رسول کریم دنے حکم دیا کہ خندق کے اس مقام پر مستقل پہرے کا انتظام کردیا جائے کیونکہ وہاں سے خندق پھلانگی جاسکتی تھی ۔
دوسرے دن خالد اپنے گھوڑ سوار دستے میں سے چند ایک جانباز سوار منتخب کرکے خندق عبور کرنے کو چل پڑا۔
”خالد رک جاؤ “…ابوسفیان نے کہا …”کیا تم نے کل عکرمہ کے سواروں کا انجام نہیں دیکھا؟اب مسلمانوں نے وہاں پہرے کا اور زیادہ مضبوط انتظام کردیا ہوگا “
”کیا یہ بہتر نہیں کہ لڑے بغیر واپس جانے کی بجائے تم میری لاش میرے گھوڑے پر رکھ کر مکہ لے جاؤ“…خالد نے کہا …”اگر ہم ایک دوسرے کے انجام سے ڈرنے لگے تو وہ دن بہت جلد طلوع ہوگا جب ہم مسلمانوں کے غلام ہوں گے “
”میں تمہیں نہیں روکوں گا میرے دوست!“…عکرمہ نے خالد نے کہا …”لیکن میری ایک بات سن لو۔
(جاری ہے)
اگر تم میری شکست کا انتقام لینے جارہے ہو تو رک جاؤ۔ اگر تمہیں قریش کی عظمت عزیز ہے تو ضرور جاؤ “
آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے خالد کو وہ لمحے یاد آرہے تھے اسے نہ اس وقت یہ خیال آیا تھا نہ آج کو وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ خندق عبور کرکے بھی مارا جائے گا ۔ نہ عبور کرسکا تو بھی مارا جائے گا ، کیوں خندق کی طرف چل پڑا تھا ۔
وہ ۱۶ مارچ ۶۲۷ء کا دن کا تیسرا پہر تھا ۔
خالد چند ایک منتخب سواروں کے ساتھ خندق کی طرف بڑھا۔ اس نے خندق پھلانگنے کے لیے کچھ فاصلے سے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی مگر اس مقام کے پہرے پر جو مسلمان کہیں چھپے بیٹھے تھے۔ انہوں نے تیروں کا مینہ برسادیا۔ خالد نے لگام کو پوری طاقت سے کھینچا اور اس کا گھوڑا خندق کے عین کنارے پر جارکا۔ خالد نے گھوڑے کو پیچھے موڑا اور اپنے تیر اندازوں کو بلایا۔
اس نے سوچا تھا کہ اس کے تیر انداز مسلمانوں پر تیر پھینکتے جائیں گے جس سے مسلمان سر نہیں اٹھاسکیں گے اور وہ خندق پھلانگ لے گا لیکن مسلمانوں نے تیر انداز میں اضافہ کردیا مسلمان تیروں کی بوچھاڑوں میں تیر چلارہے تھے خالد کو پسپا ہونا پڑا۔
خالد اس انداز سے اپنے سواروں کو وہاں سے ہٹا کر دوسری طرف چل پڑا۔ جیسے اس نے خندق پر ایک اور حملہ کرنے کا ارادہ ترک کردیا ہو۔
مورخین جن میں ابن ہشام اور ابن سعد قابل ذکر ہیں لکھتے ہیں کہ یہ خالد کی ایک چال تھی ۔ اس نے چلتے چلتے اپنے سوار جیش میں مزید سوار شامل کرلیے۔ اس نے سوچا یہ تھا کہ اسے پسپا ہوتے دیکھ کر مسلمان پہرے دار ادھر ادھر ہوجائیں گے ۔ اس نے ادھر دیکھا ۔ وہاں اسے کوئی پہرہ دار نظر نہ آیا ۔ اس نے اپنے دستے کو خندق کے کم چوڑائی والے مقام کی کی طرف موڑ کر سرپٹ دوڑادیا ۔
خالد کی یہ چال صرف اس حد تک کامیاب رہی کہ اس کے تین چار گھوڑ سوار خندق پھلانگ گئے۔ ان میں خالد سب سے آگے تھا۔ مسلمان پہرہ داروں نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔ قریش کے جو سوار ابھی خندق کے پار تھے، ان پر مسلمانوں نے اتنے تیر برسائے کہ انہیں پسپا ہونا پڑا۔ خالد اور اس کے سواروں کے لیے مسلمانوں کے گھیرے سے نکلنا بہت مشکل ہوگیا۔ یہ زندگی اور موت کا معرکہ تھا جو خالد نے گھوڑا دوڑا دوڑا کر اور پینترے بدل بدل کر لڑا۔
اس کے سوار بھی تجربہ کار اور پھرتیلے تھے ۔ ان میں سے ایک مارا گیا ۔ خالد اب دفاعی معرکہ لڑ رہا تھا۔ اس نے کئی مسلمانوں کو زخمی کیا جن میں سے ایک شہید ہوگیا ۔ آخر اسے نکلنے کا موقع مل گیا اور اس کا گھوڑا خندق کو پھلانگ آیا۔ اس کے جو سوار زندہ رہ گئے تھے وہ بھی خندق پھلانگ آئے۔
اس کے بعد قریش میں سے کسی نے بھی خندق کے پار جانے کی جرات نہ کی ۔
عکرمہ اور خالد کی ناکامی کے بعد قریش اور ان کے دیگر اتحادی قبائل کے لشکر میں مایوسی جو پہلے ہی کچھ کم نہ تھی اور بڑھ گئی ۔ خوراک نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ ابو سفیان جو اپنے اور دیگر تمام قبائل کے لشکر کا سالار اعلیٰ تھا پہلے ہی ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھا تھا۔ خالد، عکرمہ اور صفوان نے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ ان کا لشکر زندہ و بیدار ہے ۔
یہ کارروائی جاری رکھی کہ وقتاً فوقتاً خندق کے قریب جاکر مسلمانوں کی خیمہ گاہ پر تیر برساتے رہے ۔ اس کے جواب میں مسلمانوں نے تیر اندازوں کو خندق کے قریب پھیلادیا جو اہل قریش کے تیر انداوں پر جوابی تیر اندازی کرتے رہے۔ تیروں کے تبادلے کا یہ سلسلہ صرف ایک صبح سے شام تک چلا ۔
###
اہل قریش اور غطفان اور دیگر قبائل جس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شکست دینے آئے تھے۔
وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی ملک کے بادشاہ نہیں تھے۔ وہ خدا کے رسول تھے خدا نے انہیں ایک عظیم پیغام دے کر رسالت عطا کی تھی ۔آپ نے خدا سے مدد مانگی تھی۔ خدا اپنے رسول کو کیسے مایوس کرتا۔ اس کے علاوہ مدینہ کے اندر مسلمانوں کی عورتیں اور بچے دن رات اپنی کامیابی اور نجات کی دعائیں مانگتے رہتے تھے۔ یہ دعائیں رائیگاں کیسے جاتیں۔
۱۸مارچ ۶۲۷ء بروز منگل مدینہ کی فضا خاموش ہوگئی، سردی خاصی تھی۔
ہوا بند ہوگئی موسم خوشگوار ہوگیا لیکن یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی ۔ اچانک آندھی آگئی جو اس قدر تیز و تند تھی کہ خیمے اڑنے لگے۔ جھکڑ بڑے ہی سرد تھے۔ آندھی کی تندی اور اس کی چیخوں سے گھوڑے اور اونٹ بھی گھبرا گئے اور رسیاں تڑوانے لگے ۔
مسلمانوں کی اجتماع گاہ سلع کی پہاڑی کی اوٹ میں تھی اس لیے آندھی انہیں اتنا پریشان نہیں کر رہی تھی جتنا مکہ کے لشکر کو۔
قریش کھلے میدان میں تھے آندھی ان کا سامان اڑا رہی تھی ۔ خیمے اڑ گئے یا لپیٹ دیے گئے تھے لشکر کے سردار اور سپاہی اپنے اوپر ہر وہ کپڑا ڈال کر بیٹھ گئے تھے جو ان کے پاس تھا۔ ان کے لیے یہ آندھی خدا کا قہر بن گئی تھی ۔ اس کی چیخوں میں قہر اور غضب تھا ۔
ابو سفیان برداشت نہ کرسکا۔ وہ اٹھا۔ اسے اپنا گھوڑا نظر آیا ۔ قریب ہی ایک اونٹ بیٹھا تھا۔
ابو سفیان اونٹ پر چڑھ بیٹھا اور اسے اٹھایا ۔ مورخ ابن ہشام کی تحریر کے مطابق ابو سفیان بلند آواز سے چلانے لگا ۔
”اے اہل قریش …اے اہل غطفان! کعب بن اسد نے ہمیں دھوکہ دیا ہے ۔ آندھی ہمارا بہت نقصان کرچکی ہے ۔ اب یہاں ٹھہرنا بہت خطرناک ہے ۔ مکہ کو کوچ کرو…میں جارہا ہوں میں جارہا ہوں “
اس نے اونٹ کو مکہ کی طرف دوڑادیا ۔
خالد کو آج وہ منظر یاد آرہا تھا ۔
تمام لشکر جسے مکہ سے مدینہ کی طرف کوچ کرتے دیکھ کر اس کا سینہ فخر سے پھیل گیا اور سر اونچا ہوگیا تھا، ابو سفیان کے پیچھے پیچھے ڈری ہوئی بھیڑوں کی طرح جارہا تھا۔ خالد اور عمرو بن العاص نے اپنے طور پر سوچا تھا کہ ہوسکتا ہے مسلمان عقب سے حملہ کردیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے سوار دستوں کو اپنے قابو میں رکھ کر لشکر کے عقب میں رکھا تھا ۔ ابو سفیان نے ایسے حفاظتی انتظام کی سوچی ہی نہیں تھیں۔
اس پسپا ہوتے لشکر میں وہ آدمی نہیں تھے جو مارے گئے تھے …اور اس لشکر میں نعیم بن مسعود بھی نہیں تھے ۔ قریش کا لشکر چلا تو نعیم آندھی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خندق میں اترگئے اور رسول کریم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔
آج خالد مدینہ کی طرف اسی راستے پر جارہا تھا جس راستے سے اس کا لشکر ناکام واپس گیا تھا ۔ اسے شیخین کی پہاڑی نظر آنے لگی تھی ۔
###
آندھی نے تاریخ اسلام کا رخ موڑ دیا ۔
آندھی نے یہ حقیقت واضح کردی کہ خدا حق پرستوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔
رسولﷺکے دشمنوں کی پسپائی تنکوں کی مانند تھی جو آندھی میں اڑے جاتے ہیں اور انہیں ایک دوسرے کی خبر نہیں ہوتی۔
خالد کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ مسلمان تعاقب کریں گے لیکن مسلمانوں نے تعاقب کی سوچی ہی نہیں تھی۔
اس آندھی میں تعاقب اور لڑائی مسلمانوں کے خلاف بھی جاسکتی تھی ۔ جس دشمن کو خدا نے بھگادیا تھا اس کے پیچھے جانا دانش مندی نہیں تھی۔ البتہ رسول اللہ کے حکم سے چند ایک آدمیوں کو بلندیوں پر کھڑا کردیا گیا تھا کہ وہ دشمن پر نظر رکھیں۔ ایسا نہ ہو کہ دشمن کہیں دور جاکر رک جائے اور منظم ہوکر واپس آجائے ۔
آندھی اتنی مٹی اور ریٹ اڑا رہی تھی کہ تھوڑی دور تک بھی کچھ نظر نہیں آتا تھا۔
بہت دیر بعد تین چار مسلمان گھوڑ سوار اس جگہ سے خندق پھلانگ گئے جہاں سے عکرمہ اور خالد کے گھوڑوں نے خندق پھلانگی تھی ۔ وہ دور تک چلے گئے۔ انہیں اڑتی ہوئی گرد اور ریت کے سوا کچھ بھی نظر نہ آیا۔ وہ رک گئے لیکن واپس نے آئے ۔
شام سے کچھ دیر پہلے آندھی کا زور ٹوٹ گیا اور جھکڑ تھم گئے ۔ فضا صاف ہوگئی اور نظر دور تک کام کرنے لگی۔ دور افق پر زمین سے گرد کے بادل اٹھ رہے تھے ۔
وہ اہل قریش اور ان کے اتحادی قبائل کی پسپائی کی گرد تھی جو ڈوبتے سورج کی آخری کرنوں میں بڑی صاف نظر آرہی تھی ۔ یہ گرد مکہ کو جارہی تھی ۔ تعاقب میں جانے والے مسلمانوں سوار اس وقت واپس آئے جب رات بہت گہری ہوچکی تھی ۔
”خدا کی قسم! …انہوں نے واپس آکر بتایا…وہ جو ہمارے عقیدے کو توڑنے اور مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے آئے تھے۔ وہ مدینہ سے اتنی دہشت لے کر گئے ہیں کہ رک نہیں رہے ۔
کہیں پڑاؤ نہیں کر رہے ۔ کیا راتوں کو مسافر پڑاؤ نہیں کیا کرتے؟کیا لشکر راتوں کو بھی چلتے ہیں؟…وہی چلتے رہتے ہیں جو منزل تک بہت جلدی پہنچنا چاہتے ہوں “
احادیث اور مورخوں کی تحریروں کے مطابق رسول کریمﷺ کو جب یقین ہوگیا کہ دشمن گھبراہٹ کے عالم میں بھاگا ہے اور ایسا امکان ختم ہوچکا ہے کہ وہ منظم ہوکر واپس آجائے ، تب آپ نے کمر سے تلوار کھولی ، خنجر اتار کر رکھ دیا اور اللہ کا شکر ادا کرکے غسل کیا۔
###