Episode 27 - Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 27 - شمشیر بے نیام (حصہ اول) - عنایت اللہ

سعد بن عتیق اس یہودن کی محبت کو تو بھول ہی گیا۔ اس نے یہودن کو گھر بھیج دیا اور ایک بزرگ مسلمان کو بتایا کہ کعب بن اسد نے حیی کے کہنے پر قریش کے ساتھ معاہدہ کرلیا ہے ۔ اس بزرگ نے یہ اطلاع اوپر پہنچادی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ بنو قریظہ نے بنو قینقاع اور بنو نضیر کی طرح اپنا معاہدہ توڑ دیا ہے ۔ آپ نے کعب بن اسد کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے پہلے یہ یقین کرلینا ضروری سمجھا کہ بنو قریظہ نے واقعی قریش کے ساتھ معاہدہ کرلیا ہے۔
 
اللہ اپنے نام لیوا بندوں کی مدد کرتا ہے ۔ اس کے فوراً بعد ایک ایسا واقعہ ہوگیا جس سے تصدیق ہوگئی کہ بنو قریظہ اور قریش کے درمیان بڑا خطرناک معاہدہ ہوا ہے ۔ 
واقعہ یوں ہوا عورتوں ور بچوں کو شہر کے ان مکانوں اور چھوٹے چھوٹے قلعوں میں منتقل کردیا گیا تھا جو خندق سے دور تھے ۔

(جاری ہے)

ایسے ایک قلعے میں رسول اکرمﷺ کی پھوپھی صفیہ چند ایک عورتوں اور بہت سے بچوں کے ساتھ مقیم تھیں۔

ایک روز صفیہ قلعے کی فصیل پر گھوم رہی تھیں۔ انہوں نے نیچے دیکھا ۔ ایک آدمی دیوار کے ساتھ ساتھ مشکوک سی چال چلتا جارہا تھا ۔ وہ کہیں رکتا، دیوار کو دیکھتا اور آگے چل پڑتا۔ صفیہ اسے چھپ کر دیکھنے لگیں۔ صاف پتا چلتا تھا کہ یہ آدمی قلعے کے اندر آنے کا کوئی راستہ یا ذریعہ دیکھ رہا ہے۔ 
صفیہ رضی اللہ عنہا کو اس وجہ سے بھی اس آدمی پر شک ہوا کہ شہر کے تمام آدمی خندق کے قریب مورچہ بند تھے یا جنگ کے کسی اور کام میں مصروف تھے ۔
اگر یہ کوئی اپنا آدمی ہوتا اور کسی کام سے آیا ہوتا تو دروازے پر دستک دیتا۔ 
قلعے میں عورتوں اور بچوں کیساتھ صرف ایک مرد تھا ۔ یہ تھے عرب کے مشہور شاعر حسان بن ثابت۔ صفیہ نے حسان سے کہا کہ ینچے ایک آدمی مشکوک انداز سے دیوار کے ساتھ ساتھ جارہا ہے ۔ 
”مجھے شک ہے وہ یہودی ہے “…صفیہ  نے حسان نے کہا …”تم جانتے ہو حسان! بنو قریظہ نے دوستی کا معاہدہ توڑ دیا ہے ۔
یہ شخص مجھے یہودیوں کا مخبر معلوم ہوتا ہے ۔ بنو قریظہ ہم پر عقب سے حملہ کریں گے تاکہ ہمارے مردوں کی توجہ خندق سے ہٹ جائے اور وہ پیچھے آجائیں۔ یہودیوں کے پاس ہمارے مردوں کو مورچوں سے نکال کر پیچھے لانے کا یہ طریقہ کار آمد ہوگا کہ وہ ان قلعوں پر حملے شروع کردیں جن میں عورتیں اور بچے ہیں …نیچے جاؤ حسان! اللہ تمہارا نگہبان ہو۔ اس شخص کو للکارو۔
اگر وہ واقعی یہودی ہو تو اسے قتل کردو۔ خیال رکھنا کہ اس کے ہاتھ میں برچھی ہے اور اس کے چغے کے اندر تلوار بھی ہوگی “
”اے عظیم خاتون! “…حسان شاعر نے کہا …”کیا آپ نہیں جانتیں کہ میں شاعر ہوں جو صرف جوش دلاسکتا ہوں جوش میں آ نہیں سکتا۔ شاعر سے توقع نہ رکھو کہ وہ اس آدمی کے مقابلے میں جائے گا جو اتنی دلیری سے قلعے تک آگیا ہے ۔ “
مورخ ابن ہشام او رابن قتیبہ نے لکھا ہے کہ عرب کے عظیم شاعر کا یہ جواب سن کر رسول اکرم کی پھوپھی صفیہ نے اسے قہر کی نظروں سے دیکھا اور ایسے طیش میں آئیں کہ خود اس مشکوک آدمی کو پکڑنے یا مارنے کے لیے چل پڑیں لیکن یہ نہ دیکھا کہ ایک مسلح مرد کے مقابلے میں جاتے ہوئے ان کے ہاتھ میں کون سا ہتھیار ہے ۔
وہ جلدی میں جو ہتھیار لے کر گئیں وہ برچھی نہیں تھی ۔ تلوار نہیں تھی وہ ایک ڈنڈہ تھا ۔ صفیہ دوڑتی باہر نکلیں اور اس مشکوک آدمی کے پیچھے جارکیں جو دیوار کے ساتھ ایک اور جگہ کھڑا اوپر دیکھ رہا تھا ۔ 
”کون ہے تو؟“…صفیہ نے اسے للکارا۔
مشکوک آدمی نے بدک کر پیچھے دیکھا ۔ اگر وہ کسی غلط نیت سے نہ آیا ہوتا تو اس کا انداز کچھ اور ہوتا مگر اس نے برچھی تان لی ۔
صفیہ  نے اس کا چہرہ دیکھا تو کوئی شک نہ رہا۔ وہ یہودی تھا اور وہ بنو قریظہ کا ہی ہوسکتا تھا ۔ اسے یقین تھا کہ ایک عورت اور وہ بھی ایک ڈنڈے سے مسلح ہوکر اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی ۔ 
”تجھ پر خدا کی لعنت!“…صفیہ نے للکار کر کہا …”کیا تو بنو قریظہ کا مخبر نہیں ہے ؟“
”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی! یہاں سے چلی جا “…یہودی نے کہا …”کیا تو میرے ہاتھوں مرنے آئی ہے ؟…ہاں، میں بنو قریظہ کا آدمی ہو ں “
”پھر تو یہاں سے زندہ نہیں جائے گا “
یہودی نے قہقہہ لگایا اور بڑھ کر برچھی ماری۔
جس تیزی سے برچھی آئی تھی ۔ اس سے زیادہ تیزی سی صفیہ ایک طرف ہوگئیں۔ یہودی کا وار خالی گیا تو وہ سنبھل نہ سکا۔ وہ آگے کو جھکا اور اپنے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک نہ سکا۔ صفیہ نے پوری طاقت سے اس کے سر پر ڈنڈہ مارا۔ ایک عورت کے بازو میں خدا کا قہر آگیا تھا ۔ یہودی رک کر سیدھا ہوا لیکن اس کا سر ڈولنے لگا ۔ صفیہ نے اسے سنبھلنے کا موقع نہ دیا اور اس کے سر پر پہلے سے زیادہ زور سے ڈنڈہ مارا۔
 
اب یہودی کھڑا نہ رہ سکا ۔ اس کے ہاتھ سے برچھی گری ، پھر اس کے گھٹنے زمین سے لگے۔ صفیہ نے اس کے سر پر جس سے خون بہہ کر اس کے کپڑوں کو لال کر رہا تھا ایک اور ڈنڈا مارا۔ وہ جب بے ہوش ہوکر لڑھک گیا تو صفیہ اس کے سر پر ہی ڈنڈے مارتی چلی گئیں جیسے زہریلے ناگ کا سر کچل رہی ہوں …صفیہ نے اس وقت ہاتھ روکا جب یہودی کی کھوپڑی کچلی گئی اور اس کا جسم بے حس ہوگیا۔
صفیہ قلعے میں چلی گئیں۔ 
”حسان!“…صفیہ نے اپنے شاعر حسان سے کہا …”میں وہ کام کر آئی ہوں جو تمہیں کرنا تھا ۔ اب جاؤ اور اس یہودی کے ہتھیار لاؤ اور اس کے کپڑوں کے اندر جو کچھ ہے وہ بھی لے آؤ میں عورت ہوں ۔ کسی مرد کے کپڑوں کے اندر ہاتھ ڈالنا ایک عورت کے لیے مناسب نہیں …چاہو تو یہ مال غنیمت تم لے سکتے ہو ۔مجھے اس کی ضرورت نہیں “
”اللہ آپ کی عصمت اور عفت کی حفاظت کرے “…حسان شاعر کی مسکراہٹ سے کہا …”مال غنیمت کی مجھے بھی ضرورت نہیں “…اور حسان وہاں سے کھسک گیا ۔
وہ شاید کہنا یہ چاہتا تھا کہ اس میں اتنی ہمت نہیں کہ کچلی ہوئی کھوپڑی والی لاش کو ہاتھ لگائے ۔ 
مورخین لکھتے ہیں کہ یہ خبر رسول اکرم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشانی ہوئی۔ شہر میں خوراک کی کیفیت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ہر فرد کو اس کی اصل ضرورت کی صرف ایک چوتھائی خوراک ملتی تھی ۔ رسول کریم نے خدائے ذوالجلال سے مدد مانگی اور کوئی حکمت عملی سوچنے لگے ۔
 
ادھر خندق کا محاذ سرگرم تھا ۔ خالد کو اپنی اس وقت کی بے چینی اور بے تابی اچھی طرح یاد تھی۔ وہ خندق کے ساتھ ساتھ گھوڑا دوڑاتا اور کہیں سے خندق عبور کرنے کے طریقے سوچتا تھا ۔ وہ مرد میدان تھا ۔ لڑے بغیر واپس جانے کو اپنی توہین سمجھتا تھا مگر وہاں لڑائی اس نوعیت کی ہو رہی تھی کہ قریش کے تیر انداز خاصی تعداد میں خندق کے اس مقام پر قریب آتے جہاں مسلمان مورچہ بند تھے ۔
یہ سلع کی پہاڑی تھی تیر انداز مسلمانوں پر تیر برساتے۔ مسلمان جوابی تیر اندازی کرتے ۔ کبھی قریش کا کوئی تیر انداز جیش کسی اور جگہ کشتی سنتریوں پر تیرچلاتا مگر مسلمانوں کا جیش فوراً پہنچ جاتا۔ رات کو مسلمان خندق پر سنتریوں کی تعداد میں اضافہ کردیتے تھے ۔ اور قریش خندق سے دور پیچھے خیمہ گاہ میں چلے جاتے تھے ۔ 
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاں مدینہ میں خوراک کی قلت کا جو قحط کی صورت اختیار کرتی جارہی تھی ۔
احساس تھا وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی معلوم تھا کہ قریش کا لشکر بھی نیم فاقہ کشی پر آگیا ہے ۔ یہ وہ کیفیت ہوتی ہے جو انسانوں کو ایک دوسرے کی شرائط ماننے پر اور معاہدوں اور سمجھوتوں پر مجبور کردیتی ہے ۔ 
کسی بھی تاریخ میں اس شخص کا نام نہیں لکھا جسے رسول کریم نے خفیہ طریقے سے قریش کے اتحادی غطفان کے سالار عینیہ کے پاس اس مقصد کے لیے بھیجا کہ اسے قریش کی دوستی ترک کرنے پر آمادہ کرے۔
اسے یہ نہیں کہا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل جائے ۔ رسول کریم کا مقصد صرف یہ تھا کہ غطفان اور عینیہ رضا مندہوجائیں اور اپنے قبیلے کو واپس لے جائیں تو قریش کا لشکر دو ہزار نفری کی فوج سے محروم ہوجائے گا ۔ یہ توقع بھی کی جاسکتی تھی کہ دوسرے قبیلے بھی غطفان کی تقلید میں قریش کے لشکر سے نکل جائیں گے ۔ 
”کیا محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہمیں زبانی معاہدے کی دعوت دے رہا ہے ؟“سالار عینیہ نے رسول اللہ کے ایلچی سے کہا …”ہم نے یہاں تک آنے کا جو خرچ برداشت کیا ہے وہ کون دے گا ؟“
”ہم دیں گے “…رسول خدا کے ایلچی نے کہا …”نبی کریم نے فرمایا ہے کہ تم لوگ اپنے قبیلے کو واپس لے جاؤ تو اس سال مدینہ میں کھجور کی جتنی پیداوار ہوگی اس کا تیسرا حصہ تم لے جانا۔
خود مدینہ آجانا ۔ پوری پیداوار دیکھ لینا اور اپنا حصہ اپنے ہاتھوں الگ کرکے لے جانا ۔ “
سالار عینیہ میدان جنگ میں لڑنے اور لڑانے والوں کی قیادت کرنے والا جنگجو تھا۔ لیکن غیر جنگی مسائل اور امور کو بہت کم سمجھتا تھا ۔ مورخ ابن قتیبہ نے لکھا ہے کہ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد رسول اللہ نے اسے ”مستعد احمق“کا خطاب دیا تھا ۔ وہ بڑے طاقتور جسم اور جسمانی لحاظ سے پھرتیلا اور مستعد رہنے والا آدمی تھا ۔
اس نے اپنے سردار غطفان سے بات کی ۔ 
”خدا کی قسم، محمد نے ہمیں کمزور سمجھ کر یہ پیغام دیا ہے “…غطفان نے کہا …”اس کے ایلچی سے پوچھو کہ مدینہ کے اندر لوگوں کو بھوک کا سامنا نہیں ؟ہم انہیں بھوک سے نڈھال کرکے ماریں گے “
”کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ ہمارا اپنا لشکر بھوک سے نڈھال ہورہا ہے ؟“…سالار عینیہ نے کہا …”مدینے والے اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں۔
ہم اپنے گھر سے بہت دور آگئے ہیں۔ کیا لشکر میں تم بے اطمینانی نہیں دیکھ رہے ۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ ہماری کمانوں سے نکلے ہوئے تیر اب اتنی دور نہیں جاتے جتنی دور اس وقت جاتے تھے جب تیر اندازوں کو پیٹ بھر کر کھانا ملتا تھا ۔ ان کے بازوؤں میں کمانیں کھینچنے کی طاقت نہیں رہی ۔ “
”کیا اس کا فیصلہ تم کرو گے کہ ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دینا چاہیے ؟“…غطفان نے پوچھا …”یا میں فیصلہ کروں گا جو قبیلے کا سردار ہوں ؟“
”خدا کی قسم ، میدان جنگ میں جو فیصلہ میں کرسکتا ہوں وہ تم نہیں کرسکتے“…سالار عینیہ نے کہا …”اور میدان جنگ سے باہر جو فیصلہ تم کرسکتے ہو ۔
وہ فیصلہ میری عقل نہیں کرسکتی۔ میری عقل تلوار کے ساتھ چلتی ہے مگر یہاں میری فوج کی تلواریں اور برچھیاں اور ہمارے تیر مایوس ہوگئے ہیں۔ ہم خندق کے پاس نہیں جاسکتے۔ ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لینی چاہیے “
اور انہوں نے رسول کریم کی بات مان لی۔ ایلچی امید افزا جواب لے کر آگیا۔ اسے قریش کا کوئی آدمی نہیں دیکھ سکا تھا کیونکہ غطفان کی فوج محاصرے کے کسی اور مقام پر تھی ۔ 
######

Chapters / Baab of Shamsheer Be Niyam (part1) By Anayat Ullah

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

آخری قسط