Episode 25 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

”اس کے پیچھے یہودیوں کا ہاتھ تھا “…چلتے چلتے خالد کو اپنی آواز سنائی دینے لگی …”اہل قریش تو ٹھنڈے پڑگئے تھے ۔ ان پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی تھی ۔ “
گھوڑا اپنی مرضی کی چال چلا جارہا تھا ۔ مدینہ ابھی دور تھا۔ خالد کو جھینپ سی محسوس ہوئی۔ اس کے قبیلہ قریش نے اسے شرمسارکردیا تھا ۔ اسے یہ بات اچھی نہیں لگی تھی کہ یہودیوں کے اکسانے پر اس کے قبیلے کے سردار اور سالار ابو سفیان نے مدینے پر حملے کا فیصلہ کیا تھا لیکن وہ خوش تھا کہ حملے کا فیصلہ تو ہوا۔
اتنا بڑا لشکر جو سرزمین عرب پر پہلی بار کسی جنگ میں دیکھا گیا تھا یہودیوں نے ہی جمع کیا تھالیکن خالد اس پر بھی مطمئن تھا کہ کسی نے ہی یہ کام کیاہو۔ لشکر تو جمع ہوگیا تھا ۔ 
وہ اس روز بہت خوش تھا کہ اتنے بڑے لشکر کو دیکھ کر ہی مسلمان مدینہ سے بھاگ جائیں گے ۔

(جاری ہے)

اگر مقابلے پر جم بھی گئے تو گھڑی دو گھڑی میں ان کا صفایا ہوجائے گا ۔ وہ اس وقت تو بہت ہی خوش تھا جب احد کی پہاڑی کی دوسری طرف یہ سارا لشکر خیمہ زن تھا ۔

جس صبح حملہ کرنا تھا اس رات اس پر ایسی ہیجانی کیفیت طاری تھی کہ وہ اچھی طرح سو بھی نہ سکا۔ اسے ہر طرف مسلمانوں کی لاشیں بکھری ہوئی نظر آرہی تھیں۔ 
دوسری صبح جب قریش اور دوسرے اتحادی قبائل کا لشکر جس کی تعداد دس ہزار تھی خیمہ گاہ سے نکل کر مدینہ پر حملے کے لیے شہر کے قریب پہنچا تو اچانک رک گیا ۔ شہر کے سامنے بڑی گہری خندق کھدئی ہوئی تھی ۔
ابو سفیان جو لشکر کے قلب میں تھا ۔ لشکرکو رکا ہوا دیکھ کر گھوڑا سرپٹ دوڑاتا آگے گیا ۔ 
”قریش کے جنگجو کیوں رک گئے ہیں ؟“…ابو سفیان چلاتا جارہا تھا …”طوفان کی طرح بڑھو اور محمد کے مسلمانوں کو کچل ڈالو …شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادو “
ابوسفیان کا گھوڑا جب آگے گیا تو اس نے گھوڑے کی لگام کھینچ لی اور اس کا گھوڑا اسی طرح رک گیا جس طرح اس کے لشکر کے تمام سوار رکے کھڑے تھے ۔
اس کے سامنے خندق تھی ۔ اس پر خاموشی طاری ہوگئی ۔ 
”خدا کی قسم! یہ ایک نئی چیز ہے جو میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں “…ابو سفیان نے غصیلی آواز میں کہا …”عرب کے جنگجو کھلے میدان میں لڑا کرتے ہیں …خالد بن ولید کو بلاؤ …عکرمہ اور صفوان کو بھی بلاؤ “
ابو سفیان خندق کے کنارے کنارے گھوڑا دوڑاتا لے گیا اسے کہیں بھی ایسی جگہ نظر نہیں آرہی تھی جہاں سے اس کا لشکر خندق عبور کرسکتا تھا ۔
یہ خندق شیخین کی پہاڑی سے لے کر حبل بنی عبید کے اوپر سے پیچھے تک چلی گئی تھی ۔ مدینہ کے مشرق میں شیخین اور لاوا کی پہاڑیاں تھی یہ مدینے کا قدرتی دفاع تھا ۔ 
######
ابو سفیان دور تک چلا گیا۔ اس نے دیکھا کہ خندق کے پاس مسلمان اس انداز سے گھوم پھر رہے ہیں جیسے پہرہ دے رہے ہوں ۔ اس نے گھوڑا پیچھے موڑا اور اپنے لشکر کی طرف چل پڑا تین گھوڑے اس کی طرف سرپٹ دوڑے آرہے تھے جو اس کے قریب آکر رک گئے ۔
وہ خالد عکرمہ او رصفوان کے گھوڑے تھے ۔ 
”کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ مسلمان کتنے بزدل ہیں ؟“…ابو سفیان نے ان تینوں سے کہا …”کیا تم کبھی اپنے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرکے یا رکاوٹ کھود کر اپنے دشمن سے لڑے ہو ؟“
خالد پر خاموشی طاری ہوگئی تھی۔ آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے اسے یاد آرہا تھا کہ وہ اس خیال سے چپ نہیں ہوگیا تھا کہ ابو سفیان نے مسلمانوں کو بزدل جو کہا تھا وہ ٹھیک کہا تھا بلکہ خاموش رہ کر وہ اس سوچ میں کھوگیا تھا کہ یہ خندق بزدلی کی نہیں، دانشمندی کی علامت تھی ۔
جس کسی نے شہر کے دفاع کے لیے یہ طریقہ سوچا تھا وہ کوئی معمولی عقل والا انسان نہیں تھا ۔ اس سے پہلے بھی اس نے محسوس کیا تھا کہ مسلمان لڑنے میں اپنے جسم کی طاقت پر ہی بھروسہ نہیں کرتے۔ وہ عقل سے بھی کام لیتے ہیں۔ خالد کا دماغ ایسی ہی جنگی چالیں سوچتا رہتا تھا مسلمانوں نے بدر کے میدان میں نہایت تھوڑی تعداد میں ہوتے ہوئے قریش کو بہت بری شکست دی تھی ۔
خالد نے اکیلے بیٹھ کر اس لڑائی کا جائزہ لیا تھا ۔ مسلمانوں کی اس فتح میں اسے مسلمانوں کی عسکری دانشمندی نظر آئی تھی ۔ 
احد کی جنگ میں مسلمانوں کی شکست یقینی تھی لیکن وہ جنگ فتح اور شکست کے فیصلے کے بغیر ختم ہوگئی تھی ۔ اس میں بھی مسلمانوں کی عقل نے کام کیا تھا ۔ 
”کوئی اور بات بھی تھی خالد !“…اسے خیال آیا …”کوئی اور بات بھی تھی ۔
”کچھ بھی تھا “…خالد نے اپنے آپ کو جواب دیا …”جو کچھ بھی تھا ، میں یہ نہیں مانوں گا کہ یہ محمد کے جادو کا اثر تھا یا اس کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے ۔ ہماری عقل جس عمل اور جس مظاہرے کو سمجھ نہیں سکتی اسے ہم جادو کہہ دیتے ہیں۔ اہل قریش میں ایسا کوئی دانشمند نہیں جو مسلمانوں جیسے جذبے سے اہل قریش کو سرشار کردے اور ایسی جنگی چالیں سوچے جو مسلمانوں کو ایک ہی بار کچل ڈالیں“
”خدا کی قسم ہم اس لیے واپس نہیں چلے جائیں گے کہ مسلمانوں نے ہمارے راستے میں خندق کھود رکھی ہے“…ابو سفیان خالد، عکرمہ اور صفوان سے کہہ رہا تھا۔
پھر اس نے ان سے پوچھا …”کیا خندق عبور کرنے کا کوئی طریقہ تم سوچ سکتے ہو …“
خالد کوئی طریقہ سوچنے لگا لیکن اسے خیال آیا کہ اگر ان کے لشکر نے خندق عبور کربھی لی تو مسلمانوں کو شکست دینا آسان نہ ہوگا خواہ وہ کتنی ہی تھوڑی تعداد میں کیوں نہ ہوں۔ جن انسانوں نے تھوڑے سے وقت میں زمین اور چٹانوں کا سینہ چیرڈالا ہے ان انسانوں کو بڑے سے بڑا لشکر بھی ذرا مشکل سے ہی شکست دے سکے گا ۔
 
”کیا سوچ رہے ہو ولید کے بیٹے !“…ابو سفیان نے خالد کو گہری سوچ میں کھوئے ہوئے دیکھ کر کہا …”ہمارے پاس سوچنے کا وقت نہیں۔ مسلمان یہ نہ سمجھیں کہ ہم بوکھلا گئے ہیں “
”ہمیں تمام تر خندق دیکھ لینا چاہیے “عکرمہ نے کہا 
”کہیں نہ کہیں کوئی ایسی جگہ ہوگی جہاں سے ہم خندق عبور کرسکیں گے “…صفوان نے کہا 
”محاصرہ“…خالد نے خود اعتمادی سے کہا …”مسلمان خندق کھود کر اندر بیٹھ گئے ہیں ہم محاصرہ کرکے باہر بیٹھے رہیں گے ۔
وہ بھوک سے تنگ آکر ایک نہ ایک دن خود ہی خندق کے اس طرف آئیں گے جدھر ہم ہیں“
”ہاں“…ابو سفیان نے کہا …”مجھے یہی ایک طریقہ نظر آتا ہے جو مسلمانوں کو باہر آکر لڑنے پر مجبور کردے گا “
ابو سفیان اپنے ان تینوں نائب سالاروں کے ساتھ خندق کے ساتھ ساتھ تمام تر خندق کو دیکھنے کے لیے جبل بنی عبید کی طرف چل پڑا۔ سلع کی پہاڑی مدینہ اور جبل نبی عبید کے درمیان تھی ۔
مسلمان اس کے سامنے مورچہ بند تھے۔ابو سفیان نے مسلمانوں کی تعداد دیکھی تو اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آگئی ۔ وہ ذرا آگے بڑھا تو ایک گھوڑا جو بڑا تیز دوڑا آرہا تھا ۔ اس کے پہلو میں آن رُکا ۔ سوار کو ابو سفیان بڑی اچھی طرح پہچانتا تھا ۔ وہ ایک یہودی تھا جو تاجروں کے بہروپ میں مدینہ کے اندر گیا تھا۔ وہ مدینہ سے شیخین کے سلسلہ کوہ میں سے ہوتا ہوا قریش کے لشکر میں پہنچا تھا ۔
 
######
”اندر سے کوئی ایسی خبر لائے ہو جو ہمارے کام آسکے؟“…ابوسفیان نے پوچھا اور کہا …”ہمارے ساتھ ساتھ چلو اور اتنا اونچا بولتے چلو کہ میرے یہ تینوں نائب بھی سن سکیں “
”مسلمانوں نے شہر کے دفاع اور آبادی کے تحفظ کے جو انتظامات کر رکھے ہیں وہ اس طرح ہیں “
یہودی نے کہا …”یہ تو تم کو معلوم ہے کہ مدینہ چھوٹے چھوٹے قلعوں اور ایک دوسری کے ساتھ ملی ہوئی بستیوں کا شہر ہے ۔
مسلمانوں نے شہر کی عورتوں، بچوں اور ضعیفوں کو پیچھے کی طرف والے قلعوں میں بھیج دیا ہے ۔ خندق پر نظر رکھنے کے لیے مسلمانوں نے گشتی پہرے کا جو انتظام کیا ہے اس میں دو اڑھائی سو افراد شامل ہیں یہ افراد تلواروں کے علاوہ پھینکنے والی برچھیوں اور تیر کمانوں سے مسلح ہیں ۔ انہوں نے علاقے تقسیم کر رکھے ہیں جن میں وہ سارا دن اور پوری رات گشت کرتے ہیں جہاں کہیں سے بھی تم خندق عبور کرنے کی کوشش کرو گے وہاں مسلمانوں کی خاصی زیادہ تعداد پہنچ جائے گی اور اس قدر زیادہ تیر اور برچھیاں برسائے گی کہ تم لوگ پیچھے کو بھاگ آنے کے سوا کچھ نہیں کرسکو گے ۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ راتوں کو مسلمانوں کے جیش خندق سے باہر آکر تم پر شب خون مار کر واپس چلے جائیں “
”عبداللہ بن ابی کیا کر رہا ہے ؟“…ابو سفیان نے پوچھا ۔ 
”اے قریش کے سردار!“…یہودی جاسوس نے کہا …”اتنی عمر گزار کر بھی تم انسانوں کو سمجھنے کے قابل نہیں ہوسکے ۔ عبداللہ بن ابی منافق ہے ۔ مسلمان اسے جماعت منافقین کا سردار کہتے ہیں اور ہم اسے یہودیت کا غدار سمجھتے ہیں۔
اس نے مسلمان ہوکر ہم سے غداری کی تھی ۔ مسلمانوں میں جاکر اس نے تمہارے حق میں انہیں دھوکے دیے۔ اگر احد کی جنگ میں تم جیت جاتے تو وہ تمہارے ساتھ ہوتا مگر مسلمانوں کا پلہ بھاری دیکھ کر اس نے تم سے بھی اور یہودیوں سے بھی نظریں پھیرلی ہیں۔ تمہیں ایسے آدمی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے جو کسی مذہب کا پیروکار اور وفادار نہ ہو “
”اور حیّی بن اخطب کہاں ہے ؟“…ابوسفیان نے پوچھا ۔
 
”وہ کچھ نہ کچھ کر رہا ہوگا“…یہودی جاسوس نے جواب دیا …”مدینہ میں ابھی میرے ساتھی موجود ہیں وہ مسلمانوں کو جس قدر نقصان پہنچاسکے،پہنچائیں گے “
خالد کو آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے اس یاد سے خفت سی محسوس ہورہی تھی کہ مکہ سے مدینہ کو کوچ کے وقت جب اس نے اپنے ساتھ دس ہزار کا لشکر دیکھا تھا تو اس کی گردن اونچی ہوگئی تھی اور سینہ پھیل گیا تھا لیکن مدینہ کے سامنے آکر دس ہزار کا لشکرریت کے ٹیلوں کی طرح بے جان نظر آنے لگا تھا۔
اسے محاصرے کا منظر یاد آنے لگا لشکر کا جو حصہ اس کی زیر کمان تھا، اسے اس نے بڑے اچھے طریقے سے محاصرے کی ترتیب میں کردیا تھا ۔ 
یہ محاصرہ بائیس روز تک رہا۔ پہلے دس دنوں میں ہی شہر کے اندر مسلمان خوراک کی کمی محسوس کرنے لگے لیکن اس سے قریش کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا کیونکہ و ہ اپنے ساتھ خوراک اور رسد بہت کم لائے تھے ۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انہیں مسلمان اپنے محاصرے میں لمبے عرصے کے لیے بٹھائیں گے ۔
خوراک کی جتنی کمی شہر والے محسوس کر رہے تھے اس سے کچھ زیادہ کمی قریش کے لشکر میں اپنا اثر دکھانے لگی تھی ۔ سپاہیوں میں نمایاں طور پر بے چینی نظر آنے لگی ۔ 
مورخ ابن ہشام نے لکھا ہے کہ اس کیفیت میں کہ شہر میں خوراک کا کوئی ذخیرہ نہ تھا اور لوگوں کو روزانہ نصف خوراک دی جارہی تھی منافقین اور یہودی تخریب کار درپردہ حرکت میں آگئے۔
کوئی بھی نہ جان سکا کہ یہ آواز کہاں سے آئی تھی ہے لیکن یہ آواز سارے شہر میں پھیل گئی ۔ …”محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیسی بری موت مروانے کا بندوبست کر رہا ہے ۔ ایک طرف وہ کہتا ہے کہ بہت جلد قیصر و کسریٰ کے خزانے ہمارے قدموں میں پڑے ہوں گے دوسری طرف ہم نے اس کی نبوت کا یہ اثر بھی نہ دیکھا کہ آسمان سے ہمارے لیے خوراک اترے “
لوگوں نے اسلام تو قبول کرلیا تھا لیکن وہ گوشت پوست کے انسان تھے ۔
وہ پیٹ کی آوازوں سے متاثر ہونے لگے ۔ آخر ایک آواز نے انہیں پیٹ کے بھوت سے آزادی دلادی۔ 
”کیا تم خدا سے یہ کہو گے کہ ہم نے اپنے پیٹ کو خدا سے زیادہ مقدس جانا تھا “…یہ ایک رعد کی کڑک دار آواز تھی جو مدینہ کے گلی کوچوں میں سنائی دینے لگی ۔ …”آج خدا کو وہ لوگ عزیز ہوں گے جو اس کے رسول کے ساتھ بھوکے اور پیاسے جانیں دے دیں گے …خدا کی قسم، اس سے بڑی بزدلی اور بے غیرتی مدینے والوں کے لیے کیا ہوگی کہ ہم اہل مکہ کے قدموں میں جاگریں اور کہیں کہ ہم تمہارے غلام ہیں۔
ہمیں کچھ کھانے دو “
رسول اکرم شہر کے دفاع میں اس قدر سرگرم تھے کہ آپ کے لیے دن اور رات ایک ہوگئے تھے۔ آپ اللہ کے محبوب نبی تھے۔ آپ چاہتے تو معجزے بھی رونما ہوسکتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو احساس تھا کہ ہر آدمی پیغمبر اور رسول نہیں نہ کوئی انسان آپ کے بعد نبوت اور رسالت کا درجہ حاصل کرسکے گا ۔ اس لیے آپ ان انسانوں کے لیے یہ مثال قائم کر رہے تھے کہ انسان اپنی لازوال جسمانی اور نفسیاتی قوتوں کو جو خداوند تعالیٰ نے اسے عطا کی ہیں استقلال اور ثابت قدمی سے استعمال کرے تو وہ معجزہ نما کارنامے انجام دے سکتا ہے ۔
محاصرے کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سرگرمیاں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت ایک سالار کے علاوہ ایک سپاہی کی بھی تھی ۔ آپ کو اس کیفیت اور اس سرگرمی میں دیکھ کر مسلمان بھوک اور پیاس بھول گئے اور ان میں ایسا جوش پیدا ہوگیا کہ ان میں بعض خند ق کے قریب چلے جاتے اور قریش کو بزدلی کے طعنے دیتے۔ 
######

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط