مشہور مورخ ابن ہشام نے لکھا ہے کہ رسول کریم نے خود رکانہ پہلوان کو کشتی کے لیے للکارا تھا لیکن دوسرے مورخ ابن الاثیر نے جو شہادت پیش کی ہے وہ صحیح ہے کہ رکانہ نے رسول خدا کو کشتی کے لیے للکارا اور اس نے کہا تھا :
”میرے بھائی کے بیٹے !تم بڑے دل اور بڑی جرأت والے آدمی ہو ۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم جھوٹ بولنے سے نفرت کرتے ہو لیکن مرد کی جرأت اور صداقت کا پتہ اکھاڑے میں چلتا ہے ۔
آؤ میرے مقابلے میں اکھاڑے میں اترو۔ اگر مجھے گرالو تو میں تمہیں اللہ کا بھیجا ہوا نبی مان لوں گا ۔ اللہ کی قسم، تمہارا مذہب قبول کرلوں گا۔ “
”لیکن یہ ایک بھتیجے اور چچا کی کشتی نہیں ہوگی “…رسول خدا نے رکانہ کی للکار کے جواب میں کہا…”یہ ایک بت پرست اور سچے دین کے ایک پیغمبر کی لڑائی ہوگی ۔
(جاری ہے)
تو ہار گیا تو اپنا وعدہ نہ بھول جانا“
مکہ میں یہ خبر صحرا کی آندھی کی طرح پھیل گئی کہ رکانہ پہلوان اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کشتی ہوگی اور جوہار جائے گا وہ جیتنے والے کا مذہب قبول کرلے گا ۔
قریش کا بچہ بچہ، مرد و زن اور یہودی ہجوم کرکے آگئے ۔ مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔ وہ تلواروں اور برچھیوں سے مسلح ہوکر آئے کیونکہ انہیں خطرہ محسوس ہورہا تھا کہ قریش کشتی کو بہانہ بناکر رسول خدا کو قتل کردیں گے ۔
عرب کا سب سے زیادہ طاقتور اور وحشی پہلوان رکانہ عبدیزید رسول کریم کے مقابلے میں اترا۔ اس نے رسول اللہ پر طنزیہ نگاہ ڈالی اور آپ پر پھبتی کسی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکمل خاموشی اور اطمینان سے رکانہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے رہے کہ وہ بے خبری میں کوئی داؤ نہ کھیل جائے ۔ رکانہ آپ کے ارد گرد یوں گھوما جیسے شیر اپنے شکار کے ارد گرد گھوم گیا ہو اور اب اسے کھاجائے گا ہجوم رسول اکرم کا مذاق اڑارہا تھا مسلمان خاموش تھے وہ دل ہی دل میں اللہ کو یاد کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی تلواروں کے دستوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ۔
پھر نہ جانے کیا ہوا ؟رسول اکرم نے کیا داؤ کھیلا؟ اب الاثیر لکھتا ہے کہ آپ نے رکانہ کو اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا ۔ رکانہ زخمی شیر کی طرح اٹھا اور غرا کر آپ پر حملہ آور ہوا ۔ آپ نے پھر وہی داؤ کھیلا اور اسے پٹخ دیا۔ وہ اٹھا تو آپ نے اسے تیسری بار پٹخا۔ بھاری بھرکم جسم تین بار پٹخا گیا تو کشتی جاری رکھنے کے قابل نہ رہا۔ رکانہ سر جھکاکر اکھاڑے سے نکل گیا ۔
ہجوم پر سناٹا طاری ہوگیا۔ اب مسلمان ننگی تلواریں اور برچھیاں ہوا میں لہرا لہرا اور اچھال اچھال کر نعرے لگارہے تھے۔
”چچا رکانہ!“…رسول اللہ نے للکار کر کہا …”اپنا وعدہ پورا کرو اور یہیں اعلان کر کہ آج سے تو مسلمان ہے “
رکانہ نے قبول اسلام سے صاف انکار کردیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
”یہ طاقت جسمانی نہیں تھی “…خالد نے نخلستان میں لیٹے لیٹے اپنے آپ سے کہا …”رکانہ کو یوں تین بار پٹخنا تو دور کی بات ہے ۔
اسے کوئی پچھاڑ بھی نہیں سکا تھا ۔ “
رسول اکرمﷺ کا تصور خالد کے ذہن میں نکھر آیا ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی طرح جانتا تھا لیکن اب وہ محسوس کر رہا تھا جیسے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی اور تھے جنہیں وہ بچپن سے جانتا تھا ۔ اس کے بعد آپ نے جو روپ اختیار کیا تھا اس میں خالد آپ کو نہیں پہچانتا تھا ۔ نبوت کے دعوے کے بعد خالد کی آپ کے ساتھ بول چال بند ہوگئی تھی ۔
وہ آپ کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنا چاہتا تھا لیکن وہ رکانہ کی طرح پہلوان نہیں تھا۔ وہ میدان جنگ میں لڑنے والا اور لڑنے والوں کی قیادت کرنے والا جنگجو تھا لیکن اس وقت مسلمان فوج کی صورت میں لڑنے کے قابل نہیں تھے ۔
جب مسلمان فوج کی صورت میں لڑنے کے قابل ہوئے اور قریش کے ساتھ ان کا پہلا معرکہ ہوا اس وقت خالد کے لیے ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ وہ اس معرکے میں شامل نہیں ہوسکا تھا ۔
اس کا اسے بہت افسوس تھا یہ معرکہ بدر کا تھا جس میں تین سو تیرہ مجاہدین اسلام نے ایک ہزار قریش کو شکست دی تھی۔خالد دانت پیستا رہ گیا تھا لیکن اس روز جب وہ ایک نخلستان میں لیٹا ہوا تھا ، اسے خیال آیا کہ تین سو تیرہ نے ایک ہزار کو کس طرح شکست دے دی تھی۔ اس نے شکست کھاکر آنے والے قریش سے پوچھا تھا کہ مسلمانوں میں وہ کون سی خوبی تھی جس نے انہیں فتح یاب کیا تھا ۔
خالد اٹھ بیٹھا اور انگلی سے ریت پر بدر کے میدان کے خدوخال بناکر قریش اور مسلمانوں کی پوزیشنیں اورمعرکے کے دوران دونوں کی چالوں کی لکیریں بنانے لگا ۔ باپ نے اسے فن حرب و ضرب کا ماہر بنادیا تھا ۔ بچپن میں اسے گھوڑا سواری سکھائی۔ لڑکپن میں اسے اکھڑ اور منہ زور گھوڑوں کو قابو میں لانے کے قابل بنایا ۔نوجوانی میں وہ شہسوار بن چکا تھا۔
شتر سواری میں بھی وہ ماہر تھا ۔ اس کا باپ ہی اس کا استاد تھا ۔ اس نے خالد کو صرف سپاہی نہیں بلکہ سالار بنایا تھا۔ خالد کو جنگ و جدل اتنی اچھی لگی کہ وہ لڑنے اور مرنے کے طریقوں پر غور کرنے لگا اور جوانی میں فوج کی قیادت کے قابل ہوگیا تھا۔
اسے بدر کی لڑائی میں شامل نہ ہوسکنے کا افسوس تھا اور وہ انتقام کے طریقے سوچتا رہتا تھا لیکن اب اس کی سوچوں کا دھارا کسی اور طرف چل پڑا تھا مکہ سے روانگی سے کچھ دن پہلے سے وہ اس سوچ میں کھوگیا تھا کہ رسول اکرم نے رکانہ پہلوان کو تین بار پٹخا تھا اور بدر میں آپ نے محض تین سو تیرہ مجاہدین سے ایک ہزار کو شکست دی تھی ۔
یہ کوئی اور ہی قوت تھی لیکن بدر کے معرکے کے بعد اس کے دل میں مسلمانوں کے خلاف انتقام کی آگ سلگ رہی تھی ۔
مسلمان معرکہ بدر میں قریش کے بہت سے آدمیوں کو قیدی بنا کر لے گئے تھے۔ قریش کے سرداروں کے لیے تو یہ صدمہ تھا ہی اس کا بہت برا اثر خالد نے قبول کیا تھا۔ اسے یاد تھا کہ جب بدر کا معرکہ لڑا جارہا تھا تو مکہ میں کوئی خبر نہیں پہنچ رہی تھی کہ معرکے کا انجام کیا ہوا مکہ کے لوگ بدر کی سمت دیکھتے رہتے تھے کہ ادھر سے کوئی سوار دوڑا آئے گا اور فتح کی خبر سنائے گا۔
آخر ایک روز ایک شتر سوار آتا نظر آیا ۔ لوگ اس کی طرف دوڑپڑے۔ سوار نے عرب کے رواج کے مطابق اپنا کرتہ پھاڑ دیا تھا اور وہ روتا آرہا تھا۔ بری خبر لانے والے قاصد ایسے ہی کیا کرتے تھے ۔ وہ جب لوگوں کے درمیان پہنچا تو اس نے روتے ہوئے بتایا کہ اہل قریش کو بہت بری شکست ہوئی ہے جن کے عزیز رشتے دار لڑنے گئے تھے وہ ایک دوسرے سے آگے بڑھ بڑھ کر انکے متعلق پوچھتے تھے کہ وہ زندہ ہیں، زخمی ہیں یا مارے گئے ہیں شکست خوردہ قریش پیچھے آرہے تھے۔
مارے جانے والوں میں سترہ افراد خالد کے قبیلے بنو مخزوم کے تھے اور ان سب کے ساتھ خالد کا خون کا بڑا قریبی رشتہ تھا۔ ابو جہل بھی مارا گیا تھا۔ خالد کا بھائی جس کا نام ولید تھا جنگی قیدی ہوگیا تھا۔
ابو سفیان جو قریش کے سرداروں کا سردار تھا اور اس کی بیوی ہند بھی موجود تھے۔
”کچھ میرے باپ اور میرے چچا کے متعلق بتا اے قاصد!“ہُند نے پوچھا ۔
”تمہارا باپ عتبہ علی اور حمزہ کے ہاتھوں مارا گیا ہے “…قاصد نے کہا …”اور تمہارے چچا شیبہ کو اکیلے حمزہ نے قتل کیا ہے اور تمہارا بیٹا حنظلہ علی کے ہاتھوں مارا گیا ہے ۔ “
ابو سفیان کی بیوی ہُند نے پہلے تو علی اور حمزہ کو بلند آواز سے گالیاں دیں پھر بولی…”اللہ کی قسم، میں اپنے باپ، اپنے چچا اور اپنے بیٹے کے خون کا بدلہ لوں گی “
ابو سفیان پر خاموشی طاری تھی ۔
خالد کا خون کھول رہا تھا ۔
قریش کے ستر آدمی مارے گئے اور جو جنگی قیدی ہوئے ان کی تعداد بھی اتنی ہی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔