Episode 26 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 26 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

وہ ۷ مارچ ۶۲۷ء کا دن تھا جب ابو سفیان نے پریشان ہوکر کہا کہ حیی بن اخطب کو بلاؤ ۔ اس کی پریشانی کا باعث یہ تھا کہ دس دنوں میں ہی اس کے لشکر کی خوراک کا ذخیرہ بہت کم رہ گیا تھا ۔ سپاہیوں نے قرب و جوار کی بستیوں میں لوٹ مار کرکے کچھ خوراک حاصل کرلی تھی لیکن اس ریگزار میں لوگوں کے گھروں میں بھی خوراک کا کوئی ذخیرہ نہ ہوتا تھا ۔ قریش کے لشکر میں بد دلی پھیلنے لگی ۔
اپنے لشکر کے جذبے کو یوں ٹھنڈا پڑتے دیکھ کر اس نے یہودیوں کے ایک قبیلے کے سردار حیی بن اخطب کو بلایا جو قریش کی زمین دوز مدد کے لیے لشکر کے قریب ہی کہیں موجود تھا۔ وہ تو اس انتظار میں تھا کہ اہل قریش اسے بلائیں اور اس سے مدد مانگیں۔ 
مدینہ سے کچھ ہی دور یہودیوں کے ایک قبیلے بنو قریظہ کی بستی تھی ۔

(جاری ہے)

اس قبیلے کا سردار کعب بن اسد اس بستی میں رہتا تھا۔

رات جب وہ گہری نیند سویا ہوا تھا دروازے کی بڑی زور کی دستک سے اس کی آنکھ کھل گئی ۔ اس نے اپنے غلام کو آواز دے کر کہا …”دیکھو، باہر کون ہے ۔ “
”حیی بن اخطب آیا ہے “…غلام نے کہا ۔ 
”رات کے اس وقت وہ اپنے ہی کسی مطلب سے آیا ہوگا “…کعب بنی اسد نے غصیلی آواز میں کہا …”اسے کہو میں اس وقت تمہارا کوئی مطلب پورا نہیں کرسکتا۔
دن کے وقت آنا “
بنو قریظہ یہودیوں کا وہ قبیلہ تھا جس نے مسلمانوں کے ساتھ دوستی کا اور ایک دوسرے کے خلاف جنگ نہ کرنے کا معادہ کر رکھا تھا اس معاہدے میں یہودیوں کے دوسرے قبیلے …بنو قینقاع اور بنو نصیر…بھی شامل تھے لیکن ان دونوں قبیلوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی اور مسلمانوں نے انہیں وہ سزا دی تھی کہ وہ لوگ شام کی طرف بھاگ گئے تھے صرف بنو قریظہ تھا جس نے معاہدے کو برقرار رکھا اور اس کا احترام کیا۔
مسلمان جنگ خندق میں اس قبیلے کی طرف سے ذرا سا بھی خطرہ محسوس نہیں کر رہے تھے حیی بن اخطب بھی یہودی تھا ۔ وہ کعب بن اسد کو اپنا ہم مذہب بھائی سمجھ کر اس کے پاس گیا تھا ۔ وہ کعب بن اسد کو مسلمانوں کے خلاف اکسانا چاہتا تھا اس لیے وہ غلام کے کہنے پر بھی وہاں سے نہ ہٹا۔ کعب بن اسد نے پریشان ہوکر اسے اندر بلالیا۔ 
”میں جانتا ہوں تم اس وقت میرے پاس کیوں آئے ہو “…کعب بن اسد نے حیی سے کہا …”اگر تم ابوسفیان کے کہنے پر آئے ہو تو اسے کہہ دو کہ ہم نے مسلمانوں کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے اس پر مسلمان پوری دیانتداری سے قائم ہیں۔
وہ ہمیں اپنا حلیف سمجھتے ہیں اور انہوں نے ہمیں پورے حقوق دے رکھے ہیں “
”کعب بن اسد ! ہوش میں آ“…حیی بن اخطب نے کہا…”بنو قینقاع اور بنو نضیر کا انجام دیکھ لے ۔ مسلمانوں کی شکست مجھے صاف نظر آرہی ہے خدائے یہود کی قسم، دس ہزار کا لشکر مسلمانوں کو کچل ڈالے گا۔ پھر یہ مسلمان تم پر ٹوٹ پڑیں گے کہ یہودیوں نے انہیں شکست دلائی ہے “
”تم چاہتے کیا ہو حیی؟“کعب بن اسد نے پوچھا ۔
 
”قریش کے لشکر کا ایک حصہ پہاڑیوں کے پیچھے سے تمہارے پاس پہنچ جائے گا “…حیی نے کہا …”تمہاری موجودگی میں یہ سپاہی مسلمانوں پر عقب سے حملہ نہیں کرسکتے۔ تم اپنے قبیلے سمیت قریش سے مل جاؤ اور مسلمانوں پر اس طرح حملہ کرو کہ تمہیں جم کر نہ لڑنا پڑے بلکہ ضرب لگا کر پیچھے ہٹ آؤ ۔ اس سے قریش کو یہ فائدہ ہوگا کہ مسلمانوں کی توجہ خندق سے ہٹ جائے گی اور قریش کا لشکرخندق کو عبور کرے گا “
”اگر میں تمہاری بات مان لوں اور ہمار حملہ وہ کام نہ کرسکے جو تم چاہتے ہو تو جانتے ہو مسلمان ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے ؟“…کعب بن اسد نے کہا …”تم مسلمانوں کے قہر و غضب سے واقف ہو۔
کیا بنو قینقاع اور بنو نضیرکا کوئی ایک بھی یہودی تمہیں یہاں نظر آتا ہے ؟“
”ابو سفیان نے سب کچھ سوچ کر تمہیں معاہدے کی دعوت دی ہے “…حیی طن اخطب نے کہا …”اگر مسلمانوں کا قہر و غضب تم پر گرنے لگا تو قریش کے لشکر کا ایک حصہ تمہارے قبیلے کی حفاظت کے لیے شیخین اور لاوا کی پہاڑیوں میں موجود رہے گا ۔ وہ شب خون مارنے والے تجربہ کار سپاہیوں کا لشکر ہوگا جو مسلمانوں کو تمہاری طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھنے کی مہلت نہیں دیں گے “
تم مجھے اتنے بڑے خطرے میں ڈال رہے ہو جومیرے پورے قبیلے کو تباہ کردے گا …کعب بن اسد نے کہا 
”تمہارا قبیلہ تباہ ہو یا نہ ہو ، اہل قریش اتنی قیمت دیں گے جو تم نے کبھی سوچی بھی نہ ہوگی “…حیی نے کہا …”یا اپنے تعاون کی قیمت خود بتادو…جو کہو گے جس شکل میں مانگو گے تمہیں قیمت مل جائے گی اور تمہارے قبیلے کو پورا تحفظ ملے گا ۔
مسلمان اگلے چند روز میں نیست و نابود ہوجائیں گے ۔ تم اس کا ساتھ دو جو زندہ رہے گا اور جس کے ہاتھ میں طاقت ہوگی ۔ “
کعب بن اسد آخر یہودی تھا ۔ اس نے زر و جواہرات کے لالچ میں آخر حیی بن اخطب کی بات مان لی ۔ 
”قریش کا کوئی سپاہی ہمارے بستی کے قریب نہ آئے ۔ “…کعب بن اسد نے کہا …”مسلمانوں پر میرا قبیلہ شب خون مارتا رہے گا ۔ یہ کام رات کی تاریکی میں کیا جائے گا تاکہ مسلمانوں کو پتہ ہی نہ چل سکے کہ شب خون مارنے والے بنو قریظہ کے آدمی ہیں …اور حیی!“…کعب نے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا…”تم دیکھ رہے ہو کہ میں یہاں اکیلا پڑا ہوں میری راتیں تنہائی میں گزر رہی ہیں “
”آج کی رات تنہا گزارو“…حیی نے کہا …”کل تم تنہا نہیں ہوگے “
”مجھے دس دنوں کی مہلت چاہیے “…کعب بن اسد نے کہا …”مجھے اپنے قبیلے کو تیار کرنا ہے “
######
سعد بن عتیق معمولی سی قسم کا ایک جوان تھا جس کی مدینے میں کوئی حیثیت نہیں تھی ۔
وہ خنجر اور تلواریں تیز کرنے کا کام کرتا تھا ۔ اس میں خوبی یہ تھی کہ خدا نے اسے آواز پرسوز اور سریلی دی تھی اور وہ شہسوار تھا ۔ راتوں کو کسی محفل میں اس کی آواز سنائی دیتی تھی تو لوگ باہر آکر اس کا گانا سنا کرتے تھے ۔ کبھی رات کو وہ شہر سے باہر چلا جاتا اور اپنی ترنگ میں گایا کرتا تھا ۔ اس نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ 
ایک رات وہ پرسوز لے میں شہر سے دور کہیں گارہا تھا کہ ایک بڑی خوبصورت اور جوان لڑکی اس کے سامنے یوں آن کھڑی ہوئی جیسے کوئی جن یا چڑیل انسان کے حسین روپ میں آگئی ہو ۔
سعد گھبرا کر خاموش ہوگیا۔ 
”اس آواز سے مجھے محروم نہ کرجو مجھے گھر سے نکال لائی ہے “…لڑکی نے کہا …”مجھے دیکھ کے تو خاموش ہوگیا ہے تو میں دور چلی جاتی ہوں ۔ اپنے نغمے کا خون نہ کر …تیری آواز میں ایسا سوز ہے جیسے تو کسی کے فراق میں نغمہ سرا ہے “
”کون ہے تو ؟“…سعد نے کہا …”اگر تو جنات میں سے ہے تو بتادے “
لڑکی کی جل ترنگ جیسی ہنسی سنائی دی ۔
صحرا کی شفاف چاندنی میں اس کی آنکھیں ہیروں کی طرح چمک رہی تھی۔ 
”میں بنو قریظہ کے ایک یہودی کی بیٹی ہوں “
”اور میں مسلمان ہوں “
”مذہب وک درمیان میں نہ لا “…یہودن نے کہا …”نغموں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔ میں تیرے لیے نہیں تیرے نغمے اور تیری آواز کے لیے آئی ہوں “
سعد اس یہودن کے حسن میں کھو گیا اور یہودن اس کی آواز سے مدہوش ہوگئی اور آواز کے طلسم نے انہیں اس رشتے میں جکڑ لیا جسے موت بھی نہیں توڑ سکتی۔
اس کے بعد بھی وہ ملے ۔ وہ ایک دوسرے کے قیدی ہوگئے ایک روز یہودن نے اسے کہا کہ سعد قبول کرے تو وہ اس کے پاس آجائے گی اور اسلام قبول کرلے گی ۔ 
دو تین روز ہی گزرے تھے کہ مدینہ محاصرے میں آگیا۔ سعد بن عتیق کا کام بڑھ گیا۔ اس کے پاس تلواریں، خنجر اور برچھیوں کی انیاں تیز کروانے والوں کا ہجوم رہنے لگا ۔ وہ راتوں کو بھی کام کرتا تھا ۔
 
ایک روز یہ یہودن اپنے باپ کی تلوار اٹھائے اس کے پاس آئی ۔ 
”تلواز تیز کرانے کے بہانے آئی ہوں “…یہودن نے کہا …”آج ہی رات یہاں سے نکلو ورنہ ہم کبھی نہ مل سکیں گے “
”کیا ہوگیا ہے ؟“
”پرسوں شام میرے باپ نے مجھے کہا کہ قبیلے کے سردار کعب بن اسد کو میری ضرورت ہے “…یہودن نے بتایا …”باپ نے حیی بن اخطب کا نام بھی لیا تھا ۔
میں کعب کے گھر چلی گئی ۔ وہاں حیی کے علاوہ دو اور آدمی بیٹھے ہوئے تھے ۔ وہ اس طرح باتیں کر رہے تھے کہ مسلمانوں کے آخری دن آنے والے ہیں “
کعب بن اسد ، حیی بن اخطب اور قریش کے درمیان اس لڑکی کی موجودگی میں معاہدہ ہوا اور مسلمانوں پر عقب سے حملوں کا منصوبہ طے ہوا ۔ اس یہودن کو رات بھی کعب کے پاس گزارنی پڑی۔ صبح وہ اپنے گھر آگئی ۔ اسے مسلمانوں کے ساتھ کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اس کی دلچسپیاں سعد کے ساتھ تھیں۔ اس کے کانوں میں یہ بات بھی پڑی تھی کہ کعب اسے بیوی یا داشتہ کی حیثیت سے اپنے پاس رکھ لے گا ۔ 

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط