اب بھر ابن قُمہٴ لڑتے ہوئے مسلمانوں کا حلقہ تو ڑکر رسول اکرم تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس وقت رسول اکرم کے پاس مصعب بن عمیر کھڑے تھے اور ام عمارہ اپنے قریب پڑے ہوئے دو تین زخمیوں کو پانی پلارہی تھیں۔ انہوں نے جب قریش کو ایک بار پھر حملے کے لیے آتے دیکھا تو زخمیوں سے ہٹ کر انہوں نے ایک زخمی کی تلوار اٹھالی اور قریش کے مقابلے میں ڈٹ گئیں۔
قریش کا سب سے پہلا سوار جوان کے قریب آیا، اس تک وہ نہیں پہنچ سکتی تھیں اس لیے انہوں نے تلوار سے اس کے گھوڑے پر ایسا وار کیا کہ گھوڑا گر پڑا۔ سوار گھوڑے کی دوسری طرف گرا۔ ام عمارہ نے گھوڑے کے اوپر سے کود کر قریش کے اس آدمی پر وار کیااور اسے زخمی کردیا۔ وہ اٹھا اور بھاگ گیا ۔
مصعب بن عمیر کی قدبُت اور شکل و صورت میں رسول کریم کے ساتھ نمایاں مشابہت تھی ۔
(جاری ہے)
ابن قمہ مصعب کو رسول خدا سمجھ کر ان پر حملہ آور ہوا۔ مصعب تیار تھے ۔ انہوں نے ابن قُمہٴ کا مقابلہ کیا۔ کچھ دیر دونوں میں تیغ زنی ہوئی لیکن ابن قُمہٴ کا ایک وارمصعب پر ایسا بھرپور پڑا کہ وہ گرے اور شہید ہوگئے۔ ام عمارہ نے مصعب کو گرتے دیکھا ۔ غیض و غضب سے ابن قُمہٴ پر تلوار کا وار کیا لیکن ابن قمہ نے زرہ پہن رکھی تھی اور وار کرنے والی ایک عورت تھی اس لیے ابن قومی کو کوئی زخم نہ آیا۔
ابن قمہ نے ام عمارہ کے کندھے پر بھرپور وار کیا جس سے وہ شدید زخمی ہوکر گر پڑیں۔
اس وقت رسول کریم جو قریب ہی تھے ابن قُمہٴ کی طرف بڑھے لیکن ابن قمہ نے پینترا بدل کر آپ پر ایسا وار کیا جو آپ کے خود پر پڑا۔ تلوار خود سے پھسل کر آپ کے کندھے پر لگی۔ آپ کے بالکل پیچھے ایک گڑھا تھا ۔ آپ زخم کھاکر پیچھے ہٹے اور گڑھے میں گر پڑے۔ ابن قُمہٴ نے پیچھے ہٹ کر گلا پھاڑ کر کہا …”میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیا ہے “…وہ یہی نعرے لگاتا میدان جنگ میں گھوم گیا۔
اس کی آواز قریش نے بھی سنی اور مسلمانوں نے بھی ۔
قریش کو تو خوش ہونا ہی تھا، مسلمانوں پر اس کا بڑا تباہ کن اثرہوا۔ وہ حوصلہ ہار بیٹھے اور احد کی پہاڑی کی طرف بھاگنے لگی۔
”اپنے نبی کے شیدائیو!“…بھاگتے ہوئے مسلمانوں کو ایک للکار سنائی دی …”اگر نبی نہ رہے تو لعنت ہے ہم پر کہ ہم بھی زندہ رہیں۔ تم کیسے شیدائی ہو کہ نبی کریم کی شہادت کے ساتھ ہی تم موت سے ڈر کر بھاگ رہے ہو “
مسلمان رک گئے ۔
اس للکار نے انہیں آگ بگولہ کردیا۔ وہ پیادہ تھے لیکن انہوں نے قریش کے گھوڑ سواروں پر حملہ کردیا۔ یہ حملہ خالد اور عکرمہ کے گھوڑ سواروں پر ہوا تھا ۔
خالد کو آج یاد آرہا تھا کہ اس کے ہاتھوں کتنے ہی مسلمانوں کا خون بہہ گیا تھا۔ ان میں ایک رفاعہ بن دقش بھی تھے۔ خالد کے دل میں درد کی ایک ٹیس سی اٹھی۔ اسے کچھ ایسا احساس ہونے لگا جیسے وہ بے مقصد خون بہاتا رہا ہے لیکن اس وقت وہ مسلمانوں کو اپنا بدترین دشمن سمجھتا تھا ۔
اب مسلمانوں کا دم ختم ٹوٹ چکا تھا ۔ پیادے گھوڑ سواروں کا مقابلہ کب تک کرتے ۔ وہ مجبور ہوکر پہاڑی کی طرف پسپا ہونے لگے۔ رسول اکرم بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک تنگ سی وادی کی طرف جارہے تھے ۔ جس طرح مسلمانوں نے مال غنیمت کے لالچ میں اپنا مورچہ چھوڑ دیا اور جنگ کا پانسہ اپنے خلاف پلٹ دیا تھا اسی طرح اب قریش کے آدمی مسلمانوں کی لاشوں پر اور تڑپتے ہوئے زخمیوں پر مال غنیمت اکٹھا کرنے کے لیے ٹوٹ پڑے۔
ان میں کچھ قریش رسول کریم کے تعاقب میں چلے گئے لیکن آپ کے ساتھیوں نے ان پر ایسی بے جگری سے ہلہ بولا کہ ان میں سے زیادہ تر قریش کو جان سے مارڈالا اور جو بچ گئے وہ بھاگ اٹھے۔ رسول اکرم ایک بلند جگہ پہنچ گئے۔ آپ نے وہاں سے صورت حال کا جائزہ لیا۔ آپ کے تیس صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے سولہ شہید ہوچکے تھے جو چودہ زندہ تھے ان میں زیادہ تر زخمی تھے۔
آپ نے بلندی سے میدان جنگ کا جائزہ لیا۔ آپ کو کوئی مسلمان نظر نہیں آرہا تھا ۔ مسلمان یہ سمجھ کر کہ رسول اکرم شہید ہوچکے ہیں سخت مایوسی کے عالم میں ادھر ادھر بکھر گئے ۔ کچھ واپس مدینہ چلے گئے ۔ کچھ قریش کے انتقام کے ڈر سے پہاڑی کے اندر جاچھپے۔
یہاں رسول خدا کو اپنے زخموں کی طرف توجہ دینے کی فرصت ملی۔ آپ کی بیٹی حضرت فاطمہ جو آپ کو ہر طرف تلاش کرکے تھک چکی تھیں۔
آپ کے پاس آپہنچیں۔ قریب ہی ایک چشمہ تھا ۔ حضرت علی وہاں سے کسی چیز میں پانی لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پلایا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے زخم دھونے لگیں۔ وہ سسک سسک کر رورہی تھیں۔
######
خالد کو آج یاد آرہا تھا کہ رسول کریم کی شہادت کی خبر نے اسے روحانی سا اطمینان دیا تھا لیکن ایک للکار نے اسے چونکا دیا۔ وادی میں اس للکار کی گونج بڑی دور تک سنائی دے رہی تھی ۔
کوئی بڑی ہی بلند آواز میں کہہ رہا تھا ۔ …”مسلمانو!خوشیاں مناؤ۔ ہمارے نبی زندہ اور سلامت ہیں“…اس للکار پر خالد کو ہنسی بھی آئی تھی اور افسوس بھی ہوا تھا۔ اس نے اپنے آپ سے کہا تھا کہ کوئی مسلمان پاگل ہوگیا ہے ۔
ہوا یوں تھا کہ جس طرح مسلمان اکا دکا ادھر ادھر بکھر گئے یا چھپ گئے تھے۔ اسی طرح کعب بن مالک نام کا ایک مسلمان ادھر ادھر گھومتا پہاڑی کے اس مقام کی طرف چلا گیا جہاں رسول اکرم سستارہے تھے۔
اس نے نبی کریم کو دیکھا تو اس نے جذبات کی شدت سے نعرہ لگایا …”ہمارے نبی زندہ ہیں“…تمام مسلمان جو اکیلے اکیلے یا دو دو چار چار کی ٹولیوں میں ادھر ادھر بکھر گئے تھے اس آواز پر دوڑتے آئے۔ حضرت عمر بھی اس آواز پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچے تھے ۔
اس سے پہلے ابو سفیان میدان جنگ میں پڑی ہوئی ہر ایک لاش کو دیکھتا پھر رہا تھا۔
وہ رسول کریم کا جسد مبارک تلاش کر رہا تھا ۔ اب اسے قریش کا جو بھی آدمی ملتا اس سے پوچھتا، تم نے محمد کی لاش نہیں دیکھی؟اسی تلاش میں خالد اس کے سامنے آگیا۔
”خالد!“…ابوسفیان نے کہا …”تم نے محمد کی لاش نہیں دیکھی؟“
”نہیں“خالد نے جواب دیا اور ابو سفیان کی طرف ذرا جھک کر پوچھا …”کیا تمہیں یقین ہے کہ محمد قتل ہوچکا ہے ؟“
”ہاں“…ابو سفیان نے جواب دیا …”وہ ہم سے بچ کر کہاں جاسکتا تھا ؟…کیا تمہیں شک ہے ؟“
”ہاں ابو سفیان!“…خالد نے جواب دیا …”میں اس وقت تک شک میں رہتا ہوں جب تک کہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں۔
محمد اتنی آسانی سے قتل ہوجانے والا شخص نہیں۔ “
”معلوم ہوتا ہے تم پر محمد کا طلسم طاری ہے “…ابو سفیا ن نے تکبر کے لہجے میں کہا …”کیا محمد ہم میں سے نہیں تھا۔ کیا تم اسے نہیں جانتے تھے، جو شخص اتنی قتل و غارت کا ذمہ دار ہے ایک روز اسے بھی قتل ہونا ہے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل ہوچکا ہے ۔ جاؤ اور دیکھو۔ اس کی لاش کو پہچانو۔
ہم اس کا سرکاٹ کر مکہ لے جائیں گے “
عین اس وقت پہاڑی میں سے کعب بن مالک کی للکار گونجی…”مسلمانو! خوشیاں مناؤ۔ ہمارے نبی زندہ سلامت ہیں۔“…پھر یہ آواز رعد کی کڑک کی طرح گرجتی، کڑکتی وادی اور میدان میں گھومتی پھرتی رہی۔
”سن لیا ابو سفیان!“…خالد نے کہا …”اب میں تمہیں بتاتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں۔ میں اس پر حملہ کرنے جارہا ہوں لیکن میں تمہیں یقین نہیں دلا سکتا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرآؤں گا “
کچھ دیر پہلے خالد نے رسول اکریم اور ان کے ساتھیوں کو پہاڑی کے اندر جاتے دیکھا تھا لیکن وہ بہت دور تھا۔
خالد ہار ماننے والا اور اپنے ارادے کو ادھورا چھوڑنے والا آدمی نہیں تھا ۔ اس نے اپنے چند ایک سواروں کو ساتھ لیا اور پہاڑی کے اس مقام کی طرف بڑھنے لگا جدھر اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جاتے دیکھا تھا ۔
مشہور مورخ ابن ہشام کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اکرم نے جب خالد کو اپنے سواروں کے ساتھ اس گھاٹی پر چڑھتے دیکھا جہاں آپ تھے تو آپ کے منہ سے بے ساختہ دعا نکلی…”خدائے ذوالجلال!انہیں اس وقت وہیں کہیں روک لے “
خالد اپنے سواروں کے ساتھ گھاٹی چڑھتا جارہا تھا ۔
یہ ایک درہ سا تھا جو تنگ ہوتا چلا جارہا تھا ۔ گھوڑوں کو ایک قطار میں ہونا پڑا۔ رسول کریم زخموں سے چور پڑے تھے ۔ حضرت عمر نے جب خالد اور اس کے سواروں کو اوپر آتے دیکھا تو وہ تلوار نکال کر کچھ نیچے اترے ۔
”ولید کے بیٹے “…حضرت عمر نے للکارا…”اگر لڑائی لڑنا جانتے ہو تو اس درے کی تنگی کو دیکھو لو اس چڑھائی کو دیکھ لو۔ کیا تم اپنے سواروں کے ساتھ ہمارے ہاتھ سے بچ کر نکل جاؤگے ؟“
خالد لڑنے کے فن کو خوب سمجھتا تھا ۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ یہ جگہ گھوڑوں کو گھما پھرا کر لڑانے کے لیے موزوں نہیں بلکہ خطرناک ہے ۔ خالد نے خاموشی سے اپنا گھوڑا گھمایا اور اپنے سواروں کے ساتھ وہاں سے نیچے اتر آیا۔
######