Episode 11 - Sehar Honay Tak By Sara Rehman

قسط نمبر 11 - سحر ہونے تک - سارہ رحمان

اپنی بہن کے یوں گم ہوجانے سے مانو گم صم ہو کر گئی تھی۔۔۔۔۔تیمور درانی نے عریشہ اور مانو دونوں کو اپنے بھائی کے پاس باہر بھیج دیا تھا۔۔۔تاکہ ان کا دل بہل جائے۔۔۔۔عریشہ رات کو سوتے میں اٹھ جاتیں اور چیخ چیخ کر رونے لگتیں۔ان کی ذہنی حالت بہت خراب ہو چکی تھی۔۔۔۔۔تیمور کے بڑے بھائی عثمان درانی اور ان کی بیگم حبیبہ درانی عریشہ کا بے حد خیال رکھ رہے تھے۔
۔۔ان کی ذہنی حالت کو دیکھتے ہوئے۔۔۔ان دونوں نے ایک سائیکاٹرسٹ کو ہائیر کر لیا تھا۔۔۔۔۔ان حالات میں مانو بھی عدم توجہی کا شکار ہو گئی تھی۔۔۔
######
تیمور درانی نے خود کو بزنس میں مصروف کر لیا تھا۔۔۔ لیکن وہ جان لیوا حادثہ ان کے ذہن سے محو ہونا تو دور کی بات ان کی زندگی کو دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا۔

(جاری ہے)

۔۔۔وقت پر لگا کر اڑ رہا تھا۔

۔۔۔
عثمان درانی اور حبیبہ درانی کے تین بچے تھے۔۔۔احمد سب سے بڑا تھا اس کے بعد علیشہ تھی اور سب سے چھوٹا علی تھا۔۔۔علیشہ اور احمد مانو کا بھی بھرپور خیال رکھ رہے تھے۔۔۔تاکہ مانو اس فیز سے باہر آسکے۔۔۔۔علیشہ اور احمد کی وجہ سے مانو کسی حد تک مریم کو بھول بھی چکی تھی۔۔۔کہتے ہیں ناں وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے۔۔۔سب بچوں کو یہی بتایا گیا تھا کہ کار ایکسیڈنٹ میں فاطمہ کی ڈیتھ ہو گئی تھی۔
۔۔۔
مانو احمد اور علیشہ ان کی دوستی دیکھتے ہی دیکھتے مشہور ہو گئی تھی۔۔۔مانو کا ایڈمشن بھی احمد اور علیشہ کے سکول میں کروا دیا گیا تھا۔۔۔۔
سائیکاٹرسٹ بھی عریشہ کی ذہنی حالت میں بہتری نہ لا سکی تھی۔۔۔۔ایک دن جب عریشہ رات کو سوئی تو پھر صبح اٹھ ہی نہ پائی۔۔۔۔
#####
عریشہ کا جسد خاکی پاکستان لایا جاچکا تھا۔۔۔۔
۔تدفین اور آخری رسومات کے بعد زبردستی تیمور درانی کی شادی کر وا دی گئی تھی۔۔عثمان اور حبیبہ مانو کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔۔۔۔۔۔
ماما دیکھیں اس جن نے میری گڑیا کی گردن ہی توڑ دی ہے۔۔۔مانو نے روتے ہوئے حبیبہ کو بتایا۔۔۔ احمد تم بچے نہیں رہے اور مانو کو تنگ کرنا چھوڑ دو ۔۔۔۔حبیبہ نے احمد کو ڈانٹا۔۔۔ ماما اس نے میری بکس پر کلر مارکر سے جن لکھ دیا ہے۔
۔۔اور میرے سب فرینڈز میرا مذاق اڑا رہے تھے۔۔۔۔احمد نے بھی منہ بسورتے ہوئے حبیبہ کو بتایا۔۔۔۔تو حبیبہ اپنی ہنسی چھپاتے ہوئے ۔۔۔مانو کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔میں اپنی بیٹی کو نئی گڑیا لے دوں گی۔۔۔مانو خوش ہو گئی ان کے گلے میں دونو ں بازوں ڈال کے کہنے لگی لو یو ماما۔۔یو آر مائی بیسٹ ماما۔۔۔حبیبہ بھی اس سے لاڈ کرنے لگیں۔
۔۔ 
وقت پر لگا کر اڑتا رہا۔۔۔۔۔بچپن کی کھیل کود کھلکھلاہٹیں وقت کے ساتھ ساتھ مانند پڑ گئیں تھیں۔۔۔لیکن مانو اور احمد اب بھی چھوٹی بڑی بات پر ایک دوسرے سے بدلا لینا نہیں بھولتے تھے۔۔۔۔
علیشہ ایم بی بی ایس کر چکی تھی اور ہاؤس جاب کر رہی تھی مانو علیشہ سے ایک سال چھوٹی تھی وہ ماسٹرز کر چکی تھی۔۔۔۔۔۔احمد کو بزنس میں انٹرسٹ نہیں تھا۔
۔۔اور وہ بھی پاکستان شفٹ ہونا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔
#####
ناشتے کی ٹیبل پر سب موجود تھے۔۔احمد اب واپس آجانا چاہیے میرے خیال سے تمہیں۔۔۔؟ عثمان درانی احمد سے کہنے لگے۔۔۔بابا آپ جانتے ہیں میرا بزنس میں انٹرسٹ نہیں ہے۔۔۔۔میں پاکستان چھوڑنا نہیں چاہتا۔۔۔میری ضرورت ہے پاکستان کو بابا۔۔۔۔
احمد بریڈ پر مارجرین لگاتے ہوئے بابا سے کہنے لگا۔
۔۔۔جیسے تمہاری مرضی۔۔۔بیٹا۔۔علیشہ کی ہاؤس جاب بھی مکمل ہونے والی ہے۔ہم بھی تھک چکے ہیں۔۔۔دیار غیر میں رہ کر اب میرا دل کرتا ہے۔۔۔زندگی کے آخری دن اپنے وطن میں ہی گزاروں۔۔حبیبہ نے بھی اپنے دل کی بات کہی۔۔عثمان درانی خاموش ہو گئے تھے۔۔۔۔ٹیبل پر گہری خاموشی چھا گئی تھی۔۔۔۔
ویسے بابا ٹھیک ہی کہتے ہیں۔۔کیا رکھا ہے آخر پاکستان میں۔
۔۔وہاں کچھ بھی ایسا نہیں ہے جو قابل اعتبار ہو۔۔۔پاکستان نے عریشہ آنٹی چھین لی ہم سے۔۔۔میری دوست اس کا آج تک پتہ نہیں چلا کہاں گئی وہ۔۔۔زمین کھا گیا یا پھر آسمان نگل گیا۔۔۔بھائی کون سا پاکستان کس پاکستان کو آپ کی ضرورت ہے۔۔۔علیشہ تلخی سے ہنس دی تھی۔۔۔اور ٹیبل سے اٹھ کر چلی گئی۔۔۔۔
کوئی کچھ بھی کہے۔۔میرا فیصلہ اٹل ہے بابا۔
۔۔۔۔اب کیا میں کبھی بھی پاکستان نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔عثمان درانی نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔ماحول کی تلخی کم کرنے کی غرض سے ہلکے پھلکے انداز میں کہنے لگے۔۔۔تمہاری ماما کے کسی فیصلے سے کبھی انکار کیا ہے میں نے جو اب کروں گا۔۔جیسا تم لوگ کہو۔۔ماما کو لے جانا اس دفعہ اپنے ساتھ۔۔۔وہاں پہ کوئی اچھا سا گھر ڈھونڈ لو۔۔۔۔۔میں بھی بزنس شفٹ کرلیتا ہوں۔
۔لیکن یہ سب کرنے میں مجھے بھی کچھ وقت لگے گا۔۔۔۔عثمان درانی کا فیصلہ سن کر حبیبہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔زندگی کے باقی سال اپنی دھرتی کے ساتھ گزارنے کی خوشی ہی اتنی تھی۔۔۔کہ وہ کچھ بول ہی نہیں سکی تھی۔۔۔آنسو چھپانے کی غرض سے وہ سر جھکا گئیں۔۔۔۔۔۔
####
داؤد جب ہاسٹل سے واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں زینی کی پرسنل ڈائری تھی۔
۔۔اس کا ذہن بہت الجھا ہوا تھا۔۔۔کچھ تھا جو ٹھیک نہیں تھا۔۔یا پھر کچھ تھا جو سمجھ سے باہر تھا۔۔۔زینی جو نظر آتی تھی۔۔وہ نہیں تھی۔۔۔داؤد کو کچھ نہ ملا تو زینی کی پرسنل ڈائری اٹھا کر واپس اپنے ہوٹل چلا آیا۔۔۔
زینی اب کیسی طبیعت ہے تمہاری۔۔کہو تو تمہارے بابا یا ماما سے بات کر وادوں تمہاری۔۔شاید تم ان کیلئے اداس ہو۔۔۔۔مریم تشویش اور پریشان لہجے میں زینی سے پوچھ رہی تھی۔
۔زینی کا بخار نہیں اتر رہا تھا۔۔۔۔میڈیسن بھی اثر نہیں کر رہی تھی۔۔۔مریم کے پوچھنے کی دیر تھی۔۔۔کہ زینی کے رکے آنسو بہنے لگے تھے۔۔۔۔زینی ہچکیوں سے رو رہی تھی۔۔۔۔مریم زینی کے گلے لگ گئی۔۔۔اپنی دوست کو اسطرح روتا دیکھ مریم بھی روتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔۔کیا ہوا زینی۔۔میری جان۔۔!!! کچھ تو بتاؤ۔۔۔مریم زینی کے آنسو صاف کرتے ہوئے پوچھنے لگی۔
۔۔
پپ۔۔۔پانی دو۔۔۔۔زینی نے مریم سے پانی مانگا۔۔۔پانی پی کر زینی کی حالت کچھ سنبھلی تو اذیت سے مسکراتے ہوئے کہنے لگی۔۔مریم کچھ بھی نہیں بچا۔۔۔ماما۔۔۔بابا۔۔سب چلے گئے۔۔۔۔میں بچ گئی۔۔۔میں کیوں بچ گئی۔۔؟ اور کتنی اذیت برداشت کروں،نہیں ہوتا اب برداشت۔۔۔زینی شدت سے رو دی تھی۔۔۔مریم کانپتے ہاتھوں سے اسے تسلی دیتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ریلکس ہو جاؤ زینی۔پھر مجھے بتاؤ۔۔۔کیا ہوا ہے؟

Chapters / Baab of Sehar Honay Tak By Sara Rehman