Episode 8 - Sehar Honay Tak By Sara Rehman

قسط نمبر 8 - سحر ہونے تک - سارہ رحمان

زینی۔۔۔جب ہم ریسرچ سنٹر سے واپس آرہے تھے تب بھی یہی شخص گاڑی میں بیٹھا تھا آج بھی۔۔۔مجھے تو لگتا یہ ہم پر نظر رکھ رہا ہے۔۔۔مریم نے خوف زدہ لہجے میں زینی کو بتایا۔۔۔
زینی مریم کی بات سن کر کانپ سی گئی۔۔۔
لیکن اپنا لہجہ متوازن رکھ کر کہنے لگی۔۔۔پاگل ہو گئی ہو کیا۔۔۔؟ کوئی ہم پہ نظر کیوں رکھے گا۔۔وہم ہوگیا ہے تمہیں مریم۔۔
۔مریم زینی کی بات سن کر مطمئن ہو گئی۔۔لیکن اُس نے دو دفعہ پیچھے مڑ کر گاڑی میں بیٹھے شخص کو دیکھا۔۔
باس نظر ہے میری دونوں پر۔۔۔ٹارگٹ کو تو کچھ معلوم نہیں۔۔۔لیکن اس کے ساتھ والی لڑکی ہوشیار معلوم ہوتی ہے۔۔۔۔
ایجنٹ ایلفا۔۔۔باس تک پل پل کی رپورٹ پہنچا رہا تھا۔۔۔۔
باس کی بھاری بھرکم آواز گونجی۔۔۔۔زرا بھی شک پڑے تمہیں وہ الٹا سیدھا سوچ رہی۔

(جاری ہے)

۔۔۔تو سمجھتے ہو کیا کرنا ہے تمہیں۔۔۔باس نے دھاڑتے لہجے میں ایلفا کو کہا۔۔۔۔جی بہتر باس میں سمجھ گیا۔۔۔۔ایلفا نے باس سے کہہ کر رابطہ منقطع کیا۔۔۔
زینی کو کچھ دن سے خود بھی محسوس ہو رہا تھا۔۔۔اپنی ذہانت اور قابلیت کا اسے اچھی طرح اندازہ تھا۔۔۔۔وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ یہ کام کس کا ہوسکتا ہے۔۔۔اب وہ دوسری نہج پہ سوچ رہی تھی۔
۔۔۔اسے کچھ ایسا منصوبہ ترتیب دینا تھا کہ مریم کو نقصان نہ پہنچ سکے۔۔۔اس کی آنکھوں میں بہتا خوف اس کی خوبصورت آنکھوں میں وحشت بن کے دوڑتا تھا۔۔ زینی نے بڑے کرب سے پرسکون سی سوئی ہوئی مریم کو دیکھا تھا اور کرب سے آنکھیں موند لیں تھی۔۔۔
اور زیرلب گنگنانے لگی تھی 
اس قدر اذیت ہے 
درد تک نہیں ہوتا۔۔۔
ایک آنسو پلکوں کی باڑ توڑتا ہوا تکیے میں جزب ہو گیا تھا۔
۔۔
آج ان کا آخری پیپر تھا۔۔۔۔کل سے سمسٹر بریک سٹارٹ ہو گئی تھی۔۔۔
مریم نے داؤد سے وعدہ لیا تھا کہ وہ پاکستان نہیں جائے گی اور داؤد مریم اور زینی کو لنڈن گھما ئے گا۔۔۔۔کل داؤد نے آنا تھا اور ان دونوں نے ان چھٹیوں میں لنڈن گھومنا تھا۔۔۔
زینی کا دماغ سوچ سوچ کے پھٹ رہا تھا۔۔۔۔۔کچھ تو تھا جو ادھورا تھا۔۔۔سمجھ سے باہر تھا۔
۔۔جو شخص اتنے دنوں سے ان دونوں پر نظر رکھے ہوئے تھا زینی اسے پہچان گئی تھی۔۔۔۔اس نے بیشک حلیہ تبدیل کر لیا تھا لیکن وہ زینی کی زیرک نظروں سے چھپ نہیں سکا تھا۔۔۔۔
داؤد اور مریم کا ساتھ ان دونوں کو خطرے میں مبتلا کر سکتا تھا۔۔۔وہ سوچ رہی تھی کہ وہ کوئی بھی بہانہ بنا کر واپس چلی جائے۔۔۔اور سمسٹر بریک ختم ہوتے ہی واپس آجائے۔۔۔
۔۔اور مریم کو اپنے سے دور کیسے رکھنا ہے۔۔۔اس پر بعد میں غور کر لے گی۔۔مریم سے دوری کا سوچ کر ہی اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں تھیں۔۔۔۔اور ایک منہ سے سسکی سی نکلی تھی۔۔۔۔
لیکن مریم کی خاطر اسے ساری دوریاں برداشت کرنی تھیں۔۔۔
رات کے کسی پہر اسے روم میں آہٹ سنائی دی ابھی وہ اٹھنے کا ارادہ ہی کر رہی تھی کہ کسی کا بھاری ہاتھ اس کے ناک پر کلوروفام والا رومال رکھ چکا تھا۔
۔۔وہ بول بھی نہ سکی اور اس کا ذہن تاریکیوں میں ڈوبتا چلا گیا تھا۔۔۔جب اسے ہوش آیا تو وہ ایک کمرے میں موجود تھی۔۔۔۔آہستہ آہستہ اُسے سب یاد آنے لگا خوف کی ایک تیز لہر اس کے پورے وجود میں دوڑ گئی۔۔۔اس نے ہاتھ پیر ہلا کر دیکھے۔وہ بندھی ہوئی نہیں تھی۔۔۔اس نے کمرے کا جائزہ لینے کیلئے جیسے ہی آنکھیں کھولیں۔۔اپنے اوپر جھکے وجود کو دیکھتے ہی ساکت رہ گئی۔
۔
تت۔۔۔۔۔تت۔۔۔۔تم تم کیا کر رہے ہو یہاں۔۔۔؟تم مجھے یہاں کیوں کے کر آئی۔۔۔اس نے پوری قوت سے اُسے پرے دھکیلا تھا۔۔۔۔۔اور روتی ہوئی دیوار کے ساتھ لگ کے کھڑی ہو گئی تھی۔۔۔۔
جس کی ایک نظر کے واسطے وہ اپنی پوری زندگی قربان کرنے کیلئے تیار تھی۔۔۔اس کے تو وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ معاذ انگلینڈ تک پہنچ جائے گا اور اسے کڈنیپ کر لے گا۔
۔۔اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔۔تمہاری جرأت کیسے ہوئی مجھے اغوا کرنے کی۔۔۔۔انہی نے بھیجا ہے نا تمہیں۔۔۔۔تم بھی غدار نکلے۔۔۔۔واہ معاذ واہ شہید کا بیٹا غدار ہو گیا۔۔۔۔باپ کے قاتلوں کے ساتھ مل گئی۔۔۔۔دھرتی کی ماؤں کی سسکیاں بیٹیوں کی چیخیں اور بیویوں کے نوحے بھول گئے۔۔۔
زینی نے بری طرح روتے ہوئے معاذ کے گریبان کو پکڑ لیا تھا۔
۔۔۔
چیخ چیخ کے زینی کا گلا بیٹھ گیا تھا۔۔۔روتے روتے وہ فرش پر بیٹھ گئی تھی۔۔۔
معاذ خاموشی سے گھٹنوں کے بل جھکا تھا۔۔۔اسے سہارا دے کر بیڈ تک لایا۔۔۔۔۔اور پانی کا گلاس پیش کیا پانی پی کر زینی کی حالت کچھ سنبھلی۔۔۔۔تو معاذ نے کہنا شروع کیا۔۔۔
بدگمانی کی پٹی کو اپنی آنکھوں سے اتار دو زینی۔۔۔۔
زینی نے چونک کر معاذ کو دیکھا تھا۔۔۔
معاذ نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔۔اور آہستہ سے زینی کے سرد ہاتھ پر اپنا مضبوط ہاتھ رکھ دیا تھا۔۔۔۔
#####

Chapters / Baab of Sehar Honay Tak By Sara Rehman