Episode 34 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 34 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

 سر ظفر اللہ نے قریبی ملک روس کیسا تھ جس مخاصمت کی بنیاد رکھی اور پاکستان کو امریکہ کی باجگزار ریاست بنانے میں جو کردار ادا کیا اُسکا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ سیاسی بھڑکیں اپنی جگہ مگر جناب راحیل شریف اور جنرل باجوہ نے روس اور چین کیسا تھ جن روابط کا آغاز کیا اُن کے ثمرات بھی سامنے ہیں اور مستقبل میں ماضی کی غلطیوں کا کچھ ازالہ بھی ممکن ہے ۔
جناب لیاقت علی خان سے لیکر تا حال پاکستان کی کشمیر پالیسی کبھی واضح اور اٹل نہیں رہی۔سابق وزیراعظم چوہدری محمد علی کا بیان ہے کہ کشمیر پر قبائلی یلغار کے متعلق نہ قائد اعظم اور نہ ہی مجھے بتایا گیا تھا۔ اس آپریشن سے ایک دن قبل مجھے وزیراعظم لیاقت علی خان نے بتایا کہ قبائلی حملے سے قائداعظم  کو بے خبر رکھا گیا ہے تم بھی اس سلسلے میں کوئی بات نہ کرنا ۔

(جاری ہے)

جناب کے ایچ خورشید کی تصنیف "قائد کی یادیں" میں لکھا ہے کہ جس طرح حکومت پاکستان نے کشمیر کے حالات سے قائداعظم  کو بے خبر رکھا ویسے ہی وائسرائے ہند اور کانگرسی حکومت نے مہاراجہ کشمیر کو اندھیرے میں رکھ کرکارروائی کی اور کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ 1950ءء کے بعد آزادکشمیر کی سیاسی قیادت نے آزادی کشمیر سے توجہ ہٹا کر آزادکشمیر پر حکمرانی کی جدوجہد شروع کر دی اور پاکستانی سیاسی قیادت کو بھی اپنا ہمنوا بنا کر مسئلہ کشمیر کو تحریروں ، تقریروں اور سیمیناروں تک محدود کر دیا۔
یہ کھیل آج بھی جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا ۔ جناب لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جناب خواجہ ناظم الدین ، محمد علی بوگرہ ، چوہدری محمد علی ، حسین شہید سہروردی ، آئی آئی چندریگر ، ملک فیروز خان نون، ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو ، بے نظیر بھٹو دوباراور میاں نواز شریف تین بار ملک کے وزیراعظم بنے مگر ملکی مسائل جوں کے توں ہی رہے ۔
جناب لیاقت علی خان کے بعد گورنر جنرل غلام محمد ، سکندر مرزا اور آخر میں ایوب خان نے سیاستدانوں کی باہمی چپقلشوں ، محلاتی سازشوں اور تعصب کی بنیادوں پر حکومتوں کو چلتا کیا ۔غلام محمد ذہنی مریض اور فالج ذدہ معذور ہونے کے باوجود امریکہ کے منظور نظر تھے اور اپنی امریکن سیکرٹری مس رتھ بورل اور اُسکی گوری ماں کے اشاروں پر ناچتے اور ایک عرصہ تک ملک اور قوم کو بھی نچاتے رہے ۔
غدار ملت میر جعفر کا پڑ پوتا سکندر مرزا اپنے جدا اعلیٰ سے بھی بڑا سازشی اور مکار تھا۔ سیاستدانوں کا ایک ٹولہ اس مکار کا حامی اور مدد گار تھا اور دوسرا فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دے رہا تھا ۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو سکندر مرزا کی کابینہ میں شامل تھے ۔ بیگم نصرت بھٹو اور بیگم نائید مرزا دور کی رشتہ دار اور سہلیاں بھی تھیں۔ جناب بھٹو نے سکندر مرزا کو قائداعظم  سے بڑا لیڈر اور عظیم سیاسی مفکر قرار دیا ۔
سکندر مرزانے جلاوطنی میں اپنی سوانح حیاتBy I.Mirza) (My Confession لکھی مگر اس کتاب کی تشہیر نہ ہو سکی۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں نائید مرزا ، محترمہ نصرت بھٹو کی دعو ت پر پاکستان آئیں اور سکندر مرزا کی تحریر کو عوام تک پہنچنے سے پہلے ہی اٹھوا لیا گیا۔ سنا ہے کہ سکندر مرزا نے جناب بھٹو ،اپنی والدہ، قائداعظم  اور دیگر اہم شخصیات کے علاوہ ایوب خان اور خود نا ئید مراز کے متعلق بہت کچھ لکھا تھا جو کہ قابل اشاعت نہ تھا۔
نائید مرزا کو "My Confession By I.Mirza"کی خبر ہوئی تو سابق خاتو ن اوّل نے اس کی کاپیاں ضبط کروا لیں۔ سکندر مرز ا کے بعد ایو ب خان آئے تو سیاستدانوں کا وہی ٹولہ جو سکندر مرزا کے گیت گاتا تھا ایوب خان کے گر د منڈلانے لگا۔ جناب بھٹو ایوبی دور میں ملک کے وزیر خارجہ بنے اور ایوب خان کو ایشیاء کا ڈیگال اور قوم کا نجات دہند ہ قرار دیا ۔ایوب خان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر اور پیر صاحب آف دیول شریف کے مرید ہونے کے باوجود سیکولر نظریات کے حامی مغربی طرز زندگی کے شوقین تھے۔
اُن کی بنیادی تعلیم اُن کے آبائی گاؤں ریحانہ میں ہوئی ۔ اُن کی سوانح حیات کے مطابق کچھ عرصہ تک وہ قریبی قصبے سرائے صالح کے ہائی سکول میں زیر تعلیم رہے اور پھر ہری پور سے ہوتے ہوئے علی گڑھ جا پہنچے ۔ کیپٹن (ر) سیّدفیروز شاہ گیلانی ( سابق ریاست امبّ) کے مطابق نواب آف امبّ نے فیلڈمارشل کے سینڈھر سٹ کے اخراجات برداشت کیے اور انہیں فوج میں کمیشن دلوانے میں مد د کی۔اقتدار میں آکر فیلڈ مارشل نے ساری امبّ سٹیٹ تربیلہ ڈیم میں ڈبو دی اور خانپور میں واقع نواب کے باغ(K.Garden )پر بھی قبضہ کر لیا ۔ (دروغ بر گرد ن را وی ) 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja