Episode 21 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 21 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

ہمایوں کے مختصر دور حکومت کے بعد اکبر نے حکومت سنبھالی جسکا آخری جانشین بہادر شاہ ظفر برائے نام حکمران تھا۔ سلطنت کا نظام انگریزوں اور مقامی حکمرانوں کے ہاتھ تھا۔ 1857ءء کی ناکام بغاوت کے بعد مغلیہ حکمرانی کا خاتمہ ہوا تو سارا ہندوستان تاج برطانیہ کی عمل داری میں چلا گیا۔ 
مغل عہدکے آخر ی دور میں بادشاہت برائے نام تھی۔ مرہٹوں ، جاٹوں، گجروں اور سکھوں کا ہر طرف غلبہ تھا۔
دلی اور آگرہ کے درمیان گجروں کی لوٹ مار کا یہ حال تھا کہ کوئی شخص اکیلاسفر نہیں کر سکتا تھا۔ لوگ قافلوں کی صورت میں سفر کرتے اورہتھیار بند محافظوں کی خدمات حاصل کرتے تھے ۔ اکبر کے مقبرے کو گوجروں نے لوٹا اور قیمتی پتھر اکھاڑ کر لے گئے ۔ یہی حال تاج محل کا بھی ہوا اور آیات قرآنی پر سونے کا کام چھریوں سے کھرچ کر نکال لیا گیا۔

(جاری ہے)

 

حضرت شاہ ولّی اللہ نے نظام الملک آصف جاہ کی معرفت احمد شاہ ابدالی کے نام خط لکھا کہ جاٹوں ، سکھوں اور مرہٹوں نے ملک میں تباہی مچا رکھی ہے ۔
حکمران برائے نام اور محتاج ہے۔ اگرآپ ہمت کر کے آجائیں تو مجھے یقین ہے کہ باغی اور بدمعاش مقابلہ نہ سکیں گے۔ آپ پر جہاد فرض ہے اور خداوند تعالیٰ آپ کی مدد کریگا ۔ دنیا آپ کی تابعدار ہوگی اورملت مرحومہ آپ کی احسان مند ہوگی۔ 
آپ نے نجیب الدولہ ، تاج محمد خان بلوچ اور حافظ رحمت اللہ خان کے نام اپنے مکتوب میں احمد شاہ ابدالی کی مدد اور اتحادپرزورد یا اور ملکر شرپسندی مٹانے کے لیے ایک دوسرے کو یقین دلانے کی تلقین کی۔
1760ءء کے آخری ماہ میں احمد شاہ ابدالی ، آصف جاہ، تاج محمد خان بلوچ اور حافظ رحمت کے فوجی دستے رئیس المجاہدین نجیب الدولہ کی قیادت میں صف آرأ ہوئے ۔ 16جنوری1761ءء کے دن پانی پت کے میدان میں زبردست معرکہ ہوا اورمرہٹوں کو تاریخی شکست ہوئی۔ سوائے تین سرداروں کے تمام مرہٹہ قیادت میدان جنگ میں کام آئی ۔ احمد شاہ ابدالی کی واپسی پر کمزور مغل بادشاہ اس فتح کے اثرات سے کوئی فائدہ نہ اُٹھاسکا اور نہ ہی مسلم ریاستوں کے آزاد حکمرانوں کے اتحاد کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوا۔
حضرت مجد د الف ثانی کی اصلاحی تحریک بھی ایک ایسا ہی کارنامہ ہے جس کی وجہ سے اکبر کے دین الہٰی کا خاتمہ ہوا۔ آپ کے علم وفضل سے اکبری دور کے بڑے اُمرأ اور رئیس آپ کے حلقہ مریدین میں شامل ہوئے ۔ ایک طرف ابوالفصل اور فیضی نے دین الہٰی قبول کیا اور علماء کی ایک بڑی تعداد بادشاہ کی خوشنودی کی خاطر آپ کی مخالفت پر اترآئی تو دوسرے جانب عام لوگوں نے آپ کی تعلیمات کے زیر اثر دین الہٰی کو مسترد کر دیا۔
 
مہایت خان ، خان جہاں لودھی مفتی صدر ، عبدالرحیم خانِ خاناں ، مرزا عبدالعزیز کوکلتا ش، خانِ اعظم اور دیگر اہم شخصیات آپ کے مریدین میں شامل تھیں۔ 
سیّد ابوالاعلیٰ مودی لکھتے ہیں کہ پاکستان کی حدود کی علمی اور فکری بنیاد حضرت مجد د الف ثانی نے رکھی ورنہ چار سو سال پہلے ہندوستان مکمل کفرستان بن جاتا اور خطہ زمین پر کوئی دین اسلام کا نام لیوا نہ ہوتا ۔
اکبر اور جہانگیر نے جن عقائد کا پرچار کیا اسے روکناکسی عام آدمی کے بس میں نہ تھا۔ 14اگست1947ءء کے مبارک دن جس اسلامی ریاست (پاکستان ) کا قیام عمل میں آیا اس کی بنیاد حضرت مجد الف ثانی نے ہی رکھی۔ 
تصوف وحکمت ، کے مولف ولّی کاشمیری لکھتے ہیں کہ اکبر اور جہانگیر کے بد عقائد کا اثر ایک خاص طبقے تک محدود تھا۔ وہ فقرأکے آستانوں پر مُودّب اور پابند ی سے حاضری دیتے اور کبھی اپنے عقیدے کا پر چارنہ کرتے تھے۔ فقرأ اور سلاطین کے درمیان کبھی ہم آہنگی نہ ہوئی اور نہ ہی اولیائے کرام نے کبھی حکمرانوں سے کوئی تحفہ وصول کیا۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja