Episode 19 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 19 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

اب جب کہ دو مسلمانوں کو نیلام کیا جارہا تھا اور خالد کو ایک آدمی نے بتایا تھا کہ ان مسلمانوں کو کس طرح دھوکے میں لایا گیا ہے اور اس آدمی نے یوحاوہ کا بھی نام لیا تو اس نے ارادہ کرلیا کہ وہ معلوم کرے گا یوحاوہ نے یہ جادو کس طرح چلایا تھا ۔ اسے اپنے قبیلے کا ایک سرکردہ آدمی مل گیا۔ اس سے اسے پتہ چلا کہ یہ مسلمان اہل قریش کے ہاتھ کس طرح آئے ہیں۔
تین چار سرکردہ یہودی یوحاوہ اور دو تین اور یہودیوں کو ساتھ لے کر شارجہ بن مغیث کے پاس چلے گئے۔ یہ قبیلہ تھا تو جنگجو لیکن اس پر مسلمانوں کا رعب کچھ اس طرح طاری ہوگیا تھا جیسے لوگ جادوگروں سے ڈرتے تھے ۔ اس قبیلے میں یہ مشہور ہوگیا تھا کہ رسول اکرم کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے ۔ یہودیوں نے اپنی زمین دوز کارروائیوں کے لیے اس قبیلے کو اس لیے منتخب کیا تھا کہ وہ جنگجو قبیلہ تھا ۔

(جاری ہے)

 
یہودی بڑی دانش مند قوم تھی ۔ انہوں نے سوچا کہ مسلمانوں کا جادو کا وہم اگر پھیل گیا تو دوسرے قبیلے بھی اس سے متاثر ہوں گے ۔ یہ یہودی اس قبیلے کے سردار شارجہ بن مغیث کے پاس گئے اور اس کا یہ وہم دور کرنے کے لیے کہ مسلمان جادوگر ہیں اسے بہت کچھ کہا لیکن شارجہ بن مغیث نے تسلیم نہ کیا۔ رات کو یہودیوں کے کہنے پر شارجہ نے ان مہمانوں کی ضیافت کا انتظام باہر کھلے آسمان تلے کیا۔
ان یہودیوں نے اپنے ہاتھوں اپنے میزبانوں کو شراب پلائی۔ شارجہ بن مغیث اور اس کے قبیلے کے چند ایک سرکردہ افراد کو جو شراب پلائی گئی اس میں یہودیوں نے کوئی سفوف ملادیا پھر یہودیوں نے اپنے جادو کے کچھ شعبدے دکھائے ۔ 
یوحاوہ نے اپنے حسن کا جادو چلایا۔ اس کا ذریعہ ایک رقص بھی تھا جس میں یہ یہودنیں نیم برہنہ تھیں۔ ناچتے ناچتے ان کے جسموں پر جو ادھورے سے لباس تھے وہ بھی سرک کر زمین پر جاپڑے تھے ۔
یہودے اپنے سازندے ساتھ لے گئے تھے ۔ 
اگلے روز جب شارجہ بن مغیث کی آنکھ کھلی تو اسے محسوس ہوا جسے وہ بڑے ہی حسین خواب سے جاگا ہو۔ اس کے خیالات بدلے ہوئے تھے کچھ دیر بعد پھر اپنے قبیلے کے دوسرے سرداروں کے ساتھ یہودیوں کے پاس بیٹھا ہوا تھا ۔ یہودنیں بھی وہاں موجود تھیں۔یوحاوہ کو دیکھ کر وہ بے قابو ہوگیا اس نے لپک کر یوحاوہ کا بازو پکڑا اور اسے کھینچ کر اپنے پاس بٹھالیا۔
 
”ضروری نہیں کہ دشمن کو میدان جنگ میں للکار کر اسے شکست دی جائے “…ایک یہودی نے کہا …”ہم مسلمانوں کو دوسرے طریقوں سے بھی ختم کرسکتے ہیں اس کا ایک طریقہ ہم تمہیں بتاتے ہیں “
خالد کو بتایا گیا کہ ان چھ مسلمانوں کو مدینے سے دھوکے سے لانے کا یہ طریقہ یہودیوں نے بتایا تھا اور شارجہ بن مغیث نے جو آدمی رسول کرم کے پاس بھیجے تھے ان میں ایک یہودی بھی تھا۔
خالد مسلمانوں کو اپنا بدترین دشمن سمجھتا تھا لیکن اسے یہ غیر جنگی طریقے اچھے نہیں لگتے تھے ۔ 
خالد اپنے گھر گیا اور اپنی ایک خادمہ سے کہا کہ وہ یوحاوہ یہودن کو بلالائے۔ یوحاوہ اتنی جلدی اس کے پاس آئی جیسے وہ اس کے بلاوے کے انتظار میں قریب ہی کہیں بیٹھی تھی ۔ 
”تم نے مسلمانوں کو کامیابی سے دھوکہ دیا ہے “…خالد نے یوحاوہ سے کہا …
”اور مغیث کے قبیلے کے لوگ تمہیں جادوگرنی کہنے لگے ہیں لیکن مجھے یہ طریقہ پسند نہیں آیا “
”میری بات غور سے سنو خالد!“…یوحاوہ اس کے قریب جابیٹھی اور اس کی ران پر ہاتھ رکھ کر بولی …”تم اپنے قبیلے کے نامور جنگجو ہو لیکن تم میں عقل کی کمی ہے ۔
دشمن کو مارنا ہے تلوار سے مارو، تیر سے مارو یا اسے تیکھی نظروں سے ہلاک کردو ۔ تیر اور تلوار چلائے بغیر دشمن کو کوئی مجھ جیسی عورت ہی مارسکتی ہے “
خالد یوحاوہ کے جسم کی تپش محسوس کر رہا تھا ۔ یوحاوہ اس کے اتنی قریب بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک بار یوحاوہ نے چہرہ خالد کی طرف موڑا تو اس کے روئی جیسے ملائم گال خالد کے گال سے جالگے۔ خالد نے اپنے جسم میں بڑی پرلطف حرارت کی لہر دوڑتی محسوس کی لیکن کسی خیال سے وہ ذرا پرے سرک گیا ۔
 
آج چار برس بعد وہ جب صحرا میں تنہا جارہا تھا وہ اپنے گال پر یوحاوہ کے رخسا کا لمس محسوس کر رہا تھا ۔ اس حد تک تو وہ خوش تھا کہ یہودی ان کے ساتھ تھے لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ یہودیوں کی دوستی میں جہاں مسلمانوں کی دشمنی ہے وہاں ان کے اپنے مفادات بھی ہیں البتہ اس نے یہ تسلیم کر لیا تھا کہ یوحاوہ اگر جادوگرنی نہیں تو اس کے سراپا میں جادو کا کوئی اثر ضرور ہے ۔
 
###
خالد کا گھوڑا مدینے کی طرف چلا جارہا تھا اس کے ذہن میں پھر خبیب بن عدی اور زید بن الدثنہ آگئے۔ لوگ ان کی بولیاں بڑھ چڑھ کر دے رہے تھے آخر سودا ہوگیا اور قریش کے دو آدمیوں نے انہیں بہت سے سونے کے عوض خرید لیا۔ یہ دونوں آدمی ان دو نوں صحابیوں کو ابو سفیان کے پاس لے گئے ۔ 
”ہم نے اپنے عقیدے سے ہٹ کر محمد کے پاس چلے جانے والے ان دو آدمیوں کو اس لیے خریدا ہے کہ ان اہل قریش کے خون کا انتقام لیں جو احد کے میدان میں مارے گئے تھے ۔
“…انہیں خریدنے والوں نے کہا …”ہم انہیں آپ کے حوالے کرتے ہیں ۔ آپ قریش کے سردار اور سالار ہیں “
”ہاں!“…ابوسفیان نے کہا …”مکہ کی زمین مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے ۔ ان دو مسلمانوں کا خون اپنی زمین کو پلادو۔ …لیکن مجھے یاد آگیا ہے کہ یہ مہینہ جو گزر رہا ہے ہمارے دیوتاؤں عزیٰ اور ہبل کا مقدس مہینہ ہے یہ مہینہ ختم ہولینے دو۔
اگلے دن انہیں کھلے میدان میں لے جاکر لکڑی کے کھمبوں کے ساتھ باندھ دینا اور مجھے بلالینا “
خالد نے جب ابوسفیان کا یہ حکم سنا تو وہ اس کے پاس گیا۔ 
”مجھے آپ کا یہ فیصلہ اچھا نہیں لگا ۔“…خالد نے ابو سفیان سے کہا …”ہم دگنی اور تگنی تعداد میں ہوتے ہوئے اپنی زمین کو مسلمانوں کا خون نہیں پلاسکے تو ہمیں حق حاصل نہیں کہ دو مسلمانوں کو دھوکے سے یہاں لاکر ان کا خون بہایا جائے …ابوسفیان! کیا آپ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو دھوکہ دینے والی تین چار عورتیں تھیں؟کیا آپ اپنے دشمن سے یہ کہلوانا چاہتے ہیں کہ اہل قریش اب عورتوں کی آڑ میں بیٹھ گئے ہیں ؟“
”خالد!ً“…ابو سفیان نے بارعب لہجے میں کہا …”خبیب اور زید رضی اللہ عنہما کو میں بھی اتنا ہی اپنے قریب سمجھا کرتا تھا جتنا تم انہیں اپنے قریب سمجھتے تھے تم اب بھی انہیں اپنے قریب سمجھ رہے ہو اور یہ بھول رہے ہو کہ اب یہ ہمارے دشمن ہیں۔
اگر تم انہیں آزاد کرانا چاہتے ہو تو لاؤ، اس سے دگنا سونا لے آؤ اور ان دونوں کو لے جاؤ “
”نہیں“…پردے کے پیچھے سے ایک گرجدار نسوانی آواز آئی ۔ یہ ابو سفیان کی بیوی ہند کی آواز تھی ۔ اس نے غصے سے لرزتی ہوئی آواز میں کہا …”حمزہ کا کلیجہ چبا کر بھی میرے سینے میں انتقام کی آگ سرد نہیں ہوئی۔ اگر ساری دنیا کا سونا میرے آگے لارکھوگے تو بھی میں ان دو مسلمانوں کو آزاد نہیں کروں گی “
”ابوسفیان!“…خالد نے کہا …”اگر میری بیوی میری بات کے درمیان یوں بولتی تو میں اس کی زبان کھینچ لیتا“
”تم اپنی بیوی کی زبان کھینچ سکتے ہو ؟“…ہند کی آواز آئی …”تمہارا باپ نہیں مارا گیا، تمہارا کوئی بیٹا نہیں مارا گیا اور تمہارا چچا بھی نہیں مارا گیا۔
تمہارا ایک بھائی قید ہوا تھا اور تم مسلمانوں کے پاس جاکر منہ مانگا فدیہ دے کر اپنے بھائی کو چھڑا لائے تھے ۔ آگ جو میرے سینے میں جل رہی ہے تم اس کی تپش سے ناآشنا ہو “
خالد نے ابو سفیان کی طرف دیکھا۔ ابو سفیان کے چہرے پر جہاں مردانہ جاہ و جلال اور ایک جنگجو سردار کا تاثر تھا وہاں ایک خاوند کی بے بسی کی جھلک بھی تھی ۔ 
”ہاں خالد!“…ابو سفیان نے کہا …”جس کے دل پر چوٹ پڑتی ہے اس کے خیالات تم سے بہت مختلف ہوتے ہیں کسی کو اپنا دشمن کہنا کچھ اور بات ہے لیکن اپنے دشمن کو اپنے کسی عزیز کا خون بخش دینا بڑی ہی ناممکن بات ہے ۔
تم کس کس کو قائل کرو گے کہ وہ ان دو مسلمانوں کی جاں بخشی کردے ۔ تم جاؤ خالد! ان دو مسلمانوں کو اپنے قبیلے کے رحم و کرم پر چھوڑ دو “
خالد خاموشی سے واپس چلا گیا ۔ 
######

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط