Episode 75 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 75 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

 باجوڑ میں بغاوت اور پھر بلوچستان میں کشیدگی کا سلسلہ 1974ئتک جارہی رہا ۔ ضیا الحق کے دور میں بھارت نے براس ٹیک مشقوں کے بہانے پاکستان پر حملہ آور ہونے کی تیاری مکمل کر لی تھی مگر جنرل حمید گل (مرحوم) کی ایک جنگی چال اور جنرل ضیا الحق کی کرکٹ ڈپلومیسی نے بھارتی حکومت اور جرنیلوں کے حوصلے پست کر دیے۔ 1982ئسے لیکر تا حال سیاہ چین پر بھارت اور پاکستان کی فوجیں آمنے سامنے ہیں ۔
ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر بھارت آئے دن حملے کرتا اور نہتے سویلین کو نشانہ بناتا رہتا ہے ۔ 1995ئسے تادم تحریر کشمیریوں پر بھارت مظالم کے پہاڑ گرا رہا ہے مگر عالمی ضمیر مرد ہ اور عالمی قوتیں بے حس ہیں۔اسرائیل امریکہ اور افغانستان سمیت پاکستانی سیاستدانوں اور کچھ اہل قلم کی ہمدردیاں بھارت کے ساتھ ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وزیر قانون اقبال حیدر (مرحوم ) ہمیشہ کہتے تھے کہ ہم اپنے بچے کشمیریوں کے لیے کیوں مروائیں۔

پیپلز پارٹی کے ہی وزیر اُمور کشمیر یورپ جا کر واپس آ گئے اور وہاں منعقد ہونے والی کشمیر کانفرنس میں شرکت نہ کی۔ عاصمہ جہانگیر اور ایم کیوایم کے الطاف حسین کے بیانات ریکارڈ پر ہیں مگر اُن کے چاہنے والے ان بیانات کی تشریح اپنے ہی انداز میں کرتے ہیں ۔ سوات ، کراچی اور وزیرستان میں ایم کیوایم اور تحریک طالبان پاکستان کی خو نریزی پر کسی حد تک کنٹرول حاصل ہوتے ہی معاشی دہشت گردوں نے پاکستان کے قومی خزانے پر حملہ کر دیا اورساری قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک منتقل کر دی۔
حیرت کی بات ہے کہ قوم ان معاشی دہشت گردوں کے حق میں ہے اور اُن کی قیادت پر بھروسہ کرتی ہے۔ پاکستانی دانشوروں اور صحافیوں کا ایک بڑا طبقہ بھی ان کا حامی ہے اور لوٹو پاکستان کا نعر ہ بلند کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا پاکستان کے خلاف میڈیا وارلڑ رہا ہے۔ نظریہ پاکستان ، پاک فوج ، اسلام اور محب وطن پاکستانی ان کے احداف ہیں۔ 
محترمہ ملیحہ خادم کا مضمون ”ایڈ یٹیڈ اینڈ اپ ڈیٹڈ تاریخ فرام انڈیا “ اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔
لکھتی ہیں کہ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کی قوت سے بھارت پاکستان پر حملہ آور ہے مگر بد قسمتی سے اسے جواب دینے والا کوئی نہیں ۔ ہمارے سول اور سرکاری میڈیا کی ترجیحات میں بھارتی یلغار اور ففتھ جنریشن وار شامل ہی نہیں۔ انڈیا اپنی تاریخ کو اپ ڈیٹ کرنے پر اربوں روپے خرچ کر رہا ہے اور ایسی ایسی من گھڑت اور لغو کہانیاں اور قصے تاریخ میں ڈال رہا ہے جس کا کوئی سر پیر ہی نہیں۔
سکندر اور پورس کی جنگ کے حوالے سے لکھا ہے سکندر کی شکست کی بڑی وجہ پورس کی کیولری یعنی گھڑ سوار فوج تھی۔ سلطان شہاب الدین غور ی اور پر تھوی راج چوہان پر ایک فلم میں دکھلایا گیا کہ پر تھوی راج چوہان کے تیرسے سلطان کی موت واقع ہوئی ۔ اسی طرح یہ بھی بتایا گیا کہ پرتھوی راج چوہان نے کابل پر حملہ کیا اور مارا گیا۔ چوہان کی قبر افغانستان میں ہے اور افغانی اُس کی بے حرمتی کرنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔
بھارتی میڈیا تحریک آزادی پاکستان ،تحریک آزادی کشمیر، 65،71اور سیاہ چین پر لڑی جانے والی جنگوں کے حوالے سے تاریخ کو مسخ کرنے اور اسے بھارت کے حق میں بدلنے کے مشن پر تیزی سے کام کر رہا ہے اور اُس کا حدف پاکستانی بچے ، خواتین اور طالب علم ہیں۔ بھارتی فلموں ، کارٹونوں اوراینی میٹڈ فلموں کو مختلف ناموں سے سوشل میڈیا، انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی دیگر سائیٹ پر لانچ کیا جارہا ہے تاکہ پاکستانی اور مغربی معاشرہ اسے حقیقت سمجھ کر اپنی تاریخ پر اعتماد کرنا چھوڑ دے ۔
لکھتی ہیں کہ پہلے تو پی ٹی وی پر تاریخی ڈرامے نظر آتے تھے مگراب میدان صاف ہے۔ لوگوں تک یکطرفہ انڈین برانڈ تاریخی ڈرامے اور فلمیں پہنچ رہی ہیں اور ہمارا تاریخی ، ثقافتی اور معاشرتی نظام بھارت کے نشانے پر ہے۔ بھارت ڈس انفارمیشن پھیلانے کے مشن پر کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے اور ہماری وزارت اطلاعات و نشریات کے علاوہ ادبی اور علمی حلقے بھی سیاست کا شکار ہیں۔
 
سندھ اور ہنڈکی تاریخ اور ثقافت کو ہندمیں مدغم کرنے پر بھارت سرعت سے کام کر رہا ہے۔ بھارت ہماری تہذیب و ثقافت اور روایات پر حملہ آور ہے مگر ہمارے اہل علم و قلم سیاسی کالم اور مضامین لکھنے اور اپنے اپنے من پسند لیڈروں سے داد حاصل کرنے میں مگن ہیں۔ بھارتی میڈیا منظور پشتین ، بی ایل اے اورپاکستان مخالف تحریکوں کی تشہیر پر جس لگن اور محنت سے کام کر رہا ہے اس کی بڑی وجہ پاکستانی میڈیا کی بے حسی اور اہل علم و قلم کی بھارت نوازی ہے۔
آئی ٹی سیکٹر میں بھارت کو کوئی روکنے والا نہیں اور عام لوگ تاریخ و تہذیب کو بھارتی عینک سے دیکھنے پرمجبور ہیں۔ پروفیسر فتح محمد ملک اور جناب صفدر محمودپر مشتمل ایک مختصر ٹیم بھارتی اور مغربی میڈیا یلغار کے مقابلے پرہے مگر الیکٹرانک میڈیا ایسے سرفرشوں کو اپنے چینلوں پر جگہ نہیں دیتے۔ محب وطن پاکستانیوں کی رائے ہے کہ دفا ع وطن کے لیے ضروری ہے کہ عسکری ٹیلی ویژن چینل سامنے آئے اور ہماری تاریخ ، ثقافت اور معاشرت کے علاوہ دینی اور روحانی اثاثوں کا بھی دفاع کرے ۔
پاکستان اپنے قیام سے لیکر تادم تحریر حالت جنگ میں ہے اور یہ جنگ مستقبل میں بھی جاری رہے گی یہ جنگ فوج نہیں بلکہ عوام اور حقیقی عوامی نمائندوں نے محب وطن علمأ ، صحافیوں ، قلمکاروں ، فنکاروں، دانشوروں ، تاریخ دانوں اور اہل علم وعقل کی مدد سے لڑنی اور جیتنی ہے۔ کیا ہمارے سیاستدان ، حاکم اور حکمران اس طرف متوجہ ہونگے؟اسکا فیصلہ آنیوالے کل پرچھوڑنے کے بجائے اسپر آج ہی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja