Episode 9 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah
قسط نمبر 9 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ
قریش نے جنگ کی ابتدا اس طرح کی کہ ان کی صفوں سے ایک شخص ابو عامر فاسق آگے ہوکر مجاہدین کے قریب چلا گیا ۔ اس کے پیچھے قریش کے غلاموں کی کچھ تعداد بھی تھی۔ ابو عامر مدینہ کا رہنے والا تھا ۔ وہ قبیلہ اوس کا سردار تھا ۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ گئے تو ابو عامر نے قسم کھالی تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور تمام مسلمانوں کو مدینہ سے نکال کر دم لے گا۔
اس پر ایک بڑی ہی حسین یہودن کا اور یہودیوں کے مال و دولت کا طلسم طاری تھا۔ یہودیوں کی اسلام دشمن کارروائیاں زمیں دوز ہوتی تھیں۔ بظاہر انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ دوستی اور فرمانبرداری کا معاہدہ کر رکھا تھا۔ ابو عامر انہی کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنا ہوا تھا لیکن ان یہودیوں نے اسے قریش کا دوست بنارکھا تھا ۔(جاری ہے)
اب مجاہدین قریش کے خلاف لڑنے کے لیے مدینے سے نکلے تو ابو عامر قریش کے پاس چلا گیا۔
اس کے قبیلہ اوس کے بہت سے آدمی رسول کریم کے دست مبارک پر اسلام قبول کرچکے تھے اور وہ قریش کے مقابلے میں صف آرا تھے۔ ابو عامر آگے چلا گیا اور مجاہدین سے بلند آواز میں مخاطب ہوا، رسول کریم نے اسے فاسق کا خطاب دیا تھا ۔”قبیلہ اوس کے غیر ت مند بہادرو!“…ابو عامر فاسق نے کہا …”تم مجھے یقینا پہچانتے ہو۔ میں کون ہوں۔ میری بات غور سے سن لو اور …“
وہ اپنی للکار پوری نہ کرپایا تھا کہ مجاہدین اسلام کی صف سے قبیلہ اوس کے ایک مجاہد کی آواز گرجی …”اوہ فاسق، بدکار! ہم تیرے نام پر تھوک چکے ہیں “
خالد کو وہ وقت یاد آرہا تھا ۔
مجاہدین اسلام کی صف سے ابو عامر اور اس کے ساتھ گئے ہوئے غلاموں پر پتھروں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی تھی ۔ مورخ لکھتے ہیں کہ پتھر برسانے والے قبیلہ اوس کے مجاہدین تھے۔ ابو عامر اور غلام جو مجاہدین کے پتھروں کی زد میں تھے ۔ ایک ایک دو دو پتھر کھا کر پیچھے بھاگ آئے ۔یہودی مدینہ میں بیٹھے لڑائی کی خبروں کا انتظار کر رہے تھے ۔ جس یہودن کے طلسم میں ابو عامر گرفتار تھا۔
وہ اپنی کامیابی کی خبر سننے کے لیے بے تاب تھی اسے ابھی معلوم نہ تھا کہ اس کے حسن و جوانی کے طلسم کو مسلمانوں نے سنگسار کردیا ہے ۔ (اس سلسلے کی آنے والی اقساط میں یہودیوں اور قریش کی عورتوں کی زمیں دوز کارروائیوں کی تفصیلی کہانیاں سنائی جائیں گی)ابو عامر فاسق کے اس واقعہ سے پہلے وہ عورتیں جو قریش کے لشکر کے ساتھ گئی تھیں لشکر کے درمیان کھڑی ہوکر سریلی آوازوں میں ایسے گیت گاتی رہی تھیں جن میں بدر میں مارے جانے والے قریش کا ذکر ایسے الفاظ اور ایسی طرز میں کیا گیا تھا کہ سننے والوں کا خون کھولتا تھا ۔
ان عورتوں میں سے ایک دو نے جوشیلی تقریر کی صورت میں بھی سننے والوں کا خون گرمایا تھا ۔عورتوں کو پیچھے چلے جانے کا حکم ملا تو ابو سفیان کی بیوی ہند نے ایک گھوڑے پر سوار ہوکر ایک گیت گانا شروع کردیا۔ اس کی آواز بلند تھی۔ اور آواز میں سوز بھی تھا۔ تاریخ لکھنے والوں نے اس کے گیت کے پورے اشعار قلم بند نہیں کیے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ یہ گیت فحش تھا جس میں مرد اور عورت کے درپردہ تعلقات کا ذکر تھا ۔
اشعار جو تاریخ میں آئے ہیں وہ اس طرح ہیں۔ ان میں جس عبدالدار کا نام آتا ہے ، یہ بنو عبدالدار ہے ۔ بنو امیہ اسی کی ایک شاخ تھی ۔ بنو عبدالدار قریش کا بہت اونچا خاندان تھا :عبدالدار کے سپوتو!
ہمارے گھرانوں کے پاسبانو!
ہم رات کی بیٹیاں ہیں
ہم تکیوں کے درمیان حرکت کیا کرتے ہیں
اس حرکت میں لطف اور لذت ہوتی ہے
تم دشمن پر چڑھ دوڑے تو ہم تمہیں اپنے سینوں سے لگالیں گی
تم بھاگ آئے تو ہم تمہارے قریب نہیں آئیں گی
۔
۔۔۔۔۔۔اس کے بعد ابو عامر فاسق پر مجاہدین اسلام کی طرف سے سنگباری ہوئی اور اس کے فوراً بعد قریش نے مجاہدین پر تیر پھینکنے شروع کردیئے۔ مجاہدین نے اس کے جواب میں تیر برسائے ۔ خالد اپنے پہلو والے مسلمانوں کے پہلو پر حملہ کرنے کے لیے اپنے ایک سو سواروں کے ساتھ تیزی سے بڑھا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ بلندی پر تیر انداز چھپے بیٹھے ہیں۔ اس کے سوار بے دھڑک چلے آ رہے تھے۔
راستہ ذرا تنگ تھا ۔ سواروں کو آگے پیچھے ہونا پڑا۔خالد سوچ سمجھ کر اپنے سوار دستے کو اس پہلو پر لایا تھا ۔ اپنے باپ کی تربیت کے مطابق اسے بڑی خود اعتمادی سے توقع تھی کہ وہ ہلہ بول کر مسلمانوں کو اس پوزیشن میں لے آئے گا کہ وہ پسپا ہوجائیں گے اور اگر جم کر نہ لڑے تو قریش کے گھوڑوں تلے کچلے جائیں گے مگر مسلمانوں کے پہلو سے اس کے سوار ابھی دور ہی تھے کہ اوپر سے تیر اندازوں نے اس کے اگلے سواروں کو نہ آگے جانے کے قابل چھوڑانہ وہ پیچھے ہٹنے کے قابل رہے۔
ایک ایک سوار کئی کئی تیر کھاکر گرا اور جن گھوڑوں کو تیر لگے انہوں کے خالد کے سوار دستے کے لیے قیامت برپا کردی۔ پیچھے والے سواروں نے گھوڑے موڑے اور پسپا ہوگئے۔ادھر قریش کی عورتوں نے دف اور ڈھولک کی تھاپ پر دہی گیت گانا شروع کردیا جو ہُند نے اکیلے گایا تھا …”عبدالدار کے سپوتو! ہم رات کی بیٹیاں ہیں، ہم تم تکیوں کے درمیان…“
مورخ واقدی لکھتا ہے کہ عربی جنگجوؤں کے اس وقت کے رواج کے مطابق ایک ایک جنگجو کے لڑنے کا مرحلہ آیا۔
سب سے پہلے قریش کے پرچم بردار طلحہ بن ابو طلحہ نے آگے جاکر مجاہدین اسلام کو للکارا کہ اس کے مقابلے کے لیے کسی کو آگے بھیجو۔”آمیرے دین کے دشمن!“…حضرت علی نے تند ہوا کے جھونکے کی طرح آگے آکر کہا …”میں آتا ہوں تیرے مقابلے کے لیے “
طلحہ اپنے قبیلے کا پرچم تھامے، تلوار لہراتے ہوئے ، بپھرا ہوا آیا مگر اس کا وار ہوا کو چیرتا ہوا گزر گیا۔
وہ ابھی سنبھل ہی رہا تھا کہ حضرت علی کی تلوار نے اسے ایسا گہرا زخم لگایا کہ پہلے اس کا پرچم گرا پھر وہ خود گرا۔ قریش کا ایک آدمی دوڑا آیا اور پرچم اٹھا کر پیچھے چلا گیا ۔ علی اسے بھی گرا سکتے تھے مگر انفرادی مقابلوں میں یہ روا نہ تھا ۔طلحہ کو اٹھا کر پیچھے لے آئے۔ اس کے خاندان کا ایک اور آدمی آگے بڑھا۔
”میں انتقام لینے کا پابند ہوں “…وہ للکار کے آگے گیا …”علی! آ میر تلوار کی کاٹ دیکھ “
حضرت علی خاموشی سے اس کے مقابلے میں آگئے۔
دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک چکر کاٹا پھر ان کی تلواریں اور ڈھالیں ٹکرائیں اور اس کے بعد سب نے دیکھا کہ حضرت علی کی تلوار سے خون ٹپک رہا تھا اور ان کا مدمقابل زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا ۔پھر قریش کے متعدد آدمی بار ی باری للکارتے ہوئے آگے بڑھے اور مجاہدین کے مقابلے میں مرتے گئے ۔ قریش کا سالار اعلیٰ ابو سفیان اپنے آدمیوں کو گرتا دیکھ کر غصے سے باؤلا ہوگیا۔
جنگی دستور کے مطابق اسے انفرادی مقابلے کے لیے نہیں اترنا چاہیے تھا کیونکہ وہ سالار تھا ۔ اس کے مارے جانے سے اس کی فوج میں ابتری پھیل سکتی تھی لیکن وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا۔ وہ گھوڑے پر سوار تھا ۔ اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور للکارتا ہوا آگے چلا گیا ۔اس کی بیوی ہُند نے اسے جاتے دیکھا تو اپنے اونٹ پر سوار ہوکر آگے چلی گئی اور بڑی بلند آواز سے وہی گیت گانے لگی جس کے اشعار یہ بھی تھے کہ تم بھاگے آئے تو ہم تمہیں اپنے قریب نہیں آنے دیں گی ۔
ابو سفیان گھوڑے پر سوار تھا لیکن اس کے مقابلے کے لیے جو مسلمان آگے آیا وہ پیادہ تھا ۔ تاریخ اسے حنظلہ بن ابو عامر کے نام سے یاد کرتی ہے ۔ ابو سفیان کے ہاتھ میں لمبی برچھی تھی ۔ کسی کو بھی توقع نہیں تھی کہ تلوار والا پیادہ برچھی والے گھوڑ سوار سے زندہ بچ جائے گا ۔ ابو سفیان کا گھوڑا حنظلہ پر سرپٹ دوڑتا آیا۔ ابو سفیان نے برچھی تول کر پھر تاک کر ماردی لیکن حنظلہ پھرتی سے ایک طرف ہوگیا۔
اس طرح تین مرتبہ ہوا۔ تیسری مرتبہ ابو سفیان کا گھوڑا نکل گیا تو حنظلہ اس کے پیچھے دوڑ پڑا۔ گھوڑا رک کر پیچھے کو مڑا تو حنظلہ اس تک پہنچ چکا تھا ۔ ابو سفیان اسے دیکھ نہ سکا۔ حنظلہ نے گھوڑے کی اگلی ٹانگوں پر ایسا زور دار وار کیا کہ گھوڑا گر پڑا۔ ابو سفیان دوسری طرف گرا۔ حنظلہ اس پر حملے کرنے کو آگے بڑھا تو ابوسفیان گرے ہوئے گھوڑے کے ارد گرد دوڑ دوڑ کر اپنے آپ کو بچانے لگا اور اس کے ساتھ ہی اس نے قریش کو مدد کے لیے بلایا۔
قریش کا ایک پیادہ دوڑا آیا۔ مسلمان اس غلط فہمی میں رہے کہ یہ آدمی ابو سفیان کو اپنے ساتھ لے جائے گا لیکن اس نے بے اصولی کا مظاہرہ کیا۔ پیچھے سے حنظلہ پر وار کرکے اسے شہید کردیا۔ ابو سفیان اپنی صفوں میں بھاگ گیا۔
آخری مقابلے کے لیے قریش کی طرف سے عبدالرحمن بن ابو بکر آیا۔ مورخ واقدی نے یہ واقعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ عبدالرحمن بن ابوبکر کی للکار پر اس کے والد حضرت ابوبکر جو اسلام قبول کرکے رسول اللہ کے ساتھ تھے، تلوار نکال کر اپنے جوان بیٹے کے مقابلے کے لیے نکلے۔
”آگے آ مسلمان باپ کے کافر فرزند!“حضرت ابو بکر نے للکار کر کہا۔
رسول کریم نے دیکھا کہ باپ بیٹا مقابلے پر اتر آئے ہیں تو آپ نے دوڑ کر حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کو روک لیا …”تلوار نیام میں ڈالیں ابوبکر!“…رسول کریم نے فرمایا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پیچھے لے گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah
قسط نمبر 1
قسط نمبر 2
قسط نمبر 3
قسط نمبر 4
قسط نمبر 5
قسط نمبر 6
قسط نمبر 7
قسط نمبر 8
قسط نمبر 9
قسط نمبر 10
قسط نمبر 11
قسط نمبر 12
قسط نمبر 13
قسط نمبر 14
قسط نمبر 15
قسط نمبر 16
قسط نمبر 17
قسط نمبر 18
قسط نمبر 19
قسط نمبر 20
قسط نمبر 21
قسط نمبر 22
قسط نمبر 23
قسط نمبر 24
قسط نمبر 25
قسط نمبر 26
قسط نمبر 27
قسط نمبر 28
قسط نمبر 29
قسط نمبر 30
قسط نمبر 31
قسط نمبر 32
قسط نمبر 33
قسط نمبر 34
قسط نمبر 35
قسط نمبر 36
قسط نمبر 37
قسط نمبر 38
قسط نمبر 39
قسط نمبر 40
قسط نمبر 41
قسط نمبر 42
قسط نمبر 43
قسط نمبر 44
قسط نمبر 45
قسط نمبر 46
قسط نمبر 47
قسط نمبر 48
قسط نمبر 49
قسط نمبر 50
قسط نمبر 51
قسط نمبر 52
قسط نمبر 53
قسط نمبر 54
قسط نمبر 55
قسط نمبر 56
قسط نمبر 57
قسط نمبر 58
قسط نمبر 59
قسط نمبر 60
قسط نمبر 61
قسط نمبر 62
قسط نمبر 63
قسط نمبر 64
قسط نمبر 65
قسط نمبر 66
قسط نمبر 67
قسط نمبر 68
قسط نمبر 69
قسط نمبر 70
قسط نمبر 71
قسط نمبر 72
قسط نمبر 73
قسط نمبر 74
قسط نمبر 75
قسط نمبر 76
قسط نمبر 77
قسط نمبر 78
قسط نمبر 79
قسط نمبر 80
قسط نمبر 81
قسط نمبر 82
قسط نمبر 83
قسط نمبر 84
قسط نمبر 85
قسط نمبر 86
قسط نمبر 87
قسط نمبر 88
قسط نمبر 89
قسط نمبر 90
قسط نمبر 91
قسط نمبر 92
قسط نمبر 93
قسط نمبر 94
قسط نمبر 95
قسط نمبر 96
قسط نمبر 97
قسط نمبر 98
قسط نمبر 99
قسط نمبر 100
قسط نمبر 101
قسط نمبر 102
قسط نمبر 103
قسط نمبر 104
قسط نمبر 105
قسط نمبر 106
قسط نمبر 107
قسط نمبر 108
قسط نمبر 109
قسط نمبر 110
قسط نمبر 111
قسط نمبر 112
قسط نمبر 113
قسط نمبر 114
قسط نمبر 115
قسط نمبر 116
قسط نمبر 117
قسط نمبر 118
قسط نمبر 119
قسط نمبر 120
قسط نمبر 121
قسط نمبر 122
قسط نمبر 123
قسط نمبر 124
قسط نمبر 125
قسط نمبر 126
قسط نمبر 127
قسط نمبر 128
قسط نمبر 129
قسط نمبر 130
قسط نمبر 131
قسط نمبر 132
قسط نمبر 133
قسط نمبر 134
آخری قسط
برف کا جہنم
Barf Ka Jahanum
رسیدی ٹکٹ
Raseedi Ticket
سرور شہید سے لالک جان تک
Sarwar Shaheed Se Lalak Jaan Tak
فکرِ اقبال
fikr e Iqbal
ہم کیسے رکھوالے ہیں
Hum Kaise Rakhwale Hain
بلال صاحب
Bilal Shaib
آیڈیل
Ideal
داستان حیات
Dastaan e Hiyat