Episode 50 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 50 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

اقبال  کا یہ شعر آفاقی اور دائمی ہے ۔ جس شخص میں یہ خوبیاں نہیں وہ قائد یا لیڈ کہلوانے کا حقدار نہیں ۔ اگر کوئی قوم ان خوبیوں سے مبّرا کسی شخص کو قائد یا لیڈر مان کر اُس کی پیروی میں اُلجھ جائے تو اس کا انجام درد ناک ہوگا۔ ولی ّموسیٰ کاشمیری کہتے ہیں کہ میں نے ساری دنیا کے سیاسی لیڈروں اور حکمرانوں میں ایسی خوبیان تلاش کیں مگر قائداعظم  کے سوا کسی پر نظر نہ ٹھہری۔
 
تاریخ کے تناطر میں دیکھا جائے تو جناح  اور پاکستان ایک ہی وجود کے دو نام ہیں۔ قائداعظم  کے بغیر پاکستان کا وجود پذیر ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن تھا۔ قائداعظم  کی سیاسی بصیر ت ، تدبر اور استقلال ایک ایسی چٹان تھی جسے کانگرس ، برٹش اینڈ برٹش انڈین حکومت اور اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز عقل مندوں کا سامنا تھا۔

(جاری ہے)

برطانیہ میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو سیاست کا مینار سمجھا جاتا تھا۔

22مارچ1947ءء کو ماؤنٹ بیٹن انڈیا میں وارد ہوا اورآتے ہی 35مختلف شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد تقسیم ہند کو رکوانا اور متحدہ ہندوستان کو قائم رکھنا تھا۔ علمائے دیو بند، سرحدی گاندھی، عبدالصمد اچکزائی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا جس میں مسلمانوں کی اکثریت تھی ، شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور جی ایم سیّد وائسرائے ہند سے متفق تھے ۔
ان کے علاوہ نامور سیاسی اور سماجی مسلمان کارکن اور افغان حکومت تقسیم ہند کے مخالف اور کانگرس کے ہمنوا تھے۔ افغان حکومت کا دعویٰ تھا کہ پختونخوا اور بلوچستان سمیت اٹک پار مارگلہ کے سلسلہ کوہ تک کا علاقہ افغانستان میں ضم کر دیا جائے۔ 
اسی سلسلہ میں گاندھی نے وائسرائے کو مشورہ دیا کہ قائداعظم  سے ملاقات کی جائے اور بھارت کو متحد رکھنے کے لیے قائداعظم  کوعمر بھر کے لیے متحدہ ہندوستان کا وزیراعظم مقرر کر دیا ۔
 
Transfer of power vol x published by her majesty's stationary office, London in 1981 and Alan campbell Johnson's mission with mounbatten.
کے مطابق وائسرے نے قائداعظم  سے ملاقات کے بعد حکومت برطانیہ کو لکھا کہ:۔
Jinnah was most rigid, haughty and disdainful frame of mind. Jinnah has even warned Mountbatten that if the Muslim League's demand for Pakistan was ignored or any option other than Pakistan was resorted to, British India would perish for which he would not be responsible. The 
respnsibility for this, as a matter of fact, Jinnah argude, would lie on none but the British who were running the affairs of state and of the Empire. 
وائسرائے ہند نے اپنے خط میں لکھا کہ جناح کی قیادت میں مسلمان متحد ہیں اور تقسیم کے سوا کچھ قبول کرنے کی خواہش نہیں رکھتے ۔
میں نے اس گفتگو کے نتیجے میں جو فیصلہ کیا ہے کانگرس کو بھی مطلع کر دیا ہے۔ 3جون1947ءء کے دن کانگر س کے مشورے سے تقسیم ہند کے فارمولے کو حتمی شکل دی جائے گی جس کے سوا کوئی منصوبہ بے عمل ہوگا۔ 
ڈاکٹر صفدر محمود کا مضمون ”حسد ایک قومی مرض“ اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ برطانوی وزیراعظم لارڈ ایٹلی نے 15مارچ 1946ءء کو ہاوٴس آف کامنز میں کابینہ مشن کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے بڑی رعونت سے بیان کیا کہ :۔
"We are mindfull of the rights of minorties on the other hand we cannot allow a minotiry to place a veto on advance of a majority" 
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ درج بالا بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ بر طانوی استعمار مسلمانوں کو الگ قوم تسلیم کرنے سے انکاری تھا اور وہ مسلمانوں کو متحدہ ہندوستان میں اقلیتی درجے پر رکھنے کی پوری کوشش میں تھا۔ دوسری جانب قائداعظم علامہ اقبال  کے نظریہ ملت اور مسلمانوں کے عظمت و وقار کی بحالی کے لیے الگ وطن کو حتمی شکل دینے کے لیے میدان میں اُتر چُکے تھے اور کسی بھی صورت میں اپنے مشن سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھے۔
بر طانوی حکومت نے کابینہ مشن جس کا مقصد تقسیم ہند کو رکوانہ تھا میں سر پیتھک لارنس کو شامل کیا جو انتہائی مکار و عیار سیاسی بازی گر تھا مگر وہ قائداعظم  کا سامنا نہ کر سکا۔

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja