Episode 82 - Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 82 - سات سو سال بعد (عمران خان نیازی تاریخ کے آئینے میں) - انوار ایوب راجہ

ریاست مدینہ کی بات کرنے سے پہلے ہمیں اپنی سیاست ، علمیت ، عملیت ، اخلاق و اخلاص کا جائزہ لینا ہوگا۔ کیا ہماری سیاست انبیا ، خلفأ، علمأ اور واعظوں کی سیاست سے کچھ مطابقت رکھتی ہے ۔ کیا ہم اپنے عوام کو علم سے بہرہ ور کر چکے ہیں، انہیں صراط مستقیم پر چلنے کا درس دیتے ہیں، کیا ہمارے سیاستدان عام لوگوں کی طرح سعادت مندی اور حسن اخلاق کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ،اگر ایسا نہیں تو پھر کس بنا پر لوگ اُن کا احترام کریں اور اُن کی شیطانی میکاولین اور چانکیائی چالوں کے بدلے میں اُن کی خدمت گزاری اور فرمانبرداری کا فرض بجا لائیں۔
سیّد ابوالاعلیٰ مودوی لکھتے ہیں کہ خرابیوں کی اصل جڑ حکومت ہے۔ 
ریاست کے اختیارات حکومت کے پاس ہوتے ہیں۔ فوج، عدلیہ ، پولیس اور دیگر اہم اداروں میں اعلیٰ سے ادنیٰ عہدوں پر حکومت کی مرضی سے تعیناتی ہوتی ہے ۔

(جاری ہے)

مملکت کا سارا نظام

 حکومت چلاتی ہے ۔لہٰذا معاشرے اور ریاست میں جو بھی خرابی پھیلتی ہے وہ حکومتی ادارے یا پھر حکومت خود پھیلاتی ہے ۔
بد اخلاقی ،بے حیائی ، لاقانونیت ، رشوت ، اقربأ پروری حکومتی اہلکار، ارکان اسمبلی ، سیاستدان ، وزیر اور مشیر پھیلاتے ہیں اور اپنی سیاسی جماعتوں کے کارندوں کو لا قانونیت اور غنڈہ گردی کی ترغیب دیتے ہیں۔ قانون شکنی ، غنڈہ گردی ، ہلٹر بازی اور بد اخلاقی میں زیاد ہ نمبر لینے والا سیاسی ورکر چند سالوں میں ارب پتی لیڈر اور قانون سے مبرا اہم سیاسی اور سماجی شخصیت بن جاتا ہے۔ جس ملک میں ہر حکومت کی بنیاد خرابی پر ہووہاں خدا کی حاکمیت اور ریاست مدینہ کاماڈل کیسے پیش کیا جاسکتا ہے۔ ایسے عوام ، خواص ، حکمران ، علمأ اور سیاستدان تو عذاب الہٰی کے مستحق ہیں جس کا مشاہدہ ہر پاکستانی ستر سالوں سے کر رہا ہے اور اب اس نظام کا عادی ہے۔ 

Chapters / Baab of Saat So Saal Baad ( Imran Khan Niazi Tareekh Ke Aaine Mein ) By Anwaar Ayub Raja