Episode 79 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 79 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

یونانی ریاستوں کے قیام اور حکمائے سیاست کی پیدائش سے صدیوں پہلے حضرت سلیمان  کے دور میں یمن میں ملکہ بلقیس کی حکمرانی تھی۔ ملک انتہائی خوشحال اور ریاست کا نظام عمدہ اور قابل تقلید تھا ۔ اسی دور میں یورپی ، مصری ، ایرانی ، عرب اور ایشیائی اقوام یمن پر حملہ آور ہوتی رہیں مگر یمنی حکمرانوں کی دفاعی حکمت عملی اور مضبوط عسکری قوت نے بیرونی حملہ آوروں کو ہر بار شکست سے دو چار کیا۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ عہد نبوی ﷺ سے پہلے حبشہ کے بادشاہ نے یمن پر قبضہ کر لیا۔ اہل یمن نے ایرانی بادشاہ سے مدد کی درخواست کی تو ایرانیوں نے فوراً حامی بھر لی۔ ایرانی ایک عرصہ سے یمن پر نظر رکھے ہوئے تھے اور اس کی زرخیزی اور تجارتی اہمیت کے پیش نظر یمن پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔

(جاری ہے)

ایرانیوں نے یمنیوں سے ملکر حبشہ کے عیسائیوں کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست دیکر خود یمن پر قابض ہو گئے۔

عیسائیوں کے دور حکومت میں یمن کے بادشاہ ابراہا نے اپنے دارالحکومت صنعأ میں ایک عالی شان گرجاگھر تعمیر کروایا اور لوگوں کو حج کے لیے مکہ جانے سے روک دیا۔ دنیا بھر سے جو لوگ بحری راستوں سے یمن کی بندرگاہ پر آتے انہیں مکہ کے بجائے صنعألے جایا جاتا اور گر جامیں عبادت کو حج کا درجہ دے کر واپس لوٹا دیا جاتا۔ کچھ عرصہ بعد لوگوں نے یمن کا راستہ ترک کر دیا اور صحرائی راستوں سے مکہ جانے لگے ۔
یمن کے بادشاہ نے ہاتھی سوار فوج تیار کی اور کعبہ پر حملہ کرنے کی غرض مکہ پہنچا جس کا ذکر قرآن پاک کی سورة الفیل میں بیان ہوا ہے۔ 
اسی سال آپ ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی اور اہل یمن نے ایران کو حبشیوں کے خلاف جنگ کی دعو ت دی ۔ عہدہ نبوی ﷺ میں یمن میں اشاعت اسلام ہوئی تو رومیوں نے یمن پر حملہ کر دیا۔ ایرانیوں کو تو شکست ہوگئی مگر یمن کے گورنر نے بھاگنے کے بجائے اسلام قبول کر لیا۔
بعد کے دورمیں رومی سلطنت کا زوال شروع ہوا تو ایرانی واپس آگئے مگر تب یمن میں دین اسلام کی روشنی پھیل چکی تھی۔ یمن اور ایران کا رشتہ بہت پرانا ہے۔ ایرانی آج بھی یمن کو ایران کا ہی حصہ سمجھتے ہیں اور موجودہ حالات کا تعلق ماضی کے واقعات اور حادثات سے جڑا ہواہے۔ آپ ﷺ کی پیدائش سے بہت پہلے مکہ ایک خوشحال ریاست تھی جہاں قانون کی عملداری اور روایات کی پاسداری پر سختی سے عمل کیا جاتا تھا۔
خزانہ ، خارجہ ، داخلہ ، قانون، تجارت اورحج کی وزارتیں قائم تھیں۔ حکومتی نظم و نسق چلانے کے لیے دارالند وہ یعنی پارلیمنٹ بھی موجود تھی۔ چالیس سال کی عمر میں ہر مکی شہری مرد اس پارلیمنٹ کا خود بخود ممبر بن جاتا اور مشوروں میں اپنی رائے کا حق رکھتاتھا ۔ 
ابوجہل اور حضرت عمر  کے متعلق لکھا گیا ہے کہ وہ چالیس سال سے پہلے ہی پارلیمنٹ کے ممبر بن گئے چونکہ دونوں کی فہم وفراست اور عقل مندی کا ہر مکی شہری معترف تھا۔
مکی ریاست میں حضرت ابوبکر صدیق  چیف جسٹس اور حضر ت عمر وزیر خارجہ تھے۔ حضر ت معصب بن عمیر  وزیر دفاع اور حضرت ابو سفیان  وزیر جنگ کے عہدے پر فائز تھے۔ مکی ریاست کا حکمران کو ئی بادشاہ نہ تھا بلکہ نظام پارلیمنٹ کے ہاتھ تھا جو باہمی مشاورت سے فیصلے کرتی تھی۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو مکی ریاست کا نظام منفرد اور عدل پر مبنی تھا جس کی مثال رومی اور یونانی شہری ریاستوں میں بھی نہیں ملتی۔
آپ ﷺ کے جد اعلیٰ عبدمناف بن قصیٰ پارلیمنٹ کے سربراہ بنے تو آپ نے اپنے چار بیٹے بحیثیت سفیر قیصر ، کسریٰ، نجاشی اور یمن کے بادشاہوں کے دربار میں بھیجے اور چاروں ملکوں کے ساتھ تجارتی معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے بعد ایران ، روم ، حبشہ اوریمن کے قافلے مکہ اور مکہ سے تجارتی قافلے ان ممالک میں جانے لگے تو مکہ ایک خوشحال ریاست اور اہل مکہ قریبی ممالک میں عقلمند، معتبر ، عالم اور مہذب سمجھے جانے لگے ۔
سورة القریش میں اللہ نے اہل مکہ پر اپنا احسان جتلاتے ہوئے فرمایا! اے اہل قریش میری مہربانیوں کو یاد کرو۔ میں نے تمہیں امن ، خوشحالی اور عزت بخشی مگر تم نے نا شکر ے پن کا مظاہرہ کیا۔ میں نے تمہاری سختیاں کم کیں ، گرمی وسردی کے سفر میں بچایا ۔تم اُس اللہ کی بندگی کرو جس نے تمہیں کھانا دیا جب تم بھوکے تھے اور امن دیا جب تم خوفزدہ تھے۔
 عبدمناف سے پہلے کسی پارلیمانی سربراہ نے اسطرح کا معاہدہ نہ کیا اور نہ ہی اپنا سفیر بھیج کر ایسا کارنامہ سرانجام دیا۔ مکہ سے گزرنے والے کاروان ایک قریشی کو معاوضہ دیکر ساتھ لیجاتے تاکہ فریقین کا کوئی حلیف قبیلہ کارواں پر حملہ آور نہ ہو۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja