جب عکرمہ کعب بن اسد سے ملنے جارہا تھا اس وقت نعیم بن مسعود اپنے قبیلے کے سردار غطفان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اس کے ساتھ بھی انہوں نے کعب بن اسد کے متعلق وہی باتیں کیں جن باتوں سے وہ ابو سفیان کو بھڑکاچکے تھے۔ ابو سفیان نے غصے میں آکر عکرمہ کو بلایا تھا غطفان نے اپنے سالار عینیہ کو بلالیا۔
”کیا تم نے سنا ہے کہ کعب بن اسد ہمیں دھوکہ دے رہا ہے ؟“…غطفان نے عینیہ سے کہا …”وہ ہم سے یرغمال میں رکھنے کے لیے سرکردہ افراد مانگتا ہے کیا یہ ہماری توہین نہیں ؟“
”سردار غطفان!“…سالار عینیہ نے کہا …”میں پہلے تمہیں کہہ چکا ہوں کہ میرے ساتھ میدان جنگ کی بات کرو۔
میں آمنے سامنے کی لڑائی جانتا ہوں ۔ مجھے اس شخص سے نفرت ہوگی جو پیٹھ کے پیچھے آکر وار کرتا ہے اور مجھے اس شخص سے بھی نفرت ہوگی جس کی پیٹھ پر وار ہوتا ہے …اور پھر تم یہودیوں پر اعتبار کرتے ہو ؟اگر کعب بن اسد کہے گا کہ مجھے اپنے قبیلے کا سردار غطفان یرغما ل میں دے دو تو کیا میں تمہیں اس کے حوالے کردوں گا ؟“
”میں اس شخص کا سر اڑادوں گا جو ایسا مطالبہ کرے گا “…نعیم بن مسعود نے کہا…”میں ان یہودیوں کو اپنے قبیلے کی ایک بھیڑیابکری بھی نہ دوں گا …خدا کی قسم! کعب نے ہماری توہین کی ہے “
”ابوسفیان کیا کہتا ہے ؟“…غطفان نے نعیم سے پوچھا ۔
(جاری ہے)
”یہ بات سن کر ابو سفیان غصے سے کانپنے لگا تھا “…نعیم نے کہا …”ابوسفیان کہتا ہے کہ وہ کعب بن اسد سے اس توہین کا انتقام لے گا “
”اور اسے انتقام لینا چاہیے“…سالار عینیہ نے کہا …”بنو قریظہ کی حیثیت ہی کیا ہے وہ ہمارے اور مسلمانوں کے درمیان اس طرح پس جائیں گے کہ ان کا وجود ہی ختم ہوجائے گا “
####
خالد کو آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے وہ وقت یاد آرہا تا جب عکرمہ بنو قریظہ کی بستی سے واپس آیا تھا۔
خالد دوڑتا ہوا اس تک پہنچا تھا۔ ادھر سے ابو سفیان گھوڑا دوڑاتا گیا۔ عکرمہ کے چہرے پر غصے اور تھکن کے گہرے آثار تھے ۔
”کیا خبر لائے ہو ؟“…ابوسفیان نے اس سے پوچھا ۔
”خدا کی قسم ابو سفیان! میں نے کعب سے زیادہ بد نیت انسان پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا “…عکرمہ نے گھوڑے سے کود کر اترتے ہوئے جواب دیا ۔ نعیم نے ٹھیک کہا تھا ۔
”کیا اس نے ہم سے یرغمال میں رکھنے کے لیے آدمی مانگے ہیں ؟“…خالد نے پوچھا تھا ۔
”ہاں خالد!“…عکرمہ نے کہا تھا …”اس نے مجھے شراب پیش کی اور میرے ساتھ اس طرح بولا جیسے ہم اس کے مقروض ہوں …اس نے کہا کہ پہلے یرغمال میں اپنے آدمی دو پھر میں مدینہ کے اندر شب خون ماروں گا “
”کیا تم نے اسے کہا نہیں کہ اہل قریش کے سامنے بنو قریظہ کی حیثیت اونٹ کے مقابلے میں ایک چوہے کی ہے؟“…خالد نے کہا تھا …”کیا تم نے اس کا سر اس کے کندھوں سے اتار نہیں دیا ؟“
”میں نے اپنا ہاتھ بڑی مشکل سے روکا تھا “…عکرمہ نے کہا تھا …”اس کے ساتھ ہمارا جو معاہدہ ہوا تھا وہ میں تو ڑ آیا ہوں“
”تم نے اچھا کیا “…ابو سفیان نے دبی دبی آواز میں کہا تھا …”تم نے اچھا کیا “…اور وہ پرے چلا گیا تھا۔
یہ کوئی بہت پرانا واقعہ نہیں تھا ۔ ڈیڑھ دو سال پہلے کی ہی بات تھی ۔ آج جب خالد مدینہ کی طرف جارہا تھا تو یہ جانا پہچانا راستہ اسے اجنبی سا لگ رہا تھا ،۔ کبھی اسے ایسے محسوس ہونے لگتا جیسے وہ خود اپنے لیے اجنبی ہوگیا ہو ۔ اسے ابو سفیان کا افسردہ چہرہ نظر آنے لگا ۔ خالد نے محسوس کرلیا تھا کہ ابو سفیان مدینہ پر حملہ سے منہ موڑ رہا ہے ۔
خالد اور عکرمہ وہیں کھڑے رہ گئے تھے ۔
”کیا سوچ رہے ہو خالد؟“…عکرمہ نے پوچھا تھا ۔
”کیا تم میری تائید نہیں کروگے کہ میں اس شخص ابو سفیان کی موجودگی کو صرف اس لیے برداشت کر رہا ہوں کہ یہ میرے قبیلے کا سردار ہے ؟“…خالد نے عکرمہ کو جواب دیا تھا…”اہل قریش کو ابوسفیان سے بڑھ کر بزدل سردار کوئی نہیں ملے گا …تم پوچھتے ہو میں کیا سوچ رہا ہوں …میں اور زیادہ انتظار نہیں کرسکتا۔
میں نے خندق کو ایک سرے سے دوسرے تک دیکھا ہے ایک جگہ خندق تنگ ہے اور زیادہ گہری بھی نہیں ہم وہاں سے خندق کے پاس جاسکتے ہیں۔ اگر تم میرا ساتھ دو تو میں آج ہی ابھی اس جگہ سے چند سوار خندق کے پار لے جانا چاہتا ہوں ۔ ابو سفیان کسی غیبی مدد اور سہارے کا انتظار کرنا چاہتا ہے تو کرتا رہے ۔ “
”میں تمہارا ساتھ کیوں نہ دوں گا خالد ؟“عکرمہ نے کہا تھا …”کیا میں مسلمانوں کے ان قہقہوں کو برداشت کرسکوں گا جو اس وقت بلند ہوں گے جب ہم یہاں سے لڑے بغیر واپس جائیں گے ؟“…چلو میں تمہارے ساتھ ہوں ۔
####
وہ جگہ ذباب کی پہاڑی کے مغرب اور سلع کی پہاڑی کے مشرق میں تھی جہاں خندق کی چوڑائی اتنی تھی کہ گھوڑا اسے پھلانگ سکتا تھا ۔ ضرورت شہسوار کی تھی ۔ پیادے خندق میں اتر کر اوپر چڑھ سکتے تھے ۔ اسی جگہ کے قریب تقریباً سامنے مسلمانوں کی خیمہ گاہ تھی۔
خالد نے عکرمہ کو یہ جگہ دور سے دکھائی ۔
”پہلے میرے سوار خندق پھلانگیں گے “…عکرمہ نے کہا …”لیکن ابھی ہم تمام کا تمام سوار دستہ نہیں گزاریں گے ۔
پار جاکر مسلمانوں کو ایک ایک سوار کو مقابلے کے لیے للکاریں گے ۔ وہ اس رواج کی خلاف ورزی نہیں کریں گے …میرے ساتھ آؤ خالد! میں اپنے منتخب سوار آگے لاؤں گا ۔ تم ابھی خندق کے پار نہ جانا۔ اگر ہم دونوں مارے گئے تو اہل قریش کو سوائے ذلت کے کچھ نہیں ملے گا ۔ ابو سفیان کا دل محاصرہ اٹھ چکا ہے ۔ وہ لڑنے کے جذبے کو سرد کرچکا ہے ۔ “
وہ مقام جہاں خندق گھوڑے کی لمبی چھلانگ سے پھلانگی جاسکتی تھی ایسی اوٹ میں تھا جسے گشتی سنتری قریب آکر ہی دیکھ سکتے تھے ۔
عکرمہ نے سات سوار منتخب کرلیے تھے ۔ ان میں ایک قوی ہیکل بلکہ دیوقیامت شخص عمر بن عبدود بھی تھا جس کی دھاک اس کی جسامت کی بدولت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی ۔ عکرمہ ان سات سواروں کو مقررہ مقام سے کچھ دور تک اس انداز سے لے گیا جیسے گھوڑوں کو ٹہلائی کے لیے لے جارہے ہوں۔ مسلمانوں کے سنتریوں کو ان پر شک نہ ہوا۔
”سب سے پہلے میں خندق پھلانگوں گا “…عکرمہ نے چلتے چلتے اپنے سات سواروں سے کہا ۔
”کیا یہ ٹھیک نہیں ہوگا کہ سب سے پہلے میرا گھوڑا خندق کو پھلانگے؟“…عمرو بن عبدود نے کہا ۔
”نہیں عمرو!“…عکرمہ نے کہا …”پہلے میں جاؤں گا ۔ اگر میرا گھوڑا خندق میں گرپڑا تو تم خندق پھلانگنے کی کوشش نہ کرنا۔ تمہارا سالار اپنی جان کی قربانی دے گا “
یہ کہہ کر عکرمہ نے گھوڑے کی باگ کو جھٹکا دیا۔ گھوڑے کا رخ خندق کی طرف ہوا تو عکرمہ نے ایڑ لگادی۔
عربی نسل کا گھوڑا ہوا سے باتیں کرنے لگا۔ عکرمہ نے لگام اور ڈھیلی کردی اور گھوڑے کو پھر ایڑ لگائی۔ گھوڑے کی رفتار اور تیز ہوگئی۔ خندق کے کنارے پر جاکر عکرمہ گھوڑے کی پیٹھ سے اٹھا اور آگے کو جھک گیا ۔ گھوڑا ہوا میں بلند ہوگیا۔ خالدکچھ دور کھڑا دیکھ رہا تھا قبیلہ قریش کے بہت سے لشکری دیکھ رہے تھے۔ زمین و آسمان دیکھ رہے تھے …تاریخ دیکھ رہی تھی !
گھوڑے کے اگلے پاؤں خندق کے دوسرے کنارے سے کچھ آگے اور پچھلے پاؤں عین کنارے پر پڑے۔
گھوڑا رفتار کے زور پر آگے چلا گیا۔ اس کی اگلی ٹانگیں دوہری ہوگئیں۔ اس کا منہ زمین سے لگا ۔ عکرمہ گرتے گرتے بچا۔ گھوڑا بھی سنبھل گیا اور عکرمہ بھی اسے اپنے پیچھے للکار سنائی دی ۔
”آگے نکل جاؤ عکرمہ!“
عکرمہ نے پیچھے دیکھا ۔ عمرو بن عبدود کا گھوڑا ہوا میں اڑ رہا تھا ۔ عمرو رکابوں پر کھڑا آگے کو جھکا ہوا تھا ۔ کسی کو توقع نہیں تھی کہ اتنے وزنی سوار کے نیچے گھوڑا خندق پھلانگ جائے گا لیکن گھوڑا اسی جگہ جاپڑا جہاں عکرمہ کا گھوڑا گرا تھا ۔
عمرو کے گھوڑے کی ٹانگیں ایسی دوہری ہوئیں کہ منہ کے بل گرا اور ایک پہلو پر لڑھک گیا ۔ عمرو گھوڑے کی پیٹھ سے لڑھک کر قلابازیاں کھاتا گیا ۔ ایک لمحے میں گھوڑا اٹھ کھڑا ہوا ۔ ادھر عمرو اٹھا اور پلک جھپکتے گھوڑے پر سوار ہوگیا ۔
اس کے پیچھے عکرمہ کے دو سوار اکٹھے چلے آرہے تھے ۔ خندق کے کنارے پر آکر دونوں سواروں نے اپنے گھوڑوں کی پیٹھیں خالی کردیں اور ان کی گردنوں پر جھکے ہوئے تھے ۔
دونوں گھوڑے خندق پھلانگ آئے۔
اہل قریش کے لشکر نے دادوتحسین کے نعرے لگائے ، اس شور سے مسلمان پہریدار دوڑے آئے۔ اتنے میں عکرمہ کے دو اور گھوڑے اپنے سواروں کو اٹھائے خندق کے کنارے سے ہوا میں اٹھے۔ ان کے پیچھے سات میں سے باقی سواروں نے بھی اپنی گھوڑوں کو ایڑ لگادی۔ تمام گھوڑے خندق پھلانگ آئے ۔
”ٹھہر جاؤ “…عکرمہ نے مسلمانوں سنتریوں کو بلند آواز میں کہا …”کوئی اور گھوڑا خندق کے اس طرف نہیں آئے گا ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بلاؤ ۔ تمیں میں جو سب سے زیادہ بہادر ہے اسے لاؤ۔ وہ میرے ایک آدمی کا مقابلہ کرکے گرالے تو ہم سب کو قتل کردینا …خدا کی قسم، ہم تمہارا خون اس ریت پر چھڑک کر واپس چلے جائیں گے “
###