Episode 44 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 44 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

 جناب بھٹو میکاو لین تھے اور میکاؤلی کے اصولوں پر کار بند تھے ۔ میکاؤ لی اپنے حکمران کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بادشاہ کو لومڑی کی طرح مکار اور شیر کی طرح خونخوار ہونا چاہیے ۔وہ قوانین کا سہار لیکر عوام کا شکار کر ے اور انہیں یقین دلا دے کہ اُس کے سوا کوئی ان کا ہمدردو غمگسار نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ جو بادشاہ وعدے کا پاس کرے وہ ہمیشہ نا کا م ہوتا ہے۔
اس سلسلہ کی وہ سب سے بہتر مثال سکند ر طاؤس کی دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ عوام بیوقوف اور غرض مند ہوتے ہیں ۔ انہیں اُلجھائے رکھنے میں ہی بادشاہ کے لیے بہتری ہے۔ 
ذوالفقار علی بھٹو ،جنرل ضیاء الحق ، نواز شریف اور آصف علی زرداری کی زندگیوں اور طرز حکمرانی کا موازنہ کیا جائے تو بد عہدی ، چکمہ بازی ، عوام میں اُلجھاؤ او رخلفشار پیدا کرنے میں بڑی حد تک یکسانیت ہے اور اب عمران خان بھی اسی راستے پر گامزن کر دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

ہوس اور حرص اقتدارآصف علی زرداری اور نواز شریف کی اضافی خوبیاں ہیں جس کا خمیازہ ساری قوم بھگت رہی ہے۔ 
عصبیت کا ایک پہلومثبت اور دوسرا منفی ہے ۔ مثبت پہلو کا تعلق روح سے اور منفی کا مادے سے ہے۔ فرمایا جب آدم کوٹھیک طرح بنالوں اور پھر اپنی جانب سے اس میں روح پھونک دوں تو اے فرشتو تم اسے سجدہ کرو۔ یہی وہ روح ( روح رحمانی ) ہے جو بندے اور ربّ خالق کُل وکُن کے درمیان ایک نسبت قائم کرتی ہے ۔
جب انسان روح رحمانی کو اللہ کے فضل و توفیق سے جلا بخشتا ہے ، اسے آلائشوں سے پاک کرتا ہے تو روح رحمانی اُس کی حیوانی روح پر غلبہ حاصل کر لیتی ہے۔ جس طرح بندے اور ربّ کا امر ربیّ روح رحمانی کی نسبت سے ایک مضبوط تعلق بحال کرتی ہے ویسے ہی بندے اور دیگر انسانوں میں بھی ایک تعلق پیدا ہو کر ایک پاکیزہ ماحول اور معاشرے کی ابتدأ کرتا ہے۔ ایسے ہی معاشرے اور ماحول میں تربیت پانے والے کچھ لوگ اگر کسی بھٹکی ہوئی قوم کی تربیت کا بیڑا اٹھا لیں تو خدائی قوتیں اُن کی مدد کو آپہنچی ہیں اور بھلائی کے کاموں میں کامیابی سے ہمکنار کرتی ہیں۔
خیال رکھنے کی بات ہے کہ ایک نیک اور صالح انسان نہ تو ولی ّاللہ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی ناسوتی علم وعمل کا پیروکار ۔ حاتم طائی ، نو شیروان عادل، کنفیوشش ، کشمیری حکمران راجہ رنادت اورکئی حکمران مصلح اور درویش کسی ایک دین کے پیروکار نہ تھے ۔ سچائی ، عدل ، مساوات ، بھلائی ، انسانی ہمدردی اور محبت ان کے اوصاف تھے اور سب کے سب خوف خدا رکھنے والے خدمتگار تھے۔
 
ایسے اوصاف ایک شخص میں بھی ہوسکتے ہیں ، قبیلے اور برادریاں بھی اپنے بزرگوں کی اچھی عادات وروایات پر عمل کرتی ہیں اور اپنے حسب و نسب کو داغدار نہیں کرتیں ۔ کنیڈا کا سابق وزیر اعظم ٹروڈو عوام دوستی میں مشہور تھا اور اب ایک مدت بعد اُسکا بیٹا جسٹن ٹروڈو اپنے باپ کی اچھی روایات کو آگے بڑھا رہا ہے۔ 
نہرو کو تیلیہ کا مقلد تھا اور اُس کی بیٹی اندرا گاندھی باپ سے بھی دو قدم آگے تھی۔
بہت سی اچھی یا بری خصلیات انسانی خون میں رچ بس جاتی ہیں اور اُن کی اولادیں اور نسلیں اُسی راہ پر گامزن ہوتی ہیں ۔ متحدہ ہندوستان میں کچھ ایسے قبیلے اور برادریاں تھیں جو چوری ، ڈاکے ، اغوأ اور رسہ گیری کی وجہ سے مشہور تھیں ۔ ان قبیلوں میں رسم تھی کہ جب تک جوان لڑکا ڈاکہ نہ ڈالے یا کسی کو قتل نہ کرے قبیلے کی کوئی لڑکی اُ سے شادی نہ کرتی تھی۔
پختون کلچر میں یہ روایت عام تھی کہ جب تک دُلہا ایک فاصلے پر رکھی ایک ڈبیہ کے شیشے کو گولی کا نشانہ نہ بنائے بارات دلہن کے انتظار میں بیٹھی رہتی تھی۔ عبداللہ حسین نے اپنے مشہور ناول ”اداس نسلیں“ میں لکھا ہے کہ پختون دلہن اپنی سہلیوں کے جھرمٹ میں ایک فاصلے پر کھڑی ہو جاتی تھی اور پھر ایک دنبہ اُٹھا کر اپنے سر سے اوپر بلند کرتی تھی۔
اس مختصر وقفے میں پہلے سے تیار دلہا دبنے پا فائر کرتا اور جونہی خون کی پھوار دلہن کے سر پر گرتی وہ دنبہ اپنے پیچھے پھینک کر سہیلوں کے ہمراہ گھر کے اندر چلی جاتی۔ ایک آدمی بھاگ کر دنبہ ذبح کرتااور پھر جشن منایا جاتا ۔یہ بڑا نازک مرحلہ ہوتا ۔ اگر گولی دلہن کو لگ جائے تو معاملہ خراب ہو جاتا اور اگر دنبے کو نہ لگے تو بارات شرمندہ ہو کر واپس چلی جاتی ۔

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja