Episode 1 - Shaheen Ka Jahan Aur--- (iqbaliyat) By Shahida Shaheen Shaheed

قسط نمبر1 - شاہین کا جہاں اور۔۔ (اقبالیات) - شاہدہ شاہین شہید

حرفے چند اقبالیات کے ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے میں نے اپنے محترم اساتذہ کی تحقیقی و تنقیدی کتب سے استفادہ کرتے ہوئے اقبال پر جس انداز میں کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے قارئین اگر اسے اقبال کے ساتھ میری محبت وارادت کے طور پر لیں تو یہی اس کتاب کی پذیرائی ہے، کسی سے محبت کا حق شاید اسی طور ہی ادا کیا جا سکتا ہے کہ ہم اس سے کیا اخذ کرتے ہیں اور اس کا نام ہمارے نام کے ساتھ کس طرح آگے بڑھتا ہے۔
شوق کی ابتداء تو ہے انتہا نہیں۔ بقدرِ استطاعت اس کی تشفی کی ہے گر قبول افتدز ہے عزوشرف ۔ شاہدہ شاہین (ایم ۔ اے اُردو) سابقہ پروفیسر گرلز کالجز فیصل آباد حرفِ عقیدت بزبان محمد حفیظ اللہ (والد مکرم ) علامہ اقبا ل نے سیالکوٹ کے مردم خیز سرحدی ضلع میں جنم لیا۔ خدا معلوم یہ مایہ ٴ ناز ہستی متدّین و متشرع والدین کی دعاؤں کا ماحصل تھی یا اللہ تعالیٰ کی مشیت میں مسلمانوں کی اخلاقی پستی، روحانی تنزل اور زوال پذیر تمدن کے احیاء و ارتقاء کی خاطر اقبال ایسا مردِ مجاہد اور درد ِ دل رکھنے والا نبض شناش ماہر پیدا کرنا مقصود تھا۔

(جاری ہے)

جو کچھ بھی ہوا قبال کی ولادتِ با سعادت پر یہ شعر صادق آتاہے۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا اقبال نے ایک صالح گھرانے میں پرورش پائی۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم سیالکوٹ کے ایک اسکول سے حاصل کی۔ اسکول میں اقبال کو خوش قسمتی سے علامہ میر حسن جیسا ذکی ، طباع اور درویش صفت معلم مل گیا جس نے اقبال کی خفتہ صلاحیتوں کو محسوس اور بیدار کیا اور اسے وہ جذبہ عطا کیا جس نے اسلام کے شجر کی نئے سرے سے آبیاری کی۔
اقبال نے دنیاوی تعلیم کے تمام مدارج امتیازی شان سے طے کئے اور اپنی علمی قابلیت سے ہر کہہ ومہ کو متاثر کیا۔ متعلقہ علمی اداروں میں قابلِ رشک نقوش چھوڑے۔ مختلف تعلیمی اداروں کی طرف سے آپکو تدریس کی پیش کش ہوئی۔ آپ نے کچھ عرصہ اس شوق کی تشفی فرمائی اور جلد ہی آپ کو اعلیٰ تعلیم کی کشش انگلستان جرمنی سپین اور دیگر ممالک لے گئی۔ مغربی ممالک کی سیاحت کے دوران آپ نے وہاں کی مغربی تہذیب کا عمیق نظر سے مطالعہ کیا۔
آپ نے بعض مسلم ممالک کی بھی سیاحت کی۔ مسلمانوں کے عظمتِ رفتہ کے آثار اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیے۔ ماضی کے جید علماء اسلام اور روحانی پیش واؤں کے مقابر پر حاضری دی۔ انکے کلام سے استفادہ کیا مولانا رُوم کے کلام نے آپکو بہت زیادہ متاثر کیا۔ جب وطن لوٹے تو دل حبیبِ خدا کی محبت سے لبریز اورقومی اضمحلال سے مغموم تھا۔ پے در پے سوز و گداز سے مملو آہیں، بصیرت افروز اُردو اشعار کی صورت سامنے آئیں ۔
اس وجد آفریں لہر نے مسلم قوم کے نوجوانوں کو بالخصوص قومی بیداری سے آشنا کیا۔ برسوں کی سوئی ہوئی قوم نے انگڑائی لی۔ مسلمانوں کے قلو ب میں نیا ولولہ پیدا ہوا۔ اقبال نے مسلمانوں کی خودی کو بیدار کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس نکتہ خیال سے اقبال کے کلام کو عالمگیر پذیرائی ملی ۔ اقبال نے اپنے دل کی صدا اپنے مداحوں کی ستائش سے بے نیاز ہو کر محض رضائے الٰہی کی خاظر بلند کی۔
عشق محمدی ﷺ سے آپ کا دل سرشار ہوا اور اسی سرشاری میں آپ نے ایک قلیل عرصہٴ زیست میں وہ کام کیا جو سینکڑوں عالم و معلم برسوں کی لگاتار کوشش سے بہم نہ کر سکے۔ جلد ہی اقبال اپنے کلام کو پایہٴ تکمیل تک پہنچا کراپنی عمر کی بساط کو لپیٹ کر اس دنیائے دُوں سے اُوجھل ہو کر خالق حقیقی کی آغوش میں جا مستور ہوئے اور اپنے پیچھے ایسا کلام چھوڑ گئے جو آنے والے ہر دور میں مسلمانوں کے لئے سرمایہ افتخار متصور ہو گا۔
اقبال کو اپنے دور میں جو مقبولیت حاصل ہوئی اس سے کہیں زیادہ بعد از مرگ میسر آئی۔ اقبال شناسی کے حوالے سے اندرون و بیرون ملک آپ کا کلام نئے زاویہ نگاہ سے منصہ شہود پر آ رہا ہے ایسی تمام کوششیں قابل صد ستائش ہیں مگر ملکی اور ملی سطح پر اس اَمر کی اشد ضرورت ہے کہ اقبال کی تعلیم اور افکار کا عملاً احیاء کیا جائے ۔ جو شعور اور بیداری اقبال نے مسلمانوں میں پیدا کرنا چاہی اسکی طرف توجہ دی جائے اور جو عالمگیر اخوت اور اتحاد اقبال نے دنیائے اسلام میں دیکھنا چاہا اسے حاصل کرتے ہوئے مسلمانوں کے اجتماعی مسائل حل کرنے کی کوششیں کی جائیں اور اَغیار کے مذموم مقاصد کی نفی کی جائے۔
کلماتِ پذیرائی بقلم محترم ڈاکٹر جاوید اقبال کسی بھی فنی یا تخلیقی شعبے میں تخلیقات کا انبار لگا دینا بڑائی نہیں ہے بلکہ بڑے لوگوں کے افکار و نظریات کو عملی زندگی میں بروئے کار لا کر بڑا ہونا اور بنی نوع انسان کی خدمت کو نصب العین بنانا اصل بڑائی ہے ۔ اس فنکار کی سب قدر کرتے ہیں جس کے افکار کو اس کے اعمال اجالتے ہوں۔ شاہدہ شاہین کی انعام اور اعزاز یافتہ کتاب” رمزیں محبت کی “ کے حوالے سے ملکی اکابرین اور شاہد ہ شاہین کے اساتذہ نے ان کے جس عمل اور صاف گوئی کی گواہی دی ہے اس نے بلاشبہ ان کی تحریر کو بھی روشن کیا ہے اور یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ شاہدہ شاہین نے عملاً شاہین ہونے کا حق ادا کر دیا ہے۔
” شاہین کا جہاں اور“ کے سارے مقالات بہت محنت اور لگن کے ساتھ تحریر کئے گئے ہیں اور یوں تو اقبال پر پہلے بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے اور جتنا اقبال پر لکھا گیا ہے برصغیر کے کسی اور شاعر پر اتنا نہیں لکھا گیا۔ لیکن دورِ حاضر کی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر اقبال کے جن افکار اور پیغام کو فرد اور قوم کے عملاً سامنے لانے کی جس قدر اب ضرورت محسوس کی جانے لگی ہے شاید اس سے پہلے نہ کی گئی ہو۔
اس کتاب میں دیئے گئے اقبال کے پیغام اور افکار سے بہت استفادہ کیا جا سکتا ہے بالخصوص نوجوان نسل اس سے بہت فیض یاب ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ جیسے شاہینوں سے نئے شاہین وجود میں آئیں اور اگر ایسا ممکن ہو سکے تو ہمارے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔ اس کاوش پر میری طرف سے مبارک باد۔ جاوید اقبال علامہ اقبال اختصار میں علامہ کا خاندان علامہ اقبال کے دادا شیخ محمد رفیق ۱۸۶۱ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔
شیخ محمد اقبال سیالکوٹ کے ایک محلہ جسے اب اقبال بازار کہا جاتا ہے یہاں کے ایک گھر جسے اب اقبال منزل کہا جاتا ہے میں ۹ نومبر۱۸۷۷ء کو پیدا ہوئے ۔ دادا کے دو بیٹے نور محمد (میاں جی ) اور شیخ غلام قادر تھے۔ اقبال کے والد شیخ نور محمد(میاں جی ) والدہ امام بی بی (بی جی) تھیں۔ اقبال کے بھائی تین تھے۔ شیخ عطا محمد سب سے بڑا، درمیان والا بھائی فوت ہو گیا تھا۔
تیسرا محمد قبال ، اقبال کی تین بہنیں تھیں۔ اقبال کے والد کا انتقال ۱۹۳۰ء اور والدہ کا انتقال ۹۱۴اء میں ہوا۔ اقبال کی تعلیم اسکاچ مشن اسکول میٹرک ۱۸۹۳ء گورنمنٹ کالج لاہور/انٹر ۱۸۹۵ء گورنمنٹ کالج لاہور/ بی۔اے ۱۸۹۷ء گورنمنٹ کالج ایم۔ اے فلسفہ ۱۸۹۹ء بی۔ اے اختیای مضامین ۔ فلسفہ عربی انگریزی لٹریچر (ادب) انگلستان روانگی ۱۹۰۵ء مقالہ پی ایچ ڈی میونخ یونیورسٹی ۱۹۰۷ء موضوع (فلسفہٴ عجم ) بیرسڑی ۔
۱۹۰۸ ء میں لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ علامہ اقبال کے محبوب اساتذہ مولانا علامہ سید میر حسن پروفیسر (عربی، فارسی) ، تھامس آرنلڈ (فلسفہ) علامہ کی شادیاں اقبال کی پہلی شادی۱۸۹۳ء سولہ سال کی عمر میں گجرات کے ریئس خاں بہادر ڈاکٹر عطا محمد خاں کی بڑی صاحبزادی سے ہوئی۔ ایک بیٹی مریم اور ایک بیٹا بیرسٹر آفتاب خاں پیدا ہوا (یہ شادی کامیاب نہ ہوئی ) دوسری شادی لدھیانہ کی ایک لڑکی سے ہوئی۔
۱۹۱۳ء میں تیسری شادی کشمیری خاندان کی ایک لڑکی سے ہوئی۔ جن کے بطن سے جاوید اقبال اور منیرہ پیدا ہوئے۔ (پہلی بیوی کا انتقال ۱۹۴۷ء گجرات ،دوسری کا ۱۹۲۴ء لدھیانہ ،تیسری کا ۱۹۳۵ء لاہور ) (بحوالہ” اقبال سب کے لئے “ڈاکٹر فرمان فتح پوری ) تدریسی مصروفیات ۱۸۹۹ء سے ۱۹۰۳ء اورنٹیل کالج لاہور میں۔ ۱۹۰۳ ء سے ۱۹۰۵ء تک گورنمنٹ کالج لاہور میں۔
۱۹۰۵ء میں انگلستان کی لندن یونیورسٹی میں عربی پروفیسر چھ ماہ تک ۔ ۱۹۰۸ء یورپ سے واپسی پر وکالت کو پیشہ بنایا۔ (جزوی حیثیت سے گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ پڑھاتے رہے) علامہ کا قیام ۱۸۹۵ء تک سیالکوٹ ۱۸۹۵ء کے بعد ۱۹۰۵ء تک بھاٹی دروازہ لاہور (کرایہ کا گھر ) ۱۹۰۸ء سے ۱۹۲۲ء تک انارکلی والا مکان لاہور(کرایہ پر) ۱۹۲۲ء سے ۱۹۳۵ء تک میکلوڈروڈ والے گھر میں۔
۱۹۳۵ء سے ۱۹۳۸ء تک میو روڈ موجودہ اقبال روڈ کوٹھی جاوید منزل (ذاتی گھر ) سیاحت انگلستان ، اٹلی ، مصر ، فلسطین ، افغانستان ، ہسپانیہ وغیرہ اَحباب اکبر الٰہ آبادی ، سر راس مسعود ، مولانا غلام قادر گرامی، علامہ سید سلیمان ندوی ، پروفیسر نکلسن، عطیہ بیگم ، عبدالقادر ، جسٹس شیخ دین محمد، سر محمد شفیع ، سید نذیر نیازی ، پروفیسر سلیم چشتی ، مولانا غلام رسول مہر ،عبدالمجیدسالک ، خلیفہ عبدالحکیم ، محمد حسین عرشی ، حمید اختر خان، ڈاکٹر دین محمد تاثیر، سید عبدالواحد، ممتاز حسن شعری تصانیف ۱۔
اسرارخودی ۱۹۱۵ء ۲۔ پیام مشرق ۱۹۲۳ء ۳۔ بانگ درا ۱۹۲۴ء ۴۔ زبور عجم ۱۹۲۷ء ۵۔ جاوید نامہ ۱۹۳۲ء ۶۔ بال جبریل ۱۹۳۵ء ۷۔ ضرب کلیم ۱۹۳۶ء ۸۔ مثنوی پس چہ باید کردائے اقوام مشرق ۱۹۳۶ء ۹۔ مثنوی مسافر ۱۹۳۳ء ۱۰۔ ارمغان حجاز ۱۹۳۸ء اہم نثری تصانیف ۱۔ علم الاقتضاد ۱۹۰۳ء ۲۔ فلسفہ عجم (تحقیقی موالہ) ۱۹۰۷ء ۳۔ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ (خطبات علامہ) ۱۹۳۰ء اعزازات ۱۔
۱۹۲۳ء میں علمی و ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت برطانیہ نے سر کا خطاب دیا۔ ۲۔ ۱۹۳۳ء کے کانووکیشن میں پنجاب یونیورسٹی نے اقبال کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ ۳۔ ۱۹۳۴ء میں علی گڑھ یونیورسٹی نے اقبال کو ڈی لٹ کی ڈگری عطا کی۔ ۴۔ عثمانیہ یونیورسٹی (دکن) نے بھی علامہ اقبال کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری دینے کا فیصلہ کیا۔

Chapters / Baab of Shaheen Ka Jahan Aur--- (iqbaliyat) By Shahida Shaheen Shaheed