Episode 3 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 3 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

وہ تھک گیا تھا۔ تھوڑی سی دیر کے لیے سوجانا چاہتا تھا مگر اس کے ذہن میں یادوں کا جو قافلہ چل پڑا تھا وہ اسے سونے نہیں دے رہا تھا۔ اسے سات سال پہلے کا ایک دن یاد آیا تھا جب اس کے عزیزوں نے محمدﷺ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ۔ اس منصوبے میں خالد کا باپ الولید پیش پیش تھا ۔ 
وہ ستمبر622ء کی ایک رات تھی۔ قریش نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو سوتے میں قتل کرنے کے لیے ایسے آدمی چنے تھے جو انسانوں کے روپ میں وحشی اور درندے تھے ۔
خالد قریش کے سرکردہ خاندان کا جوان تھا۔ اس وقت اس کی عمر ستائیس سال تھی ۔ وہ آنحضرت کے قتل کی سازش میں شریک تھا ۔ لیکن وہ قتل کرنے والوں میں شامل نہیں تھا ۔ اسے سات سال پہلے کی وہ رات گزرتے ہوئے کل کی طرح یاد تھی ۔ وہ اس قتل پر خوش بھی تھا ۔

(جاری ہے)

ناخوش بھی خوش اس لیے کہ اس کے اپنے قبیلے کے ہی ایک آدمی نے اس کے مذہب کو جو بت پرستی تھی ۔ باطل کہہ دیا اور اپنے آپ کو خدا کا پیغمبر کہہ دیا تھا۔

ایسے دشمن کے قتل پر خوش ہونا فطری بات تھی ۔ 
اور وہ ناخوش اس لیے تھا کہ وہ اپنے دشمن کو للکار کر آمنے سامنے کی لڑائی لڑنے کا قائل تھا۔ اس نے سوتے ہوئے دشمن کو قتل کرنے کا کبھی سوچی ہی نہیں تھی۔ بہر حال اس نے اس سازش کی مخالفت نہیں کی لیکن قتل کی رات جب قاتل رسول خدا کو مقررہ وقت پر قتل کرنے گئے تو آپ کا مکان خالی تھا۔ وہاں گھر کا سامان بھی نہیں تھا۔
نہ آپ کا گھوڑا تھا نہ اونٹنی۔ قریش اس امید پر سوئے ہوئے تھے کہ صبح انہیں خوشخبری ملے گی کہ ان کے مذہب کو جھٹلانے اور انہیں اپنے نئے مذہب کی طرف بلانے والا قتل ہوگیا ہے مگر صبح وہ ایک دوسرے کو مایوسی کے عالم میں دیکھ رہے تھے ، پھر وہ سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے…”محمد کہاں گیا ؟“
رسول اکرمﷺ قتل کے وقت سے بہت پہلے اپنے قتل کی سازش سے آگاہ ہوکر مکہ سے یثرب (مدینہ) کو ہجرت کرگئے تھے ۔
صبح تک آپ بہت دور نکل گئے تھے ۔ 
آج سات برسوں بعد ، خالد بھی مدینے کی طرف جارہا تھا اور اس کے ذہن پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سوار تھا ۔ اس نے جنگ احد میں اپنے دیوتا ہبل اور دیوی غزیٰ کے دشمن محمد کو قتل کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی مگر آپ زخمی حالت میں وہاں سے نکل گئے تھے ۔ 
خالد کے ذہن سے یادیں پھوٹتی چلی آرہی تھیں۔
ذہن پیچھے ہی پیچھے ہٹتے ہٹتے سولہ برس دور جارکا۔ 613ء کی ایک شام رسول کریمﷺ نے قریش کے چند ایک سرکردہ افراد کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کیا۔ کھانے کے بعد رسول کریم نے اپنے مہمانوں سے کہا :
”اے بنی عبدالمطلب! میں تمہارے سامنے جو تحفہ پیش کرنے لگا ہوں وہ عرب کا کوئی اور شخص پیش نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے اللہ نے مجھے منتخب کیا ہے ۔ مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ تمہیں ایک ایسے مذہب کی طرف بلاؤں جو تمہاری دنیا کے ساتھ تمہاری عاقبت بھی آسودہ اور مسرور کردے گا ۔
اس طرح رسول اکرم نے پہلی وحی کے نزول کے تین سال بعد اپنے قریبی عزیزوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ خالد اس محفل میں نہیں تھا۔ اس کا باپ مدعو تھا ۔ اس نے خالد کو مذاق اڑانے کے انداز میں بتایا تھا کہ عبدالمطلب کے پوتے محمد نے کہا ہے کہ وہ اللہ کا بھیجا ہوا نبی ہے ۔ 
”ہم جانتے ہیں عبدالمطلب قریش کا ایک سردار تھا “…الولید نے اپنے بیٹے خالد سے کہا …
”بیشک محمد کا خاندان اعلیٰ حیثیت رکھتا ہے لیکن نبوت کا دعویٰ اس خاندان کا کوئی فرد کیوں کرے؟ اللہ کی قسم، اور قسم ہبل اور عزیٰ کی ، میرے خاندان کا رتبہ کسی سے کم نہیں ، کیا نبوت کا دعویٰ کرکے کوئی ہم سے اونچا ہوسکتا ہے ؟“
”آپ نے اسے کیا کہا ہے ؟“خالد نے پوچھا 
”پہلے تو ہم چپ ہوگئے پھر ہم سب ہنس پڑے “…الولید نے کہ …”لیکن محمد کے چچا زاد بھائی علی بن ابو طالب نے محمد کی نبوت کو قبول کرلیا ہے ۔
خالد اپنے باپ کی طنزیہ ہنسی کو بھولا نہیں تھا ۔ 
خالد کو629ء کے ایک روز مکہ اور مدینہ کے راستے میں ایک نخلستان میں لیٹے ہوئے وہ وقت یاد آرہا تھا ۔ رسول اللہ جن کی نبوت کو قریش کے سردار قبول نہیں کر رہے تھے ۔ اس نبوت کو لوگ قبول کرتے چلے جارہے تھے ۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ بعض مفلس لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ اس سے نبی کریمﷺ کے حوصلے میں جان آگئی اور آپ نے اسلام کی تبلیغ تیز کردی۔
آپ بت پرستی کے خلاف تھے۔ مسلمان ان تین سو ساٹھ بتوں کا مذاق اڑاتے تھے جو کعبہ کے اندر اور باہر رکھے ہوئے تھے۔ 
طلوع اسلام سے پہلے عرب ایک خدا کو مانتے تھے اور پوجتے ان بتوں کو تھے۔ انہیں وہ دیویاں اور دیوتا کہتے اور انہیں اللہ کے بیٹے اور بیٹیاں مانتے تھے ۔ وہ ہر بات میں اللہ کی قسم کھاتے تھے ۔ 
قریش نے دیکھا کہ محمد کے جس دین کا انہوں نے مذاق اڑایا تھا ۔
وہ مقبول ہوتا جارہا ہے تو انہوں نے آپ کی تبلیغی سرگرمیوں کے خلاف محاذ بنالیا اور مسلمانوں کا جینا حرام کردیا۔ خالد کو یاد آرہا تھا کہ اس نے اللہ کے رسول کو گلیوں اور بازاروں میں لوگوں کو اکٹھا کرکے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے اور بتاتے دیکھا تھا کہ بت انہیں نہ فائدہ دے سکتے ہیں نہ نقصان۔ عبادت کے لائق صرف اللہ ہے جو وحدہ لاشریک ہے ۔
 
رسول خدا کی مخالفت کے قائد قریش کے چار سردار تھے ۔ ایک تو خالد کا باپ الولید تھا ۔ دوسرا نبی کریم کا اپنا چچا ابو لہب تھا، تیسرا ابو سفیان اور چوتھا ابوالحکم تھا جو خالد کا چچا زاد بھائی تھا۔ مسلمانوں پر سب سے زیادہ ظلم و تشدد اسی شخص نے کیا تھا۔ وہ جہالت کی حد تک کینہ پرور اور مسلم کش تھا ۔ اسی لیے مسلمان اسے ابو جہل کہنے لگے تھے ۔ یہ نام اتنا عام ہوا کہ لوگ جیسے اس کا اصل نام بھول ہی گئے ہوں۔ تاریخ نے بھی اس پستہ قد، بھینگے اور لوہے کی طرح مضبوط آدمی کو ابوجہل کے نام سے ہی یاد رکھا ہے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط