Episode 10 - Sehar Honay Tak By Sara Rehman

قسط نمبر 10 - سحر ہونے تک - سارہ رحمان

بعض دفعہ بیتی ہوئی ناخشگوار یادوں میں سے تکلیف دہ چیز وہی نفرت بن جاتی ہے۔۔۔جو ہم کسی سے بے تحاشہ کرتے چلے آرہے ہوتے ہیں۔۔۔کتنا غلط سوچتی تھی وہ بابا کے بارے۔۔۔اور بابا کو اس کی بدگمانی ہر پل اذیت ہی پہنچاتی رہی ہو گی۔۔۔آج کا دن اس کیلئے آگہی کے در کھول گیا تھا۔۔۔۔ آگہی بھی عذاب سے کم نہیں ہوتی آج وہ جان گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔اور یہ نغمہ اس کی حقیقت کا راز تم جان چکی ہو گی۔
۔۔بابا یہ آپ تھے۔۔۔۔یہ نغمہ گانے والے۔۔۔آج تک کوئی جان ہی نہ پایا۔۔۔کاش بابا آپ یہاں ہوتے میں ایک دفعہ تو آپ کو گلے لگا سکتی۔۔۔کاش بابا۔۔۔
زینی بے آواز رو رہی تھی۔۔۔۔آج رازوں کے فاش ہونے کی رات تھی۔۔۔۔زینی کو دن نکلنے سے پہلے پہلے ساری حقیقت جاننی تھی۔۔۔۔۔
#####
سامان میں ایک خون آلود ڈوپٹہ تھا۔

(جاری ہے)

۔۔اور بابا کی خون آلود جیکٹ۔

۔۔وہ جان چکی تھی کہ ماں بھی اور ماؤں کی طرح دھرتی پر قربان ہو چکی ہیں۔۔۔اور بابا اس سے آگے وہ سوچ ہی نہ سکی تھی۔۔۔۔ڈائری کے چند پیج ہی پڑھے تھے زینی نے کہ اسے لگا تھاکہ اس کی جان نکل رہی ہے۔۔۔وہ مر رہی ہے۔۔۔کتنا بڑا دھوکا ہوا تھا زینی کے ساتھ۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں خون اترنے لگا تھا۔۔۔۔جس دھرتی کا دکھ اسے خون کے آنسو رُلاتا تھا۔۔۔۔
۔وہ اس کی جنم بھومی ہی نہیں تھی۔۔۔۔۔اس نے امڈنے والے آنسو رگڑ ڈالے تھے۔۔۔۔اُسے آنسو بہا کر دکھوں کو بہانا نہیں تھا۔۔۔۔بلکہ اندر لگی آگ کو مزید ہوا دینی تھی۔۔۔۔
آج زینی اس شخص کی نگرانی کا راز جان چکی تھی۔۔۔۔
بھارتی ایجنٹس کی مکاری سے تو واقف ہی تھی۔۔۔لیکن اس بات کا اندازہ اسے آج ہوا تھا کہ یہ عیار و مکار ہونے کے ساتھ ساتھ غنڈے اور نیچ ذہن کے لوگ ہیں۔
۔۔ان کے گھناؤنے اور انسانیت سوز مظالم دیکھ کر شیطان کی روح بھی کانپ جاتی ہو گی۔۔۔۔شراب کے نشے میں دھت زینی کی نگرانی پر معمور ایجنٹ اور اس کے گرو کے خواب وخیال میں ہی نہیں تھا۔۔۔کہ زینی ساری حقیقت سے آگاہ ہو چکی ہو گی۔۔۔اور انکی عیاری اور غیر انسانی کاموں کا پردہ وہی فاش کرے گی۔۔۔۔ان کا اپناکھودا ہوا گڑھا ان کے اپنے لیئے بدنامی کا پھندا ثابت ہونے والا تھا۔
۔۔۔
######
زینی نے ماں کا ڈوپٹہ اور بابا کی جیکٹ کو آنکھوں سے لگا یا اور دیوانہ وار چومنے لگی۔۔۔۔ اور جب تھک کر نڈھال ہو گئی تو معاذ کی ہدایت کے مطابق سب کچھ جلا دیا۔۔اور راکھ پانی میں بہا دی 
########
داؤد طے کیئے ہوئے وقت کے مطابق صبح ہی پہنچ گیا تھا۔۔۔مریم حیران تھی کہ صبح سویرے جاگنے والی زینی ابھی تک جاگی کیوں نہیں تھی۔
۔۔
مریم نے زینی کو جگانے کے ارادے سے جیسے ہی گال پر ہاتھ رکھا تو ایک دم چونکی۔۔۔زینی بخار کی شدت سے بے ہوش تھی۔۔مریم پریشانی میں زینی کو جھنجھوڑنے لگی۔۔۔داؤد بھی اٹھ کر زینی کے پاس آیا۔۔۔۔
اففف اسے تو بہت تیز بخار ہے شاید اسی وجہ سے بے ہوش ہے۔۔۔
زینی کی آنکھیں بند تھیں۔۔۔مریم کے جھنجھوڑنے پر اس کے لب ہلے۔۔۔۔
وہ نیم بے ہوشی میں بابا کو بلا رہی تھی۔
۔۔بابا بابا۔۔۔۔ماں۔۔۔۔ممم ۔۔۔مجھے چھوڑ کر نہ جائیں۔۔۔بابا بابا۔
داؤد اور مریم بمشکل اس کے جملے سن پائے تھے۔۔۔۔
یہ کیا کہہ رہی ہے داؤد رات کو تو بلکل ٹھیک سوئی تھی۔۔۔۔مریم رونے لگی۔۔۔۔
مریم کے بے وقت رونے پر داؤد جھنجھلا گیا اور کہنے لگا۔۔۔۔بن ساون برسات ۔۔۔یہ رونے کا وقت نہیں ہے۔۔۔جاؤ برتن میں پانی لاؤ اور کوئی کپڑا بھی۔
۔۔بخار کی وجہ سے ایسی طبیعت ہوئی ہے۔۔۔۔بخار کم ہوگا تو کچھ بتا سکے گی۔۔۔۔داؤد کی بات سن کر مریم نے آنسو پونچھے اور پانی لینے کیلئے بھاگی۔۔۔۔۔
داؤد جان گیا تھا کہ زینی کو کوئی صدمہ لگا ہے۔۔۔۔ زینی کے ہاسٹل سے کچھ فاصلے پر گاڑی میں بیٹھا شخص داؤد کے دماغ میں پہلے ہی خطرے کی گھنٹی بجا چکا تھا۔۔داؤد نے مریم کی پیلی پڑتی رنگت دیکھی تو پانی کا باؤل اس کے ہاتھ سے لے لیا۔
۔۔
لاؤ مجھے دو باؤل میں پٹیاں رکھتا ہوں۔۔۔تم جا کر چائے بنا لاؤ۔۔۔زینی کو میڈیسن بھی دینی پڑے گی۔۔
لیکن داؤد مریم نے کچھ کہنا چاہا۔۔۔
لیکن ویکن کچھ نہیں معمولی بخار ہے۔۔۔ابھی اتر جائے گا۔۔۔۔
داؤد نے مریم سے کہا
پانی کی پٹیاں رکھنے سے اور میڈیسن دینے سے زینی کی طبیعت کچھ سنبھلی تھی۔۔۔
شکریہ مریم۔
۔۔شکریہ داؤد آپ نے اتنا کیا میرے لیئے۔۔۔میں اب بہتر ہوں۔۔میری وجہ سے آپ لوگ اپنا پروگرام ملتوی نہ کریں۔۔۔۔زینی نے آنکھوں پر بازوں رکھ لیا تھا کہ کہیں اس کی سوجی ہوئی آنکھیں مریم اور داؤد نہ دیکھ لیں۔۔۔
زینی شکریہ کی کیا بات ہے۔۔۔میں تو بہت پریشان ہو گئی تھی۔۔۔تم ٹھیک ہو جاؤ بس۔۔۔گھومنے کا پروگرام پھر بن جائے گا۔۔۔مریم نے زینی کاہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔
۔۔۔ اور زینی کیلئے سوپ بنانے کچن میں چلی گئی
#####
زینیہ آپ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے تو آپ مجھے بتا سکتی ہیں۔۔۔۔۔مریم کے جاتے ہی داؤد نے زینی سے کہا۔۔۔
زینی کانپ سی گئی کہ کہیں اسے کچھ پتہ نہ چل گیا ہو۔۔۔
مریم نے آپ کو بتایا نہیں۔۔۔کہ میں پاکستان آرمی میں ہوں۔۔۔۔یہاں چند کورسز مکمل کرنے آیا ہوں۔۔۔مجھے میجر داؤد احمد کہتے ہیں۔
۔۔
داؤد نے زینی کے سر پر بم پھوڑا تھا۔۔۔۔
زینی نے ماتھے پر رکھا بازو ہٹایا اور میجر داؤد کو گھورنے لگی۔۔۔وہ اس پوزیشن میں ہی نہیں تھی کے کسی پر بھی یقین کر سکتی۔۔۔۔
زینی کی سرخ آنکھوں میں دیکھتے ہی داؤد کا دل شدت سے چاہا تھا وقت تھم جائے اور وہ یونہی زینی کی ان آنکھوں کو دیکھتا رہے۔۔۔۔
زینی کو مسلسل اپنی طرف دیکھتا پاکر داؤد نے بمشکل نظریں چرائی تھیں۔۔۔۔ 
اور کھڑکی کے پردے ہٹا کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔۔۔۔۔۔
 ######

Chapters / Baab of Sehar Honay Tak By Sara Rehman