Last Episode - Shaheen Ka Jahan Aur--- (iqbaliyat) By Shahida Shaheen Shaheed

آخری قسط - شاہین کا جہاں اور۔۔ (اقبالیات) - شاہدہ شاہین شہید

اسرار خودی کا جائزہ اسرار خودی اقبال  کی مشہورو معروف مثنوی ہے جو پہلی بار اپریل ۱۹۱۵ء میں منصہٴ شہود پر آئی اور جس نے آتے ہی چاروں طرف اقبال کا ڈنکا بجا دیا۔ اس مثنوی میں اقبال نے انفرادی زندگی کے حقائق بیان کیے ہیں۔ نشوونما اور استحکام ذات کے اصول بتائے ہیں اور ان تمام مذموم تصورات کا قلع قمع کر دیا ہے جو افراد اور ملت کے متعلق دنیا کے ذہن میں جا گزیں تھے۔
اقبال نے ” اِنِّی جاعِلٌ فِی الاَرضِ خَلِیفة“ کی طرف توجہ دلا کر یہ بتایا ہے کہ اس کا ، منتہائے نظر اور نصب العین خلافتِ الہیہ ہے۔ یہ مثنوی ایک محور ہے جس کے گرد اقبال کا سارا کلام گھومتا ہے اس کی تفاصیل میں جانے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ لفظ ” خودی “ کو دیکھا جائے اور پھر ان حالات کا جائزہ لیا جائے جن میں رہتے ہوئے اقبال نے یہ مثنوی لکھی تھی۔

(جاری ہے)

وہ کیا سیاسی و معاشرتی حالات تھے اور وہ کیا آرزوئیں اور مقاصد تھے جن کے دباؤ، اثر یا نتیجہ میں فلسفہ خودی سامنے آیا؟ خودی سے اقبال کی مراد احساسِ نفس یعنی اپنی صلاحیت کو پہچاننا اور استعداد کو بیدار کرنا ہے ۔ اس سے مراد غرور اور تکبر نہیں بلکہ خود شناسی اور خود اعتمادی ہے ۔بیگم منور رؤف کے بقول ” خودی “ کا عام فہم مطلب ہے عرفانِ نفس یا اپنی ہستی کا ادراک ! عربی میں اس کو اَنا اور مغربی فلسفہ میں اسے ایغو کہتے ہیں۔
اقبال اس کو خودی کہتے ہیں عرفان نفس کے تین پہلو ہوتے ہیں دنیا شناسی ، خدا شناسی اورخود شناسی اقبال نے اپنے تصورِ خودی میں ان تینوں پہلوؤں کو سمیٹ کر خودی کا ایک خاص معیار قائم کیا ہے اور یہی معیار یا فلسفہ اقبال کے تمام نظامِ فکر کی اصل اور روح رواں نظر آتا ہے ۔ (بحوالہ خیابانِ اقبال ،ص ۲۹) جناب یوسف عزیز کے بقول خودی سے مراد استقلالِ ذاتی ہے جوہر مخلوق کے علم و عمل کو ایک مخصوص دائرے میں نمایاں کرتا ہے اسکی ذات و صفات کی بو دو نمود کے مظاہر متعین کرتا ہے اور اس کی نشوونما یا بالیدگی کے سامان مہیا کرتا ہے ۔
زندگی کی تمام لذتیں اس کے استحکام ، اس کی توسیع اور اس کے اثبات سے وابستہ ہونے کے دم سے ہیں“(بحوالہ شعا عِ اقبال ) مرزا محمد سلطان خودی کی تشریح کچھ یوں فرماتے ہیں:۔ ”خودی “ میں انانیت ہی ایک ایسا شریف جذبہ ہے جسکی نسبت علمائے نفسیات کا دعوی ہے کہ یہ صرف حضرت انسان کے ساتھ ہی مخصوص ہے اس جذبے کا پہلا زینہ یا ابتدائی منزل یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ وہ بھی انفرادی اور اجتماعی رنگ میں کو ئی شخصیت رکھتا ہے ۔
شخصیت کا مفہوم بالفظ دیگر خودی میں انانیت ہے جو ہستی خودی اور انانیت نہیں رکھتی اس کا احساس نہیں کرتی وہ ان ہستیوں کے دائرے سے خارج ہے جو زندہ کائنات کے بازار میں خاص قیمت رکھتی ہیں۔ ” میں “ ، ” خودی “ اور ” انانیت “ کیا ہے ؟ اس فیضان ، اس عطیے ، اس امتیاز اور اس نعمت کا عملی رنگ میں اظہار قدرت نے صرف حضرت انسان ہی کی طبیعت میں ودیعت کر رکھا ہے ۔
انسان کا یہ طبعی خاصہ ہے کہ وہ ہمیشہ بر تری اور فضیلت کا خواہاں رہتا ہے وہ ہمیشہ اس ٹوہ میں سرگرداں ہے کہ اسے کسی نہ کسی رنگ میں امتیاز حاصل ہو ۔ یہ خواہش ہر رنگ میں پائی جاتی ہے زندگی خود کیا ہے ۔ خود نمائی ، خود سازی ، خود فہمی ، خود ضبطی ، خود حالی ، خود حفاظتی ، عزتی ، خود داری ، خود طلبی اور خودی ، جس زندگی میں یہ عناصر اور یہ اجزاء نہیں ہیں وہ زندگی ہی نہیں ان اجزاء کا کسی زندگی میں نہ پایا جانا دوسرے الفاظ میں ایک خود کشی ہے۔
جو انسان یہ خود یاں نہیں رکھتا وہ نہ صرف روحانی خود کشی کرتا ہے بلکہ جسمانی بھی۔ لازم ہے کہ اس کا نام زندہ ہستیوں میں اور زندہ انسانوں میں سے کاٹ دیا جائے ۔“ (بحوالہ مطالعہ اقبال ص ۴۱۶) یوں معلوم ہوتا ہے اقبال کو اسرار خودی کے لکھنے کی ضرورت اسی وقت محسوس ہوئی جب ان کے دور کے لوگوں کی خودی کی یہ شاخیں ناپید ہو گئی تھیں ۔ اس کا اندازہ ہمیں اس فلسفہ کے تاریخی پس منظر کو دیکھنے سے ہوتا ہے ۔
جس وقت اقبال نے ہوش سنبھالا تو مسلمان قوم ہند میں اپنی زندگی کے دن گن رہی تھی۔ اور نگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد سلطنت مغلیہ کا آفتاب اقبال شوکت و ترقی کے نصف انہار پر پہنچ کر ڈھلنا شروع ہو گیا تھا۔ اورنگ زیب کے جانشینوں نے ڈھلتے ہوئے سورج کے لیے بغیر کسی تردد کے افق مغرب تک راستہ صاف کر دیا۔ بالآخر مغلوں کی عظمت کا یہ آفتاب بہادر شاہ ظفر کے عہد میں ایک تھکے ہارے مسافر کی طرح اپنی منزل مقصود پر پہنچ کر مغرب کی شفق آلود پہاڑیوں میں جا چھپا۔
اس سورج کا غروب ہونا تھا کہ مسلمانوں پر غم واندوہ کی گھٹائیں چھا گئیں ۔ ہر سوحزن و یاس کے مہیب سائے حرکت کرتے دکھائی دینے لگے اور مسلمانوں کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہوتا چلا گیا اس تاریکی میں امید کی کرن دکھانے والا پہلا شخص سر سید احمد خان تھا جس نے ڈوبتی ہوئی قوم کو سنبھالا دینے کی کوشش کی ۔ سر سید کے تتبع میں علامہ شبلی اور مولانا حالی نے بھی مایوسی کے طلسم کو توڑ کر قو م میں غیرت و خود اعتمادی پیدا کرنے کی سعی کی۔
لیکن ان بزرگوں کی باہمی کوشش کے باوجود حزن ویاس کے بادل پوری طرح نہ چھٹ سکے۔ اس نازک دور میں اقبال ایک شہاب ثاقب کی طرح افق مشرق پر چمکا۔ تاریک رات کا یہ مسافر عزم و یقین کی قندیلیں لے کر اٹھا اور مسلمانوں کو اس دوراہے پر لے آیا جہاں پہنچ کر وہ اپنی نئی منزل کی راہیں متعین کر سکیں۔ اقبال کو قوم کی پستی و ذلت کا حددرجہ احساس تھا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ قوم کا ضمیر زندگی کے شعور سے یکسر خالی ہو چکا ہے مغربی اقوام کی ہیبت اس کے دل و دماغ پر اس طرح مسلط ہے کہ اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں بھی مفقود ہو چکی ہیں اقبال قوم میں خود داری کی روح پھونکنا چاہتے تھے۔
اس مقصد کے لیے انہوں نے مسلمان قوم کے لیے ایک تعمیری پروگرام مرتب کیا۔ اس پروگرام کی ترتیب کے لیے ان کو کچھ لوازمات کی ضرورت تھی لیکن یہ لوازمات مہیا کرنے سے قبل وہ قوم کے اس مرض کی تشخیص کرنا چاہتے تھے جسکے سبب وہ ذلت و خواری میں مبتلا ہو گئی تھی تا کہ اسباب و علل دریافت کر کے صحیح علاج تجویز کیا جاسکے ۔ قوم کے تنزل کا سب سے بڑا سبب جو اقبال کی باریک بین اور حکیمانہ نبض نے دریافت کیا وہ یہ تھا کہ قوم سے قوتِ عمل فناہو گئی تھی۔
وہ ولولہ اور جوشِ عمل جو متقدمین میں تھا متاخرین میں مفقود ہو چکا تھا۔ چونکہ قوم میں قوتِ عمل نہیں رہی تھی اسلیے اس کی خودی بھی مردہ ہو گئی تھی اور جس قوم کی خودی مر جاتی ہے اس کو اپنے وجود اور عدم وجود تک کا احساس نہیں رہتا ۔ عمل کے اس فقدان کا سبب اقبال نفی خودی سمجھتے ہیں وہ اسے اثبات خودی میں بدلنا چاہتے ہیں اور خودی کا ایک ایسا تصور قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں جس سے قوم کے ہر فرد کو اہمیت کا احساس ہو۔
یہی وہ فلسفہ خودی ہے جو اقبال کے سارے کلام میں جاری و ساری نظر آتا ہے۔(بحوالہ خیابان اقبال ) یہ تھے وہ تاریخی و سیاسی و سماجی حالات جنہوں نے اقبال کے فلسفہ خودی کی تشکیل و تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔ پروفیسر محمد عثمان صاحب کے بقول:یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ خودی کے تصورات دراصل ملت اسلامیہ پاک وہند کی جبلت حفظ حیات کی اس مؤثر کا ر گزاری کا دوسرا نام ہیں جو بیسویں صدی کے اوائل میں اس وقت معرض عمل میں آئی جب ہماری قومی بقا کو شیدید خطرات لاحق تھے۔
اسرار خودی پر تفصیلی بحث سے پہلے ایک اور سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ اقبال نے اسے فارسی ہی میں کیوں لکھا ؟ اور پھر یہ کہ اس کا نام خودی ہی کیوں رکھا؟ جہاں تک اس کے فارسی میں لکھے جانے کا سوال ہے تو اس کا سیدھا سا دھا جواب ہے کہ اقبال کے لیے نہ تو کوئی ایک زبان مخصوص تھی اور نہ اس کا پیغام کسی فرد ِواحد یا کسی ایک ملک تک محدود تھا ۔ ان کا کلام تو دنیا کے لیے صلائے عام کا درجہ رکھتا ہے وہ مسلمانوں کی آڑ میں یارانِ نکتہ داں کو دعوتِ فکر دیتے نظر آتے ہیں۔
وہ صرف ایک ملک کے شاعر نہیں تھے ۔ بلکہ عالمِ اسلام کے شاعر تھے۔ باقی اسلامی ملکوں کے ساتھ گہرا لگاؤ ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں ایران سے بھی خاصا لگاؤ تھا اور پھر فارسی یوں بھی دنیائے اسلام میں مقبول تھی اس لئے اقبال نے اس کے لیے فارسی زبان کا ہی انتخاب کیا اس زبان کو اپنانے کی پھر ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اسمیں فلسفیانہ خیالات کے اظہار اور وضاحت کی گنجائش اور زبانوں سے نسبتاً زیادہ ہے اور بقول اقبال اس زبان میں زیادہ مٹھاس ہے اور یہ افکار کی بلندی کا ساتھ زیاد ہ خوش اسلوبی سے دے سکتی ہے ۔
اقبال نے عرفانِ نفس کے لیے خودی کا لفظ منتخب کیالیکن بہت سے لوگوں نے یہ نام بدل کر کوئی اور نام رکھنے کی تجویز پیش کی لیکن اقبال کی نظر میں یہی نام سب سے بہتر تھا چونکہ اردو اور فارسی میں خودی کا لفظ عام طور پر غرور اور سرکشی کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ اسلئے لوگوں نے اسکی بجائے اسرار حیات پیام سروش یا پھر خود اعتمادی ، خود شناسی او خود داری جیسے الفاظ کا انتخاب کیا لیکن اقبال اپنی بات پر قائم رہے اور بالآخر یہ مثنوی اسرار خودی کے نام سے ہی سامنے آئی ۔
پروفیسر نکلسن نے اسرار خودی کا انگریزی میں ترجمہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ” پہلے پہل جب اسرار خودی عالم و جود میں آئی تو اس نے ہندی نوجوانوں کو محو حیرت کر دیا۔ ان میں سے ایک لکھتا ہے ” اقبال کا وجود ایک مسیحا سے کم نہیں کہ اس نے ہماری مردہ لاش میں جان ڈال کر اسے متحرک کر دیا ہے ۔ “(بحوالہ آئینہ اقبال ) تکمیلِ اشاعت کے مراحل سے گزرنے کے بعد جب یہ مثنوی منظر عام پر آئی تو جوا ب شکوہ کی طرح اس پر بھی اعتراضات کی بوچھاڑ ہو گئی۔
کچھ لوگوں نے کہاکہ اقبال تصوف کے خلاف ہیں کسی نے کہا کہ اقبال نے خواجہ حافظ کی بے حرمتی کی ہے اور کسی نے کہا کہ اقبال نے وحدت الوجود کو غلط بتایاہے۔پھر اقبال نے اس مثنوی کو سر علی امام، جو دولت آصیفہ کے بابِ حکومت کے صدر تھے سے منسوب کیا تھا۔ کچھ لوگوں کو اس پر بھی اعتراض تھا، انہی اعتراضات سے بچنے کی خاطر اقبال نے مثنوی کے شروع میں تفصیلی مقدمہ لکھ دیاتھا جس میں تمام مباحث کی وجہ بیان کی تھی۔
اقبال نے اس میں نفی خودی کے نظریہ کی ابتداء اسباب اور نتائج بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی تحریک کا اصل مقصد بھی بیان کیا تھا لیکن اقبال کے اس فلسفے اور مقدمے کو سمجھے بغیر لوگوں نے بڑھ چڑھ کر اس پر اعتراض کیے۔ خواجہ حسن نظامی اور پیر زادہ مظفر احمد ان میں پیش پیش تھے۔ خواجہ حسن نظامی صاحب نے تو اپنے ہفتہ وار خطیب میں اس مثنو ی کے خلاف مضامین لکھنے شروع کیے اور پیر زادہ مظفر صاحب نے تو اس کی تردید میں مثنوی موسومہ راز بیخودی لکھ ڈالی ۔
خواجہ صاحب کی دیکھا دیکھی اکبر الہ آبادی بھی ان کے خلاف ہو گئے ۔ اقبال کو ان لوگوں کے ان رویوں سے بہت دکھ ہوا اور انہوں نے ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے مقدور بھر کوشش ضرور کی۔ اکبر الہ آبادی کو جب ایک خط لکھنے کے باوجود بھی کوئی اثر مرتب نہ ہو تو اقبال نے ایک بار پھر انہیں لکھا کہ : مثنوی اسرار خودی کے مضامین میں کوئی تناقص نہیں ہے میں تو اس خودی کا حامی ہوں جو سچی بے خودی سے پیدا ہوتی ہے یعنی جو نتیجہ ہے ہجرت الی الحق کا اور جو باطل کے مقابلے میں پہاڑ کی طرح مضبوط ہوتی ہے مگر ایک اور بیخودی ہے جسکی دو قسمیں ہیں: ۱۔
ایک وہ جو عاشقانہ شاعری کے پڑھنے سے پیدا ہوتی ہے یہ اس قسم سے ہے جو افیون و شراب کا نتیجہ ہے۔ ۲۔ دوسری وہ بے خودی ہے جو بعض صوفیا ء اسلام اور تمام ہندو جوگیوں کے نزدیک ذات انسانی کو ذات باری میں فنا کر دینے سے پیدا ہوتی ہے اور یہ فنا ذات باری میں ہے نہ احکام باری میں ۔پہلی قسم کی بے خودی تو ایک حد تک مفید بھی ہو سکتی ہے مگر دوسری قسم کے بے خودی اخلاق کی جڑ کاٹنے والی ہے ۔
میں ان دونوں قسم کی بے خودی پر معترض ہوں اور میرے نزدیک حقیقی اسلامی خودی اپنے ذاتی اور شخصی میلانات ، رجحانات و تخلیلات کو چھوڑ کر اللہ کے احکام کا پابند ہو جانا ہے یہی اسلامی تصوف کے نزدیک فنا ہے “(بحوالہ شرح اسرار خودی از یوسف سلیم چشتی ) ایسے ہی خطوط اقبال نے خواجہ صاحب ، پیر زادہ مظفر صاحب اور دوسرے معترضین کو لکھے ۔ خواجہ صاحب کی ناراضگی تو کسی طرح دور ہونے میں نہیں آ رہی تھی اکبر اگر چہ اسرار خودی دیکھ کر اقبال سے اختلاف کرنے لگے تھے لیکن دل سے وہ اقبال کی قابلیت کے معترف تھے اس لیے وہ خواجہ صاحب کے طرز عمل کو دیکھ کر اقبال اور ان کی مصالحت کی کوشش کرتے رہے اور انہوں نے ایک خط میں خواجہ صاحب کو یہ بھی لکھا کہ : ” اقبال صاحب ہمارے اور آپ کے دوست ہیں میں نے انہیں لکھا ہے کہ اپنی دین داری کو ہمارے لیے رحمتِ الٰہی ثابت کیجئے ۔
اللہ ہم سب پر رحم فرمائے“ لیکن اس کے باوجود خواجہ صاحب کا مخالفانہ رویہ جاری رہا ۔ انہیں شاید اندیشہ لاحق ہو گیا تھا کہ اقبال تصوف کو مٹانا چاہتے ہیں۔ شاید اسرار خودی کا دیباچہ بھی ان کی فکر کی رسائی سے باہر تھا۔ بالآخر اقبال نے ہی ان کی برابر مخالفت کو دیکھتے ہوئے اور اس خیال سے کہ کہیں مسلمان اس مثنوی ہی سے برگشتہ اور بد ظن نہ ہو جائیں ۔
خواجہ صاحب کے استدلال کی بنیادیں منہدم کر دیں یعنی دیباچہ اور حافظ پر تنقید دونوں کو مثنوی سے رہائی دے دی۔ ڈاکٹر بجنوری جو اقبال کے بے حد مد اح تھے اسرار خودی اور اقبال کے ان معترضین کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : ” جب اسرار خودی شائع ہوئی تو بعض صوفی اور پیر جو روایاتِ باطلہ کی پابندی میں گرفتار تھے اور شریعت حق سے ناواقف تھے اقبال کے خلاف کھڑے ہو گئے انہوں نے مسلمانوں کو وَرغلایا کر اقبال کو دارپر کھینچ دو کیونکہ یہ لوگوں کو مغربی مادیت کی تعلیم دے رہا ہے ۔
حالانکہ اقبال ان لوگوں میں سے ہے جو ایک پیغام او ایک مقصد لے کر کبھی کبھی دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں مشرق کی روح ایک ترجمان کی ضرورت محسوس کر رہی تھی ۔اس کی شاعری نے اس ضرورت کو پورا کر دیا ہے ۔“ اسرار خودی کے پہلے ایڈیشن میں اقبال نے جو دیباچہ شامل کیا تھا ( جسے بعد میں حذف کر دیا گیا ) اس میں اقبال نے خودی اور اس کے معنوں پر روشنی ڈالی ہے آپ فرماتے ہیں۔
” شاعرانہ تخیل محض ایک ذریعہ ہے اس حقیقت کی طرف توجہ دلانے کا کہ لذتِ حیات انا کی انفرادی حیثیت اور اس کے اثبات ، استحکام اور توسیع سے وابستہ ہے۔ یہ نکتہ مسئلہ حیات بعد الموت کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے بطور ایک عقیدے کے کام دے گا۔ ہاں لفظ خودی کے متعلق ناظرین کو آگاہ کر دینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اس نظم میں بھی غرور کے معنوں میں استعمال نہیں کیا گیاجیسا کہ عام طور پر اردو میں مستعمل ہے ۔
اس کا مفہوم محض احساسِ نفس اور یقینِ ذات ہے ۔“ جناب حکیم احمد شجاع فرماتے ہیں کہ ” کچھ تو امتداد ِزمانہ کے باعث لوگ رفتہ رفتہ خودی کے لفظ کے ان نئے معنوں سے بیگانہ ہو گئے اور کچھ اس لئے بھی کہ اقبال کے نظریہ خودی کی تشریح اور وضاحت کرنے میں بعض کرم فرماؤں نے اپنے ذاتی علم و فضل سے کسی قدر مبالغہ کے ساتھ کام لیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اقبال نے خودی کے لفظ کو جن معنوں میں استعمال کیا تھا وہ کچھ دھندلے سے پڑ گئے ۔
کسی نے تو اقبال کے اس نئے لفظ کے آئینے میں نطشے کے فوق البشر کا عکس دیکھا کسی کو اقبال کے افکار اور برگساں کے خیالات میں مماثلت نظر آئی اور پھر نقادوں نے نطشے اور برگساں کے فلسفے پر بحث شروع کر دی ۔ کسی نے اقبال کے کلام میں جلال الدین رومی کے افکار کا پر تو دیکھا اور اقبال کے نظریہ کی قدرو قیمت پرکھنے کی بجائے مثنوی کی شرح لکھنی شروع کر دی اور بعض لوگ تو یہاں تک کہہ گزرے کہ اقبال کے فلسفے پر مغربی فلسفے کا رنگ چڑھا ہوا ہے ۔
“ جناب عارف دہلوی اس سلسلہ میں فرماتے ہیں : ’ میں اس اعتراض پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں کہ اقبال نے یہ فکر مغربی مفکرین سے لی ہے بنیادی طور پر یہ بات خلاف واقعہ ہے کہا جاتا ہے کہ خودی کاپہلا تخیل مغرب کے تین مفکرین سے اقبال کو حاصل ہوا۔ ۱۔ سینٹ تھامس ۲۔ ہیگل ۳۔ نطشے بعض نقاد اقبال کو نطشے سے متاثر قرار دیتے ہیں حالانکہ اس سے متاثر ہونے کی نوعیت یہ نہیں کہ اقبال نے نطشے کے نظریہ فوق البشر کو اپنایا ہو۔
بلکہ متاثر ہونے کی نوعیت یہ ہے کہ اقبال کے مرد مومن کی ایک جزوی جھلک نطشے کے نظریہ میں موجود ہے جسے وہ سپر مین کا نام دیتا ہے نطشے کے لیے اقبال کہتے ہیں # اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے اس شعر میں اقبال کا انداز ویتور ملا حظہ فرمائیے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقبال نطشے سے ذرا برابر بھی مرعوب نہیں ہیں۔
اقبال کے فلسفہ خودی کا آغاز نہ یورپ کے قیام کے دوران ہوا اور نہ مغربی مفکرین کے مطالعہ سے ہوا۔ اس کے برعکس جب اقبال نے قرآنی تعلیمات کا بنظر غائر مطالعہ کیا، اسلامی مفکرین بالخصوص مولانا رومی کو پڑھا تو ان کی فکر میں انقلابی کیفیات پیدا ہوئیں۔(جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا ) ۔ یہی ہے معرفت خود سے معرفت خدا کی طرف رہنمائی جو مغربی مفکرین سے صدیوں قبل پیش کی جا سکتی تھی۔
“ (بحوالہ اقبال نمبر ۶۷) ڈاکٹر سید عبداللہ فرماتے ہیں: ” در حقیقت اقبال کا فلسفہ خودی ابتداء میں صوفیاء کے خیالات سے ابھر ا اور بعد میں انہوں نے ان ہی خطوط پر چلتے ہوئے مغربی مفکرین سے استفادہ کیا“ مختصر یہ کہ اقبال کا فلسفہ خودی تمام تر اسلامی فکر ہے اور خالق و مخلوق اور عبد و معبود کے تعلق کو مستحکم کرنے کی وہ کوشش ہے جس کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود ہے اقبال انسان کو اپنے فلسفہ خودی کے ذریعے سے اس کے اندرونی جوہر سے آشنا کرنا چاہتے تھے اسرار خودی سے ہٹ کر بھی اقبال نے اپنے سارے کلام میں جا بجا اس کی ضرورت و اہمیت پر زور دیا۔
”خودی“ سے متعلق اقبال کے اشعار پڑھیں # یہ موج نفس کیا ہے، تلوار ہے خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے خودی کیا ہے رازِ درونِ حیات خودی کیا ہے بیداریٴ کائنات خودی کی شوخی و تندی میں کبروناز نہیں جو ناز بھی ہو تو بے بے لذتِ نیاز نہیں خودی کا نشیمن تیرے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے تیری زندگی اسی سے تیری آبرو اسی سے جو رہی خودی تو شاہی نہ رہی تو رُو سیاہی نہ ہے ستارے کی گردش نہ بازیٴ افلاک خودی کی موت ہے تیرا زوالِ نعمت وجاہ خودی کے ساز میں ہے عمرِ جاوداں کا سراغ خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ نظر نہیں تو مرے حلقہ سخن میں نہ بیٹھ کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثالِ تیغ اصیل خودی کا سرِ نہاں لا الہ الا اللہ خودی ہے تیغِ فساں لا الہ الا اللہ خودی وہ بحر جس کا کوئی کنارہ نہیں تو آبجو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں خودی شیر مولا ، جہاں اس کا صید زمین اس کا صید آسمان اس کا صید یہ ہے مقصدِ گردشِ روز گار کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار خودی کے زور سے دنیا پر چھا جا مقامِ رنگ و بُو کا راز پا جا برنگِ بحر ساحل آشنا رہ! کفِ ساحل سے دامن کھینچتا جا ان کے علاوہ اور بہت سے اردو اور فارسی اشعار ہیں جن میں اقبال نے خودی کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔
دراصل اس خود شناسی کی تربیت کے ذریعہ خدا شناسی کی منزل تک پہنچانا علامہ اقبال کا مشن تھا۔ گویا وہ مسلمانانِ عالم کو انسانیت کی اس معراج پر دیکھنا چاہتے تھے جہاں خالق و مخلوق اور عبدو معبود کے درمیان فاصلے کم سے کم تر ہو جاتے ہیں ۔ اقبال اس بات پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں کہ اگر قدرت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے تو بے شمار صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے ان صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور اپنی ذات کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے اقبال نے ہمیں فلسفہ خودی عطا کیا ۔
جناب محمد طاہر فاروقی فرماتے ہیں : ” خودی دو قسم کی ہوتی ہے ایک شیطانی اور دوسری یزدانی۔ شیطانی خودی وہ ہے جس کا نمونہ روزِ ازل شیطان نے پیش کیا تھا کہ باہمہ دعوائے عبادت و عبودیت اس معبود حقیقی کے حکم سے سرتابی کی۔ نخوت و غرور تکبر کے باعث اس نے اپنی اور آدم کی تخلیق میں امتیازات قائم کیے اور اس کی انانیت و خودی نے اسے سجدہ کرنے کی توفیق نہ ہونے دی۔
یہی خودی رکھنے والا انسان تکبرو رعونت اور غرور و نخوت کا پتلا بن جاتا ہے اور اپنے قائم کردہ امتیازات کی بدولت ایسی گمراہی اور ضلالت میں مبتلا ہوتا ہے جو اسے فرائض حیات سے منزلوں دور ہٹا دیتے ہیں۔ صوفیائے اسلام کی تعلیمات میں جہاں کہیں ترک خودی کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں اس شیطانی خودی سے محترز رہنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ دوسری خودی وہ ہے جو خود شناسی سے خدا شناسی کے مصداق ہے اس خودی کی معرفت خصائص ِرذیلہ سے محفوظ رکھتی ہے ۔
عارفِ خودی کو فرائض زندگی سے آگاہ کر کے اس کو بندہٴ خدا اور مردِ با خدا بناتی ہے ۔ اور اگر اس کو ایک طرف خلیفة اللہ فی الارض کا اہل بناتی ہے تو دوسری جانب اس کو قرب الٰہی کا مستحق ٹھہرا کر مسجود جن و ملک ثابت کرتی ہے اس خودی کو حاصل کرنا انسان کی زندگی کا مقصود تھا اور یہی تعلیم اسلام کی اصل ہدایت ہے ۔“ جناب سید وقار عظیم فرماتے ہیں ۔
اقبال کے خطبات اور مراسلات کے علاوہ ان کا لکھا ہوا اسرار خودی کا مقدمہ تین اہم ماخذ ہیں ۔ جنکے مطالعے کے بعد ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ خود اقبال کی نظر میں اس فلسفیانہ تصور کا کیا مفہوم ہے ۔ ان کڑیوں کو (تین اہم ماخذ) اگر جوڑ ا جائے تو خودی کے مفہوم کا جو نقشہ بنتا ہے اسکی صورت کچھ اس طرح کی ہو گی۔ ۱۔ خودی کا مفہوم محض احساسِ نفس یا تعینِ ذات ہے ۔
۲۔ خودی وحدتِ وجدانی یا شعورکا وہ روشن نقطہ ہے جس سے تمام انسانی تخلیات و جذبات مستیز ہوتے ہیں۔ ۳۔ خودی ایسی مخلوق ہے جو عمل سے لازوال ہو سکتی ہے ۔ اقبال نے اپنے کلام میں خودی کو جو اہمیت دی و ہی اقبال کے ناقدین نے اقبال کے کلام میں فلسفہ خودی کو دی اور اب تک اس پر اتنا کچھ کہا جا چکا ہے کہ مزید کسی تشریح کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ مثنوی انیس ابواب پر مشتمل ہے ہر باب میں اقبال کسی نہ کسی طرح خودی کی حقیقت اور اہمیت کو واضح کرتے ہیں ہم مختصراً ان ابواب کا جائزہ لیتے ہیں ۔
پہلا باب تمہید ہے جناب یوسف سلیم لکھتے ہیں کہ جس طرح عنوان کے پردہ میں اقبال نے اس مثنوی کی غرض و غایت بیان کر دی ہے اس طرح تمہید کا خلاصہ نظیری کے شعر کے ذریعے واضح کر دیا ہے اقبال نے اس شعر کے پردہ میں اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ میں نے اپنے کلام میں یا اس مثنوی میں جو لکھا ہے وہ سب کار آمد اور مفید مطلب ہے کوئی بات بیکار نہیں لکھی ہے ۔
اس سے پہلے فارسی اور اردو میں جو مثنویاں لکھی جاتی تھیں ان میں مختلف مطالب تمہیدی طور پر بیان کیے جاتے تھے اور یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ مثنوی کیوں لکھی گئی۔ اقبال نے تمہید میں ایسا انداز اختیار کیا جو ہر لحاظ سے نیا ہے اور اسے اقبال کے پیش نظر پیغام سے خاص مناسبت ہے وہ طلوعِ سحر سے تمہید کا آغاز کرتے ہیں اور یہ آغاز اس وجہ سے بہت موزوں ہے کہ وہ ایک نیا پیغام عالم انسانیت کو پہنچا رہے ہیں۔
پیغام کی اہمیت کے بعد وہ ساقی سے مخاطب ہوتے ہیں اور اس شراب کی آرزو کرتے ہیں۔ جسکی اصل زمزم تھی مولانا غلام رسول مہر فرماتے ہیں کہ وہ مولانا روم  کے اسلوب پر اپنا پیغام مرتب کرنا چاہتے تھے لہٰذا انہوں نے مولانا کو ہی اپنا پیش رو قرار دیا۔مولانا ہی نے عالم خوابی میں ان سے یہ کہا کہ کب تک غنچے کی طرح خاموش بیٹھے رہو گے؟ کیوں پھول کی طرح اپنی خوشبو ہر سمت نہیں بکھیرتے؟ تم ایک قافلے کے لیے بانگِ درا کی حیثیت رکھتے ہو۔
اٹھو اور قافلے کو راہِ مقصود پر لگا دو۔ یہ سنتے ہی اقبال نے حقائق حیات کی تشریح کا فیصلہ کر لیا اور خودی کے راز سے پردہ اٹھا دیا۔ (بحوالہ ۔ مطالب اسرار ورموز، ص ۳۹) تمہید کے آخر میں فرماتے ہیں کہ اگر چہ پیش نظر مطالب کے لیے میں نے شعر کا انداز اختیار کیا لیکن میرا اصل مقصود شاعری نہیں ۔ پھر فارسی زبان ا سلئے اختیار کی کہ اس میں زیادہ مٹھاس ہے اور یہ میرے افکار کی بلندی کا ساتھ زیادہ خوش اسلوبی سے دے سکتی ہے۔
دوسرا باب :نظامِ عالم کی بنیاد خودی ہے ۔ اس کی ابتداء میں یہ بتایا گیا ہے کہ خودی کیا ہے اس کی کیفیات مختلف صورتوں میں واضح کرنے کے بعد یہ واضح کیا گیا ہے کہ تخلیق و تکمیل اس کا اصل منصب ہے۔ اس غرض سے وہ میدان عمل میں مختلف شکلیں اختیار کرتی ہے ۔ پھر خودی کے مختلف مظاہر پیش کیے گئے ہیں۔ جناب غلام رسول مہر کے خیال میں اس عنوان کا پس منظر وہ مقولہ ہے ۔
جس طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں ایک کنزِ مخفی تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں ۔ پس میں نے خلق کو پیدا کیا تا کہ وہ مجھے محبوب بنائے ۔ وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اقبال نے یہ عنوان ”اصلِ نظام عالم از خودی است“ عارف جامی کے اس مصرع سے مستعار لیا ہے ۔ اس کے بعد اقبال خودی اور تخلیقِ مقاصد پر روشنی ڈالتے ہیں اقبال فرماتے ہیں کہ خودی کی نشوونما کا انحصار مقصد اور مضامین پر ہے ۔
مطلوب ہو گا تو آرزوئیں پیدا ہونگی۔ مردہ دلوں میں آرزوئیں جنم نہیں لیا کرتی ہیں اسلئے ایک جگہ اقبال نے یہ بھی کہا تھا کہ دلِ مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ مقاصدآفرینی سے دل متحرک ہوتا ہے اور اس میں حرارت رہتی ہے مقاصد کے حصول کے لئے آرزو اسمِ اعظم کا درجہ رکھتی ہے ایسی آرزو جو گرماتی رہے اور تڑپاتی رہے اس مقصد اور آرزو کا ہونا کیوں ضروری ہے اسکا جواب اقبال کی زبان ہی سے سنیئے # زندگانی رَا بقا از مدعا است کاروانش را درّا مدعا است ماز تخلیقِ مقاصد زندہ ایم از شعاعِ آرزو تابندہ ایم چوتھے باب میں اقبال فرماتے ہیں کہ خودی عشق و محبت سے مستحکم ہوتی ہے ۔
اقبال خودی کے استحکام کے لئے عشق کو ضروری سمجھتے ہیں اور اسے بہت اہمیت دیتے ہیں ۔ عشق سے مرادعشقِ حقیقی ہے جس کی تاثیر سے مردہ دل بھی زندہ ہو جاتے ہیں اور جس دل میں یہ عشق اجاگر ہو جائے اسمیں خدا بھی نظر آنے لگتا ہے ۔ ساقی نامہ میں بھی اقبال اسی عشق کی آرزو لئے ہوئے ہیں # شرابِ کہن پھر پلا ساقیا وہی جام گردش میں لا ساقیا تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے دلِ مرتضی سوزِ صدیق دے جگر سے وہی تیر پھر پار کر تمنا کو سینوں میں بیدار کر جناب عبدالرحمن طارق اس عشق رسول ﷺ کا مفہوم بیان کرتے ہیں عشق رسول ﷺکا صحیح مفہوم و مدّعا ہے اتباع رسول ﷺ ۔
اگر چہ عشق کا اصل مفہوم ہے کسی ہستی سے مخلصانہ اور والہانہ انس و محبت لیکن ہم اس محبت کو محبت ہی کیوں کہیں جو محب کو اپنے محبوب کا مکمل طور پر مطیع نہ بنا دے۔(بحوالہ ۔ جوہر اقبال ، ص ۹۹) اور جناب پروفیسر محمد فرمان کے بقول اقبال کے ہاں عشق کے معنی نہایت وسیع ہیں انکے نزدیک عشق کائنات کے جملہ اجسام کی حرکت اور انکے عمل کی روحِ رواں ہے۔
اسکے دم قدم سے زندگی کی رنگینی ہے ۔ خلیفہ عبدالحکیم فرماتے ہیں : ”اقبال نے عشق کے مفہوم میں بڑی گہرائی اور وسعت پیدا کر دی ہے اور اس بارے میں وہ خاص طور پر عارف رومی کا شاگِرد رشید ہے۔“ خودی کے استحکام کے لئے یہ عشق کیوں ضروری ہے اسکے لئے اقبال فرماتے ہیں کہ نقطہٴ نورے کہ نام اُو خودی است زیرِ خاکِ مَا شرار زندگی است از محبت می شود پائیندہ تر زندہ تر سوزندہ تر تابندہ تر آگے چل کر اقبال بتاتے ہیں کہ خودی کن چیزوں سے کمزور ہوتی ہے اقبال فرماتے ہیں کہ دوسروں پر انحصار اور سہارا خودی میں ضعف پیدا کرنے کا موجب ہے ۔
اقبال کے نزدیک دوسروں کے آگے دستِ سوال دراز کرنا ایک مذموم حرکت ہے۔ ہر وہ چیز جو بغیر کسی کوشش کے حاصل ہو وہ سوال کے مفہوم میں داخل ہے۔ یہاں تک کہ اگر اپنے خون سے ہولی کھیلے بغیر سلطنت بھی مل جائے تو وہ باعث ننگ وعا رہے ۔ سوال بلاشبہ ضعف کی نشانی ہے ۔ ہمسائے کی وساطت سے بہشت حاصل کرنا بھی دوزخ کے عذاب سے کم نہیں اقبال تو اس خود دار انسان کے قائل ہیں جو منزل پر پہنچ کر بھی منزل مقصود کا احسان نہ اٹھائے اور اس سے منہ پھیر لے کیا خوب کہا ہے کہ # گدائے میکدہ کی شان بے نیازی دیکھ پہنچ کے چشمہٴ حیوان پہ توڑتا ہے سبو! ایسا شخص اس لئے قابلِ رشک ہے کہ ایسے شخص کی پیشانی پر کبھی ندامت کا پسینہ نمودار نہیں ہوتا وہ مضروب ہونے سے نہیں گھبراتا ۔
# تو اگر خود دار ہے منت کشِ ساقی نہ ہو عین دریا میں حباب آسا نگوں پیمانہ کر یہ استغنا ہے پانی میں نگوں رکھتا ہے ساغر کو تجھے بھی چاہیے مثلِ حباب آب جو رہنا ایک اور جگہ فرماتے ہیں خودی کے نگہبان کو ہے زہر ناب وہ نان جس سے جاتی رہے اسکی آب وہی نان ہے اس کے لئے ارجمند رہے جس سے دنیا میں گردن بلند وہی جہاں ہے ترا جسکو تو کرے پیدا یہ سنگ وخشت نہیں جو تیری نگاہ میں ہے اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے سرِ آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی اس کے بعد اقبال فرماتے ہیں کہ جب خودی عشق سے محکم ہو جاتی ہے تو نظامِ عالم کی ظاہری و مخفی قوتوں کو مسخر کر لیتی ہے یعنی کائنات پر حکمران ہو جاتی ہے ۔
یہاں اقبال نے دو اہم مثالیں دی ہیں پہلی مثال تو انہوں نے رسول پاک ﷺ کی حیات مبارکہ سے دی ہے اور وہ قرآن پاک کی اس آیت کے حوالے سے (ترجمہ)یعنی مقررہ ساعت نزدیک آ گئی اور چاند شق ہو گیا۔ پنجہ اُو پنجہ حق می شود ماہ از انگشتِ اُو شق می شود دوسری مثال حضور ﷺ کے ایک ادنی غلام حضرت بو علی شاہ قلندر کی ہے۔ ان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ان سے وابستہ ایک مشہور واقعہ ہے جسے اقبال نے بھی بیان کیا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ ایک دن انکا ایک مرید بازار گیا راستے میں اس نے گورنر کی سواری دیکھی اور بڑی بے نیازی سے قریب سے گزرتا گیا۔ گورنر کی سواری کے آگے چلنے والے چوبدار کو یہ بات اچھی نہ لگی اور اس نے قلندر صاحب کے اس مرید کو مار مار کر زخمی کر دیا جب قلندر صاحب کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے نواب علاؤالدین خلیجی کو خط لکھا کہ تمہارے فلاں عامل نے ہمارے مرید سے اسطرح زیادتی کی ہے۔
قلندر صاحب کا غصہ دیکھ کر نواب خلجی کو بہت دکھ اور رنج ہوا اور اس نے ان سے معذرت چاہی اس حضرت کے طلبی کے فرائض خسرو  کے سوا کوئی بجا لانے پر رضا مند نہ ہوا۔ ان ہی کی سفارش پر درویش نے بادشاہ کو معاف کر دیا۔ قانونِ قدرت سے تو کسی کو انکار نہیں کہ ہر بڑی شے چھوٹی کو اور ہر زبردست چیز کمزور کو لقمہ بناتی ہے ایک کا اوج دوسرے کی پستی ہے اور ایک کی بربادی دوسرے کی آبادی کا باعث ہے کسی کا گھر بنتا ہے کسی کا اجڑتا ہے سورج نکلتا ہے ۔
تارے ڈوبتے ہیں ۔ الغرض یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہتا ہے اقبال کے اس نظریہ کے لئے ان کا جواز موجود ہے فرماتے ہیں # بہر یک گل خون صد گلشن کند از پے یک نغمہ صد شیون کند سوز پہیم قسمت پروانہ ہا شمع عذر محنت پروانہ ہا اقبال نفی خودی کے مسئلے کو کمزور بھیڑوں کے دماغ کی اختراع سمجھتے ہیں اقبال کمزوری اور کم ہمتی کو مذموم سمجھتے ہیں اور ڈٹ کو استوار ہو جانے کو مستحسن خیال کرتے ہیں۔
کم ہمتی ان کے نزدیک تمام امراض کی جڑ ہے ۔ اسکی برائیاں وہ کچھ یوں گنواتے ہیں # صد مرض پیدا شُد اَز بے ہمتی کوتاہ دستی بیدلی دوں ہمتی! لیکن اقبال کا مقصد انسان کو درندہ بنا دینا بھی نہیں دراصل وہ انسان کو ذوق تن آسانی سے بچانا چاہتے ہیں اور جھپٹنے پلٹنے کا درس دے کر اسکا خون گرم رکھنا چاہتے ہیں ۔ نقاب از ممکنات خویش برگیر مہ و خورشید و انجم را برگیر شبِ خود روشن از نور یقین کن یدِ بیضا بیرون از آستین کن اگلا باب افلاطون اور مسلک گو سفندی کا ہے اسمیں اقبال نے اس نکتہ کی وضاحت کی ہے کہ گو افلاطون کی فکر کا اساسی نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ کائنات حقیقی نہیں ہے حقیقی کہیں اور ہے اسکا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ عقل مند آدمی یہ کہتا ہے کہ جب حقیقت حال یہ ہے کہ کائنات حقیقی نہیں ہے تو پھر اس سے قطع تعلق کر کے اس کی تلاش میں منہمک ہو جانا چاہیے جو حقیقی ہے اس قطع تعلقی کا دوسرا نام ترکِ دنیا ہے اور اسلام ترک دنیاکا شدید مخالف ہے ۔
اقبال کے نزدیک افلا طون کا مسلکِ گو سفندی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اس لیے ہمیں اسکے تخیلات سے بچنا چاہیے ۔ اس سے اگلا باب حقیقتِ شعرا اور اصلاحِ ادبیات کے بارے میں ہے اس باب میں اقبال نے شعرو شاعری کی حقیقت واضح کی ہے پہلے بند میں شعر و شاعری کی حقیقت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ حقیقی شاعر کے محاسن بھی گنوائے ہیں دوسرے بند میں اس قوم کی بد نصیبی کا ماتم کیا ہے جس کے شعراء قوم کو زندگی کے حقائق سے فرار کی تلقین کرتے ہیں اور ضمناً ایسے شعراء کے معائب بھی واضح کر دیئے ہیں۔
تیسرے بند میں مسلمانوں سے خطاب کیا ہے اور انہیں بتایا ہے کہ جھوٹے شاعروں نے پوری قوم کو دنیا میں ذلیل و خوار کر دیا ہے اسلئے انکے کلام سے اجتناب لازم ہے چوتھے بند میں شعراء کو یہ مشورہ دیا ہے کہ اپنی شاعری کو قوم کے لئے مفید بنائیں۔ اقبال کے نزدیک خودی کی تربیت کا انحصار تمام تر اس عملی اور ادبی فضا پر ہے جو سماج میں خیالات کی اشاعت کا باعث ہوتی ہے اور کیریکٹر کی تشکیل پر زبردست اثر ڈالتی ہے ۔
مشہور مقولہ ہے کہ نغمہ طرازی کا کام مجھے سونپ دو پھر اس بات کی پرواہ نہیں کہ حکومت کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے ۔ “ گویا نصابِ تعلیم جس کے اختیار میں ہو دل و دماغ پر اسکا راج ہوتا ہے ۔ اقبال اپنے اس تعمیری پروگرام میں علم و ادب کا معیار قائم کرتے ہیں جو ان کی تمام اخلاقی تعلیم کی بنیاد ہے ان کے نزدیک جو ادب اس کسوٹی پر پورا اترے وہ اچھا اور جو کم عیار ہو وہ برا ۔
منازل: اس کے بعد اقبال تربیت خودی کی منزلیں بیان کرتے ہیں اسکی پہلی منزل اطاعت ہے۔ اقبال آزادی اور بے لگامی کو پسند نہیں کرتے انکے نزدیک آئین و قیود کی پابندی کرنا ہی خودی کی منزلوں میں پہلی منزل طے کرنا ہے ۔ قانون اور آئین کی پابندی ہی میں فلاح و بہبود کا راز مضمر ہے ۔ دہر میں عیشِ دوام آئین کی پابندی سے ہے موج کو آزادیاں سامانِ شیون ہو گئیں دوسرا مرحلہ ضبطِ نفس کا ہے اس سے مراد نفس کو قابو میں رکھنا اور اسے بے راہ روی سے بچانا ہے ۔
جناب یوسف عزیز لکھتے ہیں کہ نفسِ امارہ کی طبیعت کا تقاضا ہے کہ وہ انسان کو برائیوں کی طرف مائل کرتا ہے اسلئے اقبال نے مسلمانوں کو تلقین کی ہے کہ اگر وہ اپنی خودی کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو اپنی خواہشات پر غلبہ پائیں۔ ” اگر تمہارا نفس تم پر حکمران ہے تو اپنی خودی کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے۔“ یہ تعلیم بھی قرآن حکیم سے حاصل ہوتی ہے واضح ہو کہ نفس کو ہوس سے باز رکھنا یا اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرنا ہی بنیاد ہے تزکیہ نفس کی۔
مرحلہ ضبط نفس کے لئے بھی اقبال نے قرآن ہی سے مثالیں لی ہیں اور حضرت ابراہیم خلیل اور حضرت اسماعیل  کے اسوہ حسنہ کو پیش کیا گیا ہے ۔ اقبال فرماتے ہیں کہ خود پر قابو نہ رکھنا دراصل خود کو دوسروں کا غلام بنانا ہے ۔ ہر کہ بر خود نیست فرمانش رواں می شود فرمان پذیرد از دیگراں ضبظ نفس کے لئے اقبال اللہ اور رسول ﷺ کی محبت اور ارکانِ اسلامی کی پابندی ضروری سمجھتے ہیں ۔
تربیت خودی کی تیسری اور آخری منزل نیابتِ الٰہی ہے ۔ ان دونوں مدارج سے گزرنے کے بعد انسان اس درجے پر فائز ہو گا جسے انسانیت کا اوجِ کمال سمجھنا چاہے ۔ یہ نیابتِ الٰہی کا درجہ ہے اور اسے حاصل کرنا ارتقائے خود ی کا بلند ترین نصب العین ہے اس کی تلاش میں نوعِ انسانی ہزار ہا سال سے سر گرمِ سعی ہے اور اسکے انتظار میں کائنات روزِ ازل سے بیقرار ہے ۔
اقبال بال جبرئیل میں بھی ایک جگہ لکھتے ہیں # خاکی و نوری نہاد بندہٴ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز اس کی امیدیں قلیل اسکے مقاصد جلیل اسکی ادا فریب اس کی نگاہ دلنواز ”نائب حق خلیفة اللہ علی الارض ہے یہ کامل ترین” انا“ ہے جو نوع انسانی کا نصب العین اور زندگی کی روحانی و جسمانی معراج ہے ۔ اسکے اندر ہماری حیاتِ نفسی کے تمام انتشار ات ہم آہنگ ہو جاتے ہیں “۔
(بحوالہ حکمت اقبال ) جناب عبدالرحمن فرماتے ہیں: ” خودی کی کامل ترین صورت خدا ہے جو اپنی شانِ یکتائی میں سب سے اعلیٰ ہے۔ انسانی خودی یکتائی و انفرادیت کی منزلیں طے کرتے ہوئے خداسے قریب تر ہو جاتی ہے لیکن اپنا علیحدہ وجود برقرار رکھتی ہے یہ نظریہ ہمہ اوست کی جملہ صورتوں کو ختم کر دیتا ہے ۔“ اگلا باب اسماء حضرت علی  سے متعلق ہے ۔
اسمیں حضرت علی  کے بعض اسماء کی شرح لکھی گئی ہے پہلے حضرت علی  کی زندگی کے بعض پہلوؤں کو پیش کیا ہے اور پھر ان سے فلسفیانہ نکتے اخذ کئے ہیں اس کے بعد انہوں نے عمل ِ صالح، جدو جہد ، جہاد وغیرہ کے حصول کی تلقین کی ہے ۔ جناب یوسف سلیم چشتی کے بقول اقبال نے اپنے فلسفہ کی وضاحت کے لئے حضرت علی  کا انتخاب اسلئے کیا کہ ان میں علم، عشق اور عمل تینوں خوبیاں بیک وقت جمع ہو گئی تھیں ۔
اس سے آگے چل کر اقبال نے اس نوجوان کی داستان بیان کی ہے جو حضرت سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کی خدمت میں لاہور حاضر ہوا تھا۔ حضرت شیخ ہجویری  کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ عنفوانِ شباب میں انکے دل میں حُب الٰہی موجزن ہوئی ۔ چنانچہ وطن سے نکل کر عراق تشریف لائے اور حضرت خواجہ ہارونی  سے شرف بیعت حاصل کیا بیس سال تک غلاموں کی طرح اپنے مرشد کی خدمت کی تب جا کر مسند ِرُشدو ہدایت پر فائز ہوئے۔
منازلِ سلوک طے کر لینے کے بعد مرشد کی معیت میں حج کی سعادت حاصل کی۔ جب مدینہ منورہ میں سرکار دو عالم ﷺ کی بارگاہ عالیہ میں حضوری کی سعادت نصیب ہوئی تو بارگاہ رسالت سے بشارت ملی کہ ہندوستان جا کر تبلیغ و اشاعتِ اسلام کا فرض انجام دو۔ اسلئے حضرت کا لقب ” سلطان الہند“ ہے ۔ یہ بشارتِ عظمی پا کر حضرت اقدس عازمِ ہندوستان ہوئے اور پھر ایک عرصہ تک کفرستان ہند کو نورِ اسلام سے منور کرنے کے بعد ۴ رجب ۶۳۲ کو رحلت فرمائی ۔
اگلے باب میں اقبال نے پیاسے پرندے کی حکایت بیان کرتے ہوئے مسلمان کو پھر یہی درس دیا ہے کہ وہ اپنی خودی کی سیمابی کیفیت کو اطاعت اور ضبط نفس کی بدولت استحکام عطا کرے اسطرح الماس اور کوئلے کی حکایت سے بھی زندگی کی ضرورتوں کا احساس دلایا ہے ۔ اگلی فصل میں شیخ و برہمن کی حکایت بیان کی ہے ۔ اسمیں اقبال نے دو نکتے بیان کئے ہیں پہلا تو یہ کہ دنیا کے دھندوں سے نمٹنا انسان ہونے کی حیثیت سے ہمارا پہلا فرض ہے وہ انسان ہی کیا جس کا فکر آسمان تک پرواز کرے لیکن زمین کے مسائل کو حل کرنے سے عاجز ہو۔
گر نہ سہل ہوں تم پر زمین کے ہنگامے بُری ہے مستیٴ اندیشہٴ ہائے افلاکی دوسرا نکتہ یہ ہے کہ افراد کی سیرت اسوقت تک پختہ نہیں ہو سکتی جب تک وہ مخصوص ملی روایات کو اپنے اندر جذب نہ کر لیں ۔ اس سے آگے چل کر اقبال نے مسلمان کی زندگی کا نصب العین بیان کیا ہے ۔ اقبال فرماتے ہیں کہ مسلمان کی زندگی کا مقصد کلمہ حق کی سر بلندی ہے ۔ اس غرض سے جہاد لازم قرار پایا۔
لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر دوسروں کو غلام بنانے کے لئے جہاد کیا جائے تو وہ جہاد نہیں ہے بلکہ جنگ و جدل ہے جو سرا سر ناجائز ہے ۔ اقبال فرماتے ہیں کہ مسلمان کی ہر چیز خدا تعالیٰ کی رضا کے تابع ہے ۔ اسکے ہر عمل کا مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا ہونی چاہیے مگر اب تو یہ حال ہے کہ ہر ایک کو ہے زمانے میں زندگی مقصود کسے خبر کہ مقصودِ زندگی کیا ہے؟ اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور مقصود ہو تو صلح بھی شر بن جاتی ہے اور اگر صرف اللہ کی رضا مقصود ہو تو جنگ بھی نیکی کا روپ دھار لیتی ہے ۔
اس سلسلہ میں انہوں نے شیخ میاں میر  کی حکایت بھی بیان فرمائی ہے ۔ اس سے اگلے باب میں اقبال نے مسلمانوں کو دعوت دیتے ہوئے تین باتیں سمجھائی ہیں ۔ ۱۔ زندگی کیا ہے ؟ ۲۔ علم و حکمت سے استفادہ کا کیا طریقہ ہے ؟ ۳۔ مسلمان کے لئے کون سا علم مفید ہے؟ یہ تینوں باتیں اس باب کے پہلے بند کا خلاصہ ہیں ۔ دوسرے بند میں دانشِ حاضر اور تہذیبِ مغرب ی مذمت کی ہے اور مسلمانوں کو اس سے اجتناب کی تلقین کی ہے ۔
تیسرے بند میں مسلمانانِ ہند کی حالتِ زار پر تبصرہ کیا ہے اور زوال کے اسباب کی طرف اشارہ کرنے کے بعد واعظ اور صوفی کی ملت فروشی پر ماتم کیا ہے ۔ اگلا اہم باب اقبال نے ” تلوار وقت ہے “کے عنوان سے قلمبند کیا ہے ۔ جناب غلام رسول مہر فرماتے ہیں کہ اقبال نے ”الوقت سیف “ کا مقولہ امام شافعی سے منسوب کیا ہے ۔ لیکن اقبال نے ” الوقت سیف“ کو وہ مفہوم نہیں دیا جس کا ذکر مولانا روم نے اپنی مثنوی میں کیا ہے ۔
اقبال نے اس بارے میں جو کچھ کہا ہے اسکے بارے میں قطعی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے البتہ چند باتیں یہاں عرض کر دینا کافی ہے جو اشعار کے سمجھنے میں ایک حد تک معاون ثابت ہونگی ۔ ۱۔ زمان ایک تخلیقی حرکت ہے ایک تلوار ہے جو مزاحمتوں کو کاٹتی ہوئی اپنا راستہ بناتی چلی جاتی ہے ۔ ۲۔ زمان یا وقت ایک ارتقائی اور اخلاقی قوت ہے جس نے مختلف واقعات میں مختلف افراد کی شکل اختیار کی اور وہ کارنامے انجام دیئے جو اب تک دنیا میں تخلیق و اخلاق کا سب سے بڑا معیار ہیں۔
۳۔ خلیفہ عبدالحکیم مرحوم کے قول کے مطابق اقبال مسئلہ زمان کو اسلئے اہمیت دیتے ہیں کہ ان کے ہاں پابنداور آزاد کی تمیز کا معیار یہی ہے کہ روح ایام کی زنجیر میں مقید ہے یا اس زنجیر سے آزاد ہو کر زمان حقیقی میں غوطہ لگاتی ہے اور تسخیرِ مسلسل نیز خلا قی میں مصروف رہتی ہے۔ ۴۔ جس انسان کے ہاتھ میں زمانے کی تلوار ہو وہی زندگی کے ممکنات کو نمایاں کر سکتا ہے۔
قید یا پابند زمانے سے موافقت پیدا کر لیتا ہے یا آزاد زمانے سے جنگ آزمائی کے لئے تیار ہو جاتا ہے ۔ ۵۔ زمان کی دو صورتیں ہیں ایک زمان حقیقی یا زمان محض جس میں نہ ماضی ہے نہ حال اور نہ ہی مستقبل ہے دوسری صورت وہ ہے جسے زمانِ مسلسل کہنا چاہیے یعنی جو مختلف لمحوں سے مرکب ہو۔ اقبال فرماتے ہیں کہ زمان کو مکان کی طرح پھیلی ہوئی چیز قرار دینا ٹھیک نہیں اسطرح زمان کی حقیقی حیثیت زائل ہو جاتی ہے ۔
پروفسیر محمد عثمان صاحب کے بقول” اقبال کے نزدیک وقت بھول بھلیاں یا فریب نگاہ نہیںِ ایک ایسی سنگین حقیقت ہے جس کا مقصد ہمارے اندر عمل کا جوش اور تخلیق کا ولولہ پیدا کرنا ہے ۔ وقت ہماری ہی خاطر ہم کو دعوتِ مبارزت دیتا ہے تا کہ اس کا مقابلہ کرکے ہم اسکی قوتوں سے کام لیں۔ “ (بحوالہ ۔ اسرار و رموز ایک نظر) اسرار خودی کے اختتام پر دعا ہے ۔
اسمیں اقبال نے مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کی ہیں ہمارے ناشا ددلوں کے لئے تسکین کا سرو سامان ہماراعشقِ خام ہے اسے پختہ کر دے ۔ ہم بے حقیقت گھاس ہیں ہمیں آتش فشاں پہاڑ بنا دے۔ ہمیں حضرت ابراہیم کے ایمان کی قوت نصیب فرما ۔ دوسرے حصے میں اقبال نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ میں شمع کی طرح جلتا ہوں لیکن کوئی پروا نہ نہیں جو اس شمع پر آکر گرے ۔
اقبال فرماتے ہیں کہ کوئی نہیں جو میرا اہم راز اور غم گسار ہو۔ پھر دعا فرماتے ہیں کہ اے اللہ یا تو اپنی یہ امانت واپس لے لے یا مجھے کوئی پرانا رفیق عطا کر۔ سمندر میں موج کا ساتھ موج دے رہی ہے آسمان پر تارے ، تاروں کے رفیق ہیں غرض دنیا کی ہر چیز رفاقت سے بہرہ ور ہے صرف میں ہی رفاقت سے محروم ہوں۔ با خودی بشنید ز افکارِ خودی نعرہ زد اَز گنجِ اسرار خودی کتابیات ۱۔
اقبال کی شخصیت از جناب حمید احمد صاحب ۲۔ اقبال شخصیت اور شاعری از جناب رشید احمد صدیقی صاحب ۳۔ اقبال نئی تشکیل از جناب سید عزیز احمد صاحب ۴۔ اقبال شاعر اور فلسفی از جناب سید وقار عظیم صاحب ۵۔ اقبال کی طویل نظمیں از جناب رفیع الدین ہاشمی صاحب ۶۔ طیف اقبال از جناب ڈاکٹر سید عبداللہ ۷۔ اقبال کی تیرہ نظمیں از جناب اسلوب احمد انصاری صاحب ۸۔
جوہر اقبال جناب عبدالرحمن طارق صاحب ۹۔ خیابان اقبال از جناب طاہر فاروقی صاحب ۱۰۔ سیرت اقبال از جناب طاہر فاروقی صاحب ۱۱۔ اقبال معاصرین کی نظر میں از جناب سید وقار عظیم صاب ۱۲۔ روح اقبال از جناب یوسف حسین صاحب ۱۳۔ اقبال منفرد از جناب سید وقار عظیم صاحب ۱۴۔ حکمت اقبال از جناب یوسف حسین صاحب ۱۵۔ تصورات اقبال از جناب صلاح الدین صاحب ۱۶۔ بال جبرئیل از اقبال  ۱۷۔ شرح بال جبرئیل از جناب یوسف سلیم چشتی صاحب ۱۸۔ ماہ نو از جناب یوسف سلیم چشتی صاحب / ستمبر ۱۹۷۷ء ۱۹۔ اقبال سب کے لیے از ڈاکٹر فرمان فتح پوری ۲۰۔ کلیاتِ اقبال(اُردو) ۲۱۔ کلیاتِ اقبال (فارسی)

Chapters / Baab of Shaheen Ka Jahan Aur--- (iqbaliyat) By Shahida Shaheen Shaheed