Episode 69 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 69 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

چوہدری غلام عباس (مرحوم) اپنی تحریر ، ”کشمکش “ میں قائداعظم  سے ایک ملاقات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ میں نے قائدسے پوچھا کہ آپ کا جانشین کون ہے۔ پہلے تو غصہ ہوئے اور پھر پارٹی لیڈروں کے نام لیکر کہا کہ جو کچھ دن کی روشنی میں ہم کرتے ہیں وہ رات کے اندھیرے میں اُس کی تفصیل ماؤنٹ بیٹن کو بھجوا دیتے ہیں ۔ تم خود ہی فیصلہ کر لو کہ ان میں سے کون قابل اعتماد ہے۔
 
چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ پھر مسلم لیگ کیا ہے۔ قائد نے فرمایا میں ، میری بہن فاطمہ میر اسیکرٹری خورشید اور میرا ٹائیپسٹ ۔ مسلم لیگ ان چار ستونوں کا نام ہے جو کامیابی کی ضمانت ہیں۔ دیکھا جائے تو عمران خان کے ساتھی بھی دو چارہی ہیں جو کامیابی کی ضمانت بن سکتے ہیں ۔ جنرل گل حسن قائداعظم کے اے ڈی سی (ADC) تھے ۔

(جاری ہے)

آپ لکھتے ہیں کہ قائداعظم  بحیثیت گورنر جنرل کراچی آئے تو آپ کے جہاز نے ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر اترنا تھا ۔ قائد کی آمد پر سار ا کراچی استقبال کے لیے اُمڈ آیا اور لوگوں نے رن وے بلا ک کر دیا۔ جہاز ہوامیں چکر لگا رہا تھا اور اُترنے سے قاصر تھا۔ قائد نے مجھے طلب کیااور بروقت لینڈ نہ کرنے کی وجہ پوچھی۔ میں نے عرض کی جناب آپ کی قوم آپ کے استقبال کے لیے رن وے پر آگئی ہے اور پولیس کے کنٹرول سے باہر ہے۔
قائد غصہ ہوئے اور فرمایا یہ قوم نہیں ایک ہجوم ہے جسے قومی سانچے میں ڈھالنا ابھی باقی ہے۔ قائد نے سچ کہا تھا۔ ستر سال بعد بھی ہم ایک جم غفیر ہیں قوم نہیں بن سکے اور نہ ہی قومی ڈسپلن کا مظاہر ہ کر سکے ہیں۔ قائداعظم  کے بعد جو قیادت آئی وہ کراؤ ڈ لور تھی اور اسی میں اُن کا سیاسی مفاد تھا ۔ جاگ پنجابی ، جاگ سندھی، جاگ بلوچی کے بعد اب پختون تحفظ تحریک بنانے والے اور ایسی تحریکوں کی حمائت کرنے والے قومی سیاستدان کہلاتے ہیں ۔
نوکا شیطانی ٹولہ اور چالیس چوروں کا گروپ ان کی حمائت میں اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا آلہ کار ہے۔ سیاسی نجومیوں ، جوتشیوں اور ستارہ شناسوں نے بھی دکانیں چمکا رکھی ہیں اور نو کاٹولہ اکثر انہیں اپنے ٹاک شوز میں بلا کر ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش میں رہتا ہے۔ عمران خان کا اعتماد اپنی جگہ بحال ہے مگر وہ بھوٹان کے کم سن بادشاہ جگمے سنگے وانچوں کی طرح مذہبی پیشوا اور منصوبہ ساز نہیں جسے ساری قوم کا اعتماد حاصل ہو اور نہ ہی ڈنگ ژیاؤ پنگ کی طرح دانشور لیڈر ہے جس نے ایک ارب انسانوں میں سے بہترین ذہنوں پر مشتمل ٹیم کا انتخاب کیااور دس سالوں کے اندر ایک غریب اور پسماندہ ملک کو صف اوّل کی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں لا کھڑا کیا۔
 
عمران خان کے متعلق فی الحا ل کسی پشین گوئی کی ضرورت ہی نہیں ۔ بائیس کروڑ کے ہجوم میں اُسے کوئی کارآمد شخص نہیں ملا۔ جو لوگ اس کے اردگرد موجود ہیں وہ ملک کو کنگال اور قوم کو بد حال کرنے کے سواکوئی ہنرہی نہیں جانتے ۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی خدائی قوت عمران خان کو بچا لے اور وہ ملک اور قوم کے لیے کوئی اچھا کام کر جائے ۔ مستقبل کا تاریخ دان اسے منفرد ، بے لوث ، بے باک ، محب وطن اور قوم کا دکھ درد سمجھنے والا قائد لکھنے پر مجبور ہوگا۔
عمرا ن خان کی کامیابی اس ملک اور قوم کی کامیابی اور ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی ناکامی ہوگی۔ زرداری ، نواز شریف اور اُن کے حواریوں کی کامیابی ملک اور قوم کی بد حالی ، مزید تنزلی اور بھارت کی باجگزار ی پر منتج ہوگی۔ ملک کی حفاظت کرنے والے ادارے کمزور ہو کر محض پولیس فورس بن جائینگے اور خاندانی سیاست بادشاہت میں بدل جائے گی۔ بصورت دیگر ملک کسی بڑے حادثے کا شکار ہو جائیگا یا پھر ایک خونی انقلاب کے بعد ایک عظیم ملک بن کر اُبھرے گا۔ نوکاٹولہ اور چالیس چوروں کا گروہ بھی عبرت کا نشان بن جائے گا۔

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja