Episode 37 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 37 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

بابو وارث بد معاش کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ یہ شخص بھٹو دور میں ارشاد اور افتخار تاری کے ہمراہ دلائی کیمپ میں رہا تھا۔ آخر ی عمرمیں وہ میرے دفتر آکر روتا رہتا تھا اور کہتا تھا میرے لیے دعا کریں اللہ مجھے بخش دے ۔ میں نے شریف برادران کے حکم پر سرکاری ملازموں پر تشدد کیا جو میاں صاحبان کے بجلی چوری اور ٹیکس چوری کے علاوہ سیاسی کاروبار میں مداخلت کرتے تھے ۔
میں نے سینکڑوں لوگوں کی گردنیں ناپیں اور اذتیں دیں ۔ ایک بار میاں صاحبان نے حکم دیا کہ ان کی جماعت سے بغاوت کرنیوالی ایک سیاسی خاتون کو سبق سکھایا جائے۔ میں نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں کسی عورت پر ہاتھ نہیں اٹھاتا ۔ حکم ہو ا کہ تشدد نہ کر و صرف شلوار کے پائنچے باندھ دو اور ہاتھ پیر باندھ کر شلوار میں چوہے چھوڑ دو ۔

(جاری ہے)

دس منٹ میں مان جائے گی ۔

بابو وارث نے کہا کہ میں نے اس جرم سے انکار کر دیا ۔ جناب ضیا ء شاہد لکھتے ہیں کہ اسی عورت کا بیٹا آجکل نوازشریف کا سب سے بڑا بھونپو ہے۔ لڑائی مارکٹائی اور ہلٹر بازی کے ضمن میں لکھا ہے کہ جب پارٹی اخراجات برداشت کرنے کا ہنر جانتی ہو تو لڑاکے جانبازوں کی خدمت حاصل کرنا مشکل نہیں ۔ ایسی ہی خدمات کے عوض کئی سعد رفیق بڑی بڑی قد آور شخصیات بن گئیں ہیں۔

جناب ضیا شاہد کی تحریریں پاکستانی سیاست کا انسائیکلو پیڈیا ہیں جس میں نہ منطقی انجام کی پرواہ کی گئی ہے اورنہ ہی کسی واقع کو منطقی سہارے یا دلیل سے پیش کیا گیا ہے ۔جو دیکھا من عن بیان کر دیا۔ ہاں جو سنا اُسے تحقیق کے بعد پیش کیا ۔
قرآن کریم میں فرمان ربیّ ہے کہ : اے نبی ﷺ اللہ نے آپ کو کتاب اور حکمت عطاکی ہے۔ سورة النساء کی ا ٓیت 113کے اس حصے کی ایک منفرد حیثیت ہے ۔
صرف پیغمبر کو ہی نہیں بلکہ دیگر لوگوں کو بھی بہکانے والوں کا ایک گروہ ہر وقت مصروف عمل رہتا ہے جسے ضیاء شاہد کو ل کمیٹی کہتے ہیں۔ یعنی قریب اور انتہائی چرب زبان اور ہر شیطانی حربے سے لیس شخص جو حکمران طبقے کو ایسے امراض ہیں مبتلا کر دے جس کا علاج جیل ، پھانسی ، جلاوطنی اور ذلت ورسوئی کے سوا کچھ بھی نہ ہو۔ سکند ر مرزا، ملک غلام محمد ، ذوالفقار علی بھٹو ، میاں نواز شریف ،جنرل پرویز مشر ف ،حسین حقانی اور الطاف حسین کی مثالیں جناب عمران خان کے لیے کافی ہیں۔
ایسا ہی ایک ٹولہ عمران خان کے خلاف خاموشی سے کام رہاہے مگر مجبوری یا پھر بے خبری میں وہ بے حس و بے حرکت یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ 
اللہ نے حضور ﷺ پر قرآن نازل کیا اور اسے نوع انسانی کے لیے آپﷺ نے حکمت سے پیش کیا ۔ یہی وہ علم و حکمت ہے جس کی بنیاد پر ریاست مدینہ قائم ہوئی ۔علمائے حق کا کہنا ہے کہ مدینہ علم و حکمت کا شہر ہے ۔ اس علم و حکمت کی برکات چہار سو پھیلی ہوئی ہیں اوروہ اقوام جوخدا اور اُس کے رسول ﷺ کو نہیں مانتیں وہی اس علم و حکمت اور روشنی کے اصولو ں پر کار بند ترقی کی معراج پر ہیں۔
دو صدیاں گزریں جب امریکہ کا صدر جارج واشنگٹن بستر مرگ پرپڑا آخری سائنس لے رہا تھا تو اُس نے وصیت کی یہ میری قبر پر جو کتبہ نصب ہوا اس پر میرے نام کے ساتھ امریکہ کا صدر نہ لکھاجائے بلکہ یہ لکھا جائے کہ یہ مدفن ورجینیا یونیورسٹی کے بانی کا ہے ۔ میرے لیے امریکہ کا صدر ہونا زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ۔ اہمیت کی بات یہ ہے کہ میں نے ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھی جو نہ صرف امریکہ بلکہ ساری دنیا میں علم کی روشنی پھیلائے گا۔
 
سکندر مرزا سے لیکر عمران خان تک ایک ہی طبقے اور ایک ہی ذہنیت کے وزیر ، مشیر ، دانشور اور صلاح کا ر حکمران طبقے کے گرد جمع رہے اور ملک کو تباہی کے دھانے پر کھڑا کرنے میں حکمرانوں کے مدد گار رہے ہیں۔ 
عمران خان نے آتے ہی جتنا استعمال زبان کا کیا اگر وہ اس سے آدھا زور اپنے ذہن پر لگاتے تو ریاست مدینہ کا کچھ نقشہ ہمارے سامنے ہوتا۔
عمران خان کے وزیروں اور مشیروں نے ہی نہیں بلکہ ہم خیال اور مخالف میڈیا سمیت سوشل میڈیا نے ابترملکی معاشی اور سیاسی حالات کو ایک طرف رکھتے ہوئے مریم نواز شریف اور زرداری میڈیا کے حق اور مخالفت میں ایسا طوفان بدتمیزی اٹھایا جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہر دو جانب سیاسی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کی دوڑ میں وہ لوگ جو دانشور اور خود ساختہ سیئنیر سیاستدان کہلواتے ہیں نوجوانوں سے بھی دس قدم آگے نکل کر پھکڑ پن میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja