Episode 23 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 23 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

دوسرے ہی دن مکہ میں یہ خبر پہنچی کہ مسلمان مدینہ سے بدر کوچ کرگئے ہیں۔ اب ابو سفیان کے لیے اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں رہ گیا تھا کہ وہ کوچ کا حکم دے ۔ قریش کی جو تعداد بدر کو کوچ کرنے کے لیے تیار ہوئی تھی وہ دو ہزار تھی اور ایک سو گھوڑ سوار اس کے علاوہ تھے ۔ قیادت ابو سفیان کی تھی اور اس کے ماتحت خالد، عکرمہ اور صفوان نائب سالار تھے ۔
حسب معمول ابو سفیان کی بیوی ہند ، اس کی چند ایک کنیزیں اور گانے بجانے والی عورتیں بھی ساتھ تھیں۔ 
مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں ۴ اپریل ۶۲۶ء بمطابق یکم ذ العقد ۴ھ کے روز بدر کے میدان میں پہنچ گئے ۔
قریش ابھی عفان کے مقام تک پہنچے تھے ۔ انہوں نے وہیں رات بھر کے لیے پڑاؤ کیا۔ علی الصبح ان کی روانگی تھی لیکن صبح طلوع ہوتے ہی ابو سفیان نے اپنے لشکر کو کوچ کا حکم دینے کی بجائے اکٹھا کیا اور لشکر سے یوں مخاطب ہوا :
”قریش کے بہادرو!مسلمان تمہارے نام سے ڈرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

اب ان کے ساتھ ہماری جنگ فیصلہ کن ہوگی ۔ ان مٹھی بھر مسلمانوں کا ہم نام و نشان مٹادیں گے ۔ نہ محمد اس دنیا میں رہے گا نہ کوئی اس کا نام لینے والا لیکن ہم ایسے حالات میں لڑنے جارہے ہیں جو ہمارے خلاف جاسکتے ہیں اور ہماری شکست کا باعث بن سکتے ہیں۔ تم دیکھ رہے ہو کہ ہم اپنے ساتھ پورا اناج نہیں لاسکے۔ مزید اناج ملنے کی امید بھی نہیں کیونکہ خشک سالی نے قحط کی صورت حال پیدا کردی ہے پھر اس گرمی کو دیکھو میں نہیں چاہتا کہ میں اپنے بہادروں کو بھوکا اور پیاسا مروادوں۔
میں فیصلہ کن جنگ کے لیے موزوں حالات کا انتظار کروں گا ہم آگے نہیں جائیں گے مکہ کو کوچ کرو“
خالد کو یاد آرہا تھا کہ قریش کے لشکر نے دو طرح کے نعرے بلند کیے ۔ ایک ان کے نعرے تھے جو انہی حالات میں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کا عزم کیے ہوئے تھے ۔ دوسرے نعرے ابو سفیان کے فیصلے کی تائید میں تھے لیکن سب کو حکم ماننا تھا ۔ خالد، عکرمہ۔ اور صفوان نے ابو سفیان کا یہ حکم ماننے سے انکار کردیا لیکن ابو سفیان پر ان کے احتجاج کا کچھ اثر نہ ہوا۔
ان تینوں نائب سالاروں نے یہ جائزہ بھی لیا کہ کتنے آدمی ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ جائزہ ان کے خلاف ثابت ہوا لشکرکی اکثریت ابو سفیان کے حکم پر مکہ کی طرف کوچ کرگئی ۔ خالد اور اس کے دونوں ساتھیوں کو مجبوراً لشکر کے پیچھے پیچھے آنا پڑا۔ 
خالد کو وہ لمحے یاد آرہے تھے جب وہ اہل قریش کے لشکر کے پیچھے پیچھے عکرمہ اور صفوان کے ساتھ مکہ کو چلا جارہا تھا اس کا سر جھکا ہوا تھا یہ تینوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ بھی نہیں رہے تھے جیسے ایک دوسرے سے شرمسار ہوں خالد کو بار بار یہ خیال آتا تھا کہ لڑائی میں اس کی ایک ٹانگ کٹ جاتی ۔
بازو کٹ جاتے اس کی دونوں آنکھیں ضائع ہوجاتیں تو اسے یہ دکھ نہ ہوتا جو بغیر لڑے واپس جانے سے ہورہا تھا ۔ اس وقت وہ اس طرح محسوس کر رہا تھا جیسے اس کی ذات مرچکی ہو اور گھوڑے پر اس کی لاش مکہ کو واپس جارہی ہو ۔ نبی کریم کا قتل اس کا عزم اور عہد تھا جو وہ پورا کیے بغیر واپس جارہا تھا ۔ یہ عزم بچھو بن کر اسے ڈس رہا تھا ۔ 
اسے بہت کچھ یاد آرہا تھا ، یادوں کا ایک ریلا تھا جو کہیں ختم نہیں ہورہا تھا ۔
اسے یہودیوں کے قبیلے…بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع …یاد آئے ۔ انہوں نے جب دیکھا کہ قریش مسلمانوں کے خلاف لڑنے سے منہ موڑ گئے ہیں تو وہ سرگرم ہوگئے۔ یہودیوں نے مسلمانوں کے خلاف زمین دوز کارروائیاں شروع کیں مکہ گئے اور قریش کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا مگر قریش کا سردار ابو سفیان ٹس سے مس نہ ہوا۔ خالد کو معلوم نہ ہوسکا کہ ابو سفیان کے دل میں کیا ہے اور وہ مسلمانوں سے لڑنے سے کیوں گھبراتا ہے ۔
 
اسی سال کے موسم سرما کے اوائل میں خیبر کے چند ایک سرکردہ یہودی مکہ گئے ۔ ان کا سردار حیّی بن اخطب تھا ۔ یہ شخص یہودیوں کے قبیلے بنو نضیر کا سردار تھی تھا۔ یہودیوں کے پاس زروجواہر کے خزانے تھے ۔ یہ چند ایک یہودی ابو سفیان اور قریش کے دیگر سرداروں کے لیے بیش قیمت تحفے لے کر گئے ۔ ان کے ساتھ حسین و جمیل لڑکیوں بھی تھی ۔ 
مکہ میں یہ یہودی ابو سفیان سے ملے۔
اسے تحفے پیش کیے ۔ اور رات کو اپنے طائفہ کا رقص بھی دکھایا۔ اس کے بعد حیّی بن اخطب نے ابو سفیان سے خالد، عکرمہ، اور صفوان کی موجودگی میں کہاکہ انہوں نے مسلمانوں کو ختم نہ کیا اور ان کے بڑھتے ہوئے قدم نہ روکے تو وہ یمامہ تک پہنچ جائیں گے ۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہوگئے تو قریش کے لیے وہ تجارتی راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا جو بحرین اور عراق کی طرف جاتا ہے ۔
قریش کے لیے یہ راستہ شہ رگ کی حیثیت رکھتا تھا۔ 
”اگر آپ ہمارا ساتھ دیں “…حیّی بن اخطب نے کہا …”تو ہم مسلمانوں کے خلاف خفیہ کارروائیاں شروع کردیں گے “
”ہم مسلمانوں سے دگنے تھے تو بھی انہیں شکست نہیں دے سکے“ابو سفیان نے کہا …”ان سے تین گنا تعداد میں ان سے لڑے تو بھی انہیں شکست نہ دے سکے ۔ اگر چند اور قبیلے ہمارے ساتھ مل جائیں تو ہم مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کرسکتے ہیں “
”ہم نے یہ انتظام پہلے ہی کردیا ہے “…حیّی بن اخطب نے کہا …”قبیلہ غطفان اور بنو اسد آپ کے ساتھ ہوں گے چند اور قبیلے ہمارے کوششوں سے آپ کے ساتھ آجائیں گے “
خالد کو کیا کچھ یاد نہ آرہا تھا ۔
تین چار سال پہلے کے واقعات اسے ایک روز پہلے کی طرح یاد تھے اسے ابو سفیان کا گھبرایا ہوا چہرہ اچھی طرح یاد تھا ۔ خالد جانتا تھا کہ یہودی اہل قریش کو مسلمانوں کے خلاف صرف اس لیے بھڑکارہے ہیں کہ یہودیوں کا اپنا مذہب اسلام کے مقابلے میں خطرے میں آگیا تھا لیکن انہوں نے ابو سفیان کو ایسی تصویر دیکھائی تھی جس میں اسے مسلمانوں کے ہاتھوں تباہی نظر آرہی تھی ۔
دوسری طرف خالد اور عکرمہ اور صفوان بن امیہ نے ابو سفیان کو سر اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا تھا ۔ 
”ہم آپ کو اپنا سردار تسلیم کرتے ہیں لیکن آپ یہ تسلیم کریں کہ آپ بزدل ہیں “
”اگر مسلمان موسم کی خرابی اور قحط میں لڑنے کے لیے آگئے تھے تو ہم بھی لڑسکتے تھے ۔ “
”آپ نے جھوٹ بول کر ہمیں دھوکہ دیا ہے ۔ “
”ابو سفیان بزدل ہے …ابوسفیان نے پورے قبیلے کو بزدل بنادیا ہے …اب محمد کے چیلے ہمارے سر پر کودیں گے “
اور ایسی بہت سی طنز اور غصے سے بھری ہوئی آوازیں مکہ کے گلی کوچوں میں گشت کرتی رہتی تھیں۔
ان آوازوں کے پیچھے یہودیوں کا دماغ بھی کام کر رہا تھا لیکن اہل قریش کی غیرت اور ان کا جذبہ انتقام انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ ابو سفیان اس حال تک پہنچ گیا کہ اس نے باہر نکلنا ہی چھوڑ دیا ۔ 
خالد کو وہ دن یاد آیا جب اسے ابو سفیان نے اپنے گھر بلایا تھا ۔ خالد کے دل میں ابو سفیان کا وہ احترام نہیں رہ گیا تھا جو کبھی ہوا کرتا تھا۔
وہ بادل نخواستہ صرف اس لیے چلا گیا کہ ابو سفیان اس کے قبیلے کا سردار ہے ۔ وہ ابو سفیان کے گھر گیا تو وہاں عکرمہ اور صفوان بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔ 
”خالد!“…ابوسفیان نے کہا …”میں نے مدینے پر حملے کا فیصلہ کرلیا ہے “
خالد کو ایسے محسوس ہوا کہ جیسے اس نے غلط سنا ہو ۔ اس نے عکرمہ اور صفوان کی طرف دیکھا ۔ ان دونوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی ۔ 
”ہاں خالد!“…ابوسفیان نے کہا …”جس قدر جلدی ہوسکے لوگوں کو مدینے پر حملے کے لیے تیار کرلو“
######

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط