Episode 22 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 22 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

اتنے خوبصورت جانور آپس میں لڑتے اچھے نہیں لگتے۔ خالد انہیں دیکھتا رہا ۔ ایک تماشائی غزال نے خالد کے گھوڑے کو دیکھ لیا ۔ اس نے گردن تانی اور کھر زمین پر مارا۔ لڑنے والے غزال جہاں تھے وہیں ساکت ہوگئے اور پھر تمام غزال ایک طرف بھاگ اٹھے اور خالد کی نظروں سے اوجھل ہوگئے ۔ 
قریش کے سردار دو گروہوں میں بٹ گئے تھے ۔ ان کی آپس میں دشمنی پیدا نہیں ہوئی تھی لیکن پیار محبت اور اتحاد والی پہلی سی بات بھی نہیں رہی تھی ۔
خالد کو آج یاد آرہا تھا کہ سب ابو سفیان کی سردار اور سالاری کو تسلیم کرتے تھے لیکن کچھ کھچاؤ سا پیدا ہوگیا تھا۔ جب اتحاد کی ضرورت تھی ، اس وقت اہل قریش نفاق کے راستے پر چل پڑے تھے خالد کو یہ صورت حال سخت ناگوار گزری تھی ۔ 
”کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپس کا نفاق دشمن کو تقویت دیاکرتا ہے ؟“…خالد نے ایک روز ابو سفیان سے کہا تھا…”کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس نفاق کو اتفاق میں کس طرح بدلا جاسکتا ہے ؟“
”بہت سوچا ہے خالد !“…ابو سفیان نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا تھا …”بہت سوچاہے سب مجھے پہلے کی طرح ملتے ہیں لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ بعض کے دل صاف نہیں …کیا تم کوئی صورت پیدا کرسکتے ہو کہ دلوں سے میل نکل جائے ؟“
”ہاں، میں نے ایک صورت سوچ رکھی ہے “…خالد نے کہا تھا …”میں یہی تجویز آپ کے سامنے لارہا تھا جن سرداروں کے دلوں میں میل پیدا ہوگئی ہے ۔

(جاری ہے)

وہ سمجھنے لگے ہیں کہ ہم اب نام کے جنگجو رہ گئے ہیں اور ہم نے مسلمانوں کا ڈر اپنے دلوں میں بٹھالیا ہے۔ شارجہ نے چھ مسلمانوں کو دھوکہ دے کر اور ان میں دو کو آپ کے ہاتھوں مرواکر ہماری شکل و صورت ہی بدل ڈالی ہے ۔ اس کا علاج یہ ہے کہ ہم مدینہ پر حملہ کریں یا مسلمانوں کو کہیں للکاریں اور ثابت کردیں کہ ہم جنگجو ہیں اور ہم مسلمانوں کو ختم کرکے دم لیں گے “
”ہمارے پاس جواز موجود ہے “…ابو سفیان نے اچھل کر کہا تھا …”میں نے احد کی لڑائی کے آخر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو للکار کر کہا تھا کہ تم نے بدر میں ہمیں شکست دی تھی ہم نے احد کی پہاڑی کے دامن میں انتقام لے لیا ہے ۔
میں نے محمد سے یہ بھی کہا تھا کہ قریش کے سینوں میں انتقام کی آگ جلتی رہے گی ۔ ہم اگلے سال تمہیں بدر کے میدان میں للکاریں گے ۔ “
”ہاں، مجھے یاد ہے“…خالد نے کہا …”ادھر سے عمر کی آواز آئی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ ہمارے اللہ نے چاہا تو ہماری اگلی ملاقات بدر کے میدان میں ہی ہوگی“
”آواز تو عمر کی تھی ۔ الفاظ محمد کے تھے “…ابوسفیان نے کہا …”محمد بہت زخمی تھا وہ اونچی آواز میں بول نہیں سکتا تھا…میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیجتا ہوں کہ فلاں دن بدر کے میدان میں آجاؤ اور اپنے انجام کو پہنچو۔
دونوں نے ایک دن مقرر کرلیا اور فیصلہ کیا کہ کسی یہودی کو مدینے بھیجا جائے ۔ 
دوسرے ہی دن ابو سفیان نے قریش کے تمام سرداروں کو اپنے ہاں بلایا اور بڑے جوش و خروش سے اعلان کیا کہ وہ مسلمانوں کو بدر کے میدان میں للکاررہا ہے ۔ قریش یہی خبر سننے کے منتظر تھے ۔ انہیں اپنے عزیزوں کے خون کا انتقام لینا تھا ۔ ان کے دلوں میں رسول اکرمﷺ کی دشمنی بارود کی طرح بھری ہوئی تھی جو ایک چنگاری کی منتظر تھی ۔
وہ کہتے تھے کہ محمد نے باپ بیٹے کو اور بھائی بھائی کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیا ہے ۔ 
ابو سفیان کے اس اعلان نے سب کے دل صاف کردیے اور وہ جنگی تیاریوں کی باتیں کرنے لگے۔ ایک دانشمند یہودی کو پیغام دیا گیا کہ وہ مدینے جاکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے کر جواب لے آئے ۔ 
######
خالد کو یاد آرہا تھا کہ وہ اس روس کس قدر مطمئن اور مسرور تھا ۔
قریش کے سرداروں کے دلوں میں جو تکد ر پیدا ہوگیا تھا وہ صاف ہوگیا تھا خالد بڑہانکنے والا ٓدمی نہیں تھا لیکن اس نے یہ تہیہ کرلیا تھا کہ وہ رسول خدا کو اپنے ہاتھوں قتل کردے گا ۔ 
یہودی ایلچی جواب لے کر آگیا۔ رسول کریم نے ابو سفیان کی للکار کو قبول کرلیا تھا ۔ لڑائی کا جودن مقرر ہوا تھا وہ مارچ ۶۲۶ء کا ایک دن تھا لیکن ہوا یوں کہ سردیوں کے موسم میں جتنی بارش ہوا کرتی تھی اس سے بہت کم ہوئی ۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ موسم تقریباً خشک گزر گیا اور مارچ کے مہینے میں گرمی اتنی زیادہ ہوگئی جتنی اس کے دو تین ماہ بعد ہوا کرتی تھی ۔ ابو سفیان نے اس موسم کو لڑائی کے لیے موزوں نہ سمجھا ۔ 
اس یاد نے خالد کو بہت شرمسار کردیا۔ وجہ یہ ہوئی تھی کہ ابو سفیان موسم کی گرمی کا بہانہ بنارہا تھا ۔ 
مشہور مورخ ابن سعد لکھتا ہے کہ ابو سفیان نے قریش کے سرداروں کو بلاکر کہا کہ وہ کوچ سے پہلے مسلمانوں کو خوفزدہ کرنا چاہتا ہے اس نے یہودیوں کی خدمات حاصل کیں اور انہیں خاصی اجرت دے کر تاجروں کے بھیس میں مدینے بھیج دیا ۔
انہیں ابوسفیان نے یہ کام سونپا تھا کہ مدینے میں وہ یہ افواہ پھیلائیں کہ قریش اتنی زیادہ تعداد میں بدر کے میدان میں آرہے ہیں جو مسلمانوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ۔ 
اس مورخ کے مطابق مدینے میں اس افواہ کو سچ مانا گیا اور مسلمانوں کے چہروں پر اس کے اثرات بھی دیکھے گئے ۔ جب رسول کریم تک یہ افواہ پہنچی اور یہ اطلاع بھی کہ بعض مسلمانوں پر خوف و ہراس کے اثرات دیکھے گئے ہیں تو رسول کریم نے باہر آکر لوگوں کو جمع کیا اور اعلان کیا :
”کیا اللہ کے نام لیوا صرف یہ سن کر ڈر گئے ہیں کی قریش کی تعداد زیادہ ہوگی ؟کیا اللہ سے ڈرنے والے آج بتوں کے پجاریوں سے ڈر گئے ہیں؟اگر تم قریش سے اس قدر ڈر گئے ہو کہ ان کی للکار پر تم منہ موڑ گئے ہو تو مجھے قسم ہے خدائے ذوالجلال کی جس نے مجھے رسالت کی ذمہ داری سونپی ہے میں بدر کے میدان میں اکیلا جاؤں گا “
رسول خدا کچھ اور بھی کہنا چاہتے تھے لیکن رسالب مآب کے شیدائیوں نے نعروں سے آسمان کو ہلاڈالا، یہ سراغ نہ مل سکاکہ افواہ کس نے اڑائی تھی لیکن رسول اللہ کی پکار پر قریش کی پھیلائی ہوئی افواہ کے اثرات زائل ہوگئے اور مسلمان جنگی تیاریوں میں مصروف ہوگئے ۔
دن تھوڑے رہ گئے تھے کوچ کے وقت مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار تھی ۔ ان میں صرف پچاس گھوڑ سوار تھے ۔ 
جن یہودیوں کو افواہ پھیلانے کے لیے مدینہ بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے واپس آکر بتایا کہ افواہ نے پہلے پورا کام کیا تھا لیکن ایک روز محمد نے مسلمانوں کو اکٹھا کرکے چند الفاظ ہی کہے تو تمام مسلمان بدر کو کوچ کرنے کے لیے تیار ہوگئے انکی تعداد مدینے میں ہماری موجودگی تک ڈیڑھ ہزار تک پہنچ گئی تھی ہمارا خیال ہے کہ تعداد اس سے کم یا زیادہ نہیں ہوگی ۔
 
آج مدینے کو جاتے ہوئے اس واقعہ کی یاد نے خالد کو اس لیے شرمسار کردیا تھا کہ وہ اس وقت محسوس کرنے لگا تھا کہ ابو سفیان کسی نہ کسی وجہ سے مسلمانوں کے سامنے جانے سے ہچکچا رہا تھا ۔ خالد کو جب مسلمانوں کی تعداد کا پتہ چلا تو وہ بھڑکا بپھرا ہوا ابو سفیان کے پاس گیا ۔ 
”ابو سفیان!“…خالد نے اسے کہا …”سردار کی اطاعت ہمارا فرض ہے میں اہل قریش میں سردار کی حکم عدولی کی روایت قائم کرنا نہیں چاہتا لیکن مجھے قریش کی عظمت کا بھی خیال ہے ۔
آپ اپنے رویے کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قبیلہ قریش کی عظمت کا احساس مجھ میں اتنا زیادہ ہوجائے کہ میں آپ کے حکم اور رویے کی طرف توجہ ہی نہ دوں “
”کیا تم نے سنا نہیں تھا کہ میں نے یہودیوں کو مدینے کیوں بھیجا تھا ؟“…ابوسفیان نے پوچھا …”میں مسلمانوں کو ڈرانا چاہتا تھا …“
”ابو سفیان!“…خالد نے اس کی بات پوری ہونے سے پہلے کہا …”لڑنے والے ڈرا نہیں کرتے۔ کیا آپ نے مسلمانوں کو قلیل تعداد میں لڑتے نہیں دیکھا۔ کیا آپ نے خبیب اور زید رضی اللہ عنہم کو اہل قریش کی برچھیوں کے سامنے کھڑے ہوکر نعرے لگاتے نہیں سنا تھا ؟…میں آپ سے صرف یہ کہنے آیا ہوں کہ اپنی سرداری کا احترام کریں اور بدر کو کوچ کی تیاری کریں۔ “
######

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط