Episode 5 - Shaheen Ka Jahan Aur--- (iqbaliyat) By Shahida Shaheen Shaheed

قسط نمبر 5 - شاہین کا جہاں اور۔۔ (اقبالیات) - شاہدہ شاہین شہید

اقبال کا تصور مرد ِمومن اقبال کی آواز، ان کا پیغام اور ان کا کلام انقلابی اور عالمگیر ہے انکی شاعری محض تفننِ طبع یا اظہارِ فن کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ ان کی دعوت یہ ہے کہ ” دینِ اسلام کو از سر نو نظامِ زندگی کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کیا جائے انہیں اس کام کے لئے بازوئے حیدر کی تلاش ہے، فقر بوذر کی ضرورت ہے اور ایک ایسے مرد مومن کی تلاش ہے جو اس عظیم کام کا بیڑا اٹھا سکے۔
ان کا یہ مردِ مومن وہ انسانِ کا مل ہے جو ایمان کے افضل ترین مقام پر فائز ہے صاحبِ علم و عمل ہے، اور وارثِ ذکر و فکر ہے اسکی بصیرت کی اساس رسول ﷺ پاک کا اسوہٴ حسنہ ہے اور اسکی فراست کی بنیاد رسو ل پاک ﷺ ہی کے اعمال و احادیث پر استوار ہے۔“ اقبال نے اپنے کلام میں اس مردِ مومن کے لئے کئی دوسری اصطلاحیں مثلاً مردِ حق ، مردِ خدا، بندہٴ آفاقی ، بندہٴ مومن ، انسانِ کامل، درویش اور قلندر وغیرہ استعمال کی ہیں۔

(جاری ہے)

معنوی لحاظ سے ان میں تھوڑا بہت فرق ہو سکتا ہے ۔ لیکن حقیقتاً ان سب سے مراد مومن ہی ہے اقبال سے پہلے بھی حکیم سنائی ، مولانا روم ، مولانا جامی اور حضرت مجدد الف ثانی وغیرہ کے ہاں انسانِ کامل اور فوق البشر کا تصور ملتا ہے لیکن اقبال کا تصورِ مرد ِمومن اقبال کے باقی تصورات کی طرح قرآن پاک سے ماخوذ ہے۔ قرآن پاک میں مسلمان کو مومن کہا گیا ہے اور اقبال نے یہ اصطلاح استعمال کر کے مسلمان کو اس کا اصل مقام یاد دلایا ہے اس لئے یہ کہنا بجا نہیں کہ اس کا تصور مرد مومن نطشے یا کسی دوسرے نظریئے سے ماخوذ ہے ۔
اقبال نے ان نظریات سے تھوڑا بہت استفادہ ضرور کیا ہے لیکن اپنے نظریہ کی اساس خالصتاً قرآن پاک پر رکھی ہے۔ انہوں نے مرد مومن کی تمام صفات قرآن پاک ہی کی روشنی میں بیان کی ہیں جناب طاہر فاروقی کے بقول” اقبال نے جس مرد مومن کا تصور پیش کیا ہے وہ نائب خدا اور خلیفة اللہ کے اوصاف و کمالات سے متصف ہے جو مشیت الٰہی میں اس کے لئے امانت رکھے گئے اور جن کی بدولت اسے احسن التقویم کے معزز لقب سے نوازا گیا“ اقبال کے مردِ مومن کو مزید سمجھنے کے لئے ہمیں اقبال کے عہد پر ایک سرسری نظر ڈال لینی چاہیے” اقبال کو جو عہد ملا اس میں صحت مند اور غیر صحت مند دونوں ہی عناصر پوری شدت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں تھے قومی زوال تو آہی چکاتھا مگر اسے مسخر کرنے کی تدابیر بھی ہو رہی تھیں سر سید نے قوم کے مرض کا حل سوچا اور اسکے لئے بڑا کام کیا حالی، شبلی اور اکبر نے اس کو آگے بڑھایا ان سب اکابر ین نے مسلمانوں کے زوال پر سوچنا شروع کیا اور اپنے اپنے فکرو فن سے قوم کی اصلاح و تعمیر کی تدابیر بتائیں ۔
حالی نے ماضی کا افسانہ چھیڑ ا اور نئے عہد کا ترانہ بھی سنایا ۔ مقصود یہی تھا کہ قوم، کو نئے برگ و بار نصیب ہوں اور پھر وہ فاتح بننے کا کردار ادا کر سکے۔ اسی طرح شبلی اور اکبر کا کام تھا۔ یہ سب کو ششیں احیائے ملی میں بڑی ممد ثابت ہوئیں ۔ اقبال نے ان درد مندانِ قوم کی روشن کی ہوئی مشعل کو زیادہ روشن کرنا چاہا۔ اقبال کو سب سے بڑی تحریک خود تفہیم قرآن سے ہوئی۔
قرآن نے انہیں بتایا کہ انسان کی برگزیدگی کاکیا مقام ہے اور وہ نہایت ِالٰہی کا کیوں سزا وار ہے۔ یہ سب باتیں اقبال کے فکر میں موجود تو تھیں مگر لاشعوری طور پر مغرب میں پہنچ کر انہیں مادہ کی سر بلندی دکھائی دی۔ معاشی عروج نظر آیا مگر ساتھ ہی اخلاقی پستی بھی مشاہد ہ کی اپنے مقالہ کی تحریر کے وقت انہیں تصوف کی تباہ کاریوں کا بھی علم ہوا اور انہوں نے اسے زوالِ ملت اسلامیہ کا ایک سبب جانا۔
مغرب کے مشرق پر تباہ کن اثرات بھی انکو نظر آئے اور ان تمام باتوں پر غورو فکر کا سلسلہ جاری رہا۔ یہی چیزیں بصیرتِ اقبال کی اساس بنیں ۔ انسان کامل کے بارے میں بھی انکی فکر میں کچھ مدھم خطوط یورپ جانے سے قبل ہی پیدا ہو گئے تھے مگر جب خارجی تحریکات قوی ہو گئیں تو ان کی تمام تر توجہ اس مسئلہ پر مرکوز ہو گئی۔“ (بحوالہ خیابان اقبال ) اقبال نے جب اپنا تصور مرد مومن پیش کیا تو بعض ناقدین نے اسکی غلط تاویلیں پیش کیں اور اسے نطشے اور الجیلانی سے مماثل قرار دیا۔
اقبال نے جب اپنے اسلامی تصور کو مسخ ہوتے دیکھا تو خود ان غلط خیالات کی۔ تردید کی نکلسن کے نا م اپنے ایک خط میں لکھا ہے:- ”انتھم کے تبصرہ نگار نے میرے نظریہٴ انسانِ کامل کو نظریہٴ فوق البشر سے مختلط کر دیا ہے اور اپنی غلط فہمی کی بناء پر دونوں کو ایک ہی سمجھ لیا ہے۔ میں نے آج سے تقریباً بیس سال قبل انسان کامل کے متصوفانہ عقیدہ پر ایک مضمون لکھا تھا اور یہ وہ زمانہ ہے جبکہ نطشے کی بھنک بھی میرے کان میں نہیں پڑی تھی اور نہ اسکی تصانیف میری نظر سے گزری تھیں۔
یہ مضمون اسی زمانہ میں شائع ہوا تھا اور جب میں نے فلسفہٴ عجم پر مقالہ لکھا تو اس مضمون کو اس میں ضم کر دیا تھا۔ “ جناب عبدالواحد ملفوظاتِ اقبال میں رقم طراز ہیں۔ ”ہم نے آپ سے دریافت کیا کہ فوق البشر کی تعریف کیا ہے کہنے لگے ہر صحیح مومن فوق البشر ہے اور اسلام ہی وہ بہترین سانچہ ہے جس میں فوق البشر ڈھلتے ہیں“ ایک دوسرے موقع پر علامہ نے انسانِ کامل کی تعریف یوں کی ” میرے نزدیک وہ بندہٴ مومن جو تربیت خودی کے جملہ مراحل کو پوری طرح طے کر چکا ہو وہ مردِ کامل یا انسانِ کامل ہے۔
“ اقبال کے اکثر نقادیہ تسلیم کرتے ہیں کہ اقبال کا تصور مرد مومن نطشے یا دوسرے مفکرین کے تصور سے ماخوذ نہیں۔ مثلاً جناب نصیر احمد نواز لکھتے ہیں کہ اقبال کے نظام فکر میں مردِ مومن یا انسانِ کامل کے تصور کو مرکزی حیثیت حاصل ہے یہ تصور اگر چہ اپنے نئے معنوں میں منفرد ہے لیکن تصور کی حیثیت سے نیا نہیں ہے ۔ اس وجہ سے مختلف طبقوں نے اس تصور کو مختلف لوگوں سے منسوب کیا ہے اس ضمن میں جرمن میں مجذوب فلسفی نطشے اور عبدالکریم بن ابراہیم جیلانی بہت اہم ہیں۔
نطشے کا فوق البشر بھی چونکہ حسن، عقل، قوت اور ارادے کی صفات کا بکمال حاصل ہے اس لئے بعض نقادوں کے خیال میں یہی علامہ کے تصورِ مردِ کامل کی اساس ہے ۔اس خیال کو اسرار خودی میں وارد ہونے والی اصطلاحات فلک شیری اور فلک گو سفندی نے اور بھی ہوا دی۔ لیکن مزید تحقیق نے جب ان سرسری مشابہتوں کا پردہ اٹھا کر گہری نظر سے اس کا مطالعہ کیا ہے تو اب یہ معلوم کر کے کہ نطشے کا فوق البشر قوت و جبروت کا وہ پیکر ہے جس کے لئے محبت اور رحم کے جذبات مفقود اور پابندیٴ اخلاق جس کے لئے نقص قرار پائی ہے اقبال کے مرد کامل سے اسے الگ پہچان لیا گیا ہے۔
“ ”اقبال کا مرد مومن نطشے کے فوق البشر کی طرح حسد ، نفرت، حقارت اور نسلی برتری کا حامل نہیں ۔ وہ زمانی و مکانی قوتوں کی پیداوار بھی نہیں اور نہ ہی اسکا ظہور کسی خاص وقت یا حالات کا مرہونِ منت ہے ۔ وہ کبھی آتش نمرود کو گلزار بناتا ہے اور کبھی سلیمان  کی طرح بحرو بر اور فضا پر حکومت کرتا ہے ۔ مؤرخین کی نگاہوں نے اس کو معرکہٴ بدرو حنین میں دادِ شجاعت دیتے ہوئے دیکھا ہے اور یر موک کے عظیم الشان جہاد میں قربانی اور تسلیم و رضا کے جذبے سے سر شار پایا ہے ۔
کربلا میں اس مردِ مومن کو مسکراتے ہوئے سر کا نذرانہ پیش کرتے دیکھا ہے اور یہی وہ مرد مومن ہے جس کے آگے سمندر اپنی شکست تسلیم کرتا ہے ۔اسکی شان اِستغنا کا یہ عالم ہے کہ و قیصر و کسریٰ کو اپنی لکڑی کے پیالوں پر قربان کر دیتا ہے اور سومنات میں کروڑوں کے جواہرات کی پیش کش مسترد کر دیتا ہے وہ اخلاص و مروت اور مساوات کے جذبے سے سرشار ہے وہ امن سلامتی خوشی اور نوعِ انسانی کی آزادی کا علمبردار ہے وہ نطشے کے فوق البشر کی مانند مادی طاقتوں اور قوتوں کا مظہر نہیں بلکہ روحانی اور مادی قوتوں کے لطیف مزاج کا سرچشمہ ہے ۔
نطشے کا فوق البشر انسانوں کے لئے باعث رحمت بھی ہو سکتا ہے اور باعث زحمت بھی کیونکہ اسے ہروقت اپنے سے برتر طاقت کے سامنے جواب دہ ہونے کا احساس رہتا ہے۔ “ (بحوالہ الاستاذ اقبال نمبر) اقبال نے اپنے بہت سے اشعار میں مردِ مومن کا نقشہ کھینچا ہے نظم مسجد قرطبہ میں مرد مومن کے بارے میں فرماتے ہیں # ہاتھ ہے اللہ کا بندہٴ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں کارکشا و کارساز خاکی و نوری نہاد بندہٴ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز اسکی امیدیں قلیل اسکے مقاصد جلیل اسکی ادا دلفریب اسکی نگہہ دلنواز نرم دمِ گفتگو گرم دمِ جستجو رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز نقطہٴ پر کارِ حق مردِ حق کا یقین اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ حلقہٴ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ دنیا میں مومن کی تصویر ملاحظہ ہو # ہو حلقہٴ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن افلاک سے ہے اسکی حریفانہ کشاکش خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں جبریل و سرافیل کا صیاد ہے مومن اس بات کو اقبال نے دوسری جگہ یوں کہا ہے # تیرا جوہر ہے نوری پاک ہے تو فروغِ دیدہٴ افلاک ہے تو تیرے صیدِ زبوں فرشتہ و حور کہ شاہینِ شہٴ لولاک ہے تو جنت میں مومن کی تصویر ملاحظہ ہو # کہتے ہیں فرشتے کہ دلآویز ہے مومن حوروں کو شکایت ہے کہ کم آمیز ہے مومن ضربِ کلیم میں ” مرد مومن“ کے عنوان سے اقبال کی بڑی خوبصورت نظم ملتی ہے اس میں مردِ مومن کی تشریح کی گئی ہے # ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان ہمسایہٴ جبریلِ امیں بندہٴ خاکی ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن قدرت کے مقاصد کا عیاّر اس کے ارادے دنیا میں بھی میزان قیامت میں بھی میزان جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان فطرت کا سرودِ ازلی اسکے شب و روز آہنگ میں یکتا صفتِ سورة رحمن بنتے ہیں مری کار گہہِ فکر میں انجم لے اپنے مقدر کے ستارے کو تُو پہچان مومن اور کافر کو الگ الگ دیکھنا ہو تو اقبال کے یہ اشعار دیکھئے # کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں ہے گم مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق کافر ہے مسلمان تو نہ شاہی نہ فقیری مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی کافر ہے تو کرتا ہے شمشیر پہ بھروسہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی مومن کی صفات میں سے ایک صفت عشق بھی ہے اور اسکی اہمیت پر ذرا غور فرمائیے # اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق ان اشعار کو پڑھ کو ایک ایسے انسان کا تصور ذہن میں آتا ہے جو اخلاق ، شرافت ، قوت اور انسانیت کا مجسمہ ہے اور جسکی ذات میں بہترین جلالی و جمالی اوصاف جمع ہو گئے ہیں مرد مومن کے بارے میں اقبال کا یہ شعر کچھ زیادہ ہی قابل غور ہے # قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان جناب محمد اشرف کاہلوں صاحب نے ایک جگہ اس شعر کی خوب تشریح کی ہے اقبال نے یہاں جن بنیادی چار عناصر کا ذکر کیا ہے وہ تینوں صفاتِ الہیہ کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقت محمدیہ ﷺ کا بھی احاطہ کئے ہوئے ہیں۔
قہاری صفت جلالی ہے غفاری صفت جمالی ، قدوسی صفت کمالی اور جبروت تصوف میں حقیقتِ محمدیہ ﷺ کو کہتے ہیں۔ قہاری سے شہنشاہی جلالی جبروت کا مظاہرہ ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے قاہر اور قہار کے مختصر معنی ہیں کہ اسکے حکم سے کوئی شخص رو گردانی نہیں کر سکتا ۔خدا کی صفت قہاری کا عکس جب مردمومن میں داخل ہوتا ہے تو اسے تسخیرِ حیات اور غلبہ کائنات کا وصف حاصل ہوتا ہے ۔
تب وہ زمین و آسمان کوتہ بالا کرنے کا اہل ہوتا ہے۔ اسکا ایمان و ایقان اسے بلند ترین مقامات پر فائز کر دیتا ہے ولایت و پادشاہی اور موجوداتِ کائنات کی جہانگیری خود آ کر اسکے آستانے پر دستک دیتے ہیں اقبال فرماتے ہیں # ولایت، بادشاہی علمِ اشیاء کی جہانگیری یہ سب کیا ہے فقط اک نقطہ ایماں کی تفسیریں دوسرا عنصر غفاری ہے صفاتِ جمالی سے خدا کے عفوو کرم ، رحم و درگزر اور شفقت و محبت کا اظہارہوتا ہے ۔
مردِ مومن بھی اتباع نبوی ﷺ میں یہ صفت حاصل کرتا ہے ۔عملی دنیا میں مومن کو غفاری و قہاری نرمی و گرمی ہر دو کی ضرورت ہوتی ہے اقبال فرماتے ہیں۔ # اس کی نفرت بھی عمیق اس کی محبت بھی عمیق قہر بھی اسکا ہے اللہ کے بندوں پہ شفیق مرد مومن کی محبت اور دشمنی اللہ کے لئے ہوتی ہے ۔ بے بسوں اور بے کسوں کے حق میں اسکا وجود خدا کی رحمت ثابت ہوتا ہے کارزارِ زندگی میں محبت و اخوت کے ساتھ قوت و شدت کی بھی ضرورت پڑتی ہے بدیں وجہ علامہ اقبال رز مگاہِ حیات میں کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لئے ہر دو صفات کو حسبِ ضرورت کام میں لانے کی ترغیب دیتے ہیں۔
مصافِ زندگی میں سیرتِ فولاد پیدا کر شبستانِ محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا گزر جا بن کے سیلِ تندرو کوہ بیابان سے گلستان راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا مرد مومن کی سیرت کے اہم لوازمات پاکیزگی ، پرہیز گاری، درست روی ، شیریں گفتگو اور سر گرم جستجو ہونا ہے # نرم دمِ گفتگو گرم دمِ جستجو رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز مرد مومن کی صفات کا تیسرا اہم عنصر قدوسی ہے قدوس کے معنی پاک کے ہیں قدوس اسمائے کمالی میں سے ہے ۔
اسمائے کمالی سے مراد خدا کی کبریائی ہے ۔بندہٴ مومن خدا پر ایمان لا کر جملہ احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے اور غیر اللہ کی نفی سے اسے پاکیزگی ٴباطن اور صفائی قلب و نگاہ حاصل ہوتی ہے ۔اسکا قلب بیدار ہو کر تجلیات الٰہی کا مرکز بن جاتا ہے ۔ بندہٴ مومن عشق رسول ﷺ میں سرشار ہو کر آستانہ رسالت کا پروانہ بن جاتا ہے ۔ سیرت نبوی ﷺ کے اتباع سے وہ اخلاقِ کریمانہ سے مزین ہوتا ہے # خاکی و نوری نہاد بندہٴ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز چوتھا جزو جبروت ہے جسے اصطلاح تصوف میں حقیقت محمدیہ ﷺ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
علامہ فرماتے ہیں # دردلِ مسلم مقامِ مصطفےٰ است آبروئےِ ماز نامِ مصطفےٰ است سید وقار عظیم کا کہنا بجا ہے کہ ان صفات کو یکجا کرتے وقت اسلام کا ماضی ان کی نظروں کے سامنے تھا اور تاریخ کی روشنی میں انہیں وہ ہستیاں چلتی پھرتی دکھائی دیتی تھیں جنھوں نے اپنے گفتار اور کردار سے ہر انسان کو متاثر کیا لیکن سب سے درخشاں ذات رسولﷺ پاک کی ہے جو اقبال کے نزدیک کامل ترین انسان ہیں ۔
انہی کے اسوہٴ حسنہ پر عمل کر کے خلفائے راشدین بھی امت کے لئے نمونہ ہدایت بن گئے تھے اور یہ سب بجا طور پر مومنین تھے۔ سید صاحب اپنے مضمون اقبال کا مرد مومن میں یہ بات واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:- ”اقبال نے اپے فلسفیانہ پیغام کے ذریعے آج کے انسانوں کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ماضی کا انسان اس ارفع و اعلیٰ مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں زندگی نے اسے جبریل  و سرافیل  کے معیار کی حیثیت سے دیکھا ہے اور عہد حاضر کا انسان اگر ماضی کے اس انسان کی مثال کو سامنے رکھ کر اس راہ پر گامزن ہو جو مقصود ِ فطرت ہے تو وہ بھی اس مقام بلند تک پہنچ سکتا ہے۔
اور یہی زندگی کی معراج ہے ۔ انسانی زندگی کی معراج کا یہ تصور اقبال نے اس انسان کامل کی صورت میں پیش کیا ہے جس کا نام اقبال کے فکر میں مرد مومن ہے۔“ جناب سحر یوسف زئی صاحب کے بقول اقبال کا انسان کامل ایک ایسی بلند قامت شخصیت ہے جس میں مادی اور روحانی ترقی کا ارتقاء مکمل ہوتا ہے اور جس میں اخلاقی اقدار کی بصیرت افروز آمیزش بھی نظر آتی ہے۔
وہ روح اور جسم کا قائل نہیں بلکہ اسکی تفریق کو غلط سمجھتا ہے اس میں جسمانی ارتقاء کے بعد روحانی ارتقاء بتدریج ظہور میں آتا ہے ۔ مرد مومن بے پناہ طاقتوں اور لاتعداد قوتوں سے متصف ہو کر میدانِ عمل میں آتا ہے ۔ اسکی زندگی کا ہر باب ایک نئے انداز سے کھلتا ہے اور ہر قدم انوکھے طریقے سے اٹھتا ہے ۔ اسکا براہ راست تعلق خدا کی ذات سے ہوتا ہے وہ مجسم عمل، مسلسل اضطراب اور مکمل سوز ہوتا ہے # ہر لخط نیا طور نئی برق تجلی اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے مومن کو حیات ِ جاوید نصیب ہوتی ہے ۔
وہ موت سے نہیں ڈرتا بلکہ خندہ پیشانی سے اسکا استقبال کرتا ہے۔ اسکو موت کی تمنا ہوتی ہے اور ایسی موت کی جو اس کے نزدیک راہِ شوق کی آخری منزل ہے اور کوئے دوست تک پہنچنے کا ذریعہ بھی # مردِ مومن خواہد یزداں پاک یک دگر مرگے کہ برگیرد زخاک علامہ اقبال اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں: مسلم وہ خاک نہیں کہ خاک اسے جذب کر سکے ۔یہ ایک ایسی قوتِ نوراینہ ہے جو جامع ہے۔
آسمان میں زمین میں یہ سما نہیں سکتی کہ یہ دونوں ہستیاں اس میں سمائی ہیں مسلم کو موت چھو نہیں سکتی کہ اسکی قوت حیات و ممات کا تنا قص مٹا چکی ہے پھر مسلم جو حامل ہے محمد یت کا اور وارث ہے موسویت و ابرہمیت کا، کیونکر کسی شے میں جذب ہو سکتاہے مرد مومن غیر معمولی عفت نگاہ اور عزتِ نفس کا پیکرہوتا ہے ۔ اسکے دل کے رگ و ریشہ میں خودداری و بے باکی کے ساتھ ساتھ اس کے ظاہر و باطن میں ہم آہنگی اور یکسانیت ہوتی ہے ۔
وہ استبدادی قوتوں اور استحصالی طاقتوں کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتا۔ خوشامد سے اس کا دامن پاک ہوتا ہے ۔ا سمیں غداری اور منافقت کی کی خوبو نہیں ہوتی اور مستحکم خودی اور عرفان ذات کے ساتھ تعلق باللہ اور اولو العزی سے سرشار ہوتا ہے اور کبھی بھی طاغوتی نظام اور باطل کی ریشہ دوانیوں سے مرعوب یا متاثر نہیں ہوتا۔ “ مرد مومن جذبہ عشق سے سرشار ہوتا ہے اسکا دل بیدار اور آنکھ بینا ہوتی ہے ۔
وہ ذاتی منفعت سے ہمیشہ بے نیاز ہوتا ہے # محبت خویشتن بینی محبت خویشتن داری محبت آستانِ قیصرو کسری سے بے پروا نکلسن کے نام اپنے ایک خط میں اقبال نے عشق کی تعریف یوں بیان کی ہے فرماتے ہیں: ”یہ لفظ نہایت وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی کسی شے کو اپنے اندر جذب کر لینے اور جزو بنا کر اپنا لینے کی آرزو کا نام عشق ہے جس کا کمال یہ ہے کہ تخیل پیدا کرے، قدرو مرتبہ پہچانے اور ساتھ ہی ادراکِ کامل سے ان کو بروئے کار بھی لائے۔
حقیقت میں عشق کا کام یہ ہے کہ عاشق و معشوق کو متمیز کر کے انہیں اپنی اپنی جگہ انفرادی شخصیت اور اہمیت بخش دے۔“ اقبال کے بقول مردِ مومن کا عمل عشق سے فروغ پاتا ہے # مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحبِ فروغ عشق ہے اصلِ حیات ، موت ہے اس پر حرام تندو سبک سر ہے گر چہ زمانے کی رو عشق خود اک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام عشق دم جبریل عشق دل مصطفےٰ عشق خدا کا رسولﷺ عشق خدا کا کلام عشق فقہیہ حرم عشق امیر جنود عشق ہے ابن السبیل اسکے ہزاروں مقام گاہ بہ حیلہ می بردگاہ بزورمی کُشد عشق کی ابتداء عجب عشق کی انتہا عجب اقبال کے نزدیک خودی عشق سے استوار ہوتی ہے اسلئے خودی کا عمل بھی عاشقانہ ہے خودی کی پیکارر قیبانہ نہیں عاشقانہ ہے ۔
اقبال کہتے ہیں # بامن آویزشِ اُو اُلفتِ موج است درکنار دم بدم بامن و ہر لخطہ گریزاں از من اقبال کے نزدیک گستاخی و بے باکی بھی محبت کی رمزیں ہیں # رمزیں ہیں محبت کی گستاخی و بے باکی ہر شوق نہیں گستاخ ہر جذب نہیں بے باک اقبال فرماتے ہیں کہ یہ عشق کا ہی ثمرہ ہے کہ مسلمان میں گستاخی و بے باکی کی شان پیدا ہوجاتی ہے یعنی وہ کسی دنیاوی طاقت یامادی حکومت سے نہیں ڈرتا یہ شان ہر محبت سے پیدا نہیں ہو سکتی اور نہ ہر شوق گستاخی وبے باکی کی دولت عطا کرتا ہے ۔
یہ عشقِ حقیقی کا فیض ہے اور گستاخی و بے باکی اسکی دین ہیں۔ عشق انسان کی طبیعت میں ایک ایسی غیر معمولی محکمی اور قوت پیدا کر دیتا ہے کہ حوادث کے تھپیڑے اس پر کچھ اثر نہیں کرتے اور دوسرے اس میں کمال درجے کی رفت اور رافت ہوتی ہے جو بظاہر ایک انفعالی تاثر معلوم ہوتا ہے مگر عشق کے کمال میں یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ # خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں اہم امیر# سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے اسی عشق کی بدولت مرد مومن کو فقرکا مقام نصیب ہوتا ہے اور یہ مردِ مومن کا سرمایہ ہے۔
اقبال نے اس پر بھی جابجا اظہار خیال فرمایا ہے # فقر کے ہیں معجزات تا ج و سریر و سپاہ فقر ہے میروں کا امیر فقیر ہے شاہوں کا شاہ اقبال کے تصور فقر پر دیگر اشعار اور بال جبریل کی غزل نمبر ۵۹ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے ۔ جب ایک شخص اپنے فکر سے کام لیکر اللہ کی ہستی کا یقین پیدا کرتا ہے تو اس کا ذکر کرتا ہے یعنی اس سے محبت کرتا ہے اور اسی کو ساری کائنات میں اپنا مقصود قرار دیتا ہے اسکے علاوہ کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔
جب وہ اپنا مقصودِ حیات بنا لیتا ہے تو اسمیں شانِ فقر پیدا ہو جاتی ہے جب اس میں یہ شان پیدا ہو جاتی ہے تو وہ غیر معمولی طاقت کا مالک بن جاتا ہے ۔ مرد مومن کو حریت اسی فقر کی بدولت نصیب ہوتی ہے ۔ حریت دراصل جرأت سے حاصل ہوتی ہے اور اسکا تحفظ خطر پسندی سے ہوتا ہے # خطر پسند طبیعت کو ساز گار نہیں وہ گلستان کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیّاد جناب عزیز احمد کے بقول اقبال کے انسانِ کامل کی نمود فقر سے ہی ممکن ہے اور فقر کی کئی خصوصیات ہیں جن کا انہوں نے بار ہاتذکرہ کیا ہے۔
اک بڑی حقیقت یقین ہے یہ اپنے وجدان پر ایک طرح کا پختہ عقیدہ ہے ۔جب تک یقین نہ ہو وجدان احتسابِ کائنات کے لئے عامل اور مؤثر نہیں ہو سکتا # جب اس انگارہٴ خاکی میں ہوتا ہے یقین پیدا تو کر لیتا ہے یہ بال و پرِ روح الامین پیدا یہ یقین وہی صفت ہے جسکو مذہبی اصطلاح میں ایمان کہتے ہیں انسانِ کامل کے لئے آزادی لازم آتی ہے لیکن اس آزادی کا ذریعہ یہی یقین ہے یہ یقین تقدیر الٰہی کو بدل سکتا ہے # غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں کوئی اندازہ کر سکتا ہے اسکے زورِ بازو کا نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ولایت پادشاہی، علمِ اشیاء کی جہانگیری یہ سب کیا ہیں فقط اک نقطہٴ ایماں کی تفسیریں بندہٴ مومن کا فقر بے کسی و بے بسی اور عاجزی و مسکینی سے بالاتر ہوتا ہے وہ روحِ قرآنی کا ترجمان ہوتا ہے اور رموز ہائے سلطانی کا نشان اور ظلِ سبحانی کا پر امن مکان ہوتا ہے # کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے وہ فقر جس میں ہے بے پردہ رُوحِ قرآنی فقر کی ایک خصوصیت غیرت ہے یہ ایک طرح کی اقتصادی اور معاشی خودداری ہے جسکے بغیر انسانِ کامل کا فقر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتا۔
فقر ارتقائے خودی سے آتا ہے اور خودی کے لئے گدائی اور سوال موت ہے۔ سوال کی تعریف خود اقبال نے یہ کی ہے کہ ہر وہ چیز جو بغیر ذاتی کوشش کے حاصل ہو سوال ہے۔ فرماتے ہیں # خودی کے نگہبان کو ہے زہر ناب وہ نان جس سے جاتی رہے اس کی آب وہی نان ہے اس کے لئے ارجمند رہے جس سے دنیا میں گردن بلند اور وہی سجدہ ہے لائق اہتمام کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام مرد مومن وسیع، تیز اور بلند نظر کا حامل ہوتا ہے اور یہ بلند نظری اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی ہے اور اسی کی بدولت اس پر رموزِحیات و کائنات عیاں ہوتے ہیں اور وہ تنہا اپنا میر کارواں ہوتا ہے # ”نگہ بلند، سخن دلنواز، جان پرسوز یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لئے“ اور اس بلند نظری کی بدولت اسے دلبری نصیب ہوتی ہے # فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے! مرد مومن کی ایک اور صفت اسکی آزادیٴ ہے جو آزادیٴ کردار کی طرح آزادی گفتار میں بھی نمایاں ہوتی ہے # ہزار خوف ہو لیکن زبان ہو دل کی رفیق یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق اور آئینِ جوان مرداں حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی صاف گوئی کی طرح کم گوئی اور کم آمیزی بھی اس کی صفات میں سے ہیں لیکن انسانِ کامل کی کم گوئی یا کم آمیزی یاد دلآویزی محض خیر کے لئے ہے # کہتے ہیں فرشتے کہ دلآویز ہے مومن حُوروں کو شکایت ہے کہ کم آمیز ہے مومن مرد مومن کی خودی اسکے اندر ایک ایسی طاقت پیدا کر دیتی ہے کہ اسکے سامنے دنیاوی چیزین ہیچ ہو جاتی ہیں ۔
اقبال نے خودی کی تکمیل کے تین مراحل بتائے ہیں۔ مرد مومن انہی تین مراحل سے گزر کر اپنی خودی کی تکمیل کے لئے کوشش کرتا ہے یہ تین مراحل اطاعت ضبط نفس اور نیابت الٰہی ہیں۔ رشید احمد صدیقی کے بقول ”اقبال نے اپنے انسان کامل میں ایک ایسی زندہ شخصیت کو پیش کیا ہے جو ہمارے مسائلِ معاشرت کو حل کرے، ہماری خصوصیات کا فیصلہ کرے اور بین الاقوامی اخلاق کو ایک محکم تر بنیاد پر قائم کرے۔
آگے چل کر رشید صاحب فرماتے ہیں کہ میرے ایک سوال پر علامہ اقبال نے خود بیان فرمایا تھا کہ اگر کسی وقت ایک ہی مقام پر دو مکمل انسان (سپر مین ) اکٹھے ہو جائیں تو کیا ہو؟ ممدوح نے فرمایا کہ تقدیر الٰہی کا منشا یہ ہے کہ دو سپر مین ایک جگہ جمع نہ ہو سکیں اگر کبھی ایسا ہوتا ہے تو دونوں غیر مطمئن ہونے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان میں سے ہر ایک اپنی اپنی راہ لیتا ہے مثال میں ممدوح نے جناب رسالت مآب ﷺ اور حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ کا واقعہ پیش کیا کہ یہ دونوں عظیم ہستیاں باوجود اشتیاقِ دید یک جا نہ ہو سکیں۔
دوسری مثال نپولین اور گوئٹے کی دی جو ملنے پر بھی ایک دوسرے کے ہم آہنگ نہ ہو سکے۔“ گویا اقبال کا مرد مومن جلالی اور جمالی دونوں کیفیات کا حسین امتزاج ہوتا ہے ۔اسکے دل میں درد ہوتا ہے اور اسکی سیرت میں سختی و نرمی کی آمیزش ہوتی ہے۔ اسکی محبت اور کدورت سب خدا کے لئے ہوتی ہے۔ اس کا ہر اقدام رفاہ عامہ یا خدمت خلق کے لئے ہوتا ہے۔ اس کا ہر عمل بے غرض اور نفسانیت سے خالی ہوتا ہے اس لئے ابنائے زمانہ کے حق میں اسکا وجود خدا کی رحمت ثابت ہوتا ہے ۔
ان تمام صفات میں اقبال کا مردِ مومن اقبال کے تصور شاہین کے قریب پہنچ جاتا ہے ۔ زاہد حسین کے بقول اقبال نے اپنے پیام میں تعلیم خود آگاہی کا مسکن کہسار کی خلوت کو قرار دیا ہے جہاں طبیعتوں میں جوش اور قوت خود بخود اس سادہ اور بے لوث ماحول سے پیدا ہوتی ہے ۔ اس وجہ سے وہ بندہٴ مومن کو شاہین اور باز سے خطاب کرتا ہے کہ شاہین قوتِ عمل اور کوشش و محنت سے نہیں گھبراتا اسکی طبیعت میں سکون و آرام کی خواہش پیدا نہیں ہوتی # شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا پُر دم ہے اگر تُو تَو نہیں خطرہٴ افتاد شاہین کی طرح مرد مومن بھی اس فضا میں پہنچ جاتا ہے جہاں ستارے گر دِ راہ بن کر رہ جاتے ہیں ۔
لیکن اقبال کے نزدیک زندگی کی منزل مقصودیہ بھی نہیں بلکہ انسان کا مقام تو اس سے بھی آگے ہے # ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں اقبال فرماتے ہیں کہ زندگی ذوقِ سفر اور مرحلہٴ شوق کے سوا کچھ بھی نہیں جہاں تک کہ جنت اور اسکی رعنائیاں بھی صحیح منزل نہیں۔ اسکی نظر میں اگر انسان کو فردوس کی دلفریبیاں بھی مل جائیں تو اس کے ذوقِ سفر میں فرق نہیں آنا چاہیے ۔
وہ نہیں چاہتے کہ انسان بھی وحدت میں گم ہو جائے۔ وہ قطرے کو دریا میں فنا ہو کر مسرت کا طلبگار بننے کا درس نہیں دیتے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ قطرہ دریا کی تہہ میں پہنچ کر در شہوار بن جائے۔ حضرت علامہ کی یہ فکر ایک عظیم انسان کی فکر ہے اور اسکا مآخذ قرآن ہے ہمیں چاہیے کہ علامہ کے ان افکار کو اپنا موقف اور انکے نصب العین کو اپنا نصب العین بنا کر اس سے حیات تازہ کی روشنی مستعار لیں اور اپنی راہ گزر ِ حیات کو ایک نئے شاداب گلستان میں بدل دیں جس میں سدا بہار پھول کھلتے ہیں اور جہاں بے رحم خزاں کے ہاتھ سرمایہ بہار تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں اورجہاں زندگی کا ہر سانس گلفشاں ہوتا ہے # کوہ شگاف تیری ضرب تجھ سے کشادِ شرق و غرب تیغِ ہلال کی طرح عیشِ نیام سے گزر

Chapters / Baab of Shaheen Ka Jahan Aur--- (iqbaliyat) By Shahida Shaheen Shaheed