کی ترویج اور ترقی کے زینے چڑھنے کے باوجود انسان اپنی پہچان سے محروم ہوچکا تھا اور علم اپنی آفادیت کھو بیٹھاتھا۔ سائنس ، فلسفہ و حکمت ، سیاست اور دیگر علوم کے اثرات زائل ہو چکے تھے اور انسانی معاشرہ بکھر چکا تھا۔
اللہ نے اپنے آفاقی نظام کے تحت اپنے بندے ، نبی و رسول ﷺ کے ذریعے انسانیت کا کھویا ہوا وقار پھر بحال کیا اور کتاب حکمت کے ذریعے انسان کو وہ علم دیا جو وہ جانتا نہ تھا ۔ ایک طرف صراط مستقیم اور دوسری جانب اسفلا سافلین کی رائیں متعین کر دیں۔ انسان کو علم کا خزانہ عطا کیا اور پیغمبر کی رہنمائی اور اسوہ رسول ﷺ کی روشنی مہیا کرنے کے بعد اُسے آزاد کر دیا کہ وہ جو راستہ چاہے اختیار کر لے۔

(جاری ہے)

 
قرآن نے علم کی افادیت اور مضریت کو آسان اور سادہ الفاظ میں بیان کیا تاکہ انسان تا قیام قیامت اس سے فیض حاصل کرے اور علم کو شیطانی چالوں اور حربوں کے لیے استعمال کرنے سے باز رہے ۔ چانکیہ، ارسطو اور دیگر ناسوتی علماء کے بد نظریات کو سب سے پہلے آپ ﷺ کے اصحاب  نے رد کیااور اسلامی فکر و فلسفہ و علم عملًا پیش کیا کہ انسان کی کائنات میں اپنی حیثیت کیا ہے اور پھر معاشرے اور ریاست میں رہتے ہوئے اُس کے حقوق و فرائض کیا ہیں۔
قرآن کریم میں ربّ تعالیٰ نے انیس مرتبہ الناس کے خطاب سے مخلوق انسانی کو پکارا جس میں مرد وزن سبھی شمار ہوتے ہیں ۔ قرآن انسانی ، الہٰی تاریخ ہے جس کا بیان اٹل اور مستند ہے ۔ تخلیق کائنات اور تخلیق آدم سے متعلق خو د خالق کائنات نے جو کچھ بیان کیا اُسے سمجھے بغیر کوئی انسان اپنی زندگی کا حقیقی مقصد نہیں پا سکتا اور نہ ہی اپنی پہچان سے اپنے خالق کی پہچان کر سکتا ہے۔
انسان ظاہری ناسوتی اورمادی علم سے جتنی ترقی کرلے اُس سے ایک خطہ زمین پر بسنے والے کچھ لوگ تو فائدہ حاصل کر سکتے ہیں مگر دیگر مخلوق ارضی کے لیے یہ علم مضریت کا باعث بنتا ہے ۔ جدید سائنسی علوم کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ کرہ ارض پربسنے والا شاید ہی کوئی انسان پر سکون زندگی بسر کر رہا ہو۔ بیس فیصد انتہائی ترقی یافتہ اقوام کا جائز ہ لیں تو ہر شخص روز کماتا اور کھاتا ہے، پچاس فیصد بچوں کا کوئی باپ نہیں اور ہر دوسرا شخص نفسیاتی مریض اور بینکوں کامقروض ہے ۔
ستر فیصد کی ذاتی رہائش گاہ نہیں اور اسی فیصد آباد ی فاسٹ فوڈ کی وجہ سے جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ جدید اور خوشحال معاشروں میں خاندانی نظام کا کوئی تصور ہی نہیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ فادر ڈے ، مدر ڈے ، وومن ڈے، ویلنٹائن ڈے ، ارتھ ڈے سمیت درجنوں بلکہ سینکڑوں ایسے دن منانے کی ضرورت پیش آئی ہے تاکہ انسا ن کو انسانی رشتوں ، جذباتی لگاؤ ، کائنات سے محبت اور بھولی بسری یادوں سے کم از کم ایک مخصوص دن منا کر یاد دہانی کروائی جائے۔
حیرت کی بات ہے کہ بیان کردہ دنوں کے علاوہ مختلف بیماریوں کے دن تو منائے جاتے مگر خالق کائنات اور تخلیق کائنات کا کوئی دن نہیں منایا جاتا۔ یہ دن صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص ہیں۔ مسلمان کرہ ارض پر جہاں بھی ہو وہ پانچ وقت اپنے ربّ کے سامنے سجدہ ریز ہو کر خالق کل کی عظمت و برتری کا اقرار کرتا ہے۔ سال میں دو اجتماعی خوشیاں عیدین کی صورت میں منائی جاتی ہیں اور پھر صاحب ثروت لوگ سال میں ایک بار میدان عرفات میں حاضر ہو کر ” اے اللہ میں حاضر ہوں “ پکارتے اورا پنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں۔
بیت اللہ کے طواف اور روضہ رسول ﷺ پر حاضر ہو کر سکون قلب حاصل کرتے ہیں اور اللہ کے احکامات کی پیروی کا اقرار کرتے ہیں ۔ مناسک حج مساوات انسانی کی سب سے بڑی مثال ہے۔ ہر شخص ایک ہی لباس پہنتا اور ایک جیسی عبادات کرتا ہے۔ اسی طرح نمازاور روزہ انسانی ڈسپلن اور خدائی احکامات کی پیروی کی عملی مثال ہے۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja