اقبال کا تصور جمہوریت
علامہ محمد اقبال صرف شاعر اور مفکر ہی نہیں بلکہ عظیم سیاسی رہنما بھی ہیں جنہوں نے قرآن حکیم کی روشنی میں اسلامی فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا ہے ۔ اقبال نے عملی سیاست میں گو اپنا کردار زندگی کے آخری دور میں ادا کیا مگر ان کے سیاسی افکار ہمیں ان کی ابتدائی شاعری میں نظر آتے ہیں ۔ وطنیت سے قومیت یا ملت کی طرف آتے ہوئے اقبال نے نہ صرف دنیا کے دیگر نظام ہائے سیاست کا مطالعہ کیا بلکہ ان کے اندر چھپی کمزوریوں کا بھی ادراک کیا اور ان سب کے مقابلے میں اسلامی نظام کو ہی ایک بہترین فلاحی ریاست کا ضامن قرار دیا۔
مغرب کا وہ نظامِ سیاست جو کمزور اور طاقتور ، غلام اور آزاد اور ترقی یافتہ اور پس ماندہ قوموں کے درمیان آویزش و پیکار کا سبب بن رہا تھا،اس کا پردہ چاک کیا اور کہا #
دیار مغرب کے رہنے والو، خدا کی بستی دکان نہیں ہے
کھرا جسے تم سجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا
اقبال کو یقین تھا کہ مغرب میں جس نطام سیاست کا نام جمہوریت ہے وہ ”گندم نما جو فروشی “ کے مصداق ہے ۔
(جاری ہے)
کہنے کو تویہ عوام پر عوام کے ذریعے عوام کی حکومت کہی جاتی ہے ۔ لیکن حقیقتاً اس میں سیاسی طاقت مخصوص افراد ہی کے ہاتھوں میں رہتی ہے اور یہی لوگ سارے ملکی و سائل و ذرائع پر قابض رہتے ہیں اور عوام مفلسی اور بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور رہتے ہیں ۔ اس طرح کی حکومت میں افراد کی صلاحیت و قابلیت یا صداقت و دیانت کو سروکار نہیں ہوتا بلکہ افراد کی گنتی یا اکثریت ہی سے حکومت قائم ہوتی ہے #
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کے بقول :
”جمہوریت کا عام ترین مفہوم یہ ہے کہ رعایا پر کوئی طبقہ اس کی مرضی کے خلاف حکومت نہ کرے۔
ابراہیم لنکن کے قول کے مطابق حکومت عوام کی ہو اور عوام کے لیے ہو اور رفاہِ عامہ اس کا مقصود ہو۔ جمہوریت وہ نظام ہے جس میں اقتدار اعلیٰ نہ سلاطین کو حاصل ہو اور نہ امراء کے طبقے کو۔ حکومت کی باگ ڈور نہ جاگیرداروں اور زمینداروں کے ہاتھ میں ہو اور نہ سرمایہ داروں اور کارخانہ داروں کے ہاتھ میں۔ مجلسِ آئین ساز میں جو نمائندے ہوں وہ آزادی سے عوام کے منتخب کردہ اہل الرائے ہوں“
اس تعریف کے برعکس اقبال نے مغرب کی جس جمہوریت کو ملاحظہ کیا اس میں کئی خامیاں نظر آئیں ۔
انہیں یہ جمہوریت کہیں ملوکیت کی حامی نظر آئی اور کہیں سرمایہ داری کے تابع۔ اقبال کے نزدیک اس طرح کی جمہوریت میں جبرو تشدد کو دخل رہتا ہے اور حکمرانوں کا مطمئع نظر حصولِ زر ہوتا ہے ۔رعایا کو محکوم بنا کر خوابِ خرگوش میں مبتلا رکھا جاتا ہے ۔ ایسی جمہوریت میں انسانی بھلائی کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ اقبال کی خواہش تھی کہ جمہوریت کی نئی توجیہہ پیش کی جائے اور اسے آزادی اور انصاف کے بنیادی اصولوں کے تابع کیا جائے ۔
محض رائے شماری کی جمہوریت ، زندگی کے مقاصد میں بنیادی تبدیلی کئے بغیر عدل و مساوات قائم نہیں کر سکتی۔ اقبال کے نزدیک سرمایہ دارانہ جمہوریت انسانی تمدن کے لئے قدریں تخلیق کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہ جمہوریت انسانی مساوات اور اخوت کے لئے بھی کچھ نہیں کر سکی اور نہ ہی تعصب اور قومیت کے محدود دائرے سے باہر لا سکی ہے ۔ اقبال نے اس قسم کی ظالمانہ جمہوریت کے خلاف شدید رد عمل ظاہر کیا #
وہ حکمت ناز تھا جس پر خردمندانِ مغرب کو
ہوس کے پنجہٴ خونین میں تیغِ کارزاری ہے
تدبر کی فسوس کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ کاری ہے
اقبال کے نزدیک اس نام نہاد جمہوریت نے انسانی معاشرے کی دھجیاں بکھیر دیں اور اس سے مسلمان بھی انتشار و تباہی کا شکار ہوئے۔
اقبال نے اس جمہوریت کو” سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادو گری “ کہہ کر رد کیا۔
اپنی مشہور نظم” خضرِ راہ“ میں وہ اس پر کھل کر اظہار خیال کرتے ہیں #
ہے وہی سازِکہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں ہے پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
اقبال نے مغرب کے اس جمہوری نظام کے مقابل کا رل مارکس کے سیاسی نظام، اشتمالیت کو ایک حد تک سراہا مگر اس کے لادینی ہونے کے سبب اسے بھی ناپائیدار اور کج نہاد خیال کیا۔
اقبال کے نزدیک مسلمانوں کے لیے کوئی بھی ایسا نظام سیاست جس کی بنیاد ان کے دین پر نہ ہو قابل قبول نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے وہ کہتے ہیں #
نظام پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
دین کے تابع نظامِ سیاست ہی ، اقبال کے نزدیک ملکی اور ملی سطحی پر مسلمانوں کے تمام امراض اور مسائل کا واحد حل ہے ۔ جو اتحاد بین المسلمین کا بھی ضامن ہے ۔
ایک مضبوط نظام کی طاقت سے ہی مسلمان متحد ہو کر باطل قوتوں کی یلغار یا جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کرنے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ اقبال کے اس تصور جمہوریت میں حقیقی سیاست دان وہ ہے جس کا دل عوام کے لیے درد و سوز اور محبت سے لبریز ہو ، جو ذاتی مفاد پر عوامی مفاد کو ترجیح دے، صاف گوئی و بے باکی جس کا طرہٴ امتیاز ہو، جو علم ، اخلاق ، تہذیب اور رواداری کا عملی پیکر ہو، جس کی انفرادیت اور اجتماعیت کا میعار بھی اعلیٰ انسانی اقدار ہوں، جو تعصب اور ظلم روانہ رکھے اور تمام افرادی قوتوں یا گروپوں کو دین کی قوت کے تابع یا مجتمع کرے اور باطل قوتوں کی بے رحمانہ غلامی سے اجتناب کرے ، خوددار اور آزاد اسلامی حکمران ہی آزاد اسلامی فلاحی ریاست کے امور کو چلانے کا اہل ہو سکتا ہے ۔
داکٹر یوسف حسین اپنی کتاب ” روح اقبال“ میں لکھتے ہیں کہ ” اگر سیاست میں ظلم اور خود غرضی روا رکھی جائے گی تو لازم ہے کہ اس تمدن کے سائے میں جو افراد زندگی بسر کرتے ہیں وہ اپنی انفرادی زندگی میں بھی بے مروتی اور خود غرضی سے پیش آئیں اور اس طرح اپنے وجود کی معنوی تنظیم کو تہہ و بالا کر دیں۔ انسانیت کی فلاح اسی میں ہے کہ دین و دنیا اور اخلاق و سیاست ساتھ ساتھ رہیں ۔
زندگی کے دوسرے شبعوں کی طرح سیاست بھی اس کی محتاج ہے کہ اس کی تہذیب کی جائے اور لازم ہے کہ اس کے لئے قرآنی تعلیمات سے رہنمائی لی جائے۔ قرآنی تعلیم کی رو سے حکمرانی کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ انسانی ضمیر صرف ذات واحد حق تعالیٰ ہی کا تابع فرمان ہو سکتا ہے #
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی سب بتانِ آزادی
اقبال مذہب ہی کو مسلمان کی اساس جانتے ہیں اور ایثار و قربانی کا بہترین درس بھی اسی سے اخذ کرتے ہیں۔
سیاست کرنے کے لیے سب سے پہلے ذاتی اغراض کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے جذبہٴ ایمانی اور طرز عمل سے اس کا بہترین نمونہ پیش کیا۔
سرداد ، نداد دست در دستِ یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
حضرت ابو بکر صدیق نے ایک موقع پر خطبہ دیا ( جس کا ترجمہ ہے )
” اے لوگو! میں تمہارا ولی مقرر کیا گیا ہوں۔ میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔
اگر میں بھلائی کروں تو مدد کرو، اگر میں برائی کروں تو مجھے تنبیہ کرو۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ۔تم میں سے جو ضعیف ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ اس کا حق دلوا دوں اور قوی ضعیف ہے یہاں تک کہ اس سے غریب کا حق لے لوں،میری اطاعت کرو اس وقت تک ، جب تک کہ میں اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرتا رہوں، اگر اللہ اور رسول ﷺ کی نافرمانی کروں تو میری اطاعت تم پر واجب نہیں“ ۔
خلیفہ عبدالحکیم کے بقول :” اسلام نے جو نظام قائم کیا وہ ایک طرح کی جمہوریت تھی۔ اس کا دستور عوام کی رائے سے مرتب نہ ہوا تھا بلکہ وہ قرآن اور سنت پر مبنی تھا۔ اس میں سیاست اور معشیت کے بنیادی اصول واضح اور معین تھے۔ امیرِ خلافت مسلمانوں کی اجتماعی رضا مندی سے منتخب ہوتا تھااور اس کے ذاتی اور حکومتی اعمال پر تمام مسلمانوں کی نگاہ رہتی تھی۔
وہ شرعی حدود سے باہر قدم نہ رکھ سکتا تھا۔ رعایا کے حقوق مساوی تھے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تمیز نہ تھی۔ دین اور ضمیر کے معاملے میں ہر شخص آزاد تھا۔ اس طرح کی جمہوریت اقبال کو نہ مغرب میں نظر آئی اور نہ مسلم ممالک میں۔ اس لیے اقبال نے ایسے جمہوری نظام کی ضرورت محسوس کی جس میں خلق خدا کے بنیادی حقوق محفوظ ہوں اور زندگی کی اساسی ضروریات عام ہوں۔
جہاں حکمران علم اور اخلاق کی بنیاد پر منتخب ہوں اور درویش منش ہوں، خوشامد ، جبر یا زر پرستی سے عوام سے اپنے حق میں ووٹ کے طالب نہ ہوں، اقبال کے نزدیک اگر کوئی نظام ، جمہوریت کے یہ تمام تقاضے پورے کر سکتا ہے تو وہ اسلام کا جمہوری نظام ہے ۔ معاشی اور معاشرتی مساوات اور بنیادی ضرورتوں کی فراہمی ، حریتِ فکر اور آزادیِ ضمیر ، رفاعی مملکت کا قیام ، رنگ و نسل سے بالا تر، دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہونے دینا، حاکموں کا عوام کی مرضی سے چنا جانا اور رعایا کے سامنے جواب دہ ہونا صرف اسلامی جمہوریت ہی میں ممکن ہے۔
اقبال اپنی نظم” ابلیس کی مجلس شوریٰ “ میں اس وقت کی جمہوری اداؤں کو سامنے لائے مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی جمہوریت کی یہ نیلم پری جہاں بھی سامنے آئی ، یہی ادائیں سامنے آئیں ، یہی مجلس شوریٰ نظر آئی اور اس مجلس کو ہمیشہ اس نظام کے آجانے کا خوف لاحق رہا جس کہ آجانے سے صحیح معنوں میں انسانیت کو فروغ ملتا ہے اس نظم کا ایک شعر دیکھیں #
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دین کی احتسابِ کائنات
خلاصہ یہ کہ اقبال اس جمہوریت کے حق میں ہیں جس میں درویشی اور سلطانی دونوں عیار ی نہ ہوں بلکہ جس میں حاکمِ وقت ”درویش “ ہو ں یا ”سلطان“ اقبال ہی کے بتائے ہوئے خودی کے تربیتی مراحل اطاعتِ الٰہی اور ضبط نفس سے گزرتے ہوئے صحیح معنوں میں نیابتِ الٰہی کا اہل ہو کر حکومت کرے ، عوام کو اس کے جملہ حقوق دے اور کسی کو بھی یہ نہ کہنا پڑے۔
یا رب! تیرے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں
درویشی بھی عیاری، سلطانی بھی عیاری
اقبال کا تصور عشق
نظا مِ کائنات کی طرح اقبال نے بھی اپنے نظامِ فکر کی بنیاد حقیقتاً فلسفہ عشق پر رکھی ہے ۔ ان کا فلسفہ خودی بھی فلسفہ عشق کا دوسرا نام ہے ۔ لہٰذا ان کے فنِ شاعری کے ادراک کے لیے ان کے تصور عشق کو سمجھ لینا بت ضروری ہے ۔ اقبال نے عشق کو بہت وسیع معنی دیئے ہیں۔
ڈاکٹر نکلسن کے نام اپنے ایک خط میں انہوں نے لکھا ہے کہ
” یہ لفظ ”عشق“ نہایت وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی کسی شے کو اپنے اندر جذب کر لینے اور جزو بنا کر اپنا لینے کی آرزو کا نام عشق ہے۔ جس کا کمال یہ ہے کہ تخیل پیدا کرے، قدرو مرتبہ پہچانے اور ساتھ ہی ادراکِ کامل سے اس کو بروئے کار بھی لائے۔ حقیقت میں عشق کا کام یہ ہے کہ عاشق و معشوق کو متمیّز کر دے اور انہیں اپنی اپنی جگہ انفرادی شخصیت اور اہمیت بخش دے۔
“
ایمرسن کا قول ہے کہ
”خود ہمارے قلب کی گہرائیوں سے یا پردہٴ غیب کے پیچھے سے ایک چندھیا دینے والی روشنی پیداہو کر ہم میں سے گزرتی ہے اور بیرونی اشیاء پر جا پڑتی ہے جس سے اشیا چمک اٹھتی ہیں اور اس وقت ہمیں اپنی کم مائیگی کا احساس ہونے لگتا ہے کہ ہماری حقیقت کچھ بھی نہیں البتہ جو کچھ ہے یہی روشنی ہے جو دماغ کو روشن کرے تو عقل ، ارادے کو منور کرے تو خودی اور قلب کو مجلہ کرے تو عشق ہے ۔
گویا عشق خود افزائی اور خود استحکامی کے انتہائی رتبہ کا نام ہے۔“
صدقِ خلیل بھی ہے عشق صبرِ حسین بھی ہے عشق
معرکہٴ وجود میں بدرو حنین بھی ہے عشق
ٹیگور کہتا ہے کہ
”انسان فطرتاً عاشق ہے اپنا یا کائنات کا غلام نہیں اور عشق ہی سے وہ کھلے طور پر کمال حاصل کرتا ہے ۔ اسی عشق کا دوسرا نام وسعتِ ادراک کاملہ ہے“
عشق کے جذبہ اور شوق کی حالت ہمارے احساسِ ذات کو قوی اور شخصیت کے شعور کو مضبوط بنا دیتی ہے ۔
ڈیکارٹ کا قول تھا
”میں سوچتا ہوں اس لیے کہ میں ہوں“
اقبال کہتے ہیں”میں عشق کرتا ہوں اس لیے کہ میں ہوں“۔
گویا عشق زندگی ہی کی ضمانت نہیں بلکہ حیاتِ بعدُالمات کا بھی ضامن ہے #
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
تیرے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے بقول
اوروں کے ہاں (اقبال سے پہلے کے شعرا ) عشق کا بیان عموماً وارداتِ قلبی اور کیفیت ِروحانی کا مضطربانہ اظہار ہے یہ وارداتِ قلبی اور تجربات روحانی چونکہ عام طور پر لمحاتی ہوتے ہیں اور لمحے لمحے بدلتے رہتے ہیں ۔
اس لیے اثر و تاثیر کے لحاظ سے وہ ایک دوسرے سے مختلف ہو جاتے ہیں ۔
ایسی صورت میں انہیں عشق کے موضوع کے متعلق منتشر خیالات و محسوسات ہی کا نام دیاجا سکتا ہے ۔
ان میں کسی معنوی تسلسل یا وحدتِ فکر کی تلاش بے سودہوگی ۔ عشق کا حاصل و مقصود عاشق کی ذات کو محبوب کی ذات میں کلی طور پر گم اور فنا کر دینا ہے ۔ اس کے برعکس عشق کے باب میں اقبال کا نقطہ نظر اسی قسم کے حاصل و مقصود سے لا تعلق اور ذات وکائنات کے اثبات کا داعی ہے ۔
گویا اقبال نے عشق کے بارے میں جو کچھ کہا ہے ۔ وہ قلب کی لمحاتی کیفیت کے زیر اثر نہیں بلکہ ایک نظامِ فکر کے تحت کہا ہے ۔ یہ اقبال کے نظام فکر کا وہ خاص پہلو ہے۔ جسے انہوں نے مادی حقائق پر روحانی حقائق کی برتری ثابت کرنے کے لیے اپنایا ہے ۔ عشق کی بدولت آدمی میں حریت و آزادی کا ایسا شدید اور طاقتور احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ ساری مادی اور خارجی بندشیں اس کی نظر میں کمزور اور بے وقعت ہو جاتی ہیں۔
باطنی شعور ذہن پر حقائق کا راز اس طرح فاش کر دیتا ہے کہ ظاہری علوم یعنی عقل و حکمت اس کے غلام بن جاتے ہیں ۔ بقول اقبال
من بندہٴ آزادم ، عشق است امامِ من
عشق است امامِ من عقل است غلامِ من
اقبال سے پہلے شعرا نے عشق کی جو تعریف کی ہے وہ ان اشعار سے بھی سمجھی جا سکتی ہے۔
میر نے کہا
ہم طورِ عشق سے تو واقف نہیں ہیں لیکن
سینے میں جیسے کوئی دل کو ملا کرے ہے
عشق کہتے ہیں جسے سب وہ یہی ہے شاید
خودبخود دل میں ہے اک شخص سمایا جاتا
غالب نے کہا
عشق پرزور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے اوربجھائے نہ بجھے
شیفتہ کا خیال ہے
شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ
اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی
فانی نے کہا
بہت نازک مگر جب توڑیئے تو ٹوٹنا مشکل
یہ زنجیرِ محبت بھی عجب زنجیر ہوتی ہے
اصغر نے کہا
میں کیا کہوں کہاں ہے محبت کہاں نہیں
رگ رگ میں دوڑتی پھرتی ہے نشتر لیے ہوئے
اور محبت معنی و الفاظ میں لائی نہیں جاتی
یہ وہ نازک حقیقت ہے کہ سمجھائی نہیں جاتی
اقبال نے عشق و محبت کے ان خیالات کی نفی کی اورعشق کا ولولہ انگیز تصور پیش کیا۔
جس سے زندگی کے چشمے پھوٹ پڑے اور سوئی قوم جاگ اٹھی۔ اقبال کے نزدیک ”عشق طبیعت میں ایک ایسی غیر معمولی قوت پیدا کر دیتا ہے کہ حوادث کے تھپیڑے اس پر کچھ اثر نہیں کرتے اور دوسری طرف اس میں کمال درجے کی رفعت پیدا ہوتی ہے جو بظاہر ایک انفعالی تاثر معلوم ہوتی ہے مگر عشق کے کمال میں یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر#
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
عشق اپنی دونوں صورتوں میں (مجازی و حقیقی ) لوگوں کا دلپسند رہا ہے ۔
” عشقِ حقیقی سے بعض اوقات انسانوں کی باہمی بے لوث محبت مراد ہوتی ہے ۔ جس میں خود غرضی ، نفسانیت یا جنسیت کا کوئی شائبہ نہ ہو اور بعض اوقات اس کے معنی عشق الٰہی کے ہوتے ہیں۔ یعنی اشخاص و اشیاء کی محبت سے ماور ا خدا کا عشق اور عشقِ حقیقی دل میں اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان کا دل ہر قسم کی حرص و ہوس سے پاک ہو جائے۔ ” صوفیوں کے نزدیک عشق وہ ہے جس کو وہ اپنی اصطلاح میں عشقِ مطلق کہتے ہیں“۔
یہ عشق دراصل اس محبوب کی لگن کا نام ہے جسے دیکھا نہیں جس تک پہنچے نہیں مگر جس تک پہنچنے کے لیے یا اسی عشق میں کامرانی کے لیے وہ ایک ظاہری ریاضت کو ضروری سمجھتے ہیں اور یہ ظاہری ریاضت عشقِ مجازی ہے۔ ڈاکٹر سید عابد حسین نے اقبال کے تصورِ خودی پر بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ عشق کی تین منزلیں ہوتی ہیں۔ آرزو یا جستجو ، دیدار اور وصل ۔ قدیم صوفی شعراء کے یہاں اسی تیسری منزل کا تصور یہ ہے کہ طالب مطلوب کے اندر اس طرح فنا ہو جائے جیسے قطرہ دریا میں محو ہو جاتا ہے ۔
اور ظاہر ہے کہ محدود یا لا محدود کے وصل کا اس کے سوا کوئی تصور بھی نہیں ہو سکتا ۔ مگر اقبال کے نزدیک اسی عشق کی صرف دو منزلیں ہیں۔ پہلی منزل سوز و گداز کی ہے دوسری کیفیت دیدار کی جو راحت بخش بھی ہے اور اضطراب افزا بھی۔ تیسری کوئی منزل نہیں ۔ لذتِ دیدار سے کامیاب ہونے کے بعد بھی نفسِ انسانی روحِ مطلق سے جدا رہتا ہے اور درد جدائی سے تڑپتا ہے یہی اس کی فطرت ہے اور یہی اس کی تقدیر ۔
اسی لیے اقبال نے کہا تھا
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
یعنی ایسی تمنا کر بیٹھا ہوں جس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اقبال کے نزدیک خودی عشق سے استوار ہوتی ہے اور یہ عشق نہ تو وہ صوفیانہ عشق ہے جو خود کو بالکل فنا کر کے کمال حاصل کرے اور نہ مجازی عشق ہے جو معمولی آرزؤں کے لیے تڑپتا رہے۔ اقبال نے اپنے کلام میں جا بجا عشق کی تفسیر و تشریح کی ہے
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات موت ہے اس پر حرام
تندوسبک سر ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود ایک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
عشق دمِ جبرئیل عشق دلِ مصطفےٰ
عشق خدا کا رسولﷺ عشق خدا کا کلام
عشق فقہیہِ حرم عشق امیرِ جنود
عشق ہے ابنِ السبیل اس کے ہزاروں مقام
گاہ بہ حیلہ می برد گاہ بزورمی کُشد
عشق کی ابتداء عجب عشق کی انتہا عجب
اقبال کے نزدیک عشق اور خودی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔
عشق کا خاصا یہ ہے کہ کسی کو پا لینے یا مسخر کر لینے کی صلاحیت اور آرزو رکھتا ہے اور خودی کا خاصا بھی یہی ہے کہ وہ غیر خودی کو مسخر کر نے یا پا لینے کی اندرونی صلاحیت رکھتی ہے۔ عشق کی خاصیت یہ ہے کہ پا لینے کے باوجود اطمینان حاصل کرنے کے باوجود ایک نئی آرزو پیدا کرتی ہے۔ #
ہر لحظ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہٴ شوق نہ ہو طے
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے بقول عشق کے باب میں یہی وہ نقطہ نظر اور عقیدہ ہے جس کے سبب قربِ دوست کی شدید تڑپ رکھنے کے باوصف اقبال وصال کے مقابلے میں فراق کو ترجیح دیتا ہے اور مثردہٴ وصال سنانے والوں سے صاف کہہ دیتا ہے کہ
متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی
عالمِ سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کر ہے فراق
وصل میں مرگِ آرزو ہجر میں لذتِ طلب
مختصر یہ کہ اقبال کے تصورِ عشق میں ایسے وصل کی کوئی جگہ نہیں جس میں عاشق کے انفرادی وجود کے مٹ جانے کا خطرہ ہو۔
وصال سے عاشق کا وجود ختم نہیں ہوتا بلکہ اس میں محبوب کے وجود کی سی بے کرانی پیدا ہو جاتی ہے قطرہ دریا کی وسعت پا لیتا ہے اور آخر کار یہ ہم آہنگی عاشق کو برملا اور محبوب کو در پردہ لازوال سوزو ساز سے ہمکنار کر دیتی ہے ۔ اس طرح کا وصل عاشق کے انفرادی وجود کے لیے خطرہ نہیں بلکہ محافظ بن جاتا ہے ۔ اس لیے قطرہ میں ایسا ظرف پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ دریا کو اپنی آغوش میں لینے کے لیے تیار ہو جا تا ہے ۔
چنانچہ جب عاشق تحفظ خودی کے اس احساس کے ساتھ آگے بڑھتا ہے کہ خودی کی حفاظت اپنی خاطر نہیں بلکہ محبوب کی خاطر کرتا ہے تو محبوب خود آگے بڑھ کر عاشق کے وجود کا ضامن بن جاتا ہے۔ طالب و مطلوب ایک دوسرے سے مل کر بھی ایک دوسرے کے لیے مضطرب و بیتاب رہتے ہیں۔
یہاں پہنچ کر یہ جذبہ اتنا مہذب اور مجلہ ہو جاتا ہے کہ چاہنے والا دردِ جدائی کو بھی حاصلِ زیست تصور کرنے لگتا ہے ۔
یہ وہ مقام ہے جہاں دل کی لگن کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ انسان اپنے مفاد پر محبوب کے مفاد کو ترجیح دیتا ہے تاآنکہ پروانوں کی طرح عشق میں رقیب کی شرکت بھی گوارا کرتا ہے۔ اقبال کے بقول
محبت چوں تمام افتد رقابت اَز میاں خیزد
بطوافِ شعلہ پروانہ با پروانہ می سازد
عشق کی اس کیفیت کو محبوب کی منشا کے تابع رکھا جاتا ہے ۔ عشق کی اس کیفیت میں انسان ایثار، شفقت ، محرومی ،مجبوری ، ذوق و شوق، درد و آرزو طلب و جستجو کی جن منزلوں سے گزرتا ہے وہ بہت پر اسرار اور دلپذیر ہوتی ہیں ۔
عشق کی اس کیفیت میں یہ ضروری نہیں کہ انسان جسے چاہتا ہے وہ حسین ہو بلکہ فنکار خود اس پیکرِ جسمی جس میں اسے پیکرِ خیالی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔حسین دیکھتا ہے ۔ خلیفہ عبدالحکیم کے بقول ۔ اقبال کے ہاں خودی عشق سے استوار ہوتی ہے خودی کا عمل بھی عاشقانہ ہے۔ خودی کی پیکار رقیبانہ نہیں عاشقانہ ہے۔ گویا عشق میں جو پیکار ہوتی ہے اس میں بھی ایک لطف ہوتا ہے ۔
اس کی حیثیت تخریبی نہیں ہوتی تخلیقی اور تعمیری ہوتی ہے #
بامن آویزشِ اُو الفتِ موج است و کنار
ومبدم بامن و ہر لحظ گریزاں از من
اقبال نے اپنے کلام میں عشق کا موازنہ عقل سے کیا ہے عشق کے باب میں وہ عقل کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں ان کے نزدیک عقل عشق کی حریف ہے۔ وہ اعمال کی بنیاد بھی عشق پر چاہتے ہیں عقل پر نہیں ۔ فرماتے ہیں #
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
اقبال کے نزدیک عقل کی اہمیت مسلمہ ہے لیکن خیال کرتے ہیں کہ کبھی کبھی اس سے آزاد ہونا بھی اچھا ہے ۔
اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں کہ اقبال کے نزدیک عقل و عشق میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے بلکہ عقل جب سوز سے ہم کنار ہو جاتی ہے تو عشق بن جاتی ہے ۔ اقبال کے نزدیک ” دانش یا علم کی دو قسمیں ہیں ایک دانشِ برہانی دوسری دانشِ شیطانی ہے۔ اس کے برعکس اگر علم و عقل روحانی حقائق سے آشنا ہوں اور منزل تک پہنچنے کا راستہ ہموار کرکے انسان کے دل میں اعلیٰ مقاصد پیدا کریں تو یہ دانشِ برہانی ہے ۔
ڈاکٹر قاضی عبدالحمید کے بقول عشق میں عقل کی موشگافیوں اور چُوں و چرا کی گنجائش نہیں ہے ۔ عشق رموز کے سارے پردے اس طرح اٹھا دیتا ہے کہ شاہدِ معنی بے نقاب ہو جاتا ہے ۔ ہرچیز میں انفرادیت پیدا کر لینا اس کی گھٹی میں ہے۔ اس انفرادیت کے باوصف وہ نظامِ قدرت کو باہم مربوط رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ ذرے ذرے کو ایسی تربیت دیتا ہے کہ اس کا معنوی تعلق اصل حقیقت سے بہر حال قائم رہتا ہے۔
عشق راہ کی دشواریوں اور رکاوٹوں کو خاطر میں نہیں لاتا بلکہ کسی خوف و ہراس کے بغیر آتشِ نمرود میں کود پڑتا ہے اور بالا آخر منزل مقصود کو پا لیتا ہے #
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل سے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
بقول شخصے عشق تلواروں اور خنجروں سے بھی خوف نہیں کھاتا۔ اس لیے کہ عشق کی بنیاد کا تعلق اس خاکی جہاں سے نہیں بلکہ اس جہاں سے بھی آگے کے جہانوں سے ہوتا ہے ۔
محبت کی نظر اپنے اندرجادو کی سی تاثیر رکھتی ہے، ایسی تاثیر کہ جو پتھر کے سینے کو بھی چاک کر دیتی ہے ۔ اسرار خودی میں اقبال کہتے ہیں ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنے معشوق کو تلاش کریں اور عاشقی کے فرض کو نبھائیں ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے دل کے اندر ہمارا محبوب چھپا بیٹھا ہے۔ صرف دیکھنے والی نظر چاہیے #
ہست معشوقے اندر دِلتّ
چشم اگر داری بیا بانمائت
مختصر یہ کہ اقبال کے نزدیک ” انسان کی بقا کا ضامن عشق ہے ۔ یہ ماخذِ حیات بھی ہے اور مقصودِ حیات بھی۔ جادہٴ حیات سے منزل حیات تک اسی جذبے کی کارفرمائی ہے۔“
ہے ازل کے نسخہٴ دیرینہ کی تمہید عشق
عقلِ انسانی ہے فانی زندہٴ جاوید عشق
(یہ مقالہ بعض مستند حضرات کے مقالہ جات سے استفادہ کے بعد لکھا گیا)