Episode 3 - Shaheen Ka Jahan Aur--- (iqbaliyat) By Shahida Shaheen Shaheed

قسط نمبر 3 - شاہین کا جہاں اور۔۔ (اقبالیات) - شاہدہ شاہین شہید

اقبال کا تصور شاہین اقبال کے کلام میں یوں تو ہمیں کئی پرندوں کا ذکر ملتا ہے لیکن جس کا ذکر انہوں نے بطورِ خاص کیا ہے وہ ” شاہین“ ہے ۔ اقبال شاہین کو اسکی کچھ مخصوص صفات مثلاً غیرت و خودداری ، خلوت پسندی ، خودا عتمادی ، آزادی ، تیز نگاہی ، تجسس اور فقرو استغنا کی وجہ سے پسند کرتے ہیں اور اسے دوسروں کے لئے بطور مثال پیش کرتے ہیں نظم ” شاہین “ میں فرماتے ہیں # کیا میں نے اس خاکداں سے کنارہ جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ بیاباں کی خلوت خوش آتی مجھکو ازل سے فطرت ہے میری راہبانہ نہ باد بہاری ، نہ گلچیں ، نہ بلبل نہ بیماریٴ نغمہٴ عاشقانہ خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم ادائیں ہیں انکی بہت دلبرانہ ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری جوان مرد کی ضربتِ غاریانہ حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا میرا نیلگوں آسماں بیکرانہ پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں کہ شاہین بناتا نہیں آشیانہ اقبال نے اپنی شاعری میں شاہین کو بطورعلامت استعمال کیا ہے۔

(جاری ہے)

جو صفات انکو اس پرندے میں نظر آئیں وہی وہ مردِ مسلمان اور نوجون میں دیکھنے کے آرزو مند ہیں ڈاکٹر سید عبداللہ نے شاہین کو علامت بنانے کی توضیح یوں فرمائی ہے آپ لکھتے ہیں ”جرمنی میں قیام کے دوران اقبال نے نطشے کے فلسفہٴ قوت کے نظریہ کو قبول کیا لیکن یہ قوت عمل اور جدو جہد کی قوت تھی نہ کہ کسی کو چیر نے پھاڑنے کی قوت کیونکہ خود جرمن بھی اس وقت قیصرو لیم کی قیادت میں تسخیر عالم کی تیاریوں میں مصروف تھا جرمن قوم کی فعالیت اور بلند نظری اور جرمن فرد کی خود شناسی اور خود اعتمادی نے اقبال کے نظامِ فکر پر ایک گہرا اثر ڈالا اور اس کی ایک یادگار ان کی فضائے سخن میں آسمان پر اس پرندے کی آواز ہے جسے شاہین کہتے ہیں اقبال کا شاہین جہاں زور و قوت ، بلند پروازی ، تیزیٴ نگاہ، سخت کوشی اور دُور بینی کی خصوصیات رکھتا ہے وہاں وہ بے نیازی ، مکر و ہاتِ دینوی سے نا آسودگی اور فقر و غنا کی صفاتِ عالیہ سے بھی متصف ہے اور اسکی اڑان در حقیقت اسکی رُوحانی پرواز کا دوسرا نام ہے ۔
وہ اس کی بلندیوں کی ہر منزل پر سُرودِ سروری کی نئی کیفیات اور علوِ جاودانی کی نئی رموز سے آشنا ہوتا چلا جاتا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاہین کی قوت سے مراد تعمیری قوت ہے اقبال اس کی قلندر انہ شان کو پسند کرتے ہیں اپنے ایک خط میں جو انہوں نے اقبال نامہ میں ظفر احمد صدیقی کے نام لکھا ہے شاہین کی مخصوص صفات کا اظہار یوں کرتے ہیں: ”شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ نہیں ہے بلکہ اس پرندے میں فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں مثلاً: ۱۔
وہ خود دار اور غیرت مند ہے اور کسی کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔ ۲۔ بے تعلق ہے آشیانہ نہیں بناتا۔ ۳۔ بلند پرواز ہے ۔ ۴۔ خلوت نشین ہے ۔ ۵۔ تیز نگاہ ہے ۔ چنانچہ شاہین کی پہلی صفت غیرت و خودداری ہے شاہین اپنی خوراک یا شکار کے لئے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اور نہ کسی کے آشیانے یا گھونسلے میں جھانک جھانک کر اپنارزق تلاش کرتا ہے وہ مردار کی بجائے زندہ شکار تلاش کرتا ہے # نگاہِ عشق دلِ زندہ کی تلاش میں ہے شکارِ مُردہ سزاوار شہباز نہیں اقبال چاہتے ہیں کہ اسکی ملت کے نوجوان محنت کر کے رزقِ حلال حاصل کریں اور حرام کے ذرائع آمدن سے حذر کریں کیونکہ دینِ اسلام میں اس سے سختی سے منع کیا گیا ہے جو افراد یا اقوام اس حرص میں مبتلا ہو جاتی ہیں وہ اپنے قلع قمع کا اہتمام بھی خود ہی کرتی ہیں اس لیے اقبال اپنی قوم کے عقاب سے یہی کہتے ہیں کہ # اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی در حقیقت زندگی اس سفلی دنیا سے اعلیٰ و ارفع جہاں کی طرف پرواز ہے لہٰذا پرواز سے پہلے پروں کو حرص و آز کی مٹی سے صاف کر لینا بہت ضروری ہے # غبار آلودہ حسب و نسب ہیں بال و پر تیرے تو اے مرغِ حرم اُڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے نوع انسان کو اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہو جا خودی سے مراد اپنی صلاحیتوں اور مقام و مرتبے کا صحیح ادراک ہے اور خداد صلاحیتوں کو مثبت انداز میں بروئے کار لا کر اس نصب العین کو حاصل کرنا جس کے لئے یہ مختصر اور عارضی زندگی و دیعت کی گئی ہے۔
اگر آدمی حرص و آز میں مبتلا ہو کر ایمانیضابطوں سے رُو گردانی کرنے لگے تو جلد یا بدیر اسکے، رو سیاہ ہونے کا احتمال رہتا ہے لہٰذا اسکی غیرت کا تقاضا ہے کہ وہ غیر کا منت کش ہونے کی بجائے اپنے آپ پر اعتماد کرے اللہ پر کامل توکل رکھتے ہوئے اپنے ہنر کو آزمائے اور اپنی دنیا آپ پیدا کرے # اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی تُو اگر میرا نہیں بنتا ، نہ بن ، اپنا تو بن اقبال فرماتے ہیں # تیرا جوہر ہے نوری پاک ہے تو فروغ دیدہٴ افلاک ہے تو تیرے صیدِ زبوں فرشتہ و حُور کہ شاہینِ شہ لولاک ہے تو اقبال کے بقول جوانوں کی خودی صورتِ فولاد ہے جس کے میسر آنے کے بعد انہیں کسی اور شمشیر کی حاجت نہیں رہتی # اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد جس بندہٴ حق بین کی خودی ہو گئی بیدار شمشیر کی مانند ہے برندہ و براق شاہین کا بے تعلق ہو کر رہنا اور آشیانہ نہ بنانا بھی جہد مسلسل اور عمل پہیم کا متقاضی ہے۔
وہ اپنی خودی میں مست ہے جدھر چاہے نکل جائے ۔ اسکی نگاہِ جستجو مسلسل چلنے پر اکسائے رکھتی ہے کوئی ایک مقام کوئی ایک آشیاں اُسکے لئے مخصوص نہیں اسکی راہ میں نہ تو کوئی سنگِ گراں حائل ہو سکتا ہے اور نہ ہی موسموں کا گرم و سرد ہونا اسے پرواز سے روک سکتا ہے۔ باد مخالف کے تیز جھونکے بھی اسکا راستہ نہیں روک سکتے ۔وہ اڑتا چلا جاتا ہے اور اپنے ارد گرد فضا میں اڑنے والے تمام پرندوں پر سبقت لے جاتا ہے۔
اسطرح ہر وقت محو پرواز ہونا یا حرکت میں رہنا ہی اسکی بھر پور زندگی کی علامت ہے۔ اسی کی بدولت اسے پرندوں کی بادشاہی نصیب ہوتی ہے۔ اقبال مسلمان کے لئے اس حرکت کو لازم قرار دیتے ہیں وہ چایتے ہیں کہ مسلمان خوب سے خوب تر راہوں کی طرف گامزن رہیں اور کسی مقام کو اپنا آخری مقام نہ جائیں # مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے مومن کا مقام ہر کہیں ہے اسی خیال کا اعادہ وہ یوں کرتے ہیں # ستاروں سے آگے جہان اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر چمن اور بھی ہیں آشیاں اور بھی ہیں تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا تیرے سامنے آسمان اور بھی ہیں اسی سے وہ نظر یہٴ حیات اخذ کرتے ہیں # برتر از اندیشہٴ سودوزیاں ہے زندگی ہے کبھی جان اور کبھی تسلیمِ جان زندگی تو اسے پیمانہٴ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں ، پہیم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی اپنی زندگی آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے سّرِ آدم ہے ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی کارِ آشیاں بندی کو وہ شاہین کے لئے ذلت و رسوائی سمجھتے ہیں # گزار اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیابان میں کہ شاہین کے لئے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی اقبال کے نزدیک مسلمان کا نصب العین تسخیرِ حیات و کائنات ہے لہٰذا جمود اسکے لئے موت ہے فرماتے ہیں # تعمیرِ آشیاں سے میں نے یہ راز پایا اہلِ نوا کے حق میں بجلی ہے آشیانہ یہ بندگی خدائی ، وہ بندگی گدائی یا بندہٴ خدا بن یا بندہٴ زمانہ غافل نہ ہو خودی سے کر اپنی پاسبانی شاید کسی حرم کا تُو بھی ہے آستانہ اقبال کے خیال میں مسلمانوں کو باطل قوتوں سے خوفزدہ ہو کر بلند مقاصد کے حصول یا تکمیل سے دستبردار ہر گز نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس راہ میں جو بھی مشکلات یا مصائب آئیں انہیں ہمت اور ایک نئے عزم سے گوارا کرنا چاہیے اس لیے وہ کہتے ہیں # تندیٴ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے اور وہ شاہینوں کے لئے توکُلّی طور پر پُراعتماد ہیں # شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا پُر دم ہے اگر تُو تو نہیں خطرہٴ افتاد شاہین کی چوتھی صفت ” خلوت پسندی “ ہے اور خلوت پسندی سے مراد رہبانیت ہر گز نہیں ہے بلکہ اس سے مراد صحبت بد سے احتراز ہے جس طرح آدمی صحبت کا اثر لازماً قبول کرتا ہے اسطرح پرندے بھی ایک دوسرے کا اثر قبول کرتے ہیں۔
مگر شاہیں کا خاصا یہ ہے کہ یہ کر گس کے ساتھ ہو کر بھی کر گس کا رنگ نہیں پکڑتا۔ # پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں کر گس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور اور پھر افضاؤں میں کر گس اگر چہ شاہین وار شکارِ زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا جس آشیانے میں مردار جاتا ہے وہاں شاہیں نہیں جاتا در حقیقت شاہین کی یہ خوئے دلبرانہ بھی اسکی آزادی و خوداری کی مرہون منت ہے ۔
وہ بھوکا رہ سکتا ہے مگر مردار نہیں کھا سکتا۔ وہ مقید بھی نہیں ہو سکتا ۔آزاد فضاؤں کا خؤگر ہے آزاد ہی رہے گا جس طرح کر گس اور شاہین ہم سفر اور ہم رکاب نہیں ہو سکتے اسطرح اسلام دوست اور اسلام مخالفت قوتیں کبھی یکجا نہیں ہو سکتیں حق باطل کے آگے جھک نہیں سکتا۔ جسے اللہ کی بادشاہت میں آزاد پیدا کیا گیا ہو وہ غیر کا غلام نہیں ہو سکتا # فیضِ فطرت نے تجھے دیدہٴ شاہین بخشا جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہِ خفاش اقبال کے نزدیک غلام انسان اپنے ہر قول و عمل میں دوسروں کا پابند ہوتا ہے غلامی اس سے آزادیٴ فکر و عمل چھین لیتی ہے اسطرح وہ جسمانی طور پر ہی نہیں ذہنی اور فکری لحاظ سے بھی دوسروں کاغلام ہو جاتا ہے ۔
شاہین کا صحبت بد سے احتراز کرنا مسلمان کا باطل قوتوں سے الگ ہونا ہے غلامی اور آزادی کا فرق اقبال یوں بیان کرتے ہیں۔ # بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی اک جوئے کم آب اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی غلامی کی تشریح یوں کرتے ہیں # غلامی کیا ہے ذوقِ حسن و زیبائی سے محرومی جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر کہ دنیا میں فقط مردانِ حر کی آنکھ ہے بینا شاہین کی خلوت پسندی سے مراد دنیا کی آلائشوں اورنفس کی خباثتوں سے آزاد رہ کر دل کو نورِ حقیقی اور معرفت الٰہی سے روشن کرنا ہے ۔
اقبال پُر پیچ اور پُر تصنع زندگی کی نسبت سادہ ، صاف اور جفاکشی کی زندگی کو پسند کرتے ہیں ۔ان کے خیال میں فطرت کے مقاصد کا اصل نگہبان بندہٴ صحرائی ہے یا مردِ کہستانی۔ اپنی ایک نظم میں بڈھے بلوچ کی زبانی بچے کو نصیحت کرتے ہیں # ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا اس دشت سے بہتر ہے نہ دِلّی نہ بخارہ جس سمت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا غیرت ہے بڑی چیز جہاںِ تگ و دو میں پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِدارا اقبال نے ” ضرب کلیم “ کی مشہور نظم ” محراب گل افغاں کے افکار “ میں جس فرزندِ کہستانی کی بات کی ہے وہ حقیقتاً اقبال کا یہی نوجوان شاہین ہے # میرے کُہستان! تجھے چھوڑ کے جاؤں کہاں تیری چٹانوں میں ہے میرے آباؤجَد کی خاک روزِ ازل سے ہے تو منزلِ شاہین و چرغ لالہ و گل سے تہی ، نغمہٴ بلبل سے پاک تیرے خم و پیچ میں ہے میری بہشتِ بریں خاک تیری عنبریں آب تیرا تابناک خودی میں ڈوب زمانے سے نا امید نہ ہو کہ اس کا زخم ہے در پردہ اہتمامِ رفو رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا اتر گیا جو تیرے دل میں لَا شریک لَہُ بال جبریل کے ایک قطعہ میں علامہ اقبال ایک بوڑھے عقاب کی زبانی بچے کو نصیحت کرتے ہیں اور سمجھاتے ہیں کہ زندگی جفاکشی اور سخت کوشی سے عبارت ہے کبوتر پر جھپٹنا دراصل جانبازی کی تربیت حاصل کرنا ہے # بچہ شاہین سے کہتا تھا یہ عقابِ سا لخو رد اے تیرے شہپر پر آساں رفعت چرخِ بریں ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزہ ہے اے پسر وہ مزہ شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں اقبال جفاکشی اور بہادری کو پسند کرتے ہیں اس لیے وہ چاہتے ہی کہ نوجوان نزاکت و لطافت کی بجائے صلابت و سختی کو زندگی کا نصب العین بنائیں وہ کہتے ہیں # ہے یاد مجھے نکتہ سلمان خوش آہنگ دنیا نہیں مردانِ جفاکش کے لئے تنگ چیتے کا جگر چاہیے شاہین کا تجسس جی سکتے ہیں بے روشنی دانشِ فرہنگ کر بلبل و طاؤس کی تقلید سے توبہ بلبل فقط آواز ہے طاؤس فقط رنگ اقبال نے اپنے دور میں بعض اپنو ں کی غلطیوں کے نتیجے میں اپنی قوم کے شاہینوں کو غیروں کا مقلّد ہوتے دیکھا تھا تو یہ کہنے پر مجبور ہوئے تھے کہ # ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی خراب کر گئی شاہین بچے کو صحبتِ زاغ ان نوجوانوں کی ظاہر پسندی اور تن آسانی پر چوٹ کرتے ہوئے کہا # تیرے صوفے ہیں افرنگی تیرے قالین ایرانی لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی اقبال کے نزدیک بے عملی یا جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ہے مسلمان کو اس حالت میں دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں # افسوس صد افسوس کہ شاہین نہ بنا تُو دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارات تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے ہے جرمِ حقیقی کی سزا مرگِ مفاجات باطل کی مادی قوت سے خوفزدہ ہو کر اپنے حصار میں اسیر ہوتے دیکھ کر وہ مسلمان سے کہتے ہیں # تیرا اندیشہ افلاکی نہیں ہے تیری پرواز لولاکی نہیں ہے یہ مانا اصل شاہینی ہے تیری تیری آنکھوں میں بے باکی نہیں ہے اقبال ان شاہینوں کو اللہ کا شیر کہتے ہیں جو خوشامد کی بجائے سچائی اور بے باکانہ سچائی کو شعار بناتے ہیں # آئین جوانمرداں حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی اقبال نے خود اپنے بارے میں کہا ہے # کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی ناخوش میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند اقبال کو اس مقام تک پہنچنے کیلئے بہت ریاضت کرنا پڑی اور تاریخ شاہد ہے کہ انہوں نے کبھی بھی اور کہیں بھی بیباکانہ بات کرنے سے گریز نہ کیا چاہے حالات کتنے ہی مخالف کیوں نہ تھے۔
اپنے متعلق کہتے ہیں # اسی اقبال کی میں جستجو کرتا رہا برسوں بڑی مشکل سے آخر یہ شاہین زیرِ دام آیا اقبال کے نزدیک نوجوانوں کو آ ہنی ارادوں کا مالک و محافظ ہونا چاہیے ۔ اگر ان کے دل زندہ اور روحیں بیدار ہوں اور ان میں جھپٹنے پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے کا سلیقہ ہو تو ان کی ہمتِ مردانہ ستاروں پر کمندیں پھینک سکتی ہے۔ اقبال کے شاہین خطر پسند طبیعتیں رکھنے والے گھات میں صیاد کا مردانہ وار مقابلہ کرنے والے ہیں # خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں وہ گلستان کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد اقبال کے بقول یہ از حد ضروری ہے کہ زندگی کی اعلیٰ قدروں کی حفاظت و بقا کے لیے سامنے کے اقدار کش ماحول سے برسرِ پیکار رہا جائے اور باطل کے مقابلے میں شانِ استغنا اور بے خوفی و بے حرصی کے ساتھ ہمہ وقت حق کی تلوار کو بلند رکھا جائے کہتے ہیں۔
# ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخِ دوست زندگی تیرے لئے اور بھی دشوار کرے دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے اقبال کے شاہین کی قوت عمل اور کردار کی قوت ہے ۔اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی طاقت ہے۔ زندگی کو ذوق پرواز سمجھنے کی صلاحیت ہے ۔
محبت کو مسلک بنانے کی آرزو مند ی ہے ۔ زورِ بازو اور تیزیٴ نگاہ کی کرشمہ سازی ہے ۔بزبان اقبال # کوئی اندازہ کر سکتا ہے اسکے زورِ بازو کا نگاہٴ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں اقبال کی خواہش ہے اسکی قوم کے شاہین خود کو ایمان اور یقین کی قوت سے مالا مال کریں یہی وہ قوت ہے جو تسخیرِ حیات و کائنات کے فریضے کی ادائیگی میں ممد ہوتی ہے جب اس انگارہٴ خاکی میں ہوتا ہے یقین پیدا تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامین پیدا اقبال کے نزدیک نوجوان ہی ملت کے مقدر کا ستارہ ہیں یہی قوم کی تقدیر کے معمار ہیں اگر انکی صحیح تربیت ہو جائے تو ملت کا مقدر تابناک ہے۔
اقبال کو خداوندان مکتب سے شکایت ہے کہ شاہین بچوں کو بلند پروازی کی بجائے خاکبازی کا درس دے رہے ہیں # شکایت ہے مجھے یا رب خداوندانِ مکتب سے سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا خاکبازی سے انکی مراد وہ تعلیم ہے جو انہیں نفس اور منفی انا سے باہر نہ نکلنے دے ، جو جوہر نہاں کو عیاں کرنے اور اس قطرے کو سمندر کرنے کی بجائے ذرے پر اکتفا کرنے پر مائل رکھے اور شاہین بچوں کو ذوق پرواز دینے کی بجائے بطخوں کی خو سکھائے۔
اقبال ایک جگہ علم اور زندگی کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں # زندگی کچھ اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے زندگی سوزِ جگرہے علم ہے سوزِ دماغ علم میں دولت بھی ہے قدرت بھی ہے لذت بھی ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ اہل دانش عام ہیں کمیاب ہیں اہل نظر کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایاغ! شیخ مکتب کے طریقوں سے کشادہ دل کہاں کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ! اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک نہ زندگی نہ محبت ، نہ معرفت ، نہ نگاہ اقبال یہاں نام نہ لے درسِ خودی کا موزوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار کیا مدرسہ کیا مدرسہ والوں کی تگ و دو آہ مکتب کا جواں گرم خوں ساحرِ افرنگ کا صیدِ زبوں اقبال چاہتے ہیں کہ قوم کے محترم اساتذہ تما م قدیم و جدید علوم و فنون سے لیس ہو کر اور عمل کی زرّہ پہن کر نوجوانوں کو زندگی کے عملی میدان کے لیے تیار کریں تا کہ وہ جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم کو شعار بنائیں اور ان پر جمود اور یاس کا غلبہ نہ ہو۔
اگر اساتذہ کرام اسلامی نظریات و افکار سے ہم آہنگ ہو کر انکی صحیح تربیت کریں اور انکے سامنے سیرت و کردار کا اعلیٰ نمونہ پیش کریں تو پھر کئی صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم پیدا ہوں۔ شیخ مکتب کے متعلق وہ فرماتے ہیں # شیخ مکتب ہے اک عمارت گر جس کی صفت ہے روحِ انسانی نکتہٴ دلپذیر تیرے لیے کہہ گیا ہے حکیم قاآنی پیشِ خورشید مکش دیوار خواہی ازو خانہٴ نورانی اقبال کے نزدیک شاہین کی یہ ساری صفات خودداری ، خود شناشی ، خود اعتمادی ، بلند نظری ، بلند پروازی ، تجسس ، آزادی ، خلوت پسندی ، فقرو قناعت اور صلابت و سخت کوشی اگر قوم کے نوجوانوں میں پیدا ہو جائیں تو وہ ستاروں پر کمند یں پھینک سکتے ہیں۔
# محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پر جو ڈالتے ہیں کمند عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں ملت کے انہی جسور و غیور عقابوں میں اقبال کو اپنی شاہی نظر آتی ہے # اگر جوان ہوں میری قوم کے جسور و غیور قلندری میری کچھ کم سکندری سے نہیں اقبال کے خیال میں اگر نوجوانوں کی مناسب تعلیم و تربیت کی جائے اور انہیں صحیح سمت میں اڑان کا موقع دیا جائے تو یہ نیلگوں فضا تسخیرِ حیات و کائنات کے لیے کچھ بھی نہیں۔
# یہ نیلگوں فضا جسے کہتے ہیں آسمان ہمت ہو پر کشا تو حقیقت میں کچھ نہیں بلائے سر رہا تو نام اس کا آسمان زیرِ پَر آگیا تو یہی آسمان زمین اقبال کے نزدیک سکون و ثبات محض فریب نظر اور ٹھہر جانا یاقیام کرنا موت کا پیش خیمہ ہے کہتے ہیں # فریبِ نظر ہے سکون و ثبات تڑپتا ہے ہر ذرہٴ کائنات ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود کہ ہر لخطہ ہے تازہ شانِ وجود بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلند سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند الجھ کر سلجھنے میں لذت اسے تڑپنے پھڑکنے میں راحت اسے اقبال ان شاہین بچوں میں تمام شاہینی اوصاف دیکھنے کی دعا کرتے ہیں”نالہ نیم شب“ اور ”دعائے سحر گاہی “ میں اللہ سے التجا کرتے ہیں # جوانوں کو میری آہِ سحر دے پھر ان شاہین بچوں کو بال و پَر دے خدایا آرزو میری یہی ہے میرا نورِ بصیرت عام کر دے انہوں نے اپنے بیٹے جاوید کے نام لکھے ہوئے اشعار میں بھی انہی شاہینی اوصاف کی طرف اشارہ کیا ہے # دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ ، نئے صبح و شام پیدا کر خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو سکوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر اٹھا نہ شیشہ گراں فرنگ کے احسان سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر ایک اور جگہ جاوید سے مخاطب ہو کر نوجوان کو پیغام دیا ہے # شاخِ گل پہ چہک و لیکن کر اپنی خودی میں آشیانہ وہ بحر ہے آدمی کہ جس کا ہر قطرہ ہے بحرِ بیکرانہ خلاصہٴ کلام یہ کہ شاہین کی طرح وہ نوجوان آئیڈیل ہیں جن کے دل زندہ اور روحیں بیدار ہیں نگاہ شاہینی اور پرواز عقابی ہے ۔
جو پہاڑوں اور چٹانوں کو اپنا نشیمن جانتے ہیں اور خود شناسی کی اعلیٰ صلاحیت رکھتے ہیں انہی کے لیے اقبال کا پیغام ہے # بڑھے جا کوہِ گراں توڑ کر طلسمِ زماں و مکاں توڑ کر جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود کہ خالی نہیں ضمیرِ وجود (اس مقالے پر تہذیب و ثقافت کمیٹی فیصل آباد کی طرف سے اقبالیات پر منعقدہ انعامی مقابلہ میں اول انعام دیا گیا۔)

Chapters / Baab of Shaheen Ka Jahan Aur--- (iqbaliyat) By Shahida Shaheen Shaheed