Episode 53 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 53 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

اس ساری بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ قائداعظم نے جو پھلدار ، پھولدار اور سایہ دار درخت لگا یا تھا ہم سترسالوں سے کبھی اُس کی جڑیں ، کبھی ٹہنیاں کاٹتے ہیں، کبھی اس کے پھولوں کو پاؤ ں تلے روندتے ہیں اور کبھی پھل چوری کر کے دوسرے ملکوں کو بھجوا دیتے ہیں۔ یہ صرف پختونوں کا نہیں بلکہ سارے پاکستانیوں کا المیہ ہے کہ ہم صالح قیادت کے چناؤ میں نا کام ہوئے ہیں ۔
ہم اُن لوگوں کو قائدتسلیم کر لیتے ہیں جو غیروں کے ایجنٹ اور ملک و قوم کے حقیقی دشمن ہیں۔ 
قائداعظم  کے بعد اس قوم کو کوئی لیڈر نہیں ملا۔ قائداعطم نے نہ کوئی جانشین چھوڑا اور نہ ہی قائداعظم  کسی کے جانشین تھے۔ اُن کی رحلت کے بعد ملک کے حالات بدل گئے اور طوائف الملوکی کا دور شروع ہو گیا۔ قائد کی موت سے مایوسی کی فضاء پیدا ہوئی جس کے اثرات آج تک قائم ہیں۔

(جاری ہے)

سکندر مرزا سے لیکر میاں نواز شریف تک نے اس مایوسی کو برقرار رکھا اور قوم حقیقی قیادت سے محروم رہی۔ پاکستان میں کسی بھی قوم یا قبیلے کا فرد دوسری بار گوشہ گمنامی سے اُٹھ کر برسر اقتدار نہیں آیا۔ بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو براستہ لندن اورو اشنگٹن اقتدار میں آئیں اور مرد حر کی پالیسیوں کی وجہ سے ناکام ہوگئی ۔دوسری بار ٹونی بلئیر ، کونڈا لیزارائس اور سعود ی حکومت کی کرم فرمائی کام آئی اور دونوں جلاوطن لیڈر ملک میں واپس آگئے ۔
این آراو کی برکت سے پہلے آصف علی زرداری اور پھر میاں نواز شریف حکمران بنے اور ملک کو معاشی ، سیاسی ، ثقافتی اور اخلاقی لحاظ سے برباد کر دیا ۔ میاں صاحب کی سیاست جنرل حمید گل اور جنر ل جیلانی کی شفقت اور جنرل ضیأ الحق کی محبت کا نتیجہ تھی اور جب تک میاں خاندان محبت کی اس زنجیر میں بندھا رہا اقتدار کا سنگھا سن بھی قائم رہا۔ بقول جناب ضیا ء شاہد کے، بڑے میاں صاحب نے بیٹے کی وزارت عظمیٰ پر تین ارب لگائے اور نو ارب کما لیے ۔
کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ ایک مفلس اور مقروض قوم نے چھ ارب میں وزیراعظم خریدا اور اسے مزید چھ سو ارب کمانے کا موقع دیا۔ جناب زاردی نے کتنا کمایا اُسکا کوئی حساب ہی نہیں۔ مولانا فضل الرحمن ، اے این پی ، شیرپاؤ، اچکزئی اور ایم کیوایم کی حمائت کتنے اربوں میں خریدی گئی اس پر کسی کی نظر ہی نہیں گئی ۔ صحافیوں اور صحافتی اداروں کو بھی لوٹ سیل سے حصہ دیا گیا جس کے انڈیکیٹر بڑے واضح اور نمایاں ہیں مگر آزاد عدلیہ اور نیب آزادی صحافت کو بہر حال مقدس سمجھتے ہیں ۔
صحافیوں کے بیرون ملک اثاثے ، بچوں کی تعلیم اور بیگمات کے علاج اور شاپنگ بھی آزادی صحافت کا حصہ سمجھ کر اسے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ 
چند صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ Openion Makerہیں ۔ ان میں سے ایک صحافی کے پاس کالی چادر اورسپیشل فورس کے چھ ریٹائرڈگارڈ ہیں ۔ہر گارڈ ایک لاکھ تنخواہ اور دیگر مراعات لیتا ہے ۔ بھارتی اور افغان میڈیا کے علاوہ بی بی سی اور وائس آف امریکہ اُن کے اقوال پر مبنی تجزیات پیش کرتے ہیں۔
ملک کے اندر حال یہ ہے کہ جونہی وہ ٹیلی ویژن پر جلوہ افروز ہوتے ہیں تو محب وطن شہری چینل بدل لیتے ہیں۔ 
میاں اورزرداری خاندان کبھی حکمر ان نہیں رہا ۔ اسی طرح قائداعظم  کے بعد چار فوجی جرنیل آئے جن کا تعلق مڈل کلاس سے تھا۔ ترینوں اور قزلباشوں کا تعلق مارشل ریس سے تو ہے مگر حکمران کبھی نہیں رہے۔ اسی طرح ککے زئی قبیلے کا پیشہ کبھی سپاہ گری نہیں بلکہ قالین بافی رہا ہے۔
گورنر جنرل غلام محمد اور جسٹس منیر کے علاوہ میجر خورشید انور کا تعلق اسی خاندان سے تھا ۔ بٹ ، ڈار اور خواجے کاروباری لوگ ہیں ۔ آبائی وطن کشمیر میں بھی یہ قبیلے کبھی حکمران نہیں رہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بھٹو بھٹیا نہ ضلع جالندھر کے بھٹی راجپوت ہیںآ رائیں نہیں ۔ ڈاکٹر شبیر چوہدری اور جناب اثر چوہان نے روزنامہ نوائے وقت میں ا س موضوع پر دومفصل کالم لکھے ہیں ۔
بوجہ جناب بھٹو بھی اَرائیں کہلوانا پسند کرتے تھے اور اپنے دور اقتدار میں کل پاکستان انجمن اَرائیاں کے صدر بھی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جناب بھٹو کو انجمن کی صدارت کے لیے جنرل ضیأ الحق ، جنرل فیض علی چشتی اور سابق صوبائی اور مرکزی وزیر میاں زمان نے چنا اور برادری سے منتخب کروایا۔ 
وزیراعظم عمران خان نیازی کو یہ اعزا حاصل ہے کہ وہ مارشل ریس سے تعلق رکھنے کے علاوہ حکمران قبیلے سے تعلق رکھتا ہے ۔
سات سوسال پہلے سردار حبیب اللہ خان نیازی قندہار سے لیکر لکی مروت تک کے علاقے کا گورنر اور امیر تیمور کی فوج کا اہم جرنیل تھا۔ حبیب اللہ خان نیازی بہادر جرنیل اور اچھا حکمران تھا مگرا ُ س کے برعکس سردار ہیبت خان نیازی انتہا ئی سفاک ، بدعہد اور ظالم حکمران تھا۔ ہیبت خان نیازی پنجاب کا گورنر تھا جس میں موجود ہ صوبہ پختونخوا بشمول وزیرستان ، بنوں ، شمالی بلوچستان اور شمالی سندھ کے بیشتر علاقے شامل تھے۔ وہ ہر کام تلوار سے کرتا اور کبھی کسی پر رحم نہ کھاتا تھا۔ تاریخ کے مطابق ہیبت خان نیازی نے دربا ر عالیہ پاک پتن شریف کے متولی شیخ محمد ابراہیم  سے بد عہدی کی اوراُن کی بددعا کے نتیجے میں ذلت آمیز موت مرا ۔

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja